محمد اقبال دیوان اردوکے منفردمصنف ہیں۔جنہوں نے قلم سے رشتہ سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعدجوڑا، اورحیران کن طورپرتاخیر سے لکھنے کے باوجودمنفرداسلوب ،دلچسپ اندازِبیان اوراردو،انگریزی،پنجابی اورکئی زبانوں سے رچے انوکھے اسلوب بیان سے قارئین کے دل میں گھرکرنے میں کامیاب ہوئے ۔اقبال دیوان چندسال میں کئی بیسٹ سیلرکتابیں پیش کرچکے ہیں۔ان کے پہلے دو ناول ”جسے رات لے اڑی ہوا” اور”وہ ورق تھادل کی کتاب کا”کے تین تین ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔جبکہ افسانوں کامجموعہ ”پندرہ جھوٹ اورتنہائی کی دھوپ” بھی مارکیٹ میں نایاب ہے۔محمداقبال دیوان کاتیسرا ناول ” کہروڑ پکا کی نیلماں ”بک کارنرجہلم نے اپنے روایتی حسن طباعت کے ساتھ شائع کیاہے۔جبکہ حال ہی میں بک کارنرجہلم نے ہی اقبال دیوان کے افسانوں کے دومجموعے”چارہ گرہیں بے اثر” اور”میرمعلوم ہے ملازم تھے” شائع کیے ہیں۔ڈاکٹر کاشف مصطفےٰ کے منفردسفرنامہ اسرائیل کاترجمہ محمداقبال دیوان”دیوارِگریہ کے آس پاس” کے عنوان سے کرچکے ہیں۔
محمداقبال دیوان کے آباواجدادکاتعلق ریاست جوناگڑھ کے دیوان اورپٹیل گھرانے سے ہے۔مادری زبان گجراتی اورمیمنی ہے۔ سول سرو س میں فورتھ کامن سے جُڑے تھے مگرپھرصوبائی ملازمتوں کارخ کیا۔سندھ میں اعلیٰ انتظامی عہدوں اورمرکزی محکمہ زراعت میں بھی مختلف اعلیٰ عہدوں پرفائز رہے۔سندھ میں سول سروس اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹررہے۔ساٹھ ممالک کی سیر،بے پناہ مطالعے،موسیقی، مصوری اور اہل سلوک سے وابستگی نے طبیعت کوبہت رنگ داربنادیا۔ان دنوںایک بڑے نجی ادارے کے سینئرمشیرہیں۔
بیوروکریسی میں رہنے کی وجہ سے محمداقبال دیوان بہت سے رازہائے درون خانہ کے چشم دیدگواہ ہیں اوربے شمارکہی ان کہی کہانیوںکا حصہ رہے ہیں اوروہ انہی کہانیوں کودلفریب اسلوب اورمنفرداندازبیان کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں۔ ناول”کہروڑ پکاکی نیلماں” کا کیاشاندارتعارف کتاب میں کرایاگیاہے۔”افسروں اورسیاست دانوںکے معاشقوں پرمبنی ایک وارداتِ قلبی کااحوال۔اس کے جملہ کردار، شعبہ جات،سرکاری محکمے اورواقعات خالصتاً افسانوی ہیں۔ان کے اپنے زمان ومکان سے جڑے اصل کرداروںسے کسی قسم کاکوئی تعلق نہیں ۔جیمزبانڈکے خالق مصنف آئن فلیمنگ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس اورہالی ووڈپوری سی آئی اے کواگراپنی فلموں میں شامل کر سکتے ہیں توجان لیں کہ مذکورہ افرادکے عہدے،طوراطواراورمقامات اس کہانی کے حوالے سے محض زیب داستاں کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ ان کااصل افراداورواقعات سے کوئی تعلق نہیں۔”
یہ بھی پڑھئے:
سانحہ جڑانوالہ : وہ مائیں بانجھ کیوں نہ ہو گئیں؟
سینیٹر عرفان صدیقی کا بل ایوان صدر میں کیسے غائب ہوا؟
شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
