اگر چہ تجزیہ قبل ازوقت بھی کہاجاسکتاہےلیکن میرے اندازے میں ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ معیشت کی زبوں حالی کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان کی ہسٹری میں پہلی بار تمام سٹیک ہولڈر اکٹھے بیٹھے ہیں اور دس سال کیلئے معشت کا روڈ میپ طے کیاگیاہے۔
وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ حکومتی اتحادی پی پی اور ارمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک ہوئے ۔ اس کے تحت 2035 تک پاکستان کی معیشت ایک کھرب تک لے جائی جائیگی، ایک کروڑ جاب پیداکی جائیں گی اور ایکسپورٹ سوارب ڈالر ٹارگٹ ہوگی۔
اہداف حاصل کرنا دس سال میں ممکن تو ہیں لیکن میرے نزدیک اہم بات معیشت کی بحالی بارے متفق ایکشن پلان تھا اور اس میں ارمی چیف کی شرکت معنی خیز ہے کیونکہ یہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ ان اہداف کو اب کوئی سیاسی بنیادپر ٹارگٹ نہیں کرسکے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
کیا صحافت قومی ترقی کا ذریعہ بھی ہے؟
ن لیگ اور پیپلز پارٹی، کیا راہیں جدا ہو رہی ہیں؟
ن لیگ سندھ کی تنظیم نو، گر ”یہ ”ہوا تو پھر کچھ نہ بچے گا
پراجیکٹ عمران، ججوں اور جرنیلوں کی سیاہ کاری، یوم حساب کب؟
نوازشریف نے جب اپنی پچھلی حکومت میں معیشت کی بحالی کاپروگرام شروع کیاتھا تو اس کو باجوہ ، ثاقب نثار اور عمران خان نے کرپشن قرار دیکر سبوتاژ کیا ، سی پیک پر عمل روکا اور عوام کی توجہ ہٹانے کےلئے تخت لاہور ، سیمنٹ کا شہر اور جنوبی پنجاب کے نام نہاد احساس محرومی کے راگ الاپے ، نتیجتن اج پاکستان دیوالیہ ہوچکاہے، روزگار نہیں ہے اور سرمایہ کاری کی فضا ختم ہوچکی ، چنانچہ بیرونی اور اندرونی سرمایہ کار اپنے منصوبوں کیلئے فوج کی گارنٹی بھی مانگتے تھے۔دوسری طرف پی پی بھی معیشت پر ان بورڈ ہے ، اور یہ طے ہے کہ حکومت چاہے ن لیگ کی ہو یا پی پی کی معیشت کا طے کردہ دس سالہ روڈ میپ یہی رہے گا اور فوج اس کی ضمانت کنندہ ہوگی، نوازشریف اور بے نظیر کے مابین میثاق جمہوریت کے بعد میثاق معیشت دوسرا اہم ترین معاہدہ ہے جو ملک وقوم کےلئے خوش آئند ہے ۔
پاکستان کی ترقی کےلئے ضروری ہے کہ ہم معاشی پروگرام کو حکومت کی تبدیلی یاسیاسی دشمنی میں تبدیل یا ٹارگٹ نہ کریں، ابادی کوکنٹرول کریں اور ڈیم بنائیں ، انڈیاکی معاشی طاقت بننے کاراز ہی یہ ہے کہ مودی وہاں دس سال سے پاور میں ہے اور اس نے من موہن سنگھ اور واجپائی کے اکنامک روڈ میپ کو تبدیل نہیں کیا۔