آوازہ: ڈاکٹر فاروق عادل
پاکستان قزاقستان رشتے
تھوڑا سفر میں نے گاڑی میں کیا اور کچھ پیدل چل کر۔ میں مرکزی شاہراہ سے نیچے اتر گیا۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ آستانہ شہر کے بیچوں بیچ سے ایک دریا گزرتا ہے، ہوسکے تو اس کے کنارے چہل قدمی کرنا۔ اس یاد کا تعلق ایک ملاقات سے ہے۔ چند روز ہوتے ہیں، عزیز بہن عفت رؤف کی معیت میں قزاقستان کے سفیر عزت مآب یرزہان کستافین (Yerzhan Kistafin) سے ملاقات ہوئی۔ پاکستان اور قزاقستان کے نسلی، لسانی اور ثقافتی رشتوں پر بات کرتے ہوئے وہ لحظہ رکے پھر مسکراتے ہوئے انکشاف کیا کہ کچھ دن ہوتے ہیں کہ ہمارے صدر عزت مآب قاسم جمعرات توکائیو ( Kassym Jomart Tokayev) صاحب نے وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کو فون کیا ہے۔ اس رابطے میں باہمی رشتوں کے تعلق سے بہت پر جوش اور پرخلوص گفتگو رہی ہے۔ اس خبر کی سرشاری ابھی باقی تھی کہ وزارت خارجہ پاکستان کے انتہائی اعلی اہل کار برادرم سید احسن رضا شاہ ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے آستانہ روانہ ہوگئے۔ گویا صدر قاسم جمعرات کے ٹیلی فون کا فالو اپ شروع ہو گیا ہے۔
احسن رضا شاہ کے دورے نے تو گویا یادوں کے دریچے کھول دیے۔ نہ صرف یہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کی نوعیت اور باہمی تعاون کے امکانات کی مختلف صورتیں ذہن میں آگئی بلکہ ایک ساتھ کیے ہوئے دورہ قزاقستان کی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔
صدر مملکت کے وفد کے رکن کی حیثیت سے ایسی آوارہ خرامی ممکن تو نہیں ہوتی لیکن ایک سہ پہر ایسا ہو گیا۔ بالائی قزاقستان سے آنے والی یخ ہواں نے دریائے ایشم کے پانیوں کو چھونے کے بعد میرے چہرے کا بوسہ لیا تو جسم و جان میں بجلی سی دوڑ گئی۔ ستمبر کے دوسرے ہفتے کا موسم شہر والوں کے نزدیک ممکن ہے کہ سرد نہ کہلاتا ہو لیکن میرے جیسے میدانی ملک کے باسی کے لیے یہ سردی سے بھی کچھ بڑھ کر تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد کوئی قزاق بھی اگر مناسب لباس پہنے بغیر کھلے میں نکل آئے تو اس کے دانت بھی بج اٹھتے ہیں۔ خیر، میں نے اپنے دانتوں کو سنبھالا اور اپنے دامن میں شمالی پہاڑوں کی جڑی بوٹیوں کی خوشبو بسائے خاموشی سے بہتے دریا کے پہلو بہ پہلو چہل قدمی کی پھر ایک خوبصورت بینچ کی گود میں بیٹھ کر سوچا، اس دیس کو میں نے کیسے جانا اور کب؟ یہ سوال میرے ذہن میں آیا پھر یادیں خوشبو دینے لگیں۔
یہ پرانی بات ہے، ان زمانوں کی جب ہماری نسل کے والدین چاہتے تھے کہ ان کے بچے زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور ان کے مطالعے میں وہ کچھ بھی شام ہو جائے جو ان کے تعلیمی نصاب میں شامل نہیں اور شامل ہونے کا امکان بھی نہیں۔ ابا جی نے مجھے ایک کتاب لا کر دی، ‘ خلت قزاق کے کارنامے ‘ ۔ سفید خشخشی داڑھی والے اپنے والد سے میں نے ہر کتاب ہمیشہ خوشی کے ساتھ وصول کی لیکن یہ پہلی بار تھی جب میں نگاہیں جھکاکر سوال کیا کہ ابا جی! کیا اب مجھے قزاقوں کے کارنامے بھی پڑھنا پڑھیں گے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب اخبار رسالوں میں بحری قزاقوں کی لوٹ مار کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوا کرتیں۔ اسی زمانے میں؛ میں نے ان قزاقوں کی کچھ کہانیاں بھی پڑھیں جن کی ایک آنکھ پر کالی پٹی بندھی ہوتی۔ ابا جی مرحوم میری الجھن سمجھ گئے اور ہنستے ہوئے کہا کہ عقل مند! یہ قزاق اخبار کی خبروں والا نہیں۔ یہ ایک قوم کا نام ہے جس کے خون اور زبان کے رشتے یہاں وہاں یعنی پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔
یہ مرحوم سوویت یونین کے زمانے کی بات ہے جب میں خلت قزاق کے توسط سے قزاق قوم سے متعارف ہوا۔ کچھ بڑے ہونے پر ہیرالڈ لیم کو پڑھنے کا موقع ملا جس نے بتایا کہ اس سورما یعنی خلت قزاق کے کارناموں کا میدان یوکرین سے لے کر یہ ہمارے جہلم تک پھیلا ہوا تھا۔ قزاقستان سے یہ تھا میرا پہلا تعارف۔ 2017 میں او آئی سی کی سائنس اور ٹیکنالوجی سربراہی کانفرنس کی رعایت سے دوسرا تعارف ہوا۔ اس کے بعد عفت رؤف مل گئیں جو نہ صرف خود بلکہ ان کے شوہر ڈاکٹر رؤف امیر مرحوم بھی اس ملک کے عاشق زار تھے۔ مرحوم ڈاکٹر صاحب کی کتاب ‘ شاہراہ ریشم کی جان’ تو یوں سمجھ لیجئے کہ اس ملک کا انسائیکلوپیڈیا پیڈیا ہے۔
خلت قزاق جیسے حیرت انگیز سورما کے کارنامے اپنی جگہ، اس ملک میں میری دل چسپی کی وجہ وہی تھی جس کی نشان دہی میرے والد مرحوم نے کی بعد میں جناب باسط شاہ نے اس کی کچھ مزید تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یہ باسط شاہ وہی ہیں جو کئی برس تک الماتی میں ہمارے کمرشل اتاشی رہے ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ ہمارے پنجاب کے بعض پہاڑی یا میدانی علاقے ہوں یا خیبر پختونخوا کی وادیاں، ان میں بسنے والے لوگوں کے آبا اجداد کی ایک بڑی تعداد قزاق نسل سے تعلق رکھتی ہے یا ان کے رشتے اس دیس سے جڑے ہوئے ہیں کہ بہت سے معلوم اور بہت سے نامعلوم زمانوں میں یہ لوگ قزاقستان سے ہجرت کر کے ان میدانوں اور وادیوں میں پہنچے جب ہمارے یہ بزرگ قزاقستان کی وادیوں اور میدانوں س توے نکل کر یہاں پہنچے تو ان کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی یہاں آئیں۔ اب اگر اسے شدت پسندی نہ سمجھا جائے تو ہمیں خلت قزاق کی خمیدہ اور پتلی تلوار کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جو کبھی برصغیر میں مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوئی۔ ہمارے اقبال نے کہا تھا
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
کچھ عجب نہیں کہ حالت زوال میں عظمت رفتہ کے خواب دیکھنے والے ہمارے اقبال نے ہلالی خنجر کی ترکیب اسی خلت قزاق کی تلوار سے متاثر ہو کر تراشی ہو۔
خلت قزاق کے ساتھ یہی ایک تلوار تو ہمارے یہاں نہیں پہنچی، قزاقستان کی ‘ بہ ورسک’ بھی پہنچی۔ یہ جو ہمارے خیبر پختونخوا میں آج بھی آٹے کے پیڑے میں قیمہ گوندھ کر روٹی بنائی جاتی ہے، بہ ورسک نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ قیمے والا نام سمجھ لیجئے۔ بہ ورسک کا ذائقہ مجھے نہیں بھولتا۔ خاتون اول محترمہ محمودہ ممنون اور برادرم عدنان ممنون کے ساتھ ہم خان شتائر سے نکلے تو دوپہر ڈھلنے کو تھی۔ سفیر صاحب کی بیگم ہمیں ایک ایسے ریسٹورنٹ میں لے گئیں جس میں دریائے ایشم سے آنے والے پانی کے چھوٹے چھوٹے جھرنے بہتے تھے۔ مجھے ان جھرنوں کا ترنم اور بہ ورسک کا ذائقہ کبھی بھول نہ پایا، ہاں البتہ گھوڑے کے گوشت کے ساتھ نہ بن سکی جس کی ایک خوبصورت گول اور چھوٹی سی بوٹی میں نے منتخب کی لیکن وہ کوشش کے باوجود حلق سے نہ اتر سکی۔ اس روز میری سمجھ میں آیا کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں گوشت زیادہ بھون کر کیوں نہیں کھایا جاتا۔