پلوامہ جیسا ایک اور ڈرامہ کرنے کی بھارتی سازش
محمداقبال دیوان کے اسلوب کے مطابق ”کہروڑپکاکی نیلماں” میں آئن فلیمنگ کے جیمزبانڈکی جاسوسی کے لشکارے، عشق ومحبت کی جلوہ گری، حسن کی عشوہ طرازیاں،بیوروکریسی کی سازشیں،حکمراں طبقے کی عیاشیاں،کئی ممالک کے اسفارکے تذکرے، شہراورگاؤں کی رنگا رنگی اور مصنف کاسحرانگیزاندازبیان قاری کوجکڑے رکھتاہے۔جوایک بارناول شروع کرنے کے بعداس کے سحرسے ختم کرنے کے پربھی نہیں نکل پاتا۔
ناول آغازہی سے قاری کی مکمل توجہ حاصل کرلیتاہے۔”شیپل ایئرپورٹ،ایمسٹرڈیم، ارسلان آغاکویہ دیکھ کربے پایاں مسرت ہوئی کہ وہ بی بی جس کے تعاقب میں وہ یہاں کاؤنٹر تک پہنچاتھا،استنبول جانے والی اسی فلائٹ کے کاؤنٹرپرکھڑی تھی جہاں خود اس نے بھی بورڈنگ کارڈ کے لیے رپورٹ کرناتھا۔ سفری دستاویزکی جانچ پڑتال کے بعدایک بورڈنگ کارڈکی صورت میں اسے بھی پروانہ روانگی ملناتھا۔ ایمسٹرڈیم کے شیپل ایئرپورٹ کی عمارت میں جب وہ داخل ہوئی تھی، اسی لمحے وہ اس کی نگاہ میں کھُب گئی تھی۔ارسلان نے اسے دیرتک اور دُورتک دیکھاتھا۔ وہ عام خواتین سے ذرادرازقد اورہر زاویے سے قابل توجہ تھی۔ایک مکمل پیکرجاذبیت ورعنائی۔فیشن اسٹیٹ منٹ کا ایک سیل رواں۔اس پری وش کو عجلت میں قدم اٹھاتادیکھ کر اسے ذراحیرت ہوئی۔ بی بی کی چال توایسی تھی کہ وقت کیاشے تھا، وہ اگررک جا تی گردشیں بھی اس کاطواف کرنے لگتیں۔باہرکی دنیامیں لوگ، حسین لوگوں کودیدے ہتھیلی پرانڈیل کرندیدوں کی طرح نہیں دیکھتے۔ان کی طرف گھورنا بدتمیزی کی علامت ہوتا ہے۔ مہذب لوگوں کامشاہدہ تیز، بیان مختصر و جامع اوریادداشت بڑی بروقت ہوتی ہے۔اس کے باو جود ارسلان آغا نے نوٹ کیا کہ اس حسن تیزخرام کوکئی نگاہوں نے پسندیدگی کاایسا گارڈآف آنرپیش کیاجسے اس نے ایک تغافل عارفانہ سے نظراندازکرکے اپنے ہدف کی طرف بامقصدبڑھے جاناتقاضائے مسافت جانا۔عام حالات میں وہ بیٹھ کرآتے جاتے لوگوں کودیکھتا رہتا۔اس زاویے سے ایئرپورٹ کابین الاقوامی روانگی لاؤنج ہمیشہ بہت رومانچک لگتاتھامگراب کی دفعہ یہ کچھ عجب ہواکہ اسے دیکھ کرارسلا ن کونہ جانے یہ کیاسوجھی کہ اپنی کافی کی پیالی وہیں ادھوری چھوڑ کرمنہ میں پیپرمنٹ کی میٹھی پرت اور روپہلے اوراق میں لپٹے الائچی دانے پھانک کروہ کچھ خیال کیے بغیراس کے پیچھے چل دیا۔
” کہروڑ پکا کی نیلماں ” ایک انوکھاناول ہے۔ جوصرف دوکرداروں بیوروکریٹ ارسلان آغا اورخوب صورت نیلم عرف نیلماں کے عشقِ پر مبنی ہے ۔جس میں کس نے کیاحاصل کیا۔یہی سب سے اہم ہے۔ان کابیشتررومان شیپل ایئرپورٹ ایمسٹرڈیم لاؤنج اورترکی میں ساتھ گزرے تین دن میں پروان چڑھتاہے، لیکن ان دونوں کے رومان کے ساتھ نیلم کے شوہرسعید ،ماں باپ، سہیلی گڈی اورسلمان آغاکی دلچسپ کہانیاں بھی سامنے آتی ہیں اورناول کوآگے بڑھانے میں اہم کرداراداکرتی ہیں۔ اقبال دیوان کابے باک اورشگفتہ اسلوب قاری کی دلچسپی کوہرسطر کے ساتھ بڑھاتاہے۔لیکن ان کابے باک اندازبیان کہیں بھی بیہودہ گوئی میںتبدیل نہیں ہوتا۔کئی زبانوں کے آمیزے سے تیاران کاپیچیدہ طرز اظہاربھی اس دلچسپی میں اضافے کاباعث بنتاہے۔
