ذوالفقار علی بھٹو کو مصلوب ہوئے چار دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، لیکن نواز شریف اور ’پانامہ‘ کی داستان ”واردات جاریہ“ کی طرح ابھی چل رہی ہے۔ بغض و عداوت میں لتھڑے ہوئے فیصلے کے اثرات ابھی تک موجود ہیں لیکن گواہیاں ہیں کہ تھمنے میں نہیں آ رہیں۔ اگر تاریخ واقعی عدالت کا درجہ رکھتی ہے تو ان گواہیوں کے بعد ’پانامہ‘ کا فیصلہ، ایک فرد جرم کی شکل اختیار کرچکا ہے اور یہ فیصلہ تحریر کرنے والا گروہ منصفان، کٹہرے میں کھڑا ہے جس کے سرخیل، جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ تھے۔
تحریک انصاف کے راہنما اور معروف قانون دان، حامد خان نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ ”چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سیاست میں نہیں پڑتا چاہتے تھے اس لئے وہ زیادہ آگے نہ بڑھے لیکن ان کے جانے کے بعد عدالت کا ماحول بدل گیا۔ نواز شریف کے خلاف پانامہ کا فیصلہ، عدالتی فیصلے سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔“ اس انکشاف کی فضیلت صرف اس قدر ہے کہ ”زبان غیر“ کے ذریعے سامنے آیا ورنہ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اس آبرو باختہ ناٹک کا سکرپٹ کہاں تیار ہوا، کون اس کا ہدایت کار تھا اور کن کرداروں نے اس میں رنگ بھرا۔ البتہ برادر عزیز سہیل وڑائچ نے پی۔ ٹی۔ آئی کے کسی اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے واقعی ایک بڑا انکشاف کیا ہے۔ اس عہدیدار نے بتایا کہ ”ہمارے پاس تو الزامات اور اخباری پلندوں کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔ ہمیں تو پورا کیس خود جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تیار کر کے دیا۔“ سات برس قبل ارشد شریف مرحوم کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ تو مایوس ہوچکے تھے لیکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا، ”سڑکوں پہ کیا کر رہے ہو، ہمارے پاس آؤ۔“ بلاشبہ اسے ”ام الانکشافات“ کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تصدیق مزید پی۔ ٹی۔ آئی کے راہنما اسد عمر نے بھی کی۔
یہ بھی پڑھئے:
آئی ایم ایف الوداع سے خوش آمدید تک، مجرم کون؟
بریگیڈیئر صولت رضا کے پیچ و تاب
سیاست دان تمام تر نیک نیتی کے باوجود اب تک ناکام کیوں؟
آئی ایس پی آر کا اعلان، ایک نیا قومی عمرانی معاہدہ کیسے ہے؟
پانامہ کی پیالی میں طوفان اٹھنے کے بعد ، اگست 2016 میں جماعت اسلامی نے نواز شریف کے خلاف کارروائی کے لئے پہلی پٹیشن دائر کی۔ تب جسٹس انور ظہیر جمالی، چیف جسٹس تھے۔ تین دن بعد پانچ بڑے اعتراضات لگا کر اسے ”ناکارہ، فضول، کھوکھلی، لایعنی، غیرسنجیدہ اور اوچھی (Frivolous) قرار دے کر واپس لوٹا دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد تحریک انصاف کی پٹیشن کا بھی یہی حشر ہوا۔ خان صاحب مایوس ہو کر جولاں گاہ کوچہ و بازار کو لوٹ آئے۔ اعتزاز احسن بولے۔ “ میں نے کہا تھا نا، کہ سپریم کورٹ مت جاؤ۔ ”کسی کو اندازہ نہ تھا کہ اس خاکستر میں کیسی کیسی چنگاریاں چھپی ہیں۔
