وزیر اعظم شہباز شریف نے آج ایک عجیب بات کہی۔ انوویشن ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوست کہتے تو نہیں لیکن ان کے چہرے پر لکھا دکھائی دیتا ہے کہ آخر کب تک قرضے مانگتے رہو گے؟
پاکستان کا یہ پرانا مسئلہ ہے لیکن موجودہ دور میں اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی سنگینی میں اضافہ کیوں ہوا؟ یہ سمجھنا اور اس کا علاج کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں یہ تو ہوتا آیا ہے کہ حکومت بدلی تو اس کے ساتھ پالیسی بھی بدل گئی۔ نتیجے میں ترقیاتی عمل بھی رکا اور معیشت کو بھی نقصان پہنچا لیکن گزشتہ دور میں اس معاملے کی نوعیت بدل گئی اور عمران خان کی قیادت میں بننے والی حکومت نے پاکستان کے دوستوں کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر دیا جیسا سلوک وہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کر رہی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:
کراچی، بلدیاتی معرکے کے چند توجہ طلب پہلو
شہباز شریف، آذر بائیجان تا قزاقستان
زرداری نے کیوں کہا کہ الیکشن ان کی مرضی سے ہوں گے؟
پروفیسر فتح محمد ملک کی آج سال گرہ ہے
یہی سبب تھا کہ پاکستان کی اقتصادی زندگی کی علامت بن جانے والا منصوبہ اقتصادی راہ داری تباہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایسے اقدامات کیے گئے جن کی وجہ سے قومی معیشت مسلسل ڈوبتی چلی گئی۔
مقدمے ضروری مگر کیوں؟
عمران خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد ان پر کئی قسم۔کے مقدمات ہیں جن میں ذاتی طور پر بدعنوانی بھی شامل ہے اور اجتماعی بدعنوانی بھی۔ کسی حکمران پر ایسے جرائم کے الزام پر بھی مقدمہ چلنا چاہیے لیکن اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کی تباہی اور دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات تباہ کرنا ملک دشمنی کی ذیل میں آتا ہے۔ ایسے مقدمات بھی چلائے جانے چاہئیں۔ ایسا کر لیا گیا تو آئندہ کبھی کسی وزیر اعظم کو یہ گلہ نہیں کرنا پڑے گا کہ قرضوں کی وجہ سے قومی وقار خطرے میں پڑ گیا ہے۔