ڈبلن اورایمسٹرڈیم کے وقت میں ایک گھنٹہ فرق نہ جاننے کی وجہ سے ارسلان اورنیلماکی استنبول کی فلائٹ مس ہوجاتی ہے، اوراگلی فلائٹ اگلے دن شام چاربجے سے قبل دستیاب نہیں۔وہ اگرصبح کودستیاب کسی فلائٹ کے لیے نیاٹکٹ بنوائیں گے تووہ انھیں پوری قیمت پرملے گا اوردونوں کاموجودہ ٹکٹ چونکہ’سپرڈسکاؤنٹ لوسیزن فیئرٹکٹ’ ہے لہٰذایہ ری فنڈایبل نہیں ۔فلائٹ مس کرنے کی وجہ ان کی اپنی غلطی ہے اور ایئرلائن کااس میں کوئی قصورنہیں۔لہٰذاانھیںمفت ہوٹل کے قیام کی سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی۔دونوں کوایئرپورٹ سے باہرجانے کی اجازت نہیں کیوں کہ ان کے پاس ری انٹری ویزہ نہیں۔ یہ سب منحوس انکشافات کاؤنٹرپربیٹھی بی بی فائزہ نے کیے۔فائزہ ہی نے انہیں کل تک اسی لاؤنج میں بیٹھنے کامشورہ دیا اوراس لاؤنج میںاٹھارہ گھنٹوں کے قیام کے دوران ہی یہ انوکھاعشق پروان چڑھا۔ اس صورت حال پرمصنف کااندازبیان ملاحظہ کریں۔
”ارسلان آغانے طے کیاکہ یہی وہ لمحات ہیں جواس تعلق کویاتوہمیشہ ہمیشہ کے لیے جوڑدیں گے یاجلدہی اللہ حافظ کی نوبت آجائے گی۔لطف وکرم کایہ سلسلہ جواس کی نالائقی اورحریف دل آویز بی بی کی آمدمیں تاخیراورجہازکی بروقت روانگی سے چلاہے یہ پیارکے اس ٹینس میچ کے آخری سیٹ کا بریک پوائنٹ ہے۔”
اٹھارہ گھنٹے ایئرپورٹ لاؤنج میں قیام کے دوران ارسلان اورنیلماکے درمیان نوک جھونک، جملہ بازی اورذومعنی گفتگوانتہائی دلچسپ ہے، جوقاری کواس طرح محظوظ کرتی ہے ، جوکسی اورناول میں میسرنہیں آیاہوگا، اورپھراس بیچ انوکھی معلومات اورموازنہ لطف دوبالاکردیتاہے۔ ” ارسلان نے اس گوسلو تکنیک کوخیربادکہا۔ وہ خود کویہ باورکرانے میں کامیاب ہوگیاکہ زمان اورمکان سب ہی نظریہ مناسبت کے تابع ہیں۔اسے بخوبی علم تھاکہ مادہ مچھربیالیس سے چھپن دن جیتی ہے۔ایک سوکے لگ بھگ انڈے بچے دیتی ہے۔پرانے سی ایس پی،درمیان میں ڈی ایم جی اوران دنوں بھارت کی تقلیدکی کیچڑمیں لتھڑی بیوروکریسی کی طرح رج کے خون پیتی ہے۔اس پرمستزادیہ کہ اگروہ اصیل ڈینگی نسل کی ہوتووزیراعلیٰ تک کوتگنی کاناچ بھی نچادیتی ہے۔ہاں البتہ نرمچھرکی زندگی توبے چارے کامیاب مردوں اورکسٹم پولیس اورانکم ٹیکس گروپ کے افسران کی مال بناؤ پوسٹنگ کی طرح چندیاہفتوں کی ہوتی ہے۔اس قلیل عرصے میں بھی وہ باپ ضروربنتاہے ۔ اس کے برخلاف دنیامیں ایسے لوزرکچھوے بھی ہوتے ہیں جونوسوسال جی کربھی کنوارے کی طرح مرجاتے ہیں۔سوپیارے آغاجی یہاں بھی معاملہ ‘ابھی نہیں توکبھی نہیں” والاہی ہے۔ پے جاؤ،ی ہی اٹھارہ گھنٹے ہیں جن میں مچھرکامکمل لائس سائیکل جی لو،ورنہ کنوارے بوڑھے کچھوے کی موت مارے جاؤگے۔اس تقویت بخش خیال کے سہارے اس نے جیمزبانڈکے انداز میں جنبش دست کے ساتھ کہناشروع کر دیا،
”آغا،مائی نیم از ارسلان آغا۔اینڈآئی ایم فرام اسلام آباد۔”
دست درازی کونظرانداز کرکے کھلکھلاتی ہوئی آواز میں وہ پری پیکرکہنے لگی۔
”نیلم،مائی نیم ازناٹ نیلم بانڈ۔اے فیوکال می نیلماں۔اینڈ آئی ایم اوریجنلی فرام کہروڑپکاڈسٹرکٹ ،لودھراں،پاکستانی پنجاب۔”
یہ اندازگفتگواور رومانس کے آغازسے قبل کاتعارف کسی قاری نے کب پڑھا ہوگا۔اسی قسم کی نوک جھونک کے درمیان دونوں کے درمیان رفاقت اورباہمی دلچسپی پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔
نیلم کی شادی اس کے والدین نے دولت اوربرطانیہ کی شہریت کی بناکرسعیدگیلانی سے کردی تھی اوراس کاقوی امکان موجودتھاکہ اس کی شادی کابندھن پاکستان پہنچنے پرطلاق کے کاغذات میں سمٹ جائے۔وہ اپناسوٹ کیس چھوڑکررول آن اورگارمنٹ بیگ لے کرجانے لگی تو ارسلان نے اس سے دوباتیں کیں جس پروہ ریسٹ روم میں بھی محظوظ ہوتی رہی۔ایک تووہ کہنے لگاکہ آپ کانام بڑاقیمتی مگرذرا رسکی ہے۔ ہیرا اور نیلم دوقیمتی پتھر ایسے ہیں جوسب کوراس نہیں آتے مگر راس آجائیںتوپہننے والے کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔نیلم نے اس کی بات سوفیصددرست مانی۔وہ اپنے میاں سعید گیلانی کوبالکل راس نہیں آئی مگراپنی کمپنی کوپچھلے پانچ سال سے اوردوسہیلیوں کوبھی وہ خوب راس آئی ہے جنھوں نے اس کے مشورے سے کیریئراورشوہرتبدیل کیا اوربہت آسودہ ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
ہم نے جو بھلا دیا، ماضی حال مستقبل کی کتاب
عسکریت پسندی مولانا اشرف علی تھانوی کی نگاہ میں
میں اکثر سوچتا ہوں، بھُول جاؤں
اقبال دیوان کی کردارنگاری کابھی جواب نہیں۔” کہروڑ پکا کی نیلماں ” کے دو مرکزی کردار نیلم اورارسلان آغااردوادب میں زندہ رہنے والے کردارہیں۔محکمہ زراعت سے تعلق رکھنے والاایک بیوروکریٹ اورچھوٹے شہرکی ایک انتہائی خوب صورت خاتون جس نے زندگی سے بہت کچھ سیکھاہے اورمستقبل کوسنوارنے میں کوشاں ہے۔پھران کرداروں کی ڈیولپمنٹ اورذیلی کرداربھی اپنانقش چھوڑجاتے ہیں۔جن میں سعیدگیلانی، سکھ دوست گڈی،نیلم کے والدکرنل ظہیراورسوتیلی والدہ طاہرہ جوکرنل ظہیرکی پرانی محبوبہ ہے اورنیلم کی والدہ کے کہروڑپکا میں انتقال کے فوراً بعدہی اس سے شادی کرلی تھی۔کرنل ظہیرجب میجرہوتے تھے توانھیں بھمبرپوسٹنگ کے زمانے میں وہاں کشمیری روایتی دیہاتی حسن کی شاہکارسرکاری اسکول کی استانی طاہرہ سے عشق ہوگیاتھا۔ ضیاالحق کامارشل لالگاتوان کے بریگیڈیئرصاحب کی کراچی پوسٹنگ ہوگئی اور وہ انھیں بھی ساتھ ہی گھسیٹ کرلے گئے۔وہ نئی پوسٹنگ پرکراچی چلے گئے توطاہرہ نے سوچاکہ مرداں دے وعدے جھوٹے۔جھوٹاہونداپیار وے۔کرکے محبتاں قول جاندے ہاروے۔صبرکرکے بیٹھ گئی۔ادھران باوردی افسران کی توجانوبلی کے بھاگوچھیکاٹوٹ۔ان دونوں نے کراچی میں رج کے دولت سمیٹی۔
کرنل ظہیرسرپرپیررکھ کربھمبرسے غائب ہوئے توطاہرہ کے ماں باپ نے درزی سے اس کی شادی کر دی۔بچہ توہوگیامگر وہ میاں کے حوالے سے ایک لاتعلق ناآسودگی سوکن بنی رہی۔طاہرہ ،سعیدکے والد فخرالزماں گیلانی کی خالہ زادبہن تھی ۔ بھائی فخرالزماں چھٹیوں پروطن لوٹے تواس کزن طاہرہ کادکھ دیکھ کرجان گئے کہ دیکھاتھااقبال نے جواک خواب سہانا،اس بے چاری کو اسے حقیقت بنانے کاموقع نہیں مل پایا۔سوانھوں نے فوری طور پرکرنل ظہیرسے رابطہ کیا،وہ مان گئے۔طاہرہ نے بھی ٹوٹے ہوئے تاروںکا ماتم کرنے سے ازدواجی پٹری بدلنے میں بہتری سمجھی۔موجودہ درزی میاں کی سوئی سے قبائے دردکوساری عمرسینے سے بہتریہ جاناکہ ڈبے سے باہرحل تلاش کریں۔کزن اپنے ساتھ طاہرہ کولے کرکہروڑپکاپہنچ گئے۔اسے گیم پلان سمجھادیا۔فخرالزماں گیلانی نے اس کی طلاق سے دوبارہ شادی تک کاہرمرحلہ خود طے کیا۔شوہرمتروکہ کوبرادری ہی ہی کے معاشی پسماندہ گھرانے کی رشتے دارنوخیزدیہاتی کلی سے بیاہ دیا تو وہ خیاط بھمبرنہال ہوامزیدنہال کرنے کیلیے نوبیاہتاجوڑے کودوسوپاؤنڈبھی خرچے کے لیے دیے۔انگریزی میں ایسی ڈیل کوون ون ڈیل کہتے ہیں۔یہ معاملات اس خو ش اسلوبی سے طے ہوئے گویاگائے کے تازہ مکھن میں چھری اترگئی۔
یہ اورایسے ہی کئی ذیلی کردار اورکہانیاں ناول کی دلچسپی میں اضافہ کرتی ہیں۔پرپل ایک نیاانکشاف، ہرآن ایک نئی سچویشن،بروقت اوربرمحل اردو،پنجابی فلمی ،غیرفلمی اشعاراورگانوں کااستعمال لاجواب ”اورپھربیاں اقبال دیوان کا۔”پرت پرت کھلتی کہانی کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔” طاہرہ نے ایسی پُرفریب منصوبہ بندی کی کہ اس کی دھیمی دھیمی ضد پرنیلم کی شادی کرنل ظہیرنے سعیدسے کرتے ہوئے لمحہ بھرکوبھی الجھن محسوس نہ کی۔طاہرہ کے اب تک اپنے دوبیٹے ہوچکے تھے۔ایک سابقہ درزی میاں سے تودوسراکرنل صاحب سے۔طاہرہ کی منصوبہ بندی کی روشنی میں نیلم کوایک ایسا پل بنادیاگیاجسے استعمال کرکے طاہرہ نے اپنی تمام اولادکوبھی ملکہ برطانیہ کی رعایابناکریورپی یونین میں شامل کرناتھا۔یہ بڑٹ ایگزٹ سے پہلے کی بات ہے۔نیلم،سعیدسے شادی کی بات پرطاہرہ آنٹی کے سمجھانے پرچپ چاپ رضامندہوگئی۔نیلم کے شوہرسعیدگیلانی نے اب تک کی زندگی میں صرف ایک دفعہ ہی بغاوت کی تھی۔ وہ گھرانے کے کاروبار میں شریک ہونے کی بجائے کاؤنٹی اسکالرشپ پرمیڈیکل لیبارٹری سائنس پڑھنے کنگسٹن کالج آگیاتھا۔سعادت مند بچے کی طرح اپنی تنخواہ آج بھی پہلی تنخواہ کی مانند،والدہ کے ہاتھ پررکھ دیتاتھاگو یہ شادی اب چھٹاسال پوراکرکے ساتویں برس میں داخل ہوچلی تھی۔نیلم کویاد نہیں پڑتاکہ اسے سعید نے کبھی اپنی تنخواہ بتائی ہو،یاسیروتفریح کے لیے کسی اورملک لے گیاہو۔
