سابق وزیر اعلٰی گلگت بلتستان خالد خورشید خان کی 4 جولائی 2023ء کو چیف کورٹ گلگت بلتستان سے جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کے بعد پیدا ہونے والا خلا پُر ہوگیا ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے 13 جولائی 2023ء کو ہونے والے اجلاس میں حاجی گلبرخان 32 رکنی ایوان میں موجود 20 میں سے 19 ارکان کی حمایت سے نئے وزیر اعلی گلگت بلتستان منتخب ہوگئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے فاروڈ بلاک سے تعلق رکھنے حاجی گلبرخان کو ملنے والے 19 ووٹوں میں پاکستان تحریک انصاف کے 12، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے 3، 3 اور ایک رکن جمعیت علماء اسلام کا ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی مجموعی طور پر 33 رکنی ہے، خالد خورشید خان کی نااہلی سے جی بی ایل اے 13 استور 1 کی نشست خالی ہے۔ ایوان کے 32 ارکان میں سے 19 ارکان نے حاجی گلبرخان کی حمایت کی اور ایک رکن اسپیکر نے اجلاس کی صدارت کی، آزاد رکن اور قوم پرست رہنما نواز خان ناجی نے ایوان میں موجود ہوتے ہوئے بھی انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا، پیپلز پارٹی کے ایک رکن امجد حسین ایڈووکیٹ کراچی میں ہونے کی وجہ سے انتخابی عمل میں شریک نہ ہوسکے، جبکہ وزارت اعلیٰ کے تین امیدواروں پاکستان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار راجہ اعظم خان، تحریک انصاف ہم خیال گروپ کے جاوید علی منوا اور راجہ ذکریا مقپون سمیت 10 ارکان نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کردیا۔
یہ بھی پڑھئے:
ہم نے جو بھلا دیا، پاکستان کی سچی تاریخ
وہ جن کی بند قبا پانامہ نے تار تار کی
موجودہ 32 ارکان کے حساب سے پارٹی پوزیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے 21، پاکستان پیپلز پارٹی کے 4، پاکستان مسلم لیگ نواز کے 3, جبکہ جمعیت علماء اسلام، اسلامی تحریک پاکستان ، مجلس وحدت مسلمین اور آزاد ایک ایک رکن ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے ہیں تو 3 ارکان مگر انکے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے 2 ارکان پاکستان تحریک انصاف کے کوٹے پر منتخب ہوئے اور ریکارڈ میں انکا شمار وہیں پر ہوتا ہے اور ان پر پارٹی فیصلے بھی قانونی طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ہی لاگو ہونگے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور صوبائی صدر خالد خورشید خان کے نامزد امیدوار راجہ اعظم خان کو آخری وقت پر پارٹی اور اتحادیوں کے 23 میں