میں نے ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب ‘ ہم نے جو بھلا دیا’ پر بات کرمی ہے لیکن اس سے پہلے خلیل جبران کی ایک بات۔ وہ کہتا ہے محبت تم سے نہ کچھ لیتی ہے نہ تم کو کچھ دیتی ہے محبت کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ محبت ہے ، ایک اور جگہ خلیل جبران لکھتے ہیں زندگی واقعتا اک ظلمت ہے اگر اس میں طلب نہ ہو طلب اندھی ہے اگر اس میں علم نہ ہو علم بے معنی ہے اگر عمل سے ہم آہنگ نہ ہو عمل کھوکھلا ہے اگر اس میں محبت نہ ہو۔
مجھے جبران کا یہ قول فاروق عادل بھائی کی کتاب ہم نے جو بھلا دیا ہے کو پڑھ کر ذہن میں گونج رہا ہے فاروق بھائی نے اپنی ریسرچ کو اس ہنر مندی محنت اور محبت کے ساتھ کے ساتھ قلم بند کیا ہے کہ آپ ایک کے بعد دوسرے topic کو پڑھتے چلے جاتے ہیں اور ہر topic کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہم کن باتوں بھلا بیٹھے ہیں اور یہ بھی خیال آتا ہے کہ اگر نہ بھلاتے تو شاید ہم ایک بہتر پاکستان میں ہوتے۔
یہ بھی پڑھئے:
عسکریت پسندی مولانا اشرف علی تھانوی کی نگاہ میں
میں اکثر سوچتا ہوں، بھُول جاؤں
ڈاکٹر طارق کلیم سائیکل سوار پرنسپل کی زد پر کیوں؟
ہم بھلا بیٹھے کہ پاکستان آزاد ہونے کے ایک سال کے اندر ہی ہمارے کچھ حکمرانوں کو عوام سے زیادہ خود اپنی فکر پڑی تھی۔ وہ حکمران کون تھے۔ وہ آپ کو کتاب بتائے گی ہم بھلا بیٹھے کہ وہ کون سا جج تھا جس نے عدلیہ کا وقار ختم کر کے رکھ دیا اور بھلانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ اور بھی ایسے پیدا ہو گئے یہ تفصیل بھی آپ کو کتاب بتائے گی۔
کراچی سندھ سے الگ ہو سکتا ہے یا نہیں یہ بات بھی ہمیں اس کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوگی کیونکہ اس حوالے سے جو ہم نے بھلا دیا وہ فاروق عادل صاحب نے اس کتاب میں ہمیں پھر سے یاد دلا دیا ہے جو کچھ فاروق عادل صاحب نے اس کتاب میں یاد دلایا ہے وہ سب مستند ہے۔ وہ خیال نہیں ہے واقعہ ہے وہ قیاس نہیں بلکہ وہ کچھ ہے جو ہو چکا ہے مگر ہم اسے بھلا کر وہ ہی سب کچھ دوبارہ کر رہے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ چاہے وہ حکمران ہوں عوام ہوں جج ہوں یا پھر مقتدر حلقے ہوں سب اپنی کی گئی غلطیاں دوبارہ کر رہے ہیں جو ہم نے بھلا دیا وہ ماضی ہے جو حال میں بھی زندہ ہے۔ اس کتاب کا ہر قاری دوسرے کو اسکے بارے میں بتا رہا ہے۔اسی لیے مجھے اندیشہ تھا کہ شاید یہ کتاب مجھے نہ مل پائے مگر اپنے ایک دوست کے توسط سے اب یہ میرے ساتھ ہے۔ آپ جس شعبہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔ مجھے یقین ہے آپ لوگوں سے بحث کرنا چھوڑ دیں گے کیونکہ یہ کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان میں سیاست کے حوالے سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی ہوگا وہ سب کچھ پہلے ہو چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ وہ ہے ہم نے جو بھلا دیا