شادی پراسے بتایاگیاتھا، نی شادو!بے خبرے،ماں صدقے! جم کے رہنا،منہ میں رومال رکھنا۔وہ آج تمھیں تنکے کے طرح توڑے گا۔ صبح دلہن اوردولہاکے زیراستعمال سفیدچھوٹی سی چادرلہراتے ہیں جس پرخون کے دھبے پڑے ہوتے ہیں ، پھر ولیمہ برپاہوتاہے۔نیلم اکثردل مسوس کررہ جاتی کہ اس کے ہاں توچادرہی لال نہ ہوپائی تھی۔سعیدکم بخت نے اسے تنکانہیں بلکہ برازیل کامضبوط شہتیرسمجھ کرمردوں کی طرح چھواتک نہیں۔نیلم کایہ کنوارپن ایک راز تھاجس کاعلم صرف اسے تھا۔یہ سب تو نہ ہوامگراب یہ عالم ہے کہ حضرت سعید گیلانی،اس کے مجازی خدا،اس سے ملنے اوروقت گزارنے کے لیے برلن آئے تھے۔دونوں کے درمیان ایک خاموش سا یہ سمجھوتاہواتھاکہ اس شادی کوایک موقع اوردے کردیکھناچاہیے۔نیلم نے سوچ لیاتھاکہ وہ چتادے گی کہ وہ اپنی ماں کوبتادے کہ مردانگی کامسئلہ اس کااپناہے۔نیلم اب بھی کنواری کلی ہے۔سوپوتے پوتی کاشوق ہے تواس کی ٹانگوں میں جھانکنے کے بجائے بیٹے کی پتلون میں انگارے انڈیل دے۔سعید کوکالج کے زمانے میں ایک بنگالن اندرانی بینرجی بہت پسندتھی۔وہ وہاں فزیوتھراپی کاکورس کرنے آئی تھی۔شکستہ خاندانی پس منظرتھا،ماں مالدارتھی،ماں بیٹی دونوں کونشے کی عادت تھی۔سعید میاں کے ساتھ جانے کیاہواکہ نشہ،اندرانی،مردانگی سب بہت خاموشی سے ساتھ چھوڑگئے۔”
ایک طویل کہانی کس طرح اقبال دیوان نے اختصارسے بیان کردی۔یہی اندازانھوں نے پورے ناول میں برقرار رکھاہے۔مکالمے ایسے چست اوربرجستہ، اختصارمیں کئی طویل کہانیاں،بیوروکریسی یاعام زندگی کے مسائل پیش کردیے توکئی پیراگراف قاری کوباربارپڑھنا پڑتے ہیں اور ہربار ان کی ایک نئی معنویت سامنے آتی ہے ہرنئی معنی نیالطف بھی فراہم کرتے ہیں۔بات سے بات اورکہانی درکہانی کااپنا مزہ ہے۔ایک دلچسپ کہانی نیلم کی نانی میوہ جان کی ہے۔نیلم کے لاکٹ میں کیمرے نما لینس کی جگہ نیلم جڑاتھا۔یہ کیمرہ دکھتا لینس ایک چھوٹے سے بکس تھا۔سونے کے اس جڑاؤ بکس میں ایک تواس کااپنی والدہ کے ساتھ اسپیشلی کوٹڈ المونیم پلیٹ پرچھپاہوا پورٹریٹ تھا اوردوسرا موم جامے میں لپٹاایک تعویذتھا۔خاندانی روایات کے مطابق کسی جن نے یہ تعویذان کی حسین اورپری پیکرنانی میو ہ جان کودیاتھا۔”میوہ جان سرشام جمعرات کوغسل کرکے بال کھولے چھت پربیٹھی تھیں۔پرانی دہلی میں پہاڑگنج کے نزدیک پیپل مندرکے پروہت نے کسی میلے ٹھیلے میں نانی میوہ جان کودیکھ اتواپنے ہوش وحواس کھوبیٹھا۔اپنے دوست جن جس کانام قوموبط تھااس سے فرمائش کی کہ میوہ جان جونسلاً ترکمان تھی ان پرکوئی محبوب آپ کے قدموںمیں،والاعمل کرکے اان کادل پروہت کی جانب راغب کردے۔نانی میوی جان کی طرف جن آیاتوپروہت والی فرمائش پراس کادل نہ مانا۔ اس نے نانی کوکہاکہ وہ ناناسے طلاق لے کراس کے ساتھ گراں لوٹ جائے،مگروہ نہ مانیں ۔جن نے کہا کہ وہ اپنے پروہت دوست کووچن دے چکاہے اس لیے کچھ بھوگ وہ دے گاکچھ بلیدان میوہ جان کودیناپڑے گا۔ایک توان کے ہاں سات نسلوں تک بڑی بیٹی کوصرف ایک اولادہوگی یعنی صرف ایک بیٹی۔دوسرے وہ جمعرات کوسج دھج کراس سے ملنے چھت پرآئیں گی۔دس سے تین بجے رات تک وہ اس کی بیوی ہوں گی۔