ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کچھ اہم اعلانات کیے ہیں۔ ان اعلانات کو قومی زندگی میں ایک نئے باب بلکہ ایسی مفاہمت سے تعبیر کیا جانا چاہیے کو ریاست کے مختلف طبقات کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کی صورت رکھتی ہے یا گرینڈ ڈائیلاگ کے بعد قوم کے درمیان ایک نیا افہام و تفہیم ہوتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ نو مئی کی بغاوت کے ضمن میں فوج خود احتسابی سے گزر رہی ہے اور اس سلسلے میں سینئر افسران کی ایک بڑی تعداد کو جن میں تین میجر جنرل بھی شامل ہیں، ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے یہ اعلانات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ حاضر سروس افسروں اور بعض ریٹائرڈ سینئر افسروں کے رشتے داروں کے خلاف اس بغاوت میں شمولیت کے خلاف کارروائی کو بعض حلقوں میں صرف انسانی حقوق کے معاملات تک محدود کیا جا رہا ہے۔ فوج کے ترجمان نے یقینا واضح کیا ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، ان کے انسانی حقوق محفوظ ہیں اور انھیں اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق حاصل ہے۔ یہ وضاحت بھی اپنی جگہ اہم ہے لیکن اس سے زیادہ اہم ادارے کا وہ عزم جس کے تحت بغاوت کے خلاف کارروائی کی گئی اور عزم ظاہر کیا گیا کہ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر اطمینان سے نہیں بیٹھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
پرومیتھیوز کے خطوط میں پاکستان کی کہانی
اسپیشل فسیلیٹیشن کونسل، میثاق معیشت کی طرف پہلا قدم
کیا صحافت قومی ترقی کا ذریعہ بھی ہے؟
ن لیگ اور پیپلز پارٹی، کیا راہیں جدا ہو رہی ہیں؟
پاکستان کی مسلح افواج کے اس اعلامیے کو جیسے عرض کیا گیا ہے، ایک نئے عمرانی معاہدے کی ابتدا سمجھنا چاہیے۔ فوج کے آج کے اعلان کی اس اہمیت کو چند روز قبل اس کونسل کے قیام سے منسلک کیے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا جس کے تحت ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک صفحے پر جمع کیا گیا ہے۔
قومی معیشت کی بحالی ہو یا قوم اور قومی اداروں کا تحفظ ، یہ دونوں کام اسی صورت میں ممکن ہیں اگر پوری قوم اور تمام اسٹیک ہولڈرز ایک نکتے پر اکٹھے ہوں۔ جنرل احمد شریف کے اعلانات اور اس سے قبل سرمایہ کاری کونسل میں ریاست کے تقریباً تمام اداروں کی شرکت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے فوج کے اس اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بعد نام نہاد بیانئے اور مقدمے بازی کے ڈرامے دم توڑ جائیں گے۔ انھوں نے اپنے ایک کالم میں توقع ظاہر کی ہے کہ فوج کا یہ انداز فکر مستقل ادارہ جاتی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ ہماری کامیابی کی کنجی اسی اتحاد میں پوشیدہ ہے۔