مسلم لیگ ن سندھ کی تنظیم توڑ دی گئی۔ توقع یہی ہے کہ جلد ہی ن لیگ سندھ نئی تنظیم تشکیل دے دی جائے گی تاہم ضروری ہے کہ نئی تنظیم میں چند امور پیش نظر رکھے جائیں۔
اطلاعات کے مطابق ن لیگ کی مرکزی قیادت کا خیال ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح سندھ میں بھی بعض الیکٹیبلز تلاش کیے جائیں تاکہ آئندہ انتخابات کے موقع پر سندھ سے بھی کچھ نشستیں میسر آ سکیں۔ سیاسی اعتبار سے یہ ایک اچھی حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن سندھ کے معروضی حالات کچھ مختلف ہیں۔
اندرون سندھ سے اگر کچھ روایتی الیکٹیبلز یعنی معروف معنوں میں وڈیرے میسر آ جائیں تو الگ بات ہے لیکن اگر کسی کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی بکھری ہوئی بھیڑوں کو جمع کر لیا جائے تو حقیقت یہی ہے کہ اس سے کوئی فایدہ نہیں ہو گا۔
یہ بھی پڑھئے:
پراجیکٹ عمران، ججوں اور جرنیلوں کی سیاہ کاری، یوم حساب کب؟
قرضے کیلیے پھیلا ہاتھ کب تک؟ شہباز شریف کا سوال اور اس کا جواب
کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو
کراچی، بلدیاتی معرکے کے چند توجہ طلب پہلو
پھر سوال یہ ہے کہ ن لیگ سندھ میں کیا کرے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ یہ کہ اپنی تمام تر کمزوری کے باوجود سندھ میں یہ جماعت اگر قائم ہے اور اس کا جتنا بھی وزن ہے، اس کی بنیاد نظریات پر ہے۔ مسلم لیگ ن کا یہی نظریاتی کارکن ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی جماعت حکومت میں آگئی تو بھی سندھ میں اس کے لیے کچھ نہیں، اس کے باوجود وہ پارٹی کا وفادار ہے تو ایسا نظریات کے ساتھ اخلاص اور وفاداری کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی قدر کی جائے اور ان پر باہر سے کسی کو لا کر بٹھانے کے بجائے خود ان ہی کو ذمے داریاں تفویض کی جائیں۔
سندھ میں مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت نہ ہونے کے باوجود تقسیم کا شکار رہتی ہے۔ اس تقسیم کی بنیادی وجہ عام طور پر اوپر سے لا کر بٹھائے گئے لیڈر بنتے ہیں لیکن اگر پارٹی کے پرانے، وفادار اور نظریاتی کارکن پر اعتماد کیا کیا جائے تو اس تقسیم کے خاتمے کا بھی امکان ہے۔
انتخابات سر پر ہیں، اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ سندھ میں تنظیم سازی طویل عرصے تک التوا کا شکار رکھی جاسکے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ن لیگ کی قیادت اپنے وفادار اور آزمائے ہوئے کارکنوں کو ذمے داریاں تفویض کر کے بہتر نتائج کی توقع کرے۔
اب تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ میاں نواز شریف صاحب نے جمہوریت کے لیے ایک وسیع تر مفاہمت کے پیش نظر دیہی اور شہری سندھ میں حلیف جماعتوں کو کھلا میدان دیے رکھا ہے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ اندرون سندھ بعض مقامات کے علاوہ شہری سندھ میں پرانے حریف اور حلیف برقرار نہیں رہے ہیں، اس لیے ن لیگ کو پہلی بار چند حلقوں میں بھرپور طریقے سے انتخاب میں حصہ لینا چاہیے ۔ یہ ہو گیا تو ن لیگ سندھ سے مناسب نمائندگی حاصل کر لے گی لیکن شرط یہی ہے کہ پارٹی میں ان لوگوں پر اعتماد کیا جائے جو اچھے برے وقتوں میں پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