میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت مقدم ہیں لیکن ایک مسئلہ اس سے بھی بڑھ کر ہے، یہ مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیسے ممکن ہے۔ کیا سیاست دان اس پر بھی غور کریں گے؟
———————————————————————————————————————-
وقفے وقفے سے اور عہد بہ عہد اگر پارلیمانی نظام میں عسکری و عدالتی مداخلت نہ ہوئی ہوتی تو آج پاکستان کی واقعی اور حقیقی صورت کیسی ہوتی؟
جمہوریت کی اہمیت بھی مسلمہ اور معیشت کی بات بھی متفقہ مگر پاکستان کا مہا مسئلہ کیا ہے؟دیکھئے ہمارا قضیہ کبریٰ جمہوریت ہے نہ معیشت بلکہ پاکستان کا اساسی و مرکزی معاملہ حاکمیت کاٹھہرا۔ پاکستان کا پارلیمانی نظام اب ایک نئی صبح چاہتا ہے،وہ بھی صبح صادق۔ سو سوالوں کا ایک سوال کیا پاکستان میں ایک ایسی نئی ابتدا ممکن ہے جو غیر آئینی اقدامات کی بساط دائم لپیٹ سکے؟
میثاق معیشت کا احترام اپنی جگہ اور میثاق جمہوریت کا احترام الگ لیکن ان سے بھی بڑھ کر پاکستان کو میثاق حاکمیت کی ضرورت آن پڑی ہے۔میثاق جمہوریت کے علمبرداروں کو رات کی سیاہ مستیوں کے بعد اگر صبح خمار کی تلخ کامیوں سے ہی پالا پڑنا تھا تو جی کی حسرت تو نکال لی ہوتی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو چاہئیے تھا کہ نپے تلے پیمانے کی بجائے جام کے جام لنڈھا دئیے ہوتے۔ قانونی تعبیر کے جبر اور خاکی کے قہر کو چیلنج کرنا ایک بات ہے اور کسی نئی ابتدا کے لیے ڈول ڈالنا چیزے دیگر است۔
یہ بھی پڑھئے:
آئی ایس پی آر کا اعلان، ایک نیا قومی عمرانی معاہدہ کیسے ہے؟
پرومیتھیوز کے خطوط میں پاکستان کی کہانی
اسپیشل فسیلیٹیشن کونسل، میثاق معیشت کی طرف پہلا قدم
لیاقت علی خان سے نواز شریف تک بلکہ عمران خان تک….سیاست اور پارلیمنٹ کو مسلسل مزاحمت کے جھٹکے لگتے آئے ہیں۔آخر یہ کج روایتی اور ٹیڑھی کھیر کب تک؟ کب تک خزاں خرمستیاں کرے گی اور کب تک پاک سر زمیں پر گھپ اندھیرے چھائے رہیں گے۔وقت کے پہیے پر آخر کب تک بزم اس طرح سجائی جائے گی کہ ایک کے بعد دوسرا واقعہ من مرضی سے ظہور پذیر ہو۔کنونشن لیگ، ق لیگ اور اب استحکام پارٹی،آخر کتنی سیاسی پارٹیاں طاقت کے زچہ خانہ میں جنم لیں گی؟
جمہوریت سے سچی وفاداری اور قلبی وابستگی رکھنے والے سیاستدانوں کا مزاج بھی نہ بدلا۔ان کی بھی وہی گھسی پٹی صبح ہے اور پرانی شام ہے جو اپنے اتمام کو پہنچنی چاہئے۔جنوں اور جادوگروں کی بستی میں بھی اچھی ہستیاں پائی جاتی ہونگی ۔کہاں ہیں وہ لوگ جو جو حکمت کی مشورت سننے والے اور دانائی کے موتی چننے والے ہوں۔کون ہے وہ جو زبردستی ان کے دماغوں میں حقیقت کا اکتشاف کرے اور کانوں کو حقایق کی آواز سے آشنا کرے۔انہیں کوئی سمجھائے کہ دنیا بھر کے اقوام و ممالک اور قبائل و ملل اب عوام کے حق حکمرانی اور پارلیمانی بالادستی کو ایک حتمی صداقت کے طور پر قبول کر چکے۔
کہا جاتا ہے 1988 میں سانحہ بہاولپور کے بعد طاقت کے مالکوں نے انتقال اقتدار کا نہیں شراکت اقتدار کا فارمولا گھڑا تھا۔سچی اور دل لگتی بات ہے کہ میثاق حاکمیت کی حاجت تب ہی درپیش تھی۔19 جون 2012 کو جب تعبیر کے جبر پر یوسف رضا گیلانی کو نااہل کیا گیا تب میثاق حاکمیت کی ضرورت نہ تھی؟ آگے چل کر جب نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو تشریح کی کاری اور دو دھاری تلوار سے نا اہل کیا گیا تب میثاق حاکمیت کی اہمیت کم تھی؟ تقسیم سے تا ایں دم درون خانہ طاقتور ہاتھ مسلسل سیاست کے تعاقب میں رہے۔جہاں عقل کشف وکرامات کی زد میں ہو تو سیاست سازش کا شکار ہو جائے تو پھر تحیر کیسا اور کیونکر!
