پروین شاکر نے ایک بڑے مزے کا شعر کہہ رکھا ہے۔
ہندی روایت کی پتی ورتا سہاگن کے سے پیار والی پریمیکا اپنے پریتم کو بڑی اٹھلاہٹ سے کہتی ہے :
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاؤں، ہاروں تو پیا تیری
یعنی ہار ہو یا جیت نقصان بہرحال نہیں ہونے کا؛ مطلوب دونوں صورتوں میں حاصل ہے!
سترہویں صدی کے معروف فرانسیسی ریاضی دان فلسفی اور مسیحی متکلم پاسکل (۱۶۲۳ء- ۱۶۶۲ء) نے بھی ایک کھیل کھیلنے اور بازی لگانے کی پیشکش کی تھی جسے ’’پاسکل بازی‘‘ (Pascal’ s Wager) کہتے ہیں۔
بعد از مرگ چھپنے والی اپنی معروف کتاب Pensées ( خواطر)۱ میں اس نے عمانوئیل کانٹ (۱۷۲۴ء–۱۸۰۴ء) سے کہیں پہلے بڑی قطعیت سے واضح کیا تھا کہ خدا ہے یا خدا نہیں ہے عقل اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ خدا کے ہونے یا نہ ہونے پر ازل سے جوئے کی ایک بازی لگی ہوئی ہے اس میں آپ نے اس میں شریک ضرور ہونا ہے خواہ ہار پر بازی لگائیں یا جیت پر، آپ کو ان دونوں میں سے ایک کام ضرور کرنا پڑے گا، اس سے فرار ممکن نہیں شرط تو آپ کو ہر حال میں بدنی پڑے گی۔ فرض کرو کہ ہارنے پر آپ کو کچھ زیادہ کھونا نہ ہو مگر جیتنے پر ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ پانے کا امکان ہو، آپ کے سامنے ایک مسرت بھری زندگی کی لامتناہیت ہو اور دوسری طرف کھونے کیلیے چند متناہی چیزیں ہوں اور ہار جیت کے امکانات بھی برابر ہوں تو سمجھ داری کا تقاضا کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ:
۱ ۔ آپ کو شرط ضرور لگانی چاہیے۔ ویسے بھی یہ شرط آپ کو لگانی ہی ہے کہ ہارنے کی صورت میں آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ آپ مر کے مٹی ہو جائیں گے یعنی صرف جان کا ہی زیاں ہے جو ہر صورت میں ہونا ہے۔
۲ ۔ جیتنے کی صورت میں آپ کو لا انتہا فائدہ ہے اس لئے آپ لازماً ظفر مندی کیلئے شرط لگائیں گے۔ تو آئیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے شرط لگا دیں کہ ’’خدا موجود ہے‘‘۔ ۲
پاسکل بازی اگرچہ پاسکل کے نام سے مشہور ہے اور اس کی تعبیر ریاضیاتی اغلبیت(probability)، فیصلہ(decision)، نتائجیت(pragmatism) اور ارادیت(voluntarism) کے نظریوں کی روشنی میں کی جاتی رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی بات حضرت علی سے بھی منسوب ہے۔ حضرت علی سے اس کا انتساب اگر درست نہ بھی ہو تب بھی اتنا تو طے ہے کہ پاسکل سے پہلے اسلامی روایات میں اس طرح کے آثار معروف ہیں۔ مغربی فکر میں اس پاسکل بازی کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ پاسکل بازی پر اعتراض کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی بازی(wager) کی اغلبیت منطقی طور پر اعتقاد کے بعد ہے ، اس کا مطلب یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے خدا پر یقین کیا اور اس کے فضل کو قبول کیا ہے ان کی بازی غیر معقول بالکل نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ابدی نجات کے ذریعہ کے طور پر ایمان کی اہمیت یا قدر کی نسبتاً غیر معقولیت کی تلافی کرتی ہے۔۳
عقل کی عدم قطعیت، نارسائی اور تشکیک کی وجہ سے بعد کے لوگوں نے پاسکل کا شمار لاعقلیت (irrationalism ) اور وجودیت (existentialism) کے فلسفیانہ اور مذہبی بنیاد گزاروں میں کیا ہے۔ انسان کو اس کی مرضی اور خواہش کے بغیر کائنات کے لامتناہیت کے ہولناک ریگزاروں میں پھینک دیا جانا پاسکل کو گویا بے معنویت کی وہشت میں مبتلا کرتا رہا۔ پاسکل کی بازی کی طرح ایک اور شے، جس کی بنا پر وہ ابھی نصف صدی قبل تک کیرکےگور جییسے وجودی فلسفیوں کے باواآدم کے طور پر زیر بحث آتا رہا ہے وہ ہے پاسکل کی دہشت ( Pascal’s terror)۔ خواطر میں ہمیں جگہ جگہ اس کے ایسے نوحے سننے کو ملتے ہیں جن کی بازگشت بعد میں وجودیوں کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے:
جب میں قبل وبعد کی ابدیت کی نگلی ہوئی اپنی زندگی کے قلیل دورانیے پر غور کرتا ہوں کہ یہ تو تھوڑی سی جگہ ہے جس کو میں بھرتا اور دیکھ سکتا ہوں ، یہ اس لامحدود بےپایاں مکانی حدود میں گھری ہوئی ہے جس سے میں قطعی لاعلم ہوں، اور جو مجھے نہیں جانتی ، تو میں دہشت سے بھر جاتا ہوں اور وہاں کی بجائے یہاں ہونے پر حیران ہوتا ہوں کیوں کہ وہاں کی بجائے یہاں ہونے اور تب کی بجائے اب ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مجھے یہاں کس نے لا پھینکا ہے؟ کس کے حکم اور ہدایت پر مجھے یہ جگہ اور وقت تفویض کیا گیا ہے؟ ان لامحدود مکانوں کی ابدی خاموشی مجھے خوفزدہ کردیتی ہے۔ ۴
جب میں انسان کے اندھے پن اور بدبختی کو دیکھتا ہوں ، جب میں کائنات کی خاموش پہنائیوں کو، اندھیاروں میں بھٹکتے انسان کو کائنات کے اس کونے میں سراسیمہ و تنہا گم صُم دیکھتا ہوں یہ جانے بغیر کہ اسے کس نے وہاں پھینک دیا ہے ، وہ کیا کرنے آیا ہے اور موت کے وقت اس کا کیا بنے گا، تو میں یہ سب کچھ جاننے سے عاجز و لاچار، ایک ایسے آدمی کی طرح جسے نیند میں اٹھاکر ایک دہشت ناک بنجر جزیرے میں چھوڑ دیا گیا، جو جاگنے پر فرار کا کوئی رستہ نہ پا کر دھک سے رہ جائے، میں اس طور خود کو ایک دہشت میں مبتلا پاتا ہوں۔ میں اس پر حیرت زدہ ہوں کہ اس حالت میں بھی یہ آشفتہ و خاک بسر لوگ اتھاہ مایوسیوں کا شکار کیوں نہیں ہوتے۔ میں اپنے ارد گردا گرد دوسرے افراد کو جب اسی طرح کی فطرت سے دوچار پاتا ہوں تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ اس ہولناکی سے مجھ سے بہتر آگاہ ہیں؟ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ نہیں وہ نہیں ہیں۔ اس پر بھی یہ بدبخت و حواس باختہ مخلوق ، اپنے اردگرد جب کچھ دل خوش کن چیزیں دیکھتی ہے تو خوشی خوشی ان سے دل لگا لیتی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں خود کو ان سے منسلک نہیں کر پایا ہوں ، اور ، یہ دیکھتے ہوئے کہ کس شدت سے یوں لگتا ہے کہ جو کچھ مجھے نظر آتا ہے اس کے علاوہ بھی کچھ ہے تو، میں جانچ پڑتال کرنے لگتا ہوں کہ آیا خدا نے اپنی ذات کی کوئی علامت نہیں چھوڑی !۔ ۵
کچھ ایسی ہی باتوں کے پیش نظر ولیم بیرٹ (۱۹۱۳ء–۱۹۹۲ء) کا کہنا ہے کہ سترہویں صدی میں پاسکل نے گویا ہماری آج کی دنیا کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ ۶ انسانی ارادے کی آزادی اور ذمہ داری کی یہی وہ کیفیت ہے جسے Existential angst, existential dread, anxiety, or anguish وغیرہ کہا جاتا ہے جو کیرکے گور جیسے مذہبی وجودیوں اور کامیو جیسے غیر مذہبی وجودی ایبسرڈسٹوں کا مشترک مسئلہ ہے۔ ۷ جب ہم پاسکل کو اس طرح کی کیفیات میں پاتے ہیں کہ:
’’ان لاتعداد مقامات کی ابدی خاموشی مجھ کو خوف سے بھر دیتی ہے‘‘۔۸ تو بے ساختہ اقبال کی نظم ’’لالۂ صحرا‘‘ کے اشعار یاد آتے ہیں۔ ۹
یہ بھی پڑھئے:
ہم نے جو بھلا دیا، تتے توے پر بیٹھ کر لکھی ہوئی کتاب
نجمہ عثمان کی شاعری میں خیال اور جذبے کے رزم آرائی
پاکستان گرلز گائیڈ: قائد اعظم کے تصورات اس بارے میں کیا تھے؟
گلگت بلتستان: خالد خورشید کی وہ غلطی جس نے پی ٹی آئی کو تباہ کیا
پاسکل اور بعد کے غیرمذہبی وجودیوں میں فرق یہ تھا کہ وہ پاسکل کی طرح ’’ایمانی زقند‘‘ کو قبول نہیں کر سکتے۔ وہ البرٹ کامیو (۱۹۱۳ء-۱۹۶۰ء) کی طرح اسے ’’فلسفیانہ خودکشی‘‘ سمجھتے ہیں۔ غیر مذہبی و جودیوں کو یہ فلسفیانہ خودکشی قبول نہیں ہوتی، چاہے اس کے نتیجے میں لایعنیت/ ایبسرڈٹی میں ہی کیوں نہ لوٹنیا لگانی پڑیں۔ حالانکہ کامیو کو خود بھی یہ تسلیم ہے کہ:
ایک ایسا امرواقعہ موجود ہے جو بالکل اخلاقی نظر آتا ہے: یعنی ، آدمی ہمیشہ اپنی سچائیوں کا شکار رہتا ہے۔ ایک بار جب اس نے ان کو تسلیم کرلیا تو وہ خود کو ان سے رہائی نہیں دلا سکتا۔ اسے اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ وہ شخص جو لا یعنیت (ایبسرڈ) سے آگاہ ہوگیا (سمجھو) وہ ہمیشہ کے لئے اس میں بندھ گیا۔ امید سے خالی اور ایسا ہونے کا شعور رکھنے والا آدمی مستقبل سے تعلق ختم کر چکا ہوتا ہے۔ یہ فطری بات ہے۔ لیکن یہ بھی عین فطری ہے کہ اسے اس کائنات سے فرار کی کوشش کرنی چاہئے جس کا وہ خالق ہے۔ تمام سابق الذکر معاملات کی اہمیت اسی قول محال کی وجہ سے ہے۔ عقل پرستی کی تنقید سے شروع ہونے والے بعض مخصوص افراد نے اس لایعنیت کے ماحول کو تسلیم کر لیا ہے۔ ۱۰