بدھ کی شام سے انھیں دورہ پڑے گا۔ وہ چھت پرچلی آئیں وہ آجائے گا۔نیلم نے اپنی امی سے پوچھاکہ کیااس جمعرات اسپیشل سے جن اورمیوہ جان کے بچے نہیں تھے توکہنے لگیں کہ ہونے تھے مگرجن وہ بچے اٹھاکراپنے وطن لے جاتاتھا۔اس کی وطن والی بیوی بالکل جمائماخان کی طرح پشتینی رئیس اوراعلیٰ ظرف تھی افریقن شیرنیوں کی طرح سب بچے وہی پالتی تھی۔اس کی نانی،والدہ اورخود نیلم بھی اپنی والدہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔تعویذالبتہ ایسامحافظ تھاکہ پاکستان،انگلستان چھوڑ کسی اورنے توکیاخود اس کے اپنے میاں نے بھی اس کی عزت لوٹنے کی جرأت نہیں کی۔”
اس تمام داستان میں جن کی بیوی کاجمائماسے موازنہ کچھ بھی نہ کہااورکہہ بھی گئے نہیں تو اورکیاہے۔ایسی لطیف پھلجھڑیاں،تشبیہ ،استعارے قاری کی دلچسپی ماند نہیں پڑنے دیتے۔ارسلان کی حاضرجوابی سے متاثرنیلم نے سوچاکاش اس کامیاں سعیدگیلانی ،اس کے سامنے بیٹھے اتفاقی مرد،ارسلان کی شخصیت کاصرف دس فیصد ہی دلچسپ ہوتاتووہ ابھی اسی وقت اسے چھوڑ کرواپس برمنگھم لوٹ جاتی۔ایک کہانی نیلم کی سکھ دوست گڈی کی بھی ہے۔نیلم کی دوست کا اصل نام توبرمیندرکورتھا وہ اورنیلم شام کودفترسے لوٹتے وقت چل کرنے کے لیے ایک ایک گلاس شراب کاضرورگٹگاتی تھیں۔دونوں کے گھرقریب قریب تھے۔ موگا، مشرقی پنجاب سے شادی کے بعد انگلستان پہنچ کرسب سے پہلے برمیندرنے دوکام کیے۔پہلے تواپنے ہتھ چھٹ،سکھ میاں سے نجات حاصل کی اوردوسرے برمیندرسے اپنانام گڈی بدل لیا۔میاں چھوڑدیا توماں باپ والانام بھی چھوڑدیا۔
ادھرنیلم کے والد اورسوتیلی ماں طاہرہ کی کہانی نے بھی ایک نیاموڑ لیا۔طاہرہ اورکرنل ظہیردونوں ہی ایک بڑے حادثے کے نتیجے میں ہمت ہاربیٹھے تھے۔طاہرہ کے دونوں بیٹے یعنی نیلم کے سوتیلے بھائی ایک حادثے میںاس وقت ہلاک ہوگئے جب بھمبرجاتے ان کی جیپ کھائی میں جاگری۔ طاہرہ بھی جیپ میں موجودتھی مگروہ ہلاک ہونے سے اس لیے محفوظ رہی کہ وہ ڈرائیورکے اوپرجاگری تھی جس کی وجہ سے اس بے چارے کوہاتھ پاؤں ہلانے کاموقع ہی نہ ملاکہ جان بچ جاتی مگر جب وہ شفایاب ہوکرگھرواپس آئی تواس کی شخصیت بجھ سی گئی۔نیلم کی طلاق کے موضوع پرطاہرہ نے چپ ہی سادھے رکھی۔اسے یہ بات بھی سمجھ آگئی کہ ناخوش نیلم کے برطانیہ میں رہنے سے بہتر ہے کہ وہ پاکستان آکران کی جاگیرداری سنبھال لے۔یہاں کسی عزیز وغیرہ سے شادی کرلے۔اللہ نے کبھی وطن کی مٹی کوگواہ بناکرکرنل صاحب کے حوصلوں کوجولانی دی تووہ پھرسے ماں بن جائے گی۔نیلم سے اسے نو مولودکے ساتھ جائیدارشیئرنگ کاکوئی خطرہ نہ تھا۔نیلم سعات مند ہے۔ممکن ہے وہی اس کے نئے بچے کی ماں نمابہن بن کراسے جاگیرمیں حصہ دے دے۔یوں بھی جب اس کے بیٹے عفان اورغفران ہی اس دنیامیں نہ رہے تونیلم کے برطانیہ رہنے کااسے ذاتی طور پرکوئی فائدہ نہ تھا۔
اقبال دیوان کی شگفتہ بیانی کااندازاس اقتباس میں دیکھیں۔
”نیلماں کی ازدواجی ناآسودگی کی گولی طاہرہ نے اپنے کزن فخرالزماں کے کام کے پاس سے ہلکے سے گزاردی تھی۔ بہت آہستگی سے اس نے نیلم کے تاحال کنوارے ہونے اورسعید کی بسترمیں پسپائی کابتادیا۔ فخر الزمان گیلانی نے لخت جگرکی اس نامرادی کاسناتودل میں آئی کہ پوتے پوتی کے لیے چیسٹر اسٹریٹ میں گھر کے پاس ہی واقع بلیک برن مسجد کے امام سے سیدناذکریا کی اولاد والی دعاکی درخواست کرے مگرپھرڈرگیاکہ اس کی بیوی زیب النساء عرف زیبی بھی کچھ ایسی خاص عمر رسیدہ نہیں۔بیالیس برس کیاہوتے ہیں۔ اب تک باقاعدگی سے پیراکی بھی کرتی ہے اوران دونوں کے جنسی تعلقات میں لطف، چنچلتا،تواتر اور استحکام ہے۔کہیں ایسانہ ہوکہ دعاکااثرنیلم کے بجائے اس کی اپنی بیگم پرہوجائے۔ وہ حاملہ ہوگئی توبہت بھنڈ ہوجائے گا۔”
اسی شگفتہ انداز میںکہانی کابہاؤ جاری رہتاہے۔جس کے دوران مشہورانگلش،اردواورپنجابی فلموں کے حوالے،ان کے کرداروں اورماڈلز کیا موازنہ دلچسپی میں اضافے کاباعث بنتے ہیں۔نیلم اب سعیدگیلانی کے حبالہ نکاح سے آزاد ہورہی ہے۔ایک مرداسے اتفاقاً مل گیاہے ۔ یہ مردجس کانام ارسلان آغا ہے اس کی زندگی میں آنے والے تین اہم مردوں کرنل ظہیر،استاد وجدان اورسعیدگیلانی سے بہت مختلف تھا۔ وہ شانت تھا،صاحبِ ذوق تھا۔ اس نے بتایا۔” وہ سی ایس ایس کرکے ملازمتوں میں آگیاتھا۔شادی ایک محل وقوع کاحادثہ تھا۔بیگم کادباؤ بہت زیادہ تھا۔وہ ایک تاجرگھرانے کی فرد تھی۔ گھروالوں کاہوزری اوریارن کاکام تھا۔ جوچاہتے تھے کہ ارسلان ان کے کاروبارمیں شرکت کرے۔وہ نہ ماناتوبیوی مدیحہ سے اختلافات بڑھتے گئے۔دودفعہ مس کیرج ہواتومدیحہ کی شخصیت نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوگئی۔ شادی چاربرس میں ہی ختم ہوگئی۔”
دونوں ازدواجی ناآسودگی اورطلاق کے حوالے سے ایک دوسرے کی کمفرٹ زون میں تھے اوریوں اب یہ تعلق کچھ اورقربت اختیارکرنے لگا۔ترکی میں استنبول ، کا پوڈو کیا اورقونیہ کی سیر میں سفرنامے کالطف بھی موجود ہے۔ وطن واپسی پرنیلم کی سیاست میں انٹری اورسیاست کے داؤپیچ بھی ہیں۔کیسے فوجی اسٹبلشمنٹ اقتدارسنبھالنے کے بعدسیاستدانوں کواستعمال کرتے ہیں اورکون کون کس طرح ان کاشکاربنتاہے ۔ یہ بھی ”کہروڑپکاکی نیلماں” کاایک چشم کشاحصہ ہے۔
مجموعی طور ناول کسی اردو ماسٹرپیس سے کم نہیں۔رواں ،سادی اورپرلطف نثر،دلچسپ کہانی، مصنف اقبال دیوان کوپراثراسلوب اسے ایک کامیاب ناول بنادیتے ہیں۔ اقبال دیوان نے اپنی گذشتہ کتب کی مانند اپنی انفرادیت ایک مرتبہ پھر منوالی۔ادب میں کہاجاتا ہے کہ ایک ناول توہرانسان کی زندگی میں ہوتاہے اوروہ لکھ لیتاہے۔ادیب کی اہلیت دوسرے ناول سے واضح ہوتی ہے۔محمداقبال دیوان نے تاخیرسے قلم کی دنیامیں قدم رکھنے کے باوجودتین بہترین ناول اورتین بہترین افسانوی مجموعے دے کرادب میں اپنی دھاک بٹھادی ہے اوریہی کہاجاسکتاہے کہ اللہ کرے زورقلم اورزیادہ۔