خواجہ ناظم الدین،محمد علی بوگرا،چودھری محمد علی،حسین سہروردی،فیروزخان نون اور محمد خان جونیجو۔۔۔۔ایسے مجبور محض وزرائے اعظموں کا تو خیر ذکر کیا کہ یہاں ذوالفقار بھٹو،بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایسی قدآور اور رعنا و توانا شخصیتوں کو بھی جنوں اور جادوگروں کا سامنا رہا۔پاکستان میں معیشت خوار و خراب اور نزار و نحیف پہلے کب تھی البتہ پارلیمانی نظام سے کھینچا تانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی کہانی پرانی رہی۔ایوب خان کی وزارت دفاع میں شمولیت سے حاکمیت کا جو کھیل کھل کر شروع ہوا ،ہنوز اس صورتحال میں ابھی بھی کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔شہباز شریف اور آصف زرداری میثاق معیشت کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے لیکن پاکستان ایسے عجائب الدھر میں میثاق حاکمیت کی بات کون کرے۔
کٹھ پتلیوں کے کھلاڑیوں ،جادوگروں اورجنوں کو بھی دیر سویر مانتے بنے گی کہ فروع اصل سے مل کر ،قطرہ قلزم میں رہ کر اور شعاع خورشید سے جڑ کر ہی باقی اور با معنی رہی ہے۔باقی سب افسوں ہے،سحر ہے ،طلسم ہے اور قصہ گو کالم نویسوں کی کہانیاں ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نواز شریف پہلے آدمی ہیں جن کے دوسرے اور تیسرے عہد میں گاہ گاہ گماں ہوتا رہا کہ دستوری اور جناتی طاقتوں کا ٹکراؤ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو ا چاہتاہے۔مقام مسرت کہ دونوں جانب سے کبھی آگے بڑھ کر اور کبھی پیچھے ہٹ کر صورتحال کو معمول کی جانب لوٹایا جاتا رہا۔لیکن آخر کب تک؟ہماری قومی اور جمہوری تاریخ میں پارلیمان کبھی چراغ مفلس کی مانند ٹمٹماتی رہی اور ناگاہ نگاہ کو ایسا بھی لگا کہ آئینی تھپیڑوں کے آگے الہ دین کا چراغ بس بجھا چاہتا ہو۔دیکھئے بات کسی ادارے کے اتفاق یا اختلاف کی نہیں کہ آئینی حدود و قیود کا جیومیٹرک مسئلہ ہے۔بات سیاسی بالا دستی کی ہے تو سہی لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کرآئین کی فرمانروائی مقدم ہے۔بلکہ سب سے آگے بڑھ کر دراصل قضیہ کبریٰ 18کروڑ عوام کے حق حکمرانی کا ہے اور یہ حق نا قابل تنسیخ حق ہے۔نوا ز شریف اپنے تمام تر حسن نیت کے باوجود پاکستانی سیاست کو ایک نئی صبح سے ہنوز ہمکنار نہیں کر پائے۔دوڑ دھوپ ،تگ و تاز ،ہیوی مینڈیٹ ،مواقع اور صدق دلی کے باوجود آخر وہ ناکام کیوں؟اس کا سبب اب اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں سے میثا ق حاکمیت کرنے کا وقت آن پہنچا۔