آٹھ سال کی عمر میں ماں کی شفقت سے محروم ہونے، عمر کا بڑا حصہ بیماریوں میں گذارنے، اور چہل سال عمر عزیز کو نہ پہنچنے سے پہلے مر جانے والا پاسکل ایک مذہبی گھرانے کا فرد اور پیرس کی اعلی فیشن ایبل سوسائٹی میں رہنے والا تھا ۔ ایک مایہ ناز ریاضی دان و ماہر طبیعیات کے طور پر پاسکل عقل کی اہمیت کا بے طرح قائل تھا مگر اس نے محسوس کیا کہ خالص عقل اور محض منطق خدا کے وجود کا اثبات نہیں کرسکتی۔ پاسکل کا اصل کارنامہ یہ نہیں کہ اس نے عقل کی نارسائی کو مبرہن کیا بلکہ اس کا کمال یہ تھا کہ اس نے عقل کو ایمان کی تقویت کے لئے کھلا اور اس میں صَرف کر کے دکھایا۔ وہ اقبال کی طرح عقل کے غلام دل کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔
خواطر (Pensées)پر ٹی ایس ایلیٹ (۱۸۸۸ء-۱۹۶۵ء) نے اس کے ۱۹۵۸ء کے ایڈیشن جو مقدمہ لکھا ہے وہ پاسکل اور اس کے ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارے زمانوں کے الحاد اور تشکیک کی تشخیص کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ ۱۱ خواطر (Pensées) کے عنوان سے خود نوشت روحانی سوانح کی طرح کے یہ اوراق دراصل قلم برداشتہ لکھے گئے شذرات تھے جو پاسکل نے مکمل کیے بغیر چھوڑ دیے۔ سانت بیو (Sante-Beuve) کے الفاظ میں یہ کتاب سیمنٹ کے بغیر ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے پتھروں کے مینار کی طرح ہے۔ ابتدائی برسوں میں پاسکل کا حافظہ بہت تیز تھا جو بعد میں بیماریوں کے سبب کمزور ہو گیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید وہ یہ شذرات کبھی ضبطِ تحریر میں بھی نہ لاتا۔ موجودہ صورت میں بھی یہ کتاب فرانسیسی ادب اور مذہبی گیان دھیان کی تاریخ میں ایک شاہکار شے ہے۔ ۱۲
پندرہویں صدی کے متشکک فرانسیسی مفکر اور ادیب مونتیں (۱۵۳۳ء- ۱۵۹۲ء) کا مطالعہ پاسکل نے اس کا رد لکھنے کے لئے شروع کیا تھا۔ مگر ٹی ایس ایلیٹ (۱۸۸۸ء –۱۹۶۵ء) نے مونتیں کی حیرت انگیز و مہیب زود اثری کے بارے میں لکھا ہے کہ جب تک کوئی آدمی اسے اتنا سمجھ لے کہ خود کو اس پر حملہ کرنے کے قابل تصور کرنے لگے وہ، اس سے بہت پہلے ہی، خود اس کے زیر اثر آچکا ہوتا ہے کیونکہ مونتیں تو ایک دھند ، ایک گیس ، ایک سیال عنصر ہے، اور گھات لگا کر حملہ کرنے والا قاتل ہے۔ وہ استدلال نہیں کرتا ، نفوذ کرتا ہے، غیر محسوس طور پر آپ کے اندر اترتا چلا جاتا ہے۔ یا اگر وہ استدلال کرتا ہے تب بھی آپ کو ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ اس کے پاس آپ کو منوانے کے لئے دلیل کے علاوہ بھی دیگر بہت سی خطرناک گھاتیں ہوتی ہیں۔ اگر آپ گزشتہ تین صدیوں کی فرانسیسی افکار کی روش کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے مونتیں کو جاننا اور بھی ضروری ہے۔ ۱۳
مونتینی تشکیک کی یہ نفوذی تاثیر پاسکل پر بھی اثرات چھوڑے بغیر نہ رہی تھی۔ مونتیں اگر کوئی عام سا متشکک ہوتا، یا حتیٰ کہ ہر دور کے سب سے بڑے متشکک والٹیئر کی طرح کا آدمی ہوتا، تب بھی پاسکل کا اس سے متاثر ہو جانا اس کیلیے باعثِ خفت ہوتا لیکن مونتیں کا فطری جوہر والٹیئر سے بھی بڑا تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی پاسکل کو متاثر نہ کر سکتا۔ اس تاثر ریزی میں پاسکل اور مونتین کی تشکیکی نوعیت کے اشتراک کا بھی بہت بڑا حصہ تھا۔ اس پس منظر میں پاسکل کا مونتیں سے متاثر ہو جانا اتنا اہم نہیں تھا جتنا اس آسیب کے اثر سے سلامتی سے نکل آنا!
ہر سوچنے سمجھنے والے اور غور و فکر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والے کی تشکیک اپنے ہی انداز کی ہوتی ہے: کسی کی تشکیک مسکت سوالوں کا سامنا کرنے پر رک جاتی ہے، کسی کی انکار پر ختم ہوتی ہے، کسی کی تشکیک اسے ایمان کی طرف لے جاتی ہے اور کوئی تشکیک ایمان ہی کا جز ہوتی ہے مگر ایمان اس پر حاوی آ چکا ہوتا ہے۔ پاسکل ایک ایسا ہی صاحب ایمان تھا جس کا ایمانی جذبہ ہمیشہ ایک طاقتور عقل کی معیت میں رہا۔ جس نے بلا جھجھک شک کے اس مہیب عفریت کا سامنا کیا جو ایمان سے جدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف مونتیں کی تشکیک کسی خاص دائرے تک محدود نہ تھی بلکہ ہم مرکز دائروں کی طرح اس نے تشکیک کی ہر اس صورت کو زبان دی(اور یہی اس کی شخصیت کی بڑائی کی ایک جہت ہے) جو کسی انسان کو کبھی پیش آسکتی ہے۔ لہٰذا پاسکل پر اگر مونتیں کے اثرات ہوئے بھی تو اسے اس کی کمزوری نہیں کہا جا سکتا۔ یہ دونوں کی تشکیک کا مقام اتصال تھا۔ عام لوگوں کی اکثریت بودی ہوتی ہے۔ غیرمتجسس، کھال مست اور جذباتی؛ لہذا انہیں نہ تو کوئی گہرا ارتیاب ہی پریشان کرتا ہے اور نہ وہ ایمان کی گہرائی میں اترتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں وہ کسی بڑے معنی تک پہنچنے سے محروم رہتے ہیں۔
پاسکل کو انسانی مجبوریوں کا شدید احساس تھا اس بارے میں ہر قسم کی، اور بعض اوقات اپنی بھی، خوش فہمیوں کو مجروح کرتے اس کے تجزیوں کی بنا پر بعضوں نے اسے منکر ایمان/ بےاعتقاد بھی کہنے کی کوشش کی ہے، جس کی مایوسی نے اس کے لیے حقیقت، اور ایک آزاد انسان کی خواہ مخواہ کی عبادت سے حاصل ہونے والی سورمائی طمانیت کو خود اس کیلیے ناقابلِ برداشت بنا دیا تھا۔ تاہم اس کی مایوسیوں کے اسباب شخصی نہیں تھے بلکہ ایک صاحبِ دانش روح کی پرتجسس کشمش کے معروضی حاصلات تھے۔ جیسے خشک سالی اور سیاہ رات کی سی انقباضی کیفیات ہوں جو ایک سالک کو اپنے سفر کے دوران پیش آتی ہیں۔ ایسے متشائم حالات جو اگر کسی ناخالص اور کمزور روح کو پیش آجائیں تو خوفناک انجام پر منتج ہوں مگر پاسکل جیسی بڑی روح اس بحران سے باآسانی نکل گئی اور یہ بحران اس کے لیے سکینتِ ایمان کی تمہید بن گیا۔
اس سلسلے کے کچھ مسائل یہ تھے:
مسیحی علم کلام کے مطابق فرد کی شخصی قابلیت، انسان کے آزاد ارادے کے فطری اعمال اور فضل خداوندی (جس کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ کب اور کیسے روبہ عمل ہوتا ہے) مل کر اس کی نجات کو ممکن بناتے ہیں۔ گو مختلف ماہرین نے ان مسئلے پر بہت سا کلام کیا ہے مگر انسان کے آزاد ارادے اور فضل خداوندی کا یہ پراسرار تعلق ادراک میں تو کچھ آتا ہے مگر اس گتھی کو حتمی طور پر سلجھانا شاید ممکن نہیں۔ جیسا کہ ہوا کرتا ہے، دیگر بہت سے عقائدی معاملات کی طرح ’’ارادے‘‘ اور ’’فضل‘‘ میں سے کسی ایک طرف غیرمتوازن جھکاؤ بالعموم بدعت کی کسی نہ کسی صورت پر منتج ہوا کرتا ہے، اس بحث میں قدریہ (Pelagians) اگر انسانی اختیار کی برتری اور فضل کی تخفیف کے قائل ہوگئے تو دوسری طرف Calvinists نے ہبوط آدم کے ازلی گناہ کے تصور کے زیراثر ہر قسم کے انسانی اختیار کا انکار کرکے سب کچھ خدائی فضل کے سپرد کر دیا اور جبریہ کی فہرست میں شامل ہو گئے تھے۔
پاسکل کا جس مسیحی فرقے سے تعلق تھا، Jansenism، وہ اس تنازع میں سینٹ آگسٹائن کی ہمنوائی میں کچھ ’’فضل‘‘ والے مؤقف کا حامی تھا۔ مگر بدعت اور گمراہی کی کسی صورت کو بھی حتمی نہیں کہا جاسکتا وہ ہمیشہ نئے انڈے بچے دیتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ عقیدہ کہ نیک اعمال کرنے اور زاہدانہ زندگی گزارنے والوں کو نجات کے حوالے سے کسی ’’بیمار تشویش‘‘ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ’’قدریت‘‘ ہی کی ایک صورت ہے، جو ’’فضل‘‘ کی انکاری اور اصلاّ ’’اختیاری اعمال‘‘ کو ہی حتمی نجات کا ضامن سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس یہ آوازیں بھی اٹھتی رہتی ہیں کہ نیکی و اخلاقی زندگی گزارنے کے تمام مذہبی تصورات اگر ختم ہو جائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو ازل سے نیک طبیعت لے کے آئیں گے وہ نیک اعمال ہی کریں گے اور جو بدطینت ہوں گے وہ لامحالہ بد اعمال ہی ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ ’’جبریت‘‘ ہی کی ایک صورت ہے کیونکہ کسی کی نیک طینتی یا بدفطرتی اسی طرح غیر یقینی اور غیر اختیاری شے ہے جیسے فضل کا تصور۔ یہ مخمصہ پاسکل کے ساتھ بھی رہا! وہ سمجھتا ہے کہ ہبوط آدم کی وجہ سے انسانی فطرت میں جو ایک جوہری گراوٹ آ گئی ہے اس سے نکلنے کا روزن جو انسان کے لیے فضل کی صورت میں کھولا گیا ہے وہ اصل میں انسان کے لئے خدا کا ایک انعام ہے۔ ۱۴ مگر اس مسئلے پر ہم آگے کلام کریں گے۔
