یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی لا وارث تھا اورکراچی ہی کیا اندرون سندھ میں بھی کوئی قابل ذکر کام ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ بلاول بھٹو نے جب چارج سنبھال لیا تو ان کی ٹیم بھی بنی جس میں بہت ہی قابل اور جوان قیادت سامنے آئی۔ جن میں ایک مرتضی وہاب بھی ہیں۔ مرتضی وہاب کو جب ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا تو اہل کراچی نے ان کو اپنی گلی اور محلے میں موجود پایا۔ وہ بہت متحرک تھے اور دل اور جان سے کام کر رہے تھے۔
بلاول vision ایکشن میں تھا مگر پھر سیاسی مجبوری آڑے آئ اور متحدہ کے مطالبے پر سیاسی ایڈمنسٹریٹر کو تبدیل کر دیا گیا۔ مگر اپنے اس مختصر سے دور میں مرتضی وہاب نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر کام کیا۔ مرتضی وہاب کے کام کے مقابلے میں کراچی کے لوگوں کی محرومیاں زیادہ تھیں۔ اسی کو جماعت اسلامی نے اجاگر کیا۔ ان مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔ حافظ نعیم صاحب کی بھر پور قائدانہ صلاحیتوں اور سوشل میڈیا پر ان کی بھرپور مہم نے جماعت کو بھی بہترین کامیابی دی۔
دونوں شخصیات اپنی اپنی جگہ بہترین ہیں۔ الیکشن گزر گیا ہماری درخواست ہے کہ جماعت عہدہ نہیں بلکہ خدمت کے objectives کو سامنے رکھ کر کام کا آغاز کرے۔ ایک بہترین ورکنگ relationships بنائی جائے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا بولنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ کراچی جس کو سجانے کا خواب مرتضی وہاب اور حافظ نعیم دونوں نے دیکھا ہے اسکی تعبیر پانے کے لیئےکام شروع کریں تاکہ اہل کراچی کے زخموں کا مداوا ہو اور ہم سب یہ کہہ سکیں ایک سے بھلے دو۔
یہ بھی پڑھئے:
قرضے کیلیے پھیلا ہاتھ کب تک؟ شہباز شریف کا سوال اور اس کا جواب
کراچی، بلدیاتی معرکے کے چند توجہ طلب پہلو