سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اصلی جھگڑا ہے کیا؟ بہت سے باخبر صحافیوں کی خبر یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان سب کچھ درست نہیں ۔ حامد میر صاحب کی اطلاع یہ ہے کہ لڑائی ہو چکی جب کہ بعض دیگر باخبر حلقوں کے مطابق معاملہ الیکشن کی تاریخ کا ہے۔
اس لڑائی کے کئی ثبوت میر صاحب نے پیش کیے ہیں۔ پہلا ثبوت یہ ہے کہ آصف علی زرداری صاحب جب لاہور گئے تو پیپلز پارٹی نے اس موقع پر شہر میں بینر لگائے جنھیں راتوں رات اتار دیا گیا۔ دوبارا لگائے تو دوبارا بھی یہی ہوا۔
پنجاب میں جب مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کو گنجائش دینے سے انکار کر دیا تو پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ کے امیدوار مشتاق منہاس کو شکست دے کر جوابی وار کیا جس سے دونوں جماعتوں کے درمیان مزید بدمزگی پیدا ہوئی۔
یہ بھی پڑھئے:
نو مئی کی بغاوت کا ہٹلر کی بغاوت سے تعلق کیا ہے؟
آزادی صحافت کو درپیش فیک نیوز کا چیلنج
سنڈے میگزین بند کیوں ہوا، اخبار مرتے کیوں ہیں؟
دونوں جماعتوں کے درمیان بدمزگی کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نہیں چاہتی کہ پیپلز پارٹی اس کے گڑھ میں اپنی بنیاد کو مضبوط کرے۔ یہ امکان درست ہوسکتا ہے کیوں کہ کوئی سیاسی گروہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا گروہ اس کے مضبوط مرکز کو کمزور کر کے اپنے لیے جگہ پیدا کرے۔ مسلم لیگ ن جیسے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو جگہ دینے کی خواہش نہیں رکھتی بالکل اسی طرح پیپلز پارٹی بھی نہیں چاہتی کہ مسلم لیگ ن سندھ میں جگہ بنائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں جماعتوں کے درمیان ایک ان لکھا سمجھوتہ موجود ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف کس بات پر ہے۔ ‘ آوازہ’ کی اطلاعات کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان اختلاف انتخابات کی تاریخ پر ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ انتخابات اکتوبر میں ہو جائیں جب کہ مسلم لیگ نومبر میں انتخابات کا ارادہ رکھتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک ماہ کے فرق کی اہمیت کیا ہے؟ دونوں جماعتوں کے لیے یہ ایک ماہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انتخابات اگر اسی سال اکتوبر میں ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں میاں نواز شریف کو ملک میں اپنی جماعت کی قیادت کے لیے کم وقت ملے گا لیکن نومبر میں انتخابات ہوتے ہیں تو نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن جھاڑو پھیر سکتی ہے۔ ‘ آوازہ ‘ کو معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بس یہی اختلاف ہے لیکن یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جو ان دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت کو نقصان پہنچائے۔