اقتصادی بحران کے تعلق سے خیال اگر آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی طرف جاتا ہے یا سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں اور دوستوں کی طرف جاتا ہے تو بھی ٹھیک ہے اور سخت دبا ؤکے باوجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم کی محنت کی طرف تو اس میں بھی ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن اصل خبر کچھ اور ہے اور وہ ہے ایک خاموش جمہوری میثاق
ایک صفحے کے حکومت کی تو خیر ادائیں اور کارنامے ہی الگ تھے کہ اس نے ذمے داریاں بہت ‘ ایمان داری’ کے ساتھ تقسیم کر رکھی تھیں۔ مخالفین کے لتے لینے، بے توقیر کرنے اور اذیتیں دینے کا کار خیر اس نے اپنے ذمے لے رکھا تھا اور ریاست چلانے کی ذمے داری اس نے آؤٹ سورس کر رکھی تھی۔ یہ لوگ کسی ذمے دار حکومت کے کرتا دھرتا ہوتے یا فی الاصل سیاست دان ہوتے تو ڈوب ہی مرتے لیکن انھیں ایسی نالائقی کا اشتہار دیتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی تھی اور وہ کھل کر اعلان کرتے تھے کہ ہم اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی کے لیے ایجنسیوں سے مدد لیتے ہیں۔
یہ وہی حکومت تھی جسے اپنے قیام کے پہلے ہی روز قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے محمد شہباز شریف نے پیش کش کی تھی کہ آئیے، میثاق معیشت کرتے ہیں تاکہ نہ صرف یہ کہ ملک کے اقتصادی اہداف کاتعین بلا کسی اختلاف کے ہو جائے بلکہ ان اہداف کے حصول کے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود آگے بڑھنے پر بھی اتفاق ہو جائے۔ عمران خان نے اپنے نام نہاد ایک صفحے کی طاقت اور اپنے مزاج کی قوت متحرکہ یعنی رعونت کے زیر اثر اس مخلصانہ پیش کش کو مسترد کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس دن کے بعد طلوع ہونے والا ہر نیا سورج قومی معیشت کی تباہی اور بربادی کی خبر لایا۔ بربادیوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک جنرل باجوہ کا سورج غروب نہیں ہو گیا۔
یہ بھی پڑھئے:
ہم نے جو بھلا دیا، پاکستان کی سچی تاریخ
وہ جن کی بند قبا پانامہ نے تار تار کی
بریگیڈیئر صولت رضا کے پیچ و تاب
خود اپنے اعلان کے مطابق باجوہ صاحب کے گوشہ گم نامی میں چلے جانے کے بعد قومی منظر پر ایک ایسی تبدیلی نہایت خاموشی کے ساتھ رونما ہوئی جس کی خواہش اس ملک کے محب وطن طبقات ایک طویل عرصے سے کر رہے تھے۔ خواہش تو ایک ہی تھی لیکن ممکن ہے کہ اس کے عنوانات مختلف ہوں جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اولاً نیا عمرانی معاہدہ قرار دیا پھر مفاہمت۔ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اسے سچائی کا اقرار اور مفاہمت کا نام دیا کرتے تھے۔ عمران حکومت کے قیام کے وقت شہباز شریف نے اسے میثاق معیشت کا نام دیا۔ یہ آخری عنوان ممکن ہے کہ اپنے دامن میں ذرا محدود گنجائش رکھتا ہو لیکن حقیقت یہ تھی کہ ان سارے عنوانات یا تجاویز کا مقصد ایک ہی تھا کہ وطن عزیز کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پورے اتحاد اور مخلصانہ بھائی چارے کے ساتھ کنارے لگایا جائے۔
باجوہ عمران گٹھ جوڑ کے خاتمے کے بعد کسی کے پاس ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی تھی کہ وہ اس راستے کے سوا کسی اور راستے کا مسافر بنے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مفادات پر مبنی گٹھ جوڑ کے خاتمے کے بعد ریاست کے مختلف اسٹیک ہوڈرز میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اب گنوانے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے لہٰذا اس کے سوا ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ راستہ اختیار کیا جائے قوم کے مدبرین ایک طویل عرصے سے جس کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
اس سلسلے کی ابتدا یوں سمجھ لیا جائے کہ اسی وقت سے ہو گئی تھی جب جنرل باجوہ نے نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ میں اعلان کیا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ پاکستان ایک نارمل ملک کے طور اپنے راستے کا انتخاب کرے۔ جنرل باجوہ نے یہ اعلان تو کر دیا لیکن وہ اپنے ذاتی ایجنڈے کو پس پشت ڈالنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے نتیجے میں حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا لیکن کمان کی تبدیلی کے بعد صورت حال مکمل طور بدل گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ٹرتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کا کہہ لیجئے یا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی ری کنسیلی اور عمرانی معاہدہ، عمران باجوہ دور بیت جانے کے بعد ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان یہ عمل انتہائی خاموشی سے انجام پا گیا اور یہ طے پا گیا کہ پہلے سے پھیلایا ہوا گند سمیٹ کر ہر ادارہ اور ہر فرد اپنی اپنی آئینی ذمے داری کی طرف لوٹ جائے گا۔
9 مئی کے تکلیف دہ واقعات رونما نہ ہو جاتے تو یہ عمل کہیں پہلے مکمل ہو چکا ہوتا لیکن اب تاخیر سے ہی سہی، یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا۔ ریاست کے ذمے داروں کے درمیان یہ جو غیر علانیہ میثاق وجود میں آیا ہے، ایک اور میثاق بھی اس کے نتیجے میں وجود میں آگیا ہے اور وہ میثاق ہے، میثاق معیشت۔ یہی میثاق معیشت ہے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی طرف سے پیدا کی جانے والی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی ہوا اور قومی معیشت استحکام کے لیے دیگر اقدامات بھی ہوئے جن میں وسط ایشا سے روس تک بارٹر ٹریڈ بھی شامل ہے اور پاک ایران مشترکہ مارکیٹوں کا قیام بھی۔ ابھی اس ضمن میں مزید کام بھی ہونے ہیں جو سامنے آتے جائیں گے اور ہمیں حیران کرتے جائیں گے۔ حرف آخر یہ کہ آئندہ ایک ایسی حکومت ہوگی جو اس قومی میثاق کی پاسداری کرنے اور اس میثاق کے مطابق معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہوگی، نا سمجھ ، کھلنڈرے اور ریاست کو بازیچہ اطفال بنانے کے کیے گنجائش اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے۔