جینسنی مسلک (Jansenism) کا ایک مخلص پیروکار ہونے کی وجہ سے پاسکل کا رجحان اسی طرف ہونا چاہیے تھا اور وہ تھا بھی، مگر انسانی بے چارگیوں اور مجبوریوں کا جیسا احساس پاسکل کو تھا وہ محض ایک فلسفی اور ریاضی دان ہونے کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔ بلکہ اس کے اندر ایک راہب اور ایک فنکار کی روح بھی تھی جسکی بدولت وہ اپنے ’’خواطر‘‘ میں انسانی بوالعبیوں کی کچھ پرجلال تصویریں پیش کرنے کے قابل ہوا۔ اس کی سطح اور فکر و دانش کے سلگتے احساسات کی قوت والا آدمی بھلا عام انسان کے حالات و مشاغل، خیالات اور محرکات، خود رائی، خود پسندی، زعم و عُجب، شیخی خوری، اسکی بے ایمانی، خود فریبی، دھوکہ دہیز جذبات کی فریب کاری اور حقیقی خواہشات کی پستی جیسے تضادات سے کیسے صرف نظر کر سکتا تھا؟ اس نے انہیں بالکل نظر انداز نہیں کیا بلکہ ایک فلسفی و سائنسدان سے زیادہ ایک صاحبِ اسلوب ادیب کی سی جلالت شان کے ساتھ ان چیزوں کا اظہار کیا۔ خواطر کے غالباً ایسے ہی مقامات ہیں جو پاسکل کو مونتین کے قریب کرتے ہیں اور جن کی وجہ سے اس کے وجودیت پسند ( existentialist ) ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ خود پسند مگر انانیتی شکستوں سے چُور انسان کے لئے اس نے ’’فضل‘‘ کی کھڑکی کھول کر اس کی نجات کے امکان بحال کیا تھا۔
صرف ۳۹ سال کی عمر میں انتقال کر جانے والے ایک آدمی کے اس مشاہدے اور اس کے متوازن بیان پر تو بس حیرت ہی کی جا سکتی ہے۔ ایسی خوبیوں کیلیے ایک ریاضی اورسائنسدان دان کی عظمت کی نسبت بلا شبہ کچھ زیادہ ہی پختگی درکار ہے۔ ایسی پختگی تو ایک صوفی ایک فنکار ہی کا نصیب ہوتی ہے۔ ذرا دیکھیے تو ’خدا سے منقطع انسان کے مصائب‘ پر غور و فکر نے پاسکل کے اندر کس آسانی سے روحانی گھمنڈ کی معصیت کو تقویت دی ہوگی مگر پھر کس مضبوطی سے اس نے انکسار قائم رکھا۔ اس روحانی کاوش اور کشمکش کے دوران اس نے اگرچہ اتنی ہی طاقت صرف کی جتنی وہ اپنے سائنسی سرگرمیوں میں کیا کرتا تھا لیکن اس کتاب میں وہ کہیں یہ کہتا محسوس نہیں ہوتا کہ دیکھو میں ایک سائنسدان ہوں میں ایسے روحانی اسرار سے واقف ہوں جو تم پر کبھی نہیں کھل سکتے، میں سائنس کے راستے ایمان کی طرف لوٹا ہوں، لہٰذا تم لوگ جو کہ کبھی سائنس میں اتنا رسوخ حاصل نہیں کرسکتے، مجھے دیکھ کر تمہیں بھی ایمان لے آنا چاہیے۔ ۱۵
پاسکل چونکہ ان معاملات کی نزاکت سے پوری طرح آگاہ تھا اس لیے اس نے اپنی سند اور تحکم (اتھارٹی) کو بالکل استعمال نہیں کیا بلکہ اسنے خواطر کے پہلے باب “Thoughts on Mind and on Style” میں ہی جیومیٹریائی/ ریاضیاتی منطقی ذہن اور وجدانی/ عملی ذہن کے طریقِ کار کے فرق سے بات سمجھائی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ریاضیاتی ذہن (اس میں عقل و منطق کو شامل سمجھئے) کے اصول بالکل واضح ہوتے ہیں مگر تجریدی انداز کی ہونے وجہ اور روز مرہ میں استعمال نہ ہونے کے سبب ان کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ہوتی ہے لیکن ذرا سی محنت سے یہ سمجھ میں بھی آ جاتے ہیں لیکن تیکنیکی اور فنی ہونے کی وجہ سے یہ ہر ایک کی دلچسپی کی شے نہیں ہوتے۔ اس کی برعکس وجدانی عملی یا لطیف ذہن ( اس میں دل کو شامل سمجھیے) کے اصول روزمرہ سماجی زندگی میں استعمال ہونے والے ہوتے ہیں آنکھ کے سامنے ہوتے ہیں، بس انہیں دیکھنے والی صحتمند اور صالح آنکھ چاہیے۔ مگر چونکہ یہ اصول نہایت کثیر تعداد میں اور اتنے ہی لطیف نازک اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں کہ اس کثرت اور لطافت کے سبب ہی ان کے نظروں سے اوجھل ہو جانے کا امکان رہتا ہے لہذا ان اصولوں کو بکار لانے کے لئے ایک طرف نہایت ہوشیار آنکھ ضروری ہے تاکہ کوئی جزو نظرانداز نہ ہو اور دوسری طرف ایک دراک ذہن بھی چاہیے تاکہ منطقی مغالطوں کے پیدا کردہ غلط نتائج تک پہنچنے سے بچا جا سکے۔ یہ گویا جز در جز شے کو دیکھتے ہوئے اور پورے آفاق کو بیک آن و بیک نظر گرفت میں لانے کا فن ہے۔ تمام ریاضیاتی ذہن وجدانی و عملی لطافت کے حامل ہوسکتے تھے اگر ان کی نظر درست ہوتی، کیونکہ وہ اپنے جانے بوجھے اصولوں کی بدولت غلط استدلال نہیں کیا کرتے۔ اسی طرح تمام وجدانی ذہن ریاضیاتی ہو سکتے تھے بشرطیکہ وہ ریاضی کے مجرد اصولوں کو کام میں لا سکتے جن کے کہ وہ عادی نہیں ہوتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بعض وجدانی ذہن ریاضی کے مجرد اصولوں کو کام میں لانے کے اہل نہیں ہوتے اور ریاضیاتی ذہن بالکل سامنے کی چیزوں کو تب تک نہیں دیکھ پاتے جب تک ریاضیاتی مساواتوں میں انکا تجزیہ نہ کرلیں۔ وجدانی و عملی ذہن ایسے لطیف ارسامات کو محسوس کر لیتے ہیں جنہیں کی وضاحت مشکل اور ثبوت مشکل تر ہوتا ہے۔ مگر ریاضیاتی و منطقی ذہن کے لوگ عام روزمرہ کے محسوساتی وجدانی معاملات کو بھی ریاضیاتی تجرید میں ڈھال کر انہیں مضحکہ خیز بنا دیتے ہیں۔
پاسکل عقل و فہم کی بھی دو قسمیں بتاتا ہے: صحیح فہم کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ بعض کو چند مخصوص معاملات میں صحیح تفہیم ہوتی ہے مگر دوسروں میں نہیں۔ وہاں یہ گمراہ ہوجاتی ہیں۔ بعض محض چند ایک مقدمات میں درست نتائج اخذ کر کے بہترین فیصلہ کرتی ہیں۔ اور بعضے صرف اسی صورت میں درست فیصلہ کرتی ہیں جہاں بہت سارے مقدمات ہوں۔ مثال کے طور پر سابق الذکر فہم والے آسانی سے کوئی تکنیکی مہارت سیکھ لیتے ہیں کہ اسمیں مقدمات بہت کم ہوتے ہیں یہاں ان کے نتائج اتنے اعلی ہوتے ہیں کہ صرف اعلی درجے کی باریک بینی ہی ان نتائج تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے باوجود یہ افراد شاید بڑے ریاضی دان نہیں ہوسکتے کیوں کہ ریاضی میں بہت بڑی تعداد میں مقدمات کی بنا پر نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں شاید ایک ایسی عقل کار فرما ہوتی ہے جو بڑی آسانی سے چند مقدمات کے ساتھ تہہ کو پہنچ جاتی ہے مگر ان معاملات میں داخل نہیں ہوسکتی جہاں مقدمات زیادہ ہوتے ہیں۔
پس عقل کی دو اقسام ہیں: ایک قسم وہ جو نہایت صحت کے ساتھ دیے گئے مقدمات کے نتائج کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے۔ یہی صحیح (Precise) عقل ہے۔ دوسری وہ جو بہت سارے مقدمات کو ایک دوسرے میں مدغم کئے بغیر فہم کی گرفت میں لے آتی ہے یہ ریاضیاتی عقل ہے۔ ایک میں قوت اور قطعیت ہوتی ہے تو دوسری میں فہم اور سوجھ بوجھ ہے۔ ایک، دوسرے کے بغیر موجود ہوسکتی ہے۔ عقل مضبوط اور تنگ ہوسکتی ہے ، اور یہ جامع اور کمزور بھی ہوسکتی ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کند ذہن لوگ نہ وجدانی ہوتے ہیں نہ ریاضیاتی۔ ۱۶
پاسکل کے نزدیک غیر ریاضیاتی، غیر عقلی اور غیر تجزیاتی ہونے کے بجائے غیر وجدانی اور احساسات سے عاری ہونا زیادہ بڑی ناکامی ہے۔ اس سارے پس منظر میں وجدانی ذہن کی مثال مونتین ہے جو تجریدات کے بجائے ٹھوس سماجی حقائق وانسانی مسائل پر نظر رکھتا ہے اور زندگی کی بولعجبیوں کو سمجھتا ہے جبکہ ریاضیاتی ذہن کا نمونہ ڈیکارٹ ہے جو صرف اس وقت استدلال کر سکتا ہے جب اس کے سامنے واضح تعریفات، مفروضات اور اصول موضوعہ ہوں۔ مجرد ریاضیات کے بجائے ٹھوس انسانی حقائق کی بنیاد پر کام کرنے کا یہی امتیاز پاسکل کو اپنے معاصرین میں سے مونتین کے قریب اور ڈیکارٹ سے دور کرتا ہے۔ اس کا ذہن ڈیکاٹ کی طرح سائنسی مگر جذبہ مونتین کی طرح التہابی تھا۔ ذہن اور جذبے کی اسی ہم آہنگی کی وجہ سے وہ مونتین کے برعکس ریاضیاتی سرگرمیوں میں بھی بے مثال تھا اور خدا شناسی میں بھی ڈیکارٹ کی نسبت کہیں زیادہ بااعتبار ہوا!
