دنیا میں پہلا انقلاب زراعت انقلاب تھا جو دنیا میں جدت اور ترقی لانے کا باعث بنا۔ اور شاید زرعی انقلاب ہی کے باعث آج دنیا چل رہی ہے۔ وگرنہ دنیا کی اتنی بڑی آبادی کے کھانے پینے کا انتظام نہ ہوسکتا۔ لوگ ایک دوسرے کو کھا جاتے۔ ممکن ہی تھا کہ طاقت ور انسان اپنے سے کمزور کو کھا جاتے۔ لیکن زرعی انقلاب نے انسان کو ان حالات سے بچایا۔ اور آج ہم ایک مسخ شدہ ہی سہی لیکن ایک ‘ایکو سسٹم’ میں رہ رہے ہیں.
پھر دوسرا انقلاب انڈسٹریز کا تھا جس ملک یا تہذیب کے لوگوں کے پاس زیادہ اشیا و سامان ہوتا، وہی طاقتور اور کامیاب کہلاتا۔ لیکن تیسرا انقلاب یکسر مختلف ٹیکنالوجی یا گلوبلائزیشن کا ہے۔ یعنی جس کے پاس زیادہ انفارمیشن، اور دنیا کا علم ہو، وہی سبقت لے جائےگا۔ تاہم اب دنیا تیسرے یا ٹیکنالوجی والے انقلاب کے دور سے گزر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
میں اکثر سوچتا ہوں، بھُول جاؤں
ڈاکٹر طارق کلیم سائیکل سوار پرنسپل کی زد پر کیوں؟
سائفر کیس: بچاؤ کا راستہ صرف ایک
البتہ اس وقت ہمارے ملک میں جس موضوع کی سب سے زیادہ بازگشت ہورہی ہے وہ ہے ‘زرعی انقلاب’۔ گو کہ دنیا نے گرین ریویولیشن یا زرعی انقلاب دو، تین سو سال پہلے دیکھا تھا۔ لیکن ہمارے ملک میں اداروں کو یہ شمع اکیسویں صدی میں دکھائی دی۔ یاد رہے کہ الیکشن وقت پر نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس اضافی چارج لینے کی کوئی استطاعت نہیں تھی لیکن صرف ایک ہی مہینے بعد انہوں ایگریکلچر میں مشقیں اتار دیں۔
اس بات سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم دنیا سے دو انقلاب اور تین صدیاں پیچھے چل رہے ہیں۔ ہمیں جہاں مشقیں ٹیکنالوجی میں کرنی تھیں وہاں ہم اب بھی زراعت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ ہمیں چائیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ ملک کو ٹیکنالوجی اور سافٹ علوم کی طرف گامزن کریں ناکہ ایسے اداروں کو زراعت میں لگائیں جو انکا کام ہی نہیں۔