نواز شریف کو سیاست بدر کرنے کی مہم جب آخری مرحلے میں داخل ہو رہی تھی تو عسکری منصوبہ سازی جنرل (ر) فیض حمید کے ہاتھ میں تھی۔ سپریم کورٹ میں اس کار عظیم کے لئے جسٹس کھوسہ کا انتخاب کیا گیا۔ پی۔ ٹی۔ آئی کو سپریم کورٹ آنے کی پیشکش کے فوراً بعد ”فضول، ناکارہ اور لایعنی“ پٹیشن مقدس و معتبر ٹھہری۔ پانچ رکنی بینچ بن گیا اور یکم نومبر 2016 سے سماعت شروع ہو گئی۔ ناپاک ٹھہرائی جانے والی پٹیشن کو ”غسل طہارت“ دینے والوں میں جسٹس کھوسہ پیش پیش تھے۔ انور ظہیر جمالی اس لایعنی پٹیشن کو کڑی حدود کے اندر رکھنا چاہتے تھے لیکن وہ دسمبر میں ریٹائر ہو گئے۔ ثاقب نثار نے جسٹس سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دے دیا۔ ادھر راحیل شریف ریٹائر ہو گئے اور نومبر کے اواخر میں فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ نے سنبھال لی۔ یوں نواز شریف کو مکمل طور پر نرغے میں لے لیا گیا۔ ایک طرف باجوہ اور فیض حمید ادارہ جاتی فیصلے کو آگے بڑھا رہے تھے، دوسری طرف ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ اس کے پاسبان بن گئے۔ جس طرح جنرل باجوہ نے نواز شریف سے نجات کا مشن جنرل فیض حمید کو سونپ دیا اسی طرح ثاقب نثار نے پانامہ کے حوالے سے سارے اختیارات آصف سعید کھوسہ کے حوالے کر دیے۔
کھوسہ کی سربراہی میں بینچ بنتے ہی، ایک دن چیف جسٹس ثاقب نثار نے رجسٹرار ارباب محمد عارف کو اپنے چیمبر میں طلب کیا۔ رجسٹرار پہنچے تو دیکھا کہ جسٹس کھوسہ بھی تشریف فرما تھے۔ ثاقب نثار نے تلقین کے لہجے میں حکم جاری کیا ”آج کے بعد پانامہ کیس کے تمام معاملات جسٹس کھوسہ دیکھیں گے چاہے وہ عمومی انتظامی نوعیت کے ہوں۔“ اپنے اپنے ”مختار کل“ سے ”مختار نامے“ لینے کے بعد فیض حمید اور آصف سعید کھوسہ بے مہار ہو گئے۔
انور ظہیر جمالی کی رخصتی، ثاقب نثار کا عطا کردہ مختارنامہ، پانچ رکنی بینچ کی سربراہی اور فیض حمید کی پشت پناہی کے بعد کھوسہ صاحب کے لئے کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ قانون و انصاف پر یقین رکھنے والے جج کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اپنا آئینی حلف ہوتا ہے جو لازم قرار دیتا ہے کہ فیصلے بلارغبت و عناد کرو۔ لیکن پانامہ کے حوالے سے جسٹس کھوسہ کے فیصلے کے ایک ایک لفظ سے بغض و عناد کا تعفن اٹھ رہا ہے۔ جے۔ آئی۔ ٹی کے لئے ”ہیرے“ بھی کھوسہ نے چنے۔ انصار عباسی کی سٹوری آنے پر جب وزیراعظم نواز شریف کے سیکریٹری فواد حسن فواد نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار، ارباب محمد عارف کو فون کر کے حقیقت حال جاننا چاہی تو رجسٹرار نے بتایا ”مجھے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔“ ”وٹس ایپ کالز“ کی بے چہرہ کہانی صرف مطلوب ہیروں کی تلاش تک محدود نہیں، سکیورٹی ایکسچینج کمشن کے سربراہ ظفر حجازی اور ان کے صاحبزادے پر جو گزری وہ ”عناد“ میں لت پت منصفوں کی خوئے انتقام کا شاہکار ہے۔
پانچ رکنی بینچ کے سربراہ کی حیثیت سے جسٹس کھوسہ نے خاصے جتن کیے کہ کسی تحقیق و تفتیش کا دفتر کھولے اور کسی الزام کا کھوج لگائے بغیر ہی نواز شریف کو فارغ کر دیا جائے۔ جسٹس گلزار راضی ہو گئے۔ باقی تین کا خیال تھا کہ اس طرح کی عریاں ڈھٹائی اور رسوائی بھی، تھوڑی سی حیا مانگتی ہے۔ جسٹس کھوسہ کا عناد، کسی ’حیا‘ کا متقاضی نہ تھا۔ 20 اپریل 2017 کو پانچ رکنی بینچ فیصلہ سنانے بیٹھا تو روایت کے مطابق، تین ارکان کا اکثریتی فیصلہ پڑھنے کے بجائے، مرکزی کرسی پر بیٹھ کر جسٹس کھوسہ نے اپنا اختلافی نوٹ پڑھنا شروع کر دیا جس کا آغاز امریکی مصنف ’میریو پوزو‘ (Mario Puzo) کے معروف ناول ”دی گارڈ فادر“ (The Godfather) کے ایک اقتباس سے ہوتا ہے۔ یہ اقتباس بطور خود بغض و عناد کی ایک افسوسناک کہانی بیان کر رہا ہے۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ آصف سعید کھوسہ کا اختلافی نوٹ کسی بھی پیمانے سے عدالتی فیصلہ نہیں لگتا۔ یہ ایسے شخص کا تحریر کردہ ”جواب مضمون“ (Essay) ہے جو انگریزی ادب پر عبور کا تاثر دینا چاہتا ہے۔
بظاہر ایک سہ رکنی بینچ جے۔ آئی۔ ٹی کی نگہبانی کر رہا تھا لیکن اس کی باگیں جسٹس کھوسہ کے ہاتھ میں تھیں۔ 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کے خلاف حتمی فیصلہ آنے تک آصف سعید کھوسہ، جنرل فیض حمید کے پہلو بہ پہلو پوری طرح متحرک رہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کو نیب عدالتوں کا مانیٹر لگانے کا تصور بھی انہی کی شاخ فکر پر پھوٹا تھا۔
جب کوئی جج اپنی روشن ضمیری کے تحت، آئین، قانون، اپنے حلف اور اپنے ضابطہ اخلاق کے مطابق ایک فیصلہ لکھ دیتا ہے تو وہ اس کے نتائج سے بے نیاز ہو کر معاملہ اللہ اور عوام کی عدالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ جب ”فیصلے“ کی بنیاد کدورت، بغض اور عناد پر ہو تو جج کا لبادہ پہنے شخص اپنے ہدف کا تعاقب جاری رکھتا ہے۔ 2019 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ دیا تو آصف سعید کھوسہ انگاروں پر لوٹنے لگے۔ فیصلہ تو نہ پلٹا لیکن عدالت کو کھری کھری سنائیں اور ضمانت کے لئے اتنی کڑی شرائط عائد کر دیں کہ وہ ممکن ہی نہ رہی۔ اسی طرح جب احتساب عدالت کے جج ارشد کی وڈیو آڈیو کیسٹیں سامنے آئیں تو انہیں بطور شہادت قبول کرنے کے امکانات ہی معدوم کر دیے۔
پانامہ فیصلے جیسی دستاویز ملامت کو عدالتی فیصلوں کی کتاب کا حصہ بنانے والے ”منصفوں“ کے ہر تار عبا اور بند قبا سے انصاف کشی کی عفونت اٹھ رہی ہے۔ 280 آرٹیکلز اور ہزاروں ذیلی شقوں پر مشتمل آئین پاکستان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ یہ خود آئین کی تشریح و تعبیر کرنے والے ہیں اور بات نہ بنے تو مرضی کا آئین بھی خود لکھ لیتے ہیں۔
اسی بارے میں: