ADVERTISEMENT
لاہور کے ایم اے او کالج کی تاریخ بڑی شان دار اور رنگا رنگ ہے۔ کچھ ذاتی یادیں بھی تاریخی ادارے سے وابستہ ہیں لیکن اس کا اصل اور بنیادی حوالہ تو سر سید احمد خان اور علی گڑھ یونیورسٹی ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کا ابتدائی نام محمڈن اینگلو اورینٹل کالج تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے درجے پر بلند ہو گیا۔ ایم اے او کالج لاہور اسی مبارک سلسلے کی کڑی ہے۔ انجمن حمایت اسلام نے سر سید علیہ رحمہ کی پیروی میں بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں امرتسر میں یہ کالج قائم کیا ۔ یہ وہی کالج ہے، جس میں فیض احمد فیض اور محمد دین تاثیر جیسے عبقری اساتذہ نے پڑھایا۔ قیام پاکستان کے وقت یہ بلڈنگ جس میں آج ایم اے او کالج قائم ہے، سناتن دھرم کالج ہواکرتا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ایک معاہدے کے تحت یہ کالج امرتسر منتقل ہو گیا اور ایم اے او کالج لاہور میں آ گیا۔ حق بہ حق دار رسید۔ اتنا شان دار ورثہ رکھنے والا یہ کالج ان دنوں خبروں میں ہے۔
ایک خبر تو اس کالج کی خاتون پرنسپل صاحبہ کی ہے جو لاہور جیسے پر ہجوم شہر میں ٹریفک سے بچتی بچاتی سائیکل سواری کرتے ہوئے کالج پہنچتی ہیں جس پر مخدومی عطا الحق قاسمی جیسے محترم کالم نگار نے ان کی تعریف کی ہے اور اس واقعے کے بہانے سے ان بزرگوں کو یاد کیا ہے جن کے بائیسیکل اساطیر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ پرنسپل صاحبہ کی سائیکل سواری نے سچ جانئے کہ اہل دل کے دل میں ان کے لیے جگہ بنا دی ہے لیکن اگر وہ تھوڑی دل نوازی بھی سیکھ لیں تو ہمارے اس تاریخی کالج سے اس طرح کی دکھی کر دینے والی خبریں نہ آئیں جیسی آج کل آ رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
گزشتہ دنوں پنجاب کے اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کے احتجاج کی خبریں نمایاں رہی ہیں۔ یہ انکری منٹ میں اضافے اور Leave encashment کے ضمن میں چند ٹیکنیکل مسائل تھے جو وزیر اعظم شہباز شریف کی مداخلت سے حل ہو چکے ہیں اور احتجاج کرنے والے ملازمین کا احتجاج بھی ختم ہو چکا ہے لیکن اس واقعے کی دم باقی رہ گئی ہے۔ احتجاج کے دنوں میں سرکاری ملازمین کے مشترکہ پلیٹ فارم کے مرکزی راہ نما اور پنجاب لیکچررز اور پروفیسرز ایسوسی ایشن صدر پروفیسر ڈاکٹر طارق کلیم کی صدارت میں کالج کے احاطے میں اجلاس ہو رہا تھا۔ دوران اجتماع پرنسپل صاحبہ کے حکم پر کالج کے گیٹ بند کر کے انھیں محبوس کر دیا گیا۔ یہ صورت حال اتنی غیر متوقع اور تکلیف دہ تھی کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس نے بھی پرنسپل صاحبہ سے درخواست کی کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن وہ نہ مانیں اور ملازمین کے راہ نماؤں کو محبوس رکھا۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ کالج پہنچیں تو ان راہ نماؤں نے شائستگی کے ساتھ احتجاج کیا اور ان سے کہا کہ یہ طرز عمل مناسب نہیں۔ پرنسپل صاحبہ کو یہ احتجاج برا لگا اور انھوں نے پروفیسر ڈاکٹر طارق کلیم پر ہراس منٹ کا الزام عاید کر دیا۔ ساتھی اساتذہ کے ساتھ ایک پرنسپل کا یہ طرز عمل انتہائی غیر مناسب ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ کالج کا ماحول مستقل طور پر کشیدگی کا شکار ہوجائے گا بلکہ صوبے بھر کے اساتذہ میں بے چینی کی لہر بھی دوڑ جائے گی۔
پرنسپل صاحبہ کو ایسے معاملات میں اس لیے بھی محتاط ہونا چاہیے کہ وہ پہلی خاتون ہیں جنھیں لڑکوں کے کالج میں پرنسپل بنایا گیا ہے۔ ان کے طرز عمل کی وجہ سے یہ تجربہ ناکام ہو گیا تو آئندہ شاید کبھی کوئی خاتون لڑکوں کے کالج کی سربراہی نہ کر سکے۔ ایک اور پہلو اس تنازعے کا یہ ہے کہ اگر یوں ہی سیاسی اختلاف کی وجہ سے ہراس منٹ جیسے سنگین جرم کا الزام انتہائی باعزت اور شریف النفس لوگوں پر لگائے جانے لگے تو خود یہ جرم اپنی حساسیت کھو بیٹھے گا۔ اس لیے پرنسپل صاحبہ اپنے طرز عمل میں بہتری نہیں لاتیں تو پھر حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے۔