تلوار سے شروع ہونے والی بات خورد و نوش تک جا پہنچی لیکن ابھی میرے دامن میں کچھ کہانیاں اور بھی ہیں۔ یہ اس دورے کی بات ہے کانفرنس کے بعد ثقافتی پروگرام میں موسیقی کی کچھ شناسا اور جانی پہچانی آوازیں کان میں پڑیں تو میں چونکا۔ باسط شاہ کہنے لگے کہ یہ دومبرا (Dombra) سے اٹھنے والی تانیں ہیں۔ یہ دومبرا کیا ہے، یہی ہمارا رباب تو ہے جس کی مدھر تانوں پر ہم پاکستانی جھوما کرتے ہیں۔ گویا قزاقستان تا پاکستان براستہ افغانستان رباب کی عملداری ہے اور یہ مشترکہ ورثہ ہمارے جذبوں کو کچھ ایسی منفرد زبان دیتا ہے، کوئی صاحب ذوق جس کے سحر سے بچ نہیں پاتا۔
پاکستان اور قزاقستان کی کہانی ہتھیار کے بعد پیٹ کی غذا سے روح کی غذا کے مشترکات تک پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ ان کے علاوہ تین چیزیں ایسی ہیں جو خاص طور پر ہم دو قوموں میں ہی ایک جیسی ہیں۔ اول، نوروز، دوم، شاہین پروری اور تیسرے ہجرت کرنے والے پرندے جو سائبریا سے چل کر قزاقستان سے ہوتے ہوئے پاکستان پہنچ کر بسیرا کرتے ہیں بالکل ان قبائل کی طرح کبھی اس دیس سے نکلے اور پاکستان کی وادیوں اور میدانوں میں پہنچے۔ گلابی سردیوں میں یہ رنگ برنگے خوش نما پرندے جب پاکستان کی جھیلوں اور دریاں پر کسی شاندار پائلٹ کی طرح پر سمیٹ کر لینڈنگ کرتے ہیں تو ہم پاکستانی دور درازکے ان مسافروں کی زیارت کو بڑے شوق سے پہنچتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے قزاق دوست اگر ان کی ہجرت کا جشن مناتے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اس میں شامل جایا کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک ساتھ منانے والی خوشیوں میں برکت کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ یہی برکت نو روز میں بھی ڈھونڈی جا سکتی ہے اور عقاب پروری جیسے مشغلے میں بھی۔
نسلی رشتوں اور مشترکہ ثقافتی مظاہر کے تذکرے میں؛ میں زیادہ دور نکل گیا، یہ بتانا بھول ہی گیا کہ وسط ایشیا کی زبانوں میں قزاق زبان ہی ہے جو اردو سے بہت قریب ہے۔ میں نئے پرانے آستانہ کے گلی کوچوں میں بے تکلف گھومتا اور قزاق بھائیوں سے ملتا جلتا رہا، انٹرپریٹر تو بس ایک آدھ بار ہی ہمارے ساتھ تھا، اس کے بعد ہم دلیر ہو گئے۔ میں اردو الفاظ بولتا، قزاق اپنی کہتے۔ اس کے باوجود بات سمجھ میں آ جاتی۔ میں سوچتا ہوں ‘ خلت قزاق کے کارنامے ‘ کے بعد قزاق ادب کی شاید ہی کوئی کتاب اردو میں ترجمہ ہوئی ہو۔ بہتر تو یہی ہے کہ یہ نیک کام بھی ہم جلد شروع کردیں۔ قزاق ادب اردو میں منتقل کریں اور اردو ادب قزاق زبان میں۔ وہاں اردو کے فروغ کے لیے مرحوم ڈاکٹر رؤف نے بنیاد تو رکھ ہی دی تھی پھر 2019 میں برادرم باسط شاہ کی کوششوں سے الفارابی سنٹر میں محمد علی جناح سنٹر بھی بن گیا جہاں اردو کے نغمے گونجتے ہیں، بہتر ہو کہ یہاں بھی قزاق زبان سکھانے کا کوئی انتظام کر دیا جائے۔ ایسا ہو جائے تو سچ یہ ہے کہ دونوں بھائی گلے مل کر یہ گلہ نہیں کر سکیں گے کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔
تو بات یہ ہے کہ رنگ، نسل اور زبان کے رشتے بڑے بامعنی اور گہرے ہوتے ہیں لیکن وہ پائیدار اسی صورت میں بنتے ہیں اگر ان کے اقتصادی سرگرمی بھی جڑ جائے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور عزت مآب قاسم جمعرات کی اس سلسلے میں سنجیدگی تو سامنے آ ہی چکی ہے۔ اب جناب احسن رضا شاہ کے دورے کے بعد تو ہوں سمجھئے کہ ایک نئے خوب صورت دور کاآغاز ہو ہی چکا ہے۔