وہ بدمزگی بالآخر ہو گزری جس کا خدشہ تھا۔ حافظ نعیم الرحمن اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود کراچی میئر کا انتخاب نہ جیت سکے اور مرتضی وہاب اس منصب پر جا بیٹھے، بہ ظاہر جو ان کا حق نہیں تھا۔سوال یہ ہے کہ کراچی کی شہری قیادت حافظ نعیم الرحمن کا حق کیوں تھا اور اب جب کہ وہ اس حق سے محروم ہو چکے ہیں تو اس سے کیا خرابی واقع ہوگی؟ کراچی کے معاملات کی تفہیم کا ایک زاویہ یہ ہے اور یہی وہ بنیادی پہلو ہے جسے جان لیا تو حقیقت یہ ہے کہ اس شہر کی پیچیدہ سیاست کو بھی سمجھ لیا۔
ست خصمی شہر
کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ مختلف لوگ اپنے اپنے تجربے یا فہم کی روشنی میں اس کی وضاحت کر سکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ وضاحت ہر وہ شخص بھی سمجھ سکے جو کسی گروہی مفاد کے بغیر معاملات کو سادگی کے ساتھ دیکھتا ہے یا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کی اصل تصویر بالعموم دھندلا جاتی ہے اور بعض گروہ اسے اپنے نقطہ نظر یا مفادات کے تحت اپنے انداز میں پینٹ کر کے ہمارے سامنے رکھتے ہیں۔ اس لیے معاملات الجھ جاتے ہیں اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی بڑا دل چسپ بلکہ غیر معمولی ہے کہ کراچی کی حقیقی تصویر کسی سیاست دان یا صحافی نے نہیں ایک ادیب نے اپنے ناول میں پینٹ کی اور یوں پینٹ کی جیسے پینٹ کرنے کا حق ہوتا ہے۔مرحوم و مغفور انتظار حسین کا ناول ‘ آگے سمندر ہے’ یوں کہنا چاہیے کہ کراچی کا شہر آشوب ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ کراچی فی الاصل ‘ ست خصمی’ شہر ہے جس سے لوگ اپنا حصہ وصول کرنے تو آ جاتے ہیں لیکن اس کا حق ادا کرنے کی ذمے داری کوئی محسوس نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔ یہ ملک کا سب سے بڑا شہر تو ہے، اس ملک کا تجارتی مرکز بھی ہے اور ایک میٹرو پولیٹن بھی لیکن سچ جانئے تو یہ کہ جگہ اب رہنے کے قابل نہیں۔ شہر والے اس کے باوجود اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ ان کی سخت جانی اور عظمت ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ عظمت ان سات خصموں میں سے کسی کے حصے میں بھی نہیں آ سکی جن کی تن اسانی، کم کوشی اور بدنیتی کی وجہ سے یہ جیتا جاگتا شہر ہڈیوں کا ڈھانچا بن کر رہ گیا۔
حق جتانے والے
گزشتہ تیس برس کی حکایت بتاتی ہے کہ اس شہر کے سب سے بڑے دعوے دار یعنی ایم کیو ایم نے اس پر حق جتایا اور شہر والوں نے ان پر اپنی جان وار دی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے ڈاکٹر فاروق ستار تا وسیم اختر سوائے باتوں کی کمائی کے کچھ کر کے نہیں دیا۔ ان دونوں کی درمیانی کڑی مصطفی کمال ہیں۔ ان کے دور میں کچھ ترقیاتی کام دیکھنے کو ملتے ہیں جس کی انھیں داد بھی دی جاتی ہے لیکن ان کا دور ایم کیو ایم کو ملنے والے جارحانہ اقتدار کا حق ادا کرنے کے لیے کافی نہیں۔ اس بیچ میں ایک وقفہ نعمت اللہ خان مرحوم کا ہے، ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جس محنت اور دیانت کے ساتھ انھوں نے شہر کو تعمیر کیا، اس کی مثال ہمارے یہاں بہت کم ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
شہباز شریف، آذر بائیجان تا قزاقستان
زرداری نے کیوں کہا کہ الیکشن ان کی مرضی سے ہوں گے؟
پیپلز پارٹی اکتوبر میں کیوں الیکشن چاہتی ہے اور ن لیگ نومبر میں کیوں؟
حافظ نعیم کی انٹری
نعمت اللہ خان اور ان کے بعد مصطفی کمال کے ہاتھوں جو کام ہوا، ان کی وجہ سے شہر کا نقشہ بدل گیا لیکن ان دونوں کے بعد حقیقت یہ ہے کہ ذرا برابر بھی کام نہیں ہوا اور شہر والے یوں کہنا چاہیے کہ بے انتہا مسائل کا شکار ہو گئے جن کے حل کی فکر کرنے کو کوئی تیار نہیں تھا حالاں کہ اقتدار ایک طرح سے ایم کیو ایم سے پی ٹی آئی کو منتقل کر دیا گیا جب کہ پیپلز پارٹی صوبائی حکومت میں ہونے کے باوجود اپنی ترجیحات اور ذہنی رجحانات کی اسیر بنی رہی۔ اس صورت حال میں حافظ نعیم الرحمن ہی تھے جنھوں نے شہر کو ماضی کی تفریق اور تباہ کن عصبیتوں سے اوپر اٹھا کر متحد کرنے اور اس کی تعمیر نو کے لیے ولولہ پیدا کیا۔ شہر کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے انھوں ان تھک محنت کی جس نے انھیں ایک مقبول برانڈ اور شہریوں کی آنکھ کا تارہ بنا دیا۔
چند تلخ حقائق
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں توقع یہی تھی کہ حافظ صاحب کی یہ محنت رنگ لائے گی اور ان کے مقابل دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دے گا لیکن زمینی حقائق مختلف نکلے۔ آج کے کراچی کو سمجھنے کے لیے شدت جذبات میں کی جانے والی تنقید اور تاریخ کی بعض سچائیوں سے اخذ کیا جانے والا بیانیہ ماحول میں موجود تلخی میں اضافہ تو کرے گا لیکن زمینی حقائق کو سمجھنے میں مدد گار ثابت نہیں ہوسکے گا۔جماعت اسلامی یا حافظ صاحب کے موجودہ بیانئے کاایک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے دھاندلی کے ذریعے شہر کا مینڈیٹ ان سے چھین لیا ہے لہذا اب ہم انھیں اطمینان سے حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ سیاسی مہم جوئی کے لیے یہ حکمت عملی درست ہوسکتی ہے لیکن جماعت اگر اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ واپس حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ نعرہ معاونت نہیں کرے گا، اس کے لیے بعض دیگر حقائق کو سمجھنا ضروری ہو گا اگرچہ یہ حقائق نہایت تلخ اور ناپسندیدہ بھی ہوں۔
دو گنا لیکن غیر فیصلہ کن ووٹ
یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی نے ان بلدیاتی انتخابات میں جو ووٹ حاصل کیے، وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تقریبا دو گنا تھے۔ اس اعتبار سے عمومی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی اپنی حریف جماعت کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہے۔ ووٹوں کی یہ تعداد یقینا ثابت کرتی ہے کہ حافظ نعیم واقعتا ایک برانڈ ہیں لیکن انتخابی سیاست کے اسرار و رموز کو جاننے والے جانتے ہیں کہ مجموعی ووٹوں کے زیادہ ہونے کا ہمیشہ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حاصل ہونے والی نشستیں بھی اسی تناسب سے ہوں گی لہذا یہ عین ممکن ہے کہ کوئی سیاسی گروہ مجموعی طور پر کم ووٹ لے کر بھی مختلف حلقوں سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتا ہے۔ کراچی میں بالکل یہی ہوا ہے۔ انتخابی سائنس کے اس پہلو پر زور دیتے ہوئے یہاں یہ صفائی پیش کرنے کی ہرگز کوشش نہیں کی جا رہی کہ مختلف گروہوں نے نتائج کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں کرنے کے لیے زور زبردستی نہیں کی ہو گی، بالکل کی ہوگی بلکہ جو زیادہ طاقت رکھتا ہو گا، اس نے حتی المقدور زیادہ کیا ہو گا لیکن ایسا تو ہمیشہ ہوتا ہے لیکن ایسے معاملات کو کھیل کاحصہ سمجھنے کے باوجود جماعت اسلامی جیسی قوتیں رائے عامہ کی طاقت کے ذریعے نتائج کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔
آبادی کا حیران کن تناسب
کراچی کے بلدیاتی منظر نامے پر ایسا نہیں ہوسکا تو زور زبردستی کے علاوہ بھی اس کی کچھ وجوہات ہیں جنھیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم بات جس پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، شہر کی آبادی کا تبدیل شدہ تناسب ہے۔ گو جماعت اسلامی خود کو لسانی اور نسلی تعصبات سے ہمیشہ بلند رکھتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسے سب سے زیادہ ووٹ اردو بولنے والے ہی دیتے ہیں۔ ماضی کے اعداد و شمار پیش نظر رکھیں تو شہر میں اردو بولنے والوں کا تناسب کوئی ستر فیصد کے قریب تھا لیکن گزشتہ تیس برس میں یہ تناسب کم ہو کر کوئی انچاس فیصد پر آ چکا ہے، اس کے مقابلے میں گزشتہ تیس برس کے دوران میں سندھی بولنے والی ابادی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ تناسب کیسے بڑھا، یہ ایک بالکل مختلف موضوع ہے جسے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تقسیم نہ ہونے والے ووٹ
اسی طرح اس عرصے میں پشتو بولنے والوں کی تعداد میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف شہر کی ڈیموگرافی مکمل طور پر بدل گئی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں روزگار کے وسائل کی تقسیم کی نوعیت میں بھی بہت زیادہ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ اسے خوش قسمتی تو ہر گز نہیں سمجھا جاسکتا کہ ان پشتو بولنے والوں کی غالب اکثریت خیبر پختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں سے نہیں آئی بلکہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے اور یہ لوگ اب دستاویزات حاصل کر کے مقامی شہری کا مرتبہ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی فیصلے پاکستانی پختونوں کی طرح نظریاتی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ تعصبات اور مفادات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اس ڈیمو گرافک تبدیلی نے اس بار بھی انتخابی معرکے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور آنے والے انتخابات میں بھی اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔ حالیہ بلدیاتی انتخاب کی ایک حقیقت یہ ہے کہ آبادی کے بدلے ہوئے تناسب کی وجہ سے چند لسانی و نسلی طبقات کا ووٹ چند خاص علاقوں میں تقسیم ہوئے بغیر پیپلز پارٹی کے حق میں چلا گیا جب کہ حافظ نعیم الرحمن کا ووٹ جو تناسب میں ویسے بھی کم ہو چکا تھا، مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہو گیا یوں ان کی نشستوں کی تعداد پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کم ہو گئی۔ اس کمی میں کچھ اثر حلقہ بندیوں کی جادو گری کا بھی ہے جسے طاقت ور قوت ہمیشہ اپنے حق میں کر لیتی ہے۔ کراچی کے موجودہ انتخابی نتائج کو سمجھنے کے لیے اس تبدیلی کو سمجھنا ناگزیر ہے اور نظر انداز کرنا انتہا درجے کی سادگی۔
الطاف حسین کا پہلو
کراچی کے سیاسی جغرافیے کو سمجھنے کے لیے جہاں ڈیمو گرافک تبدیلی کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ، وہیں چند دیگر سیاسی حقائق اور رائے عامہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کی کھوکھلی حیثیت کو بے نقاب کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ 2018 میں ملنے والے قومی اسمبلی کی نشستیں عوام کی حقیقی رائے کی عکاس نہیں تھیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ شہر میں الطاف حسین کی اپیل اب بھی موجود ہے۔ وہ اگر عوام سے کہہ دیں کہ وہ انتخابی مہم سے لا تعلق رہیں تو پھر پندرہ سے بیس فیصد لوگ ہی انتخاب میں حصہ لیتے ہیں۔ کراچی میں سیاست کرنے کا جو کوئی بھی خواہش مند ہو، اسے یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے۔ اگر کوئی یہ پہلو نظر انداز کر کے سیاست کرنا چاہتا ہے تو پھر سیاست کے ساتھ اس کی سنجیدگی پر ضرور سوال ہو گا۔
کاش، ایسا ہو جاتا
کراچی کے موجودہ انتخابی منظر نامے کا آخری اور سب سے اہم پہلو اس کی موجودہ تقسیم یعنی آج کی حزب اقتدار اور حزب اختلاف ہے۔ ایم کیو ایم ہو یا پی ٹی آئی، یہ دونوں سیاسی حقیقتیں ہیں لیکن وقت کی میزان پر ثابت ہوا ہے کہ ان دونوں کے طرز عمل پر سوالات ہیں، انھیں بھرپور اقتدار ملا لیکن انھوں نے شہر کے لیے کچھ کر کے نہیں دیا بلکہ ان کے ادوار میں مسائل میں زیادہ اضافہ ہوا۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی زیادہ سنجیدہ سیاسی قوتیں ہیں۔ یہ دونوں اگر ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں تو شہر اور اپنے سیاسی مفاد میں دیگر کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج دے سکتی تھیں اور دے سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے حالیہ انتخابی تلخی نے ان دونوں کو باہم متحد نہیں ہونے دیا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو صوبائی حکومت کے وسائل اور جماعت اسلامی کی قوت عمل ان ہونی کر دکھاتی۔ اب یہ نہیں ہو پایا تو اس کا خمیازہ شہریوں کو بھگتنا پڑے گا اور آخری بات یہ کہ یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہو جاتیں تو سندھ کی شہری اور دیہی تقسیم کی شدت میں کمی واقع ہوسکتی تھی شہر میں سنجیدہ سیاست فروغ پاسکتی تھی، اب صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