یہ بھی پڑھئے:
ہم نے جو بھلا دیا، پاکستان کی سچی تاریخ
وہ جن کی بند قبا پانامہ نے تار تار کی
جیسا کہ اشارہ کیا گیا پاسکل کے زمانے کے مسیحی علم کلام کا ایک اہم مسئلہ جبر و قدر کے مابین توازن کی تلاش تھا۔ جبریت اور قدریت کے بین بین اس نے جو راہ نکالی وہ یہ تھی کہ ہبوطِ آدم کے لازمی مضمرات کے طور پر انسانی نہاد میں جو گراوٹ پیدا ہوگئی ہے، وہ صرف و محض اپنی استعداد کی بل بوتے پر اخروی نجات کے لئے نا کافی ہے اس لیے خدا کی مشیت میں انسان کےلئے جب کچھ اچھا کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو وہ اپنے فضل سے انسان کے لیے نیکی کی راہ ہموار کر دیتا ہے جس کے بعد انسان کے گویا “اپنے” عمل سے اس کے لیے راہِ نجات ہموار ہوتی جاتی ہے۔ آدم اور اولادِ آدم آزاد اختیار کے مالک ہیں۔ آدم مائل بہ نیکی تھے لیکن اولادِ آدم مائل بہ شر رہتی ہے۔ مگر اس کے باوجود انسان کی نجات کیسے ممکن ہے اس کے لیے پاسکل کے قلمی نام سے لکھے گئے گئے اٹھارہ خطوط کے مجموعے The Provincial Letters (صوبائی خطوط) کے خط نمبر ۱۸ کو پڑھنا چاہیے جو سینٹ آگسٹائن کے تصور جبر اور فضل کا بہترین بیان ہے: انسان ، اپنی فطرت کے مطابق ، ہمیشہ گناہ کرنے اور فضل کے خلاف مزاحمت کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اپنے طبعی فساد کے وقت سے ہی اس کے اندر شہوت و مستی کی نبختی گہرائی ہوتی ہے جو مزاحمت کی اس طاقت کو لامحدود حد تک بڑھا دیتی ہے۔ اس کے باوجود جب خدا کی رضا ہو کہ اس کی رحمت انسان کو چھوئے تو انسان کی فطری آزادی کو متاثر کئے بغیر خدا کی قدرت کاملہ اسے وہ کرنے دیتی ہے جو وہ چاہے اور جس طرح وہ عمل کرے۔۔۔ یہ ہے وہ پر حکمت طریقہ جس سے خدا انسان کی آزادئ عمل پر وجوب مسلط کئے بغیر اسے راہ دیتا ہے اور انسانی اختیار، جس میں خدائی فضل کی بالقوہ مزاحمت کرنے کی خو پائی جاتی ہے مگر وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرنا چاہتا، اپنی آزادی سے، بنا چوکے، خدا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ جبر، تقدیر، انسانی اختیار، خواہش اور فضل خداوندی میں تطبیق کا یہ وہ اسلوب ہے جس کے مماثل آرا ہمیں پاسکل سے قبل اور بعد کے مسلمان صوفیاء میں بھی مل سکتی ہیں۔ ۱۷
ایلیٹ کا کہنا ہے کہ پاسکل دنیا داروں میں زاہد اور زاہدوں میں ایک دنیا دار آدمی تھا۔ اسے دنیا داری کا پورا علم تھا اور اس کے اندر ترک دنیا کے لیے ہمہ وقت جوش و جذبہ بھی کار فرما تھا۔ اس کی ذات میں یہ دونوں چیزیں ــ زہد اور دنیاداری ـ ایک کلیت کی صورت اکٹھا ہوکر اکائی میں ڈھل گئی تھیں۔ اس کا طریقِ کار ایک ایسے صاحب ایمان کا منہاج تھا جو عقل کو کسی طور پر معطل نہیں کرتا بلکہ اسے ایمان کی خدمت میں مطیع کر کے رکھتا ہے۔ ایک صاحب ایمان اور ایک ملحد میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ ایک کامل صاحب ایمان آدمی بیرونی کائنات اور باطن کی اخلاقی دنیا کی تعبیر کسی غیر مذہبی نقطہ نظر سے کر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ سب وہ عقل کی پوری روشنی میں کرتا ہے وہ عقل کو معطل کر کے زندہ نہیں رہتا بلکہ زندگی اور کائنات کے ہر پہلو کی تعبیر عقل کی پوری معاونت کے ساتھ کرتا ہے۔ مگر ایک ملحد کے لیے یہ طریقہ کار خاصا غیر تسلی بخش ہوتا ہے۔ اسے جس وقت کائنات کی جو بھی تعبیر مطمئن کرے وہ اس کے ساتھ ہولیتا ہے۔ کائنات کی بے نظمی اسے پریشان نہیں کرتی۔ اسے کچھ اقدار کی پابندی بھی نہیں کرنی پڑتی لہذا بایں اعتبار تو وہ سکھی رہتا ہے مگر من کھنڈر کی ہولناکیاں اس کے لیے جب ناقابل برداشت ہو جائیں تو اس کا آخری سہارا خودکشی کے سوا کچھ نہیں ہوتا جبکہ پاسکل جیسے ریاضی دان کا طریقہ ایک صاحبِ ایمان کی سکینت مآبی اور ایمان کے آگے عقل کی اطاعت گزاری کا راستہ ہے ۔ اس کے برعکس متشککین و ملحدین کا جو طریقہ ہے اس کی نمائندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے والٹیئر (۱۶۹۴ء – ۱۷۷۸ء) نے کردی ہے۔ اس نے پاسکل کو رد کرنے کیلیے جو طریقہ اختیار کیا اس نے ایمان کو جھٹلانے کا منہاج ہمیشہ کے لئے متعین کر دیا ہے۔ ان کے بعد آنے والوں کو ان دونوں میں سے کسی ایک طریقے کا انتخاب کرنا ہوگا: بس پاسکل یا والٹیئر! پاسکل ان لکھنے والوں میں سے ہے جسے ہر نسل کو نئے انداز سے پڑھنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ تبدیل ہوتا ہے بلکہ یہ کہ ہم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ اس کے بارے میں ہمارا علم تبدیل ہوتا ہے بلکہ یہ کہ دنیا تبدیل ہوتی ہے اور دنیا کے بارے میں ہمارے رویہ بدلتے رہتے ہیں۔ یہی وہ شے ہے جو الحاد و ایمان کی روز افزوں کشمکش میں پاسکل کو آج بھی ہمارے لیےبامعنی ہے۔ ۱۸
اپنے ہمعصر پاسکل کی طرح ڈیکارٹ (۱۵۹۶ء – ۱۶۵۰ء) بھی خدا کا قائل تھا اور اس کی طرح یہ بھی سمجھتا تھا کہ خدا کے وجود کو عقلی استدلال سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مگر پاسکل کے نزدیک خدا مقصود بالغیر نہیں بلکہ مقصود بالذات تھا جبکہ ڈیکارٹ کے بارے میں پاسکل کا خیال تھا کہ وہ خدا کو اس طرح نہیں مانتا تھا۔ اسی لیے اس نے خواطر میں ڈیکارٹ کے بارے میں جو چند ایک جملے ہیں ان میں اس کی کمزور ترین رگ پر انگلی رکھ دی ہے:
وہ جنہوں نے سائنس کو گہرے مطالعے کا موضوع بنایا ان میں سے ایک ڈیکارٹ ہے، ان کا ردّ ضروری ہے۔ میں ڈیکارٹ کو معاف نہیں کر سکتا اپنے سارے فلسفے میں تو وہ خدا کے بغیر ہی کام چلانے پر راضی رہا مگر صرف کائنات کو حرکت میں لانے کے لیے اسے خدائی ہاتھ کوجنبش کی اجازت دینا پڑی۔ اس سے آگے اسے خدا کی مزید کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ۱۹
اسی طرح کانٹ (۱۷۲۴ء–۱۸۰۴ء) کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ اس کے نزدیک بھی عقل سے خدا کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن اخلاقی زندگی کو بنیاد مہیا کرنے کے لیے خدا کے تصور کو وہ ضروری خیال کرتا ہے۔ ۲۰ گویا خدا کو صرف اس لیے مان لینا چاہیے کہ اس کی بدولت پاکیزہ اخلاقی زندگی بسر کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسے ہی خیالات دستوئفسکی کے ایوان کرامازوف کی عقلیت پسندی بھی اسے سجھاتی ہے کہ ’اگر خدا نہ ہوتا تو اسے ایجاد کرنا پڑتا‘ کیونکہ ’باغی ہو کر جینا مشکل ہے‘۔
اس سارے پس منظر میں پاسکل کے تصور خدا کی معنویت، جواز اور اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔ خدا کو صرف اس لیے ماننا چاہیے کہ وہ ’ہے‘ اور وہ مقصود بالذات ہے۔ ڈیکارٹ کے خیال کے مطابق اگر خدا صرف کائنات چلانے کے لیے ضروری ہو، یا کانٹ کی طرح انسان کی اخلاقی زندگی کے لئے خدا لازم ہو، یا اس لئے ضروری ہو کہ دوستوئفسکی کے ایوان کو بغاوت کی اذیت سے نجات مل سکے تو ان تصورات کے زائیدہ خدا کی حیثیت صرف ایک سہولت کار کی ہے۔ ایسے خدا کو ماننے میں تو آج کل مابعد جدید مارکسی بھی کوئی مذائقہ نہیں سمجھتے۔ گویا خدا نہ ہوا بلکہ یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے والا سستا سا نشہ ہو گیا جو مشکل سوالات اور ضمیر کی خلش کو تھپکیاں دے کر سلانے کے کام آتا ہے۔ اس طرح کے تصور خدا میں خرابی یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ اس کے بغیر بھی خوش و خرم زندگی زندگی گزار سکتے ہوں تو پھر ان کو خدا کی ضرورت ہی نہیں۔ آج کی سیکولر اخلاقیات کا حال بھی بس یہی کچھ ہے: یعنی اگر کسی کا خدا کے بغیر گزارا نہیں ہوتا تو وہ اپنا چوما چاٹا یعنی سجدہ و ڈنڈوت وغیرہ کر لیا کرے لیکن روزمرہ کے مؤثراتِ حیات اور نظمِ اجتماعی میں خدا کو ہرگز نہ گھسیٹے۔ ڈیکارٹ کہ جسے خدا کی ضرورت محض کائنات چلانے کے لئے پڑی، اور کانٹ کہ جسے خدا کی احتیاج صرف اخلاقی زندگی کے لئے محسوس ہوئی، ان دونوں کا تصور خدا مقصود بالغیر کے طور پر تھا۔ ان دونوں کے برعکس روح کی گہرائیوں تک ایک سچے انسان کے طور پر پاسکل کا خدا مقصود بالذات اور مطلوب فی الاصل تھا جو آفاق سے انفس تک اور وجود سے شعور تک ہر سطح کیلئے یکساں باعثِ سیرابی اور موجبِ شادابی ہے۔
ڈیکارٹ کے بارے میں مذکورہ بالا سخت ترین رائے دینے کے بعد اس سے اگلے پیرے میں ہی پاسکل نے ایسے سادہ لوحی سے باتیں کرنے والوں کا مضحکہ لنگڑے اور احمق کی تمثیل سے اڑایا ہے:
آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک لنگڑا ہمیں دق نہیں کرتا مگر ایک احمق ہمیں بہت کھلتا ہے؟ اس لئے کہ لنگڑا یہ جانتا ہے کہ ہم سیدھا چلتے ہیں مگر احمق یہ جتلاتا ہے کہ یہ ہم ہیں جو بیوقوف ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم احمق پر غصہ نہ کیا کرتے بلکہ اس پر ترس کھاتے۔
اسی بات کو وہ یوں آگے بڑھاتا ہے کہ اگر کوئی ہمیں بتائے کہ تمہارے سر میں درد ہے یا تم لنگڑے ہو تو ہم ناراض نہیں ہوتے، لیکن کوئی ہمیں کہے کہ تم غلط سوچتے یا غلط انتخاب کرتے ہو تو ہم ناراض ہوتے ہیں۔ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ ہمیں سر درد نہیں ہے، لیکن اس درجے کا یقین ہمیں کسی شے کا انتخاب کرتے ہوئے نہیں ہوتا کیوں کہ ہم جیسی ہی عقل اور سوج بوجھ استعمال کرتے ہوئے کوئی دوسرا اس کے برعکس بھی انتخاب کرتا ہے۔ یہ شے ہمیں اپنے موقف کے بارے میں تجسس، حیرت اور شک میں ڈالتی ہے اس لیے ہمیں اس پر غصہ آتا ہے لیکن سر درد یا اپاہچ ہونے کے معاملے میں ہمارے جذبات کبھی اس طرح کے تضاد یا عدم یقین کا شکار نہیں ہوتے! ۲۱
