ADVERTISEMENT
آج فتح محمد ملک صاحب کی 87 ویں سالگرہ ہے۔ فتح محمد ملک 18 جون 1936ء کو ٹہی، تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال (سابقہ ضلع اٹک) میں پیدا ہوئے. ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے، میٹرک گورنمنٹ سکول تلہ گنگ سےاور ایف اے گورنمنٹ کا لج اٹک سے 1952ء میں پاس کیا۔ بی اے کے لئے راولپنڈی کے گورڈن کالج میں داخلہ لیا تھا تو شام کو روز نامہ تعمیر راولپنڈی میں بطور سب ایڈیٹر بھی کام کرتے رہے.ایم اے تک تعلیم اور صحافت ساتھ ساتھ چلتے رہے. ایم اے اردو میں اول آنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز1972ء میں حکومت پنجاب کے ادارہ تحقیق و ترقی برائے تعلیم میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کیا. گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں لیکچرر بھی رہے ، تھوڑا عرصہ وزیر اعلی’ پنجاب حنیف رامے کے پریس سیکریٹری بھی رہے.
بچپن میں ہی خود ان کی برادری کے ایک جاگیرداری اور سامراج دشمن بزرگ کے نوابوں کے غنڈوں کے ہاتھوں قتل نے ان کی سوچ کا رخ متعین کردیا. لیکن ان کے ساتھ یہ مسئلہ ہمیشہ رہا کہ ان کے مذہبی پس منظر کی وجہ سے بائیں بازو والوں نے انہیں دائیں بازو کا اور دائیں والوں نے بائیں کا قرار دیا. خود ان کا کہنا ہے ” میں ترقی پسند ہوں، ایک مسلمان اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا”۔
یہ بھی پڑھئے:
وہ تدریس اور تحقیق کا 45 سالہ تجربہ رکھتے ہیں. چیئرمین شعبہ پاکستان اسٹڈیز ،قائد اعظم یونیورسٹی، صدر نشیں مقتدرہ قومی زبان، ریکٹر، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی۔ اسلام آباد رہنے کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک، ہیڈل برگ یونیورسٹی برلن، ہم بوڈ یونیورسٹی برلن، سینٹ پیٹرس برگ یونیورسٹی روس میں بھی پڑھاتے رہے. آج بھی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری ہے. ان کی خدمات میں اعتراف میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز کا اعزاز دیا.
انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد بیشتر سعودی حکومت کے سرمائے سے چلتی ھے، جن دنوں پروفیسر فتح محمد ملک اس کے ریکٹر تھے، انہوں نے سعودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی ، اس دور کے چانسلر جناب آصف زرداری نے، پروفیسر صاحب سے اپنی بات کی تردید کرنے کو کہا تو ملک صاحب نے یہ کہہ کے استعفی دے دیا کہ میں نے جو کہا اس پر قائم بھی ہوں.
ملک صاحب کی کچھ باتیں
** فیضؔ صاحب پاکستان کے طول و عرض میں بکھری ہوئی خلقِ خدا کے مقامی اور علاقائی چلن کو پاکستان کی قومی شناخت کا جزو لانیفک سمجھتے تھے۔ وہ اوپر سے مسلط کئے گئے سرکاری تصور قومیت کی بجائے نیچے سے پھوٹنے، آزادانہ نشو و ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے قومی شناخت کا روپ دھارنے والے قومی کلچر کو صورت پذیر ہوتا دیکھتے تھے۔ ان کا یہ تصور اپنا کام کر رہا ہے۔ انہوں نے بھٹو شہید کے دور میں ہماری تہذیبی شیرازہ بندی کی خاطر جو ادارے قائم کئے تھے وہ باقی ہیں۔ ان میں سے ’’لوک ورثہ‘‘ کا وجود اور عمل فیضؔ صاحب کے تصورات ہی کی تجسیم ہے۔
٭٭ میں سمجھتا ہوں کہ احمد ندیم قاسمی اور انتظار حسین ہمارے عہد کے بڑے فن کار ہیں۔ ہر دو کے کمالات کا تقاضا ہے کہ میں ان پر مزید لکھوں اور میں ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ جہاں تک انتظار حسین اور احمد ندیم قاسمی کی ’’مداحی‘‘ کے الزام کا تعلق ہے وہ سر آنکھوں پر لگے یہ بھی تو دیکھئے کہ ندیم صاحب پر کتاب لکھنے سے پہلے میں نے فیض صاحب پر اپنی کتاب لکھی اور آج کل راشد صاحب پر کتاب لکھنے میں مصروف ہوں.
٭٭ سرائیکی پٹی کے لوگوں کے مطالبات پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کر کے انہیں خوشدلی کے ساتھ مان لینا چاہئے۔ اگر وہ پنجاب سے الگ ہو جانا چاہتے ہیں تو ان کی اس تمنا کو پورا کر دینا چاہئے۔ سرائیکی صوبہ قائم ہو جانے سے نہ پنجاب کے عوام کو کوئی نقصان پہنچے گا نہ پاکستان کی وحدت اور سا لمیت کو۔
پروفیسر فتح محمد ملک کی کتابیں
تعصبات
ندیم شناسی
پاکستان کامستقبل(سیاسی مضامین)
تحسین و تردید
اقبال فراموشی (اقبالیات)
سعادت حسن منٹو :ایک نئی تعبیر (منٹو شناسی)
احمد ندیم قاسمی:شاعر اور افسانہ نگار (ندیم شناسی)
اقبال کا فکری نظام اور پاکستان کا تصّور (اقبالیات)
اقبال اور افغانستان
فیض:شاعری اور سیاست (فیض شناسی)
انداز ِ نظر (مضامین)
اپنی آگ کی تلاش
اقبال – فکر و عمل (اقبالیات)
اردو ادب اور فلسطین
انداز نظر
تحسین و تردید
اقبال فکر و عمل
اقبال فراموشی
اقبال اسلام اور روحانی جمہوریت
ن م راشد شخصیت اور شاعری
انتظار حسین، شخصیت اور فن
انجمن ترقی پسند مصنفین
فیض کا تصور انقلاب
اردو زبان ھماری پہچان
پاکستان کا روشن مستقبل
آتش رفتہ کا سراغ
کھوئے ہوؤں کی جستجو
پاکستان میں اُردو جلد اول- سندھ
پاکستان میں اُردو جلد دوم- بلوچستان
پاکستان میں اُردو جلد سوم- اباسین
پاکستان میں اُردو جلد چہارم-پنجاب
…. انگریزی کتب…..
اقبال کی سیاسی فکر
پاکستان کے صوفی شعراء
پنجابی شناخت
اسلام بمقابلہ اسلام