ADVERTISEMENT
ٹراوٹ مچھلی ، کیسر ، چھپ شورو، چیری ، خوبانی اور شتہوت، گلگت بلتستان کی سیر کے دوران کیسی کیسی نعمت سے پیٹ نہیں بھرا اور کیسے کیسے منظر سے دل نہیں لبھایا؟ پروفیسر یوسف ابراہیم کی دلچسپ یادیں
۔۔۔۔۔
آنکھیں فطری نظاروں کو ترس گئی ہوں، بیزاری اندر تک اتر گئی ہو ، حس جمال زخم زخم ہو ، یکسانیت سے ہر چیز بے رنگ ہو تو سیاحت بہترین تریاق ہے ۔ اور مجرب بھی اور یہی تو ہے گلگت بلتستان ۔
ان دیکھے چہروں، نئے رستوں، اساطیری تہذیبیں دیکھنے کو جی چاہے تو مختصر زاد ہمراہ کریں اور سفر کا رخت کیجئے افاقہ لازم ہے ۔
ایک اور یقین دلاوں ، وطن عزیز سے زیادہ حسن کہیں نہیں ۔ اگر جنوب کی صحرا نوردی کر چکے تو انتہائی شمال میں گلگت اور بلتستان کا رخ کیجئے۔
یہ بھی پڑھئے:
کوئی تیس سال پہلے ہنزہ سے ہم یہ کہ کر نکل آئے کہ اب اگلے سال سکردو آئیں گے۔ ۔۔! یہ بات جولائی 1993ء کی ہے ۔ رہ رہ کی علامہ صاحب کا مصرع یاد آتا رہا “کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر “
بہت انتظار کروایا جی گھانچے ، شگر ، کھرمنگ اور سکردو نے ۔ ہم نے بھی پھر خوب دھول اڑائی ان چار دنوں میں۔کیا کیا نہ دیکھا ؛ گاؤں بشوعلی ، جھیل اپر کچورا ، شنگریلا، وادیء سوق، وادئ شگر ، قلعہ فونگ کھر ، صحرائے سرفرنگا، منٹھوکا آبشار، بلائینڈ لیک ، قلعہ خپلو ، چقچقن، سیلنگ ، سوغا ، جھیل سدپارہ ، بدھا راک ، پولو گراونڈ سکردو ، اور آخر میں” نلتر” سبحان اللہ ،سبحان۔ دنیا میں جنت مثال ۔شہتوت اور چیری اپنے جوبن پر تھے خوبانی کا آغاز تھا ۔پیٹ بھر کھائے کہ پیٹ پکڑ کر رہ گئے ۔
میزبانوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، پلیٹیں بھر بھر کر ٹراوٹ مچھلی ، کیسر ، چھپ شورو، چیری ، خوبانی اور شتہوت پیش کرتے رہے۔ ہم مہمان بے زبان بھلا کیا کرتے ۔
دل سے دعائیں نکلتی ہیں میر کارواں ناصر امین صاحب اور ان کے دوست غلام محی الدین صاحب (ڈی ۔جی۔فشری) کے لئے ۔ جنہوں چاروں دن ہمارے لیئے ایک نوجوان مشاق ڈرائیور( عبدالمالک) مع ڈبل کیبن وگو ساتھ کر دیا ۔ اور ہر مقام پر آبادی سے دور دریا کنارے ایک گیسٹ ہاوس مختص کر دیا۔ خانسامے اور باورچی پابند کر دیئے ۔جنہوں نے چاؤ اور اہتمام کی حد کر دی ۔ دوسری رات تو ان کے روایتی جشن کو بھی دیکھا کہ ہر عمر کے لوگ ایک بڑی بیٹھک میں جمع ہیں اور علاقائی موسیقی کے ساتھ سرور میں رقصاں ہیں۔
سیکڑوں میل دور ایسے دریا دل میزبان کا ملنا کسی خضر سے کم نہیں۔چودھری اکرم صاحب اور ڈاکٹر عمر نیاز جیسے درد آشنا، ہم ذوق اور اہل ظرف کا ساتھ بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔پروفیسر حاجت علی اور پروفیسر انصار اسٹوری کا بھی شکریہ ۔