اب کچھ باتیں پاسکل اور وجودیت پر۔۔
ہم نے مضمون کے آغاز میں پاسکل اور وجودیت کے حوالے سے کچھ باتیں کی تھیں۔ اب ہم پھر اسی کی طرف لوٹتے ہیں۔ مگر پہلے خواطر سے پاسکل کا ایک خوبصورت اور ادبی معنویت کا حامل یہ ’’وجودیتی‘‘ اقتباس دیکھیے:
انسان محض ایک سرکنڈا ہے، فطرت کی سب سے کمزور چیز۔ وہ صرف سوچنے والا سرکنڈا ہے۔ اس کو کچلنے کیلئے کائینات کو ہتھیار بند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک بخار، پانی کی ایک بوند اسے مارنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن، اگر کائنات اسے کچل ڈالتی، انسان تب بھی اپنے قاتل سے زیادہ بلند مرتبہ ہوتا کیونکہ وہ اپنی موت کو جانتا ہے اور اس حوالے سے کائنات، اس سے بڑے ہونے کا تفوق رکھنے کے باوجود، اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ بس ہمارا سارا وقار اور عظمت ہمارے سوچنے میں ہے۔ اس کے ذریعہ ہمیں خود کو بلند کرنا چاہئے ، نہ کہ زمان اور مکان کی بنیاد پر جسے ہم کبھی بھر نہیں سکتے۔ آئیے ، ہم اچھا سوچنے کی کوشش کریں۔ یہی اصولِ اخلاق ہے۔ ۲۲
پاسکل کی اس وجودیت کو بیسویں صدی کی وجودیت کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سوال ہے کہ اگر ایگزسٹنشلزم کی ژاں پال سارتر کی ( ۱۹۰۵ء- ۱۹۸۰ء) ’’وجود جوہر پر مقدم ہے‘‘۲۳ والی یہ تعریف درست ہے تو پھر پاسکل جو انسان کو آزاد بھی مانتا ہے اور مجبور بھی جس کے نزدیک عقل بھی ابر آلود ہوتی ہے اس لئے اصل فیصلہ کن عامل خدائی فضل ہی ہے نہ کہ انسانی عمل تو پھر پاسکل جیسے ’’فضلی‘‘ کو وجودی کیسے کہا جا سکتا ہے؟؟
اس سوال کا کچھ جواب ہمیں وجودیوں کے ذمہ داری والے تصور میں مل سکتا ہے۔ ان کے نزدیک چونکہ انسان دنیا میں اس کی خواہش اور مرضی کے بغیر پھینک دیا گیا اس لیے اس لئے خواہی نہ خواہی وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔
Man is condemned to be free; because once thrown into the world, he is responsible for everything he does. 24
’’اس جبری آزادی‘‘ سے اس کے اندر ذمہ داری کا ہولناک احساس، ’’وجودی کرب‘‘ (Existential angst)، پیدا ہوتا ہے۔ یہ تو سارتر کا تصور ہوا۔ اس کے دوست اور بعد میں اس سے فکری علیحدگی اختیار کرنے والے البرٹ کامیو نے، جو وجودیوں کا دوسرا بڑا امام ہے، The Myth Of Sisyphus میں دنیا اور اس میں انسانی صورتحال کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اور بھی دلچسپ ہے۔ البرٹ کامیو یہاں اس لیے بھی زیادہ بامعنی ہے کہ ’’وجودی کرب‘‘ سے نجات کے لئے ایمان کا راستہ اختیار کرنے کو وہ فلسفیانہ خودکشی کہتا ہے اور یہ بات پاسکل کے ایمانی تصور سے بالکل متضاد ہے! البرٹ کامیو کا کہنا ہے کہ میں دنیا کو دیکھ چکنے اور چھو کر اس کے موجود ہونے پر کوئی رائے قائم کر سکتا ہوں اور بس اس سے آگے میرا علم ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد جو کچھ ہے وہ بس ایک تشکیلیہ ہے۔
This world I can touch and I likewise judge that it exists. There ends all my knowledge, and the rest is construction. For if I try to seize this self of which I feel sure, if I try to define and to summarize it, it is nothing but water slipping through my fingers۔ 25
یہ کائنات بس ’ہے‘، اس میں نہ کوئی معنویت ہے اور نہ کسی عقلی دلیل سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں انسان ایک ازلی بے معنی بیگار کاٹنے کے لئے آیا ہے۔ البرٹ کامیو کے نزدیک دنیا کی لایعنیت (ایبسرڈٹی) کی بہترین تمثیل سیسیفس (Sysiphus) ہے جسے دیوتاؤں نے ایک چٹان کو چوٹی پر پہنچانے کی مستقل مشقت پر لگا رکھا تھا۔ بھنچے چہرے اور بچکے گالوں والے سسی فیس کا کندھوں پر چٹان اٹھا کر چوٹی پر جانا پھر پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بے بسی سے اسے نیچے لڑکھتے دیکھنا اور ہزارویں لاکھویں دفعہ پھر اسے اوپر لے جانے کا عمل، کامیو کے نزدیک لایعنیت کی علامتی تمثیل ہے اور ازل سے جاری اس ڈرامے کا ابسرڈ ہیرو سسیفس ہے۔ جب وہ بے کسی سے نیچے لڑکھتے پتھر کو دیکھتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کی یہ مشقت کب تک جاری رہے گی تو یہ لمحۂ کرب اس کیلئے لمحۂ شعور ہوتا ہے جو مقدر پر اسکی فضیلت کا ضامن بنتا ہے۔ یہ کہانی اگر ایک المیہ اسطورہ ہے تو صرف اس لیے کہ اس کا ہیرو باشعور ہے۔ دنیا میں آج کا مشقتی انسان بھی اسی غیر مختتم لایعنیت کا شکار ہے اور وہ علامتی ابسرڈ ہیرو سسیفس سے کسی طرح کم ابسرڈ نہیں ہے۔ سسیفس اپنے دیوتاؤں کا پرولتاری تھا اسی کی طرح آج کا انسان بھی اپنے ماحول میں نامختتم مشقت اور لایعنیت کی اذیت کے شعور کی وجہ سے اپنے سر پر فتحمندی کا تاج رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ بے معنی ہے مگر اس کے باوجود وہ اس سے نظریں نہیں چراتا، لایعنیت کی اذیت کو پورے شعور کے ساتھ قبول کرکے آزادی اور کامرانی پاتا ہے۔ ۲۶
پاسکل کے درج بالا اقتباس ’’انسان محض ایک سرکنڈا ہے۔۔۔‘‘ کو اگر سارتر اور کامیو کے زمہ داری اور شعور کے ان تصورات سے موازنہ کر کے دیکھا جائے تو پاسکل کی وجودیت اور بیسویں صدی کی وجودیت میں ہمیں انسانی فضیلت کی بنیاد علم اور شعور نظر آتا مگر اس علم اور شعور کی بنیاد پر دنیا اور کائنات کے بارے میں رویہ اختیار کرنے کے معاملے پر پاسکل اور کامیو وغیرہ میں لاکھوں فرسنگ کا اختلاف ہے۔ پاسکل بیرونی کائنات سے اپنے علم کے امتیاز کی بنیاد پر کائنات سے بلند ہوکر ماورا سے اپنا تعلق پیدا کرنے کا سامان نکالتا ہے جس کا دوسرا مطلب خدا پر ایمان ہے جبکہ اس کے برعکس ملحد (atheist) وجودیوں کے نمائندے کے طور پر کامیو کے نزدیک ایمان ایک طرح کی خودکشی ہے جس سے وہ جسمانی خودکشی کے مقابلے ’’فلسفیانہ خودکشی‘‘ کہتا ہے۔ خودکشی اور فلسفیانہ خودکشی کے بارے میں اپنے ’’سسفس اسطورہ‘‘ میں البرٹ کامیو نے جا بجا کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہوں اس کے دو اجزاء بعنوان Absurdity and Suicide اور Philosophical Suicide۔ خودکشی کے مسئلے سے پہلے کامیو کے لایعنیت/ ایپیسرڈ کے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کے مطابق انسان کے اندر زندگی اور کائنات کی حتمی معنویت کا سراغ لگانے کی انتھک خواہش ہے مگر تمام تر عقلی کاوشوں کے باوجود انسان کو جب اس کا کوئی بامعنی جواب نہیں ملتا تو اس کے اندر ایک مایوسی پیدا ہوتی ہے اس مایوسی کی شناخت لایعنیت سے ہوتی ہے۔ اس مہملیت /ایبسرڈٹی کا حاصل ایک ہولناک جذبہ خوف، دہشت یا وجودی کرب ہے۔ مگر اصل سوال اس جذبے کے ساتھ نباہ کر سکنے اور اس کے قوانین کو قبول کرسکنے کا ہے۔ ۲۷
اپنی تمام تر عقلی کاوشوں کے باوجود انسان کو جب کائنات میں کسی معنویت اور مقصدیت کا سراغ نہیں ملتا تو اس ایبسردٹی کے کرب کی سہار نہ پا کر بعض لوگ خود کشی کرتے ہیں اور بعض مذہب میں پناہ لیتے ہیں۔ کامیو ان دونوں صورتوں کو حقیقت سے فرار اور برا سمجھتا ہے(اگر کوئی خدا کو نہیں مانتا تب بھی اس کے لیے خود کشی جائز نہیں۔ مقدمہ سسیفس)۔ جسمانی خودکشی اس لیے بری ہے کہ یہ ذہن یعنی آلہ شعور کو ختم کردیتی ہے جسکا کام عقلی بنیاد پر کائنات کی معنویت کی تلاش میں وجودی کرب کی نا بجھنے والی آگ میں جلتے ہوئے ظفرمندی کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔ یہ گویا دیوتاؤں کے خلاف انسان کی بغاوت ہے جو لڑتے لڑتے موت سے ہم کنار ہوئے والے آدمی کا احساسِِ تفافر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایمانی زقند(leap of Faith ) یعنی مذہبی مفہوم میں خدا پر ایمان لانے کو کامیو فلسفیانہ خودکشی کہتا ہے۔ فلسفیانہ خودکشی کو کامیو اس لیے ناپسند کرتا ہے کہ یہ شعور کے لازمی اقتضا یعنی لایعنیت کے روبرو ڈٹ کر رہنے والے استدلالی عمل اور عقلی فعلیت کو معطل کرنے کاراستہ ہے۔ کامیو نا لایعنیت سے آنکھیں چرانے والے کسی ارضی اخلاقی نظرئیے کو قبول کرنے کا حامی ہے اور نہ ایمانی زقند والی سماوی حیات ابدی والے تصور کو قبول کرنے پر راضی ہے۔
یہاں یہ سوال بجا طور پر اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب دنیا مہمل/ ایبسرڈ ہے ہر قسم کی معنویت، مقصدیت اور اخلاقی قدر سے خالی ہے اور عقل کی مدد سے اس میں کوئی معنویت پیدا بھی نہیں کی جاسکتی تو پھر ایسی کٹھور دنیا میں انسان کس برتے پر اور کبتک لایعنیت کا جوا گلے میں ڈالے کولھو کا بیل بن کر زندہ رہ سکتا ہے؟ ایبسرڈ ہیرو کو رومانویت کے سنگھاسن پر جتنا چاہے چڑھایا جائے، حقیقت یہ ہے کہ لایعنیت کا یہ بوجھ زیادہ دیر تک سارتر اور کامیو خود بھی نہیں ڈھو سکے تھے۔ تنگ آکر ایک(سارتر) نے مارکسییت کی نظریہ بازی میں پناہ لے لی اور دوسرے(کامیو) کی ’’انسان دوستی‘‘ نے الجزائری مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کر کے الجزائر کی تحریکِ حریت کی مخالفت اور فرانس کے استعماری عزائم پر خاموشی شعار کرکے اپنا ایک ’’مقصد‘‘ ایجاد کرلیا تھا۔ ایسی مزے کی انسان دوستی پر کون نہ مر جائے اے خدا!
محمد حسن عسکری (۱۹۱۹ء-۱۹۷۸ء) جو ویسے البرٹ کامیو کی ادبی وسماجی حسّیت کے بہت قائل تھے اور ادیب کی سماجی ذمہ داری کے مسئلے پر کامیو کی ادبی تحریروں کو بطور مثال پیش کیا کرتے تھے مگر جب اس نے فرانسیسی نوآبادیات سے الجزائر کی جنگ آزادی(۱۹۵۴-۱۹۶۲) کے دوران اپنے آبائی وطن الجزائر کے بجائے فرانسیسی استعمار کا ساتھ دینا شروع کیا تو سن ۱۹۵۷ء ۱۹۵۸ء کے اپنے متعدد مضامین میں عسکری نے کامیو کی اس دو عملی/ منافقت پر کھل کر آواز اٹھائی تھی۔ ۲۸ اسی طرح ایڈورڈ سعید (۱۹۳۵ء -۲۰۰۳ء) نے بھی ۱۹۹۳ء میں چھپنے والی اپنی کتاب ثقافت اور استعمار میں کامیو کے ناولوں میں الجزائر کے ’’بے نام و بے چہرہ‘‘ عرب کرداروں کے تجزیے کے ذریعے البرٹ کامیو کی خاموش استعمار پرستی پر سوال اٹھائے ہیں اور اس سے پہلے استشراق میں بھی اس پر کلام کر چکا تھا۔ ۲۹ سوال ہے کہ اس اندھی بہری اور شعور سے عاری کائنات کے مہیب اور بے کراں سناٹے میں بھٹکتے انسان کو اگر پاسکل ماورا کا راستہ دکھائے تو اسے فلسفیانہ خودکشی کیوں قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ ’’وجودی کرب‘‘ کا انجام صرف خودکشی یا زیادہ سے زیادہ کسی جعلی مقصد ایجادی کے سوا کچھ نہیں؟
جدید وجودیوں کے ہاں کائنات اور زندگی کا بنیادی اصول لامعقولیت (Irrationalism) ہے جبکہ پاسکل جیسے لوگ عقل کو رد کرنے کے بجائے اس کی محدودیت کے سبب دل سے رہنمائی پانے کا چینل کھلا رکھتے ہیں۔ ان دونوں رویوں میں بہت بنیادی فرق ہے: جدید لامعقولیت، جس کی طرف ابتدائی مگر نہایت پر اعتماد قدم، جدیدیت کے آخری سانسوں کے زمانے میں بلاشبہ، ایگزسٹنشنلسٹوں نے اٹھائے مگر جسے آخری حدوں تک مابعد جدید مفکرین لے گئے، کا المیہ یہ ہے جب یہ منہ کے بل گرتی ہے تو پھر آگے کا کام جذبے اور حیوانی جبلتیں سنبھال لیتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پاسکل جیسے لوگوں کا طریق کار نیچے گرنے کی بجائے ہمیشہ اوپر کیطرف اٹھنے کا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج کے ذہن کے لیے دل کی منطق والی بات کوئی عجوبہ ہو لیکن دیگر تہذیبوں کی طرح قرون وسطیٰ کی مسیحی تہذیب بھی دل کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے والی تہذیب تھی۔ خواطر میں اس طرح کے خیالات اکثر ملتے ہیں:
دل کی اپنی عقلیں ہوتیں ہیں، جنہیں عقل نہیں جانتی۔ ہم یہ ہزاروں چیزوں میں محسوس کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ دل فطری طور پر وجود کلی سے پیار کرتا ہے، اور بالکل فطری طور پر کچھ چیزوں کو یہ اپنا آپ بھی دے دیتا ہے اور اپنی مرضی سے ہی کسی ایک یا دوسری شے کے خلاف سخت ہوجاتا ہے۔ تم نے ایک کو مسترد کردیا ہے اور دوسرے کو رکھا ہے۔ تم جو خود سے محبت کرتے ہو تو کیا یہ عقل کی بنیاد پر ہوتا ہے؟
یہ دل ہے جو خدا کو محسوس کرتا ہے نہ کہ عقل۔ پس یہ ایمان ہے: خدا کو دل نے محسوس کیا ہے نہ کہ عقل نے۔
ہم سچائی کو نہ صرف عقل سے جانتے ہیں بلکہ دل سے بھی جانتے ہیں ، اور یہ آخر والا ہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اصول اولیہ کو جانتے ہیں۔ اور عقل جس کا اس معاملے میں کوئی حصہ نہیں ہے وہ انہیں رد کرنے کی ناحق ہی کوشش کرتی ہے۔ متشککین جن کے پاس اپنے مقصد کے لیے بس یہی عقل ہے بیکار ہی مشقت جھیلتے ہیں۔۳۰
اب ہم اپنے اس بنیادی سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ پاسکل کو کس حد تک وجودی (Existentialist) قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیکراں کائنات کی وسعتوں میں ذرے کی سی حیثیت والے انسان کی نوحہ گری کرنے اور خدائی فضل کی بنیاد پر آزادی پاکر اپنی ’’ذمہ داری‘‘ اور ’’عمل‘‘ سے مفر نہ پاسکے والا تصورِ انسان رکھنے کی وجہ سے پاسکل بے شک وجودی ہے۔ اس کے علاوہ پاسکل میں اور بیسویں صدی کے وجودیوں میں کوئی شے مشترک نہیں۔ اس طرزِ وجودیت میں اگر کوئی شخص پاسکل کے کچھ قریب پہنچا ہے تو وہ کیرکےگور ہے۔ ولیم بیریٹ(۱۹۱۳ء-۱۹۹۲ء) نے کیرکے گور کے بارے میں لکھا ہے کہ اپنے آبائی شہر کوپن ہیگن کے گلی کوچوں میں اپنی جھکی کمر، بدقطع جسم اور بدوضع حلیے و ہئیت کذائی کیساتھ جب وہ نکلتا تو قصبے کے لونڈے لپاڑے اس کبڑے کے پیچھے اچھلتے کودتے شور مچاتے “Either/or! Either or“ کے نعرے لگاتے جاتے مگر وہ گردو پیش سے بے نیاز اپنی سوچوں میں گم بجھگاہ بنا چلتا رہتا مگر ہیگل کا ذکر آتا تو وہ بپھر کے ننگی تلوار بن جاتا! اس کا معروف جملہ ہے:
It was intelligence and nothing else that had to be opposed. Presumably that is why I, who had the job, was armed with an immense intelligence.
بغیر کسی بناوٹی انکسار اور بنا کوئی شیخی بگھارے اس نے اپنے بارے میں کتنی سچی بات کہہ دی ہے۔۔۔ بیرٹ کا کہنا ہے کہ وہ عقل کی بے توقیری بالکل نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس وہ اس کا ذکر احترام بلکہ تعظیم کے ساتھ کرتا ہے۔ تاہم تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر، بہترین عقلی قویٰ سے لیس کسی آدمی کی طرف سے تمام تر دستیاب وسائل اور طاقت کے ساتھ، عقل کی مخالفت ضروری تھی۔ اس سلسلے میں اس نے جو کامیابی حاصل کی اور جو کر دکھایا اس سے بہتر کچھ اور ممکن نہیں تھا! ۳۱
کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی میں سائنس کو عالم طبیعی میں اس کی تگ و تاز کے حتمی اور غیر متبدل تیقن سے باہر نکال کر عجز کی راہ پر رکھنے کا فریضہ کارل پاپر کے اصولِ بطلان و تغلیط (Falsification) نے سر انجام دیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دورِ جدیدیت کی مزعومہ سب سے افضل انسانی صلاحیت، عقل، کو اسکی نارسائی کا یہ سبق بھی صدیوں پہلے پاسکل نے پڑھایا تھا:
عقل کی انتہائی فعلیت یہ تسلیم کرنا ہے کہ چیزوں کی ایک لامحدود تعداد ہے جو اس کی حد سے باہر ہے۔ اب تک اگر وہ یہی نہیں جان سکی تو پھر یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن اگر طبعی چیزیں ہی اس کی حدِ رسائی سے باہر ہیں تو مافوق الطبیعت کا کہنا ہی کیا!۔۳۲
عسکری سے مستعار ایک خیال کیمطابق کامیو اور دوسرے غیر مذہبی وجودی جب عقل کا انکار کرتے ہیں تو وہ نیجے حیوانی جبلتوں کے پاتال میں گرتے ہیں۔ ۳۳ جبکہ پاسکل جیسے اصحاب عرفان جب انسانی عقل کی محدودیت سے نکلتے ہیں تو بجائے پستی میں اترنے کے وہ اوپر ہی اٹھتے ہیں۔
ولیم بیرٹ نے پاسکل کے تصور خدا پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کہ اس کے نزدیک ہر زمانے میں ایسے ذہین لوگ موجود رہتے ہیں جو خدا کے وجود کے دلائل کو انتہائی وثوق انگیز سمجھتے ہیں اور انہی کی سطح کے ذہین لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو وجود خدا کے دلائل کو انتہائی ناکافی اور غیر فیصلہ کن سمجھتے ہیں۔ اور مزے کی بات ہے کہ ان دونوں اطراف کے لوگ دوسری طرف والوں کو بدنیت بھی سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے وجود خدا کے یہ دلائل انہی کو متأثر کرتے ہیں جو انہیں قبول کرنا چاہتے ہیں اور انہیں بالکل متاثر نہیں کرتے جو انہیں قبول نہیں کرنا چاہتے۔ لہذا یہ معاملہ ’’ثبوتوں” کا ہے ہی نہیں۔ کڑے عقلی استدلال کا مدلول بن سکنے والے خدا (خواہ یہ ‘استدلال’ آج موجود ہو یا گمان کرنا کہ مستقبل میں پیدا ہو جائے گا) کا سچی مذہبی ضرورت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ ایسا خدا زیادہ سے زیادہ ایک مجرد دائرے یا مثلث کی طرح ایک نیوٹرل وجود ہی رہیگا جن کے بارے میں ماہرینِ جیومیٹری و ریاضی اپنے استدلالات کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہان پاسکل پکار اٹھتا ہے:
GOD of Abraham, GOD of Isaac, GOD of Jacob not of the philosophers and of the learned. 34
تو صاحبو بات یہ ہے کہ وجود خدا کے عقلی دلائل ایک صاحب ایمان کے کام کے نہیں ہوتے اور نہ ماننے والے کیلیے وہ تسلی بخش نہیں ہوتے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔ عقل اور مذہب کے ہمیشہ سے جاری تنازعے میں توازن کی بات بھی پاسکل ہی نے کی ہے:
اگر ہرشے کو عقل کے تابع کر دیا جائے تو مذہب میں کوئی پراسرار اور مافوق الفطرت عنصر نہیں رہے گا اور اگر ہم عقل کے اصولوں کی خلاف ورزی کریں گے تو مذہب مہمل اور مضحکہ خیز ہوکر رہ جائے گا۔۳۵
***
اس طول کلامی میں پاسکل کے تصورِ خدا، انسان کی بےچارگی، دہشت اور وجودیت کے مسائل کو موضوع بنانے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے سب سے بڑے مسئلے ارتیاب و تشکیک اور الحاد کے لیے پاسکل کا یہ ذہنی سفر اور اس کے حاصلات بہت بامعنی ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک وجودیت اور اس کے مباحث اردو ادب میں بھی بہت عام تھے مگر آج کل بوجوہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں وجودیت کی بحثوں میں اگرچہ کیرکےگور کا بھی نام آتا رہا لیکن زمانے کی مخصوص رو کی ہم سمتی میں ہمارے ہاں سارتر اور کامیو کے وجودی تصورات زیادہ زیر بحث رہے ہیں۔ اپنے معروف مضمون “Existentialism is a Humanism” میں سارتر نے وجودیت کے جو دو بڑے زمرے قائم کئے تھے ان میں اس نے جیسپرس (Jaspers) اور گابرئیل مارسل (Gabriel Marcel) کا شمار مذہبی وجودیوں میں اور ہائیڈگر اور دیگر فرانسیسی وجودیوں کے ساتھ اپنا شمار ملحد (Atheist) وجودیوں میں کیا تھا۔۳۶ ساٹھ کے عشرے میں جب ہمارے ہاں وجودیت کی بحثیں عام ہوئیں تو ہمارے ادیبوں نے اگرچہ کھلے بندوں خدا کا انکار کبھی نہیں کیا تھا مگر انہوں نے افسردگی، اداسی، پژمردگی، مردنی، باطنی بنجر پن، انتشار، نراجیت، کرب، خوف ایک مہیب وجودی لایعنیت اور مہمل صورت حال کے جو زیادہ اثرات قبول کیے وہ اکثروبیشتر سارتر اور البرٹ کامیو جیسے وجودیوں سے ہی آئے تھے۔ خدا و تقدیر بیزاری اور باطنی خالی پن و بے مقصدیت کے احساسات بھی ہمارے اردو ادب میں ایک زیریں اور خاموش رو کے طور موجود رہے ہیں۔
ادبی تھیوری اور اس کے ذیلی مباحث لسانیات، ساختیات، پس ساختیات، تانیثیت، نوتاریخیت، مابعد جدیدیت، اور پس نو آبادیاتی مطالعات کے مسائل نے ہمارے ہاں اب اگرچہ وجودیت کے مباحث کو پس پشت ڈال دیا ہے مگر مہا بیانیوں کے انہدام اور سماجی و تہذیبی تکثیریت کی نو بنو شکلوں کے باجود نراجیت،احساس تنہائی، بیگانگی، سماجی رشتوں کا کھوکھلا پن آج اور بھی زیادہ المناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ پرانا نوآبادیاتی بندوبست اگرچہ ختم ہو گیا ہے مگر چھوٹے ملک اور کمزور قومیں پہلے سے بڑھ کر شاطر طاقتوں کے اقتصادی شکنجوں میں ہیں۔ نفسی کیفیات کی زبونی اور روحانی احوال کا بنجر پن جو نفسیاتی تشکیک اور فکری ارتیابیت کا اصل سبب ہوا کرتا ہے وہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے۔ انسان آج بھی درماندگی اور لاچارگی کی اسی مہیب دبدھا میں مبتلا ہے جس کے کچھ نمونے ہم نے پاسکل کی خواطر میں دکھائے اور جو بعد میں ’’وجودی کرب‘‘ کے عنوان سے معروف ہوئے لیکن زمانے کا فیشن بدلنے کے سبب جو اب ان لفظیات و اصطلاحات میں زیر بحث کم آتے ہیں۔
جس طرح سارتر نے وجودیت کے مختلف مکاتب کا تجزیہ کرکے ان کا مابہ الاشتراک مسئلہ ’وجود کی جوہر پر تقدیم‘ بتایا تھا اسی طرح یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاتی جاسکتی ہے کہ مابعد جدید مفکرین کے مابین باہمی طور پر خواہ جتنے بھی اختلافات ہوں مگر جدیدیت کے مابہ الاشتراک اور مدارالمہام عنصر، عقل، کے ’ناکافی پن‘ پر ان کے ہاں اکثر و بیشتر اتفاق پایا جاتا ہے اور اس امر کو ما بعد جدیدیت کی سب سے بڑی دین سمجھا جاتا ہے! لیکن حقیقت یہ ہے عقل کی کلی استعداد، مرکزیت اور خود مختاری پر سوالات اگرچہ کانٹ کے زمانے سے ہی اٹھنا شروع ہو گئے تھے مگر عقل کی حاکمیت پر سب سے کڑی ضربیں دوسری بڑی جنگ کے بعد کے زمانے میں وجودیت و مہملیت پسندوں اور ایبسرڈ تھیٹر والوں نے لگائی ہیں اس لیے راقم کا خیال ہے کہ مابعد جدیدیت کے سب سے بڑے سروکار، مہابیانیوں کے اختتام، کے پیچھے اصل کام وجودیت کے رویوں کا ہے۔ یعنی وہ مہم جو عیسوی روایت میں نہایت شدت کے ساتھ پاسکل نے شروع کی تھی بیسویں صدی کی وجودیت نے (اس فرق کے ساتھ جو اوپر بیان ہوا) اسے درجۂ کمال تک پہنچادیا۔
قیام پاکستان کے زمانے اور اس کے کچھ عرصہ بعد تک ادب کی تہذیبی جڑوں کے سوالات کسی نہ کسی انداز میں ہمارے ادب کا موضوع بنے رہے تھے لیکن پھر رفتہ رفتہ پہلے اس طرف سے ایک لاتعلقی سی پیدا ہوئی اور اب ہمارے دانشور طبقے میں ان معاملات کی طرف باقاعدہ بیزاری و مخالفت کا رویہ پیدا ہو چکا ہے! آج جبکہ باقی دنیا کی طرح ہمارے پڑھے لکھے لوگ، ادیب اور دانشور بھی اپنی تہذیبی جڑوں اور مذہبی اقدار سے بیگانہ ہوکر عموماً ایک تہذیبی آشوب کا شکار ہیں، تہذیبی اقدار کے زوال اور روحانی بنجر پن کی اس صورتحال میں کیا یہ ممکن نہیں کہ اردو ادب میں پھر سے کوئی وجودیت کی لہر پیدا ہو؟ اور اس دفعہ ہمارا ادب سارتر اور کامیو والی وجودیت کے بجائے پاسکل اور کیرکےگور والی وجودیت سے اپنا رشتہ جوڑے اور ایک ہمہ گیر تشکیک و ارتیاب سے نکلنے کا جو سامان پاسکل کی وجودیت فراہم کرتی ہے اسے اپنی بیمار دانش کا مسیحا بنائے؟
ہر زمانے کی طرح ہمارے دور کے بڑے مسئلے بھی تعقل، تشکیک اور توہم یا ضعیف الاعتقادی ہیں۔ تعقل کی حقیقی نوعیت جانے بغیر ہر شے کو تعقلات کا درجہ دینے کی بات ہو، تسلیم کی جگہ تشکیک کا ابتلا ہو، یا غور و فکر کی جگہ بے سوچے سمجھے تسلیم و رضا کی روش، یہ تینوں رویے درحقیقت عقل کی اصل قوت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ان تینوں مذموم و مسموم رویوں کے تریاق کے طور پر ہم پاسکل کی اس پُرحکمت بات کے آگے (بلا ترجمہ) سرِتسلیم خم کرتے ہوئے اس کتھا کھتونی کا یوں اختتام کرتے ہیں:
Submission. – We must know where to doubt, where to feel certain, where to submit. He who does not do so understands not the force of reason.
There are some who offend against these three rules, either by affirming everything as demonstrative, from want of knowing what demonstration is; or by doubting everything, from want of knowing where to submit; or by submitting in everything, from want of knowing where they must judge.37
سر تسلیم من و خشت در میکدہ ھا
مدعی گر نکند فہم سخن گو سر و خشت
ناامیدم مکن از سابقہ لطفِ ازل
تو پسِ پرده چہ دانی کہ کہ خوب است و کہ زشت
(حافظ)
حواشی
۱۔ جدید نظریۂ اغلبیت (Probability) کا بانی کہلانے والا بلیز پاسکل ریاضی دان، ماہر طبعیات اور مذہبی فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی زبان کا ایک منفرد اور صاحب اسلوب نثر نگار بھی تھا۔ اپنی مختصر سی عمر کے آخری حصے میں کچھ روحانی مکاشفات و واردات سے گزرنے پر اس نے اپنے ان تجربات کو لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو اس کی موت کے سبب ادھورا رہ گیا تھا۔ ۱۶۵۷ء اور ۱۶۵۸ء کے موسم گرما کے درمیان، اس کے ان شذرات اور ٹکڑوں کو اکٹھا کیا جنہیں مرتبین نے Pensées (’’خیالات‘‘) عنوان کے تحت شائع کیا۔
https://www.britannica.com/topic/Pensées
اگر یہ کہا جائے کہ ریاضی طبیعیات اور فلسفے کے علاوہ پاسکل کی شہرت بیش از بیش اس کے انتقال کے بعد ۱۶۷۰ء میں شائع ہونے والی مختلف رنگ و بو کے پھولوں جیسے بکھرے خیالات پر مشتمل اس چھوٹی سی کتاب پر ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا! فرانسیسی زبان کی اس غیر رسمی کتاب Pensées کے عنوان کا مطلب افکار و خیالات ہے۔ فارسی میں اسے خواطر کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔ راقم کے پیش نظر اس کتاب کے متعدد آنلائن نسخے رہے ہیں لیکن حوالوں کے لئے زیادہ انحصار Gutenberg, 2006 والے مندرجہ ذیل ایڈیشن پر رہا ہے جو W.F Trotter کا مترجمہ ہے۔
Pascal, Blaise, Pensées, New York, E. P. Dutton & Co., Inc., 1958
https://www.gutenberg.org/files/18269/18269-h/18269-h.htm
Jan, 29, 2022
حوالے کے لئے صفحات نمبر کے بجائے پیرا گراف نمبر استعمال گئے ہیں تاکہ کسی بھی نسخے سے تلاش کرنے میں آسانی رہے۔ مختلف نسخوں میں پیراگراف کے نمبروں میں اگر چہ ذرا سا فرق ہے مگر یہ قابل نظراندازی ہے! راقم کے پیش نظر Pensées کے ایک انتخابی ترجمے کا منصوبہ بھی ہے جس کے لیے ’’نزہۃالخواطر‘‘ کا عنوان سوچا ہے! تاہم متن میں Pensées کا ذکر خواطر کے عنوان سے ہی کہا جائے گا۔
- Pascal, Blaise, Pensées, New York, E. P. Dutton & Co., Inc., 1958, Para 233
- https://www.gutenberg.org/files/18269/18269-h/18269-h.htm, Jan, 29, 2022
- When I consider the short duration of my life, swallowed up in the eternity before and after, the little space which I fill, and even can see, engulfed in the infinite immensity of spaces of which I am ignorant, and which know me not, I am frightened, and am astonished at being here rather than there; for there is no reason why here rather than there, why now rather than then. Who has put me here? By whose order and direction have this place and time been allotted to me?
Pascal, Blaise, Pensées, New York, E. P. Dutton & Co., Inc., 1958, Pera 205.
- When I see the blindness and the wretchedness of man, when I regard the whole silent universe, and man without light, left to himself, and, as it were, lost in this corner of the universe, without knowing who has put him there, what he has come to do, what will become of him at death, and incapable of all knowledge, I become terrified, like a man who should be carried in his sleep to a dreadful desert island, and should awake without knowing where he is, and without means of escape. And thereupon I wonder how people in a condition so wretched do not fall into despair. I see other persons around me of a like nature. I ask them if they are better informed than I am. They tell me that they are not. And thereupon these wretched and lost beings, having looked around them, and seen some pleasing objects, have given and attached themselves to them. For my own part, I have not been able to attach myself to them, and, considering how strongly it appears that there is something else than what I see, I have examined whether this God has not left some sign of Himself.
Pascal, Pensées, para 692.
- Barrett, William, Irrational man, New York Doubleday Anchor Books Doubleday & Company, Inc., Garden City, 1958, p104
- Barrett, Op. cit, pp 97 ff
- Pascal, Pensées, para 206
۹۔ یہ گنبد مینائی ، یہ عالم تنہائی
مجھ کو تو ڈراتی ہے اس دشت کی پہنائی
بھٹکا ہوا راہی میں ، بھٹکا ہوا راہی تو
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی!
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ و کمر ورنہ
تو شعلۂ سینائی ، میں شعلۂ سینائی!
اقبال، محمد، علامہ، بال جبریل، مشمولہ کلیات اقبال (اردو)، لاہور، اقبال اکیڈمی، 2009، ص 49-448.
- Camus, Albert, The Myth Of Sisyphus And Other Essays, Tr. Justin O’Brien, London, Penguin Books,1955, p35
۱۱۔ اگلی سطور میں جو کچھ کھا رہا ہے اس میں دیگر،الگ سے مذکور ہونے والے، ماخذات کے ساتھ ساتھ ٹی ایس ایلیٹ کے اس مقدمے سے خاص استفادہ کیا گیا ہے۔
۱۲۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل کتاب دیکھیے جو Pensées ہی کا ایک آزاد ترجمہ معلوم ہوتی ہے:
Paul, C Kegan, “Preface”, The Thoughts of Blaise Pascal, translated from the text of M. Auguste Molinier, London, George Bell and Sons, 1901, pp 5-8
- Eliot, T.S, “The Pansees of Pascal”, included in Selected Essays, London, Faber and Faber limited, 1976, p 409-410.
- https://plato.stanford.edu/entries/pascal/
Section Nature and Grace, Jan 29, 2022
- Eliot, op. cit, p. 414-15
- Pascal, Pensées, Section 1: “Thoughts on Mind and on Style”
اس مبحث کی تفہیم کے لیے خواطر کی اصل عبارتوں کے ساتھ ساتھ پاسکل کی فکر پر Michael Moriarty کی کتاب Pascal Reasoning and Belief سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔
Moriarty, Michael, Pascal Reasoning and Belief, Oxford University press, Great Britain, 2020, pp 44ff.
- Pascal, Blaise,The Provincial Letters, tr. by Rev. Thomas M’crie, Hurd And Houghton, New York, 459 Broome Street, 1866, pp 448-49
- Eliot, op. cit., p 402
- I cannot forgive Descartes. In all his philosophy he would have been quite willing to dispense with God. but he had to make Him give a fillip to set the world in motion; beyond this, he has no further need of God.
Pascal, op.cit, para 76,77
ایک اور نسخے میں یہ مفہوم اس طرح ادا کیا گیا ہے:
I cannot forgive Descartes. In his whole philosophy he would like to dispense with God, but he could not help allowing Him a flick of the fingers to set the world in motion, after which he had no more use for God.
- Frost, S.E., The Basic Teachings of the Great Philosophers, Perma Giants, New York, 1942, p 132 ff.
- Pascal, op. cit., para 80
- Pascal, op. cit., para 346
- Sartre, “Existentialism is Humanism”, in Kaufmann, Walter, Existentialism from Dostoevsky to Sartre, New York, Meridian Books, Inc., 1957, pp 289-290
- Sartre, “Existentialism is Humanism”, op.cit, pp 295
- Camus, Albert, The Myth.., op.cit, p 24
- Camus, Albert, The Myth.., op.cit, p 108
Kaufmann,Walter, Existentialism from Dostoevsky to Sartre, op.cit, pp11-51, 313ff.
- Camus, Albert, The Myth.., op.cit, pp 11, 32 & 22-23.
۲۸۔ ملاحظہ ہوں عسکری کے مضامین، مشمولہ تخلیقی عمل اور اسلوب اور مقالاتِ محمد حسن عسکری۔
عسکری، محمد حسن، تخلیقی عمل اور اسلوب، (مرتبہ محمد سہیل عمر)، کراچی نفیس اکیڈمی، ۱۹۸۹ء۔
عسکری، محمد حسن، مقالات محمد حسن عسکری، جلد۱، ۲، (مرتبہ شیما مجید)، لاہور، علم و عرفان پبلشرز، ۲۰۰۱ء۔
- Said, Edward W, Culture and Imperialism, London, Vintage Books, 1994, pp 208- 211
Said, Edward W, Orientalism, London Penguin Books, 2003, pp 312-14
فرانز فینون (۱۹۲۵ء-۱۹۶۱ء) اور ایڈورڈ سعید کی تحریروں سے اگرچہ مابعد نوآبادیاتی مطالعہ کا آغاز مانا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اردو کے نقاد محمد حسن عسکری نے ان سے کہیں پہلے اپنی تحریروں میں پس نوآبادیاتی مطالعات کی بنیاد رکھ دی تھی۔
- The heart has its reasons, which reason does not know. We feel it in a thousand things. I say that the heart naturally loves the Universal Being, and also itself naturally, according as it gives itself to them; and it hardens itself against one or the other at its will. You have rejected the one and kept the other. Is it by reason that you love yourself?
It is the heart which experiences God, and not the reason. This, then, is faith: God felt by the heart, not by the reason.
We know truth, not only by the reason, but also by the heart, and it is in this last way that we know first principles; and reason, which has no part in it, tries in vain to impugn them. The sceptics, who have only this for their object, labour to no purpose.
Pascal, op.cit, para 277, 278, 282
- Barrett, William, op.cit, p 149ff
- The last proceeding of reason is to recognise that there is an infinity of things which are beyond it. It is but feeble if it does not see so far as to know this. But if natural things are beyond it, what will be said of supernatural?
Pascal, Pensées, op.cit, para 267.
۳۳۔ عسکری، محمد حسن، تبصرہ بر اجنبی (از کامیو ترجمہ افضل اقبال)، مشمولہ مقالات محمد حسن عسکری، جلد ۱، (مرتبہ شیما مجید)، لاہور، علم و عرفان پبلشرز، ۲۰۰۱ء، ص ۵۸۲۔
- Barrett, William, Irrational man, op.cit, p 102
Paul, C Kegan, The Thoughts of Blaise Pascal, op. cit, p 3
- If we submit everything to reason, our religion will have no mysterious and supernatural element. If we offend the principles of reason, our religion will be absurd and ridiculous.
Pascal, Pensées, op.cit, para 273
- Sartre, “Existentialism is Humanism“, in Kaufmann, op.cit, pp 289
- Pascal, Pensées, op.cit, para 268.
فہرستِ مآخذ/ کتابیات
Pascal, Blaise, Pensées, New York, E. P. Dutton & Co., Inc., 1958
Barrett, William, Irrational man, New York Doubleday Anchor Books Doubleday & Company, Inc., Garden City, 1958.
Camus, Albert, The Myth Of Sisyphus And Other Essays, Tr. Justin O’Brien, London, Penguin Books,1955.
Paul, C Kegan, Preface, The Thoughts of Blaise Pascal, translated from the text of M. Auguste Molinier, London, George Bell and Sons, 1901.
Eliot, T.S, “The Pensées of Pascal”, included in Selected Essays, London, Faber and Faber limited, 1976.
Moriarty, Michael, Pascal Reasoning and Belief, Oxford University press, Great Britain, 2020.
Pascal, Blaise, The Provincial Letters, tr. by Rev. Thomas M’crie, Hurd And Houghton, New York, 459 Broome Street, 1866.
Frost, S.E., The Basic Teachings of the Great Philosophers, Perma Giants, New York, 1942.
Sartre, “Existentialism is Humanism”, in Kaufmann, Walter, Existentialism from Dostoevsky to Sartre, New York, Meridian Books, Inc., 1957.
Said, Edward W, Orientalism, London Penguin Books, 2003.
Said, Edward W, Culture and Imperialism, London, Vintage Books, 1994.
Sartre, Jean-Paul, “Existentialism is Humanism”, in Kaufmann, Walter, Existentialism from Dostoevsky to Sartre, New York, Meridian Books, Inc., 1957.
https://www.britannica.com/topic/Pensées
Jan, 29, 2022.
https://plato.stanford.edu/entries/pascal/
Section Nature and Grace, Jan 29, 2022
https://www.gutenberg.org/files/18269/18269-h/18269-h.htm
Jan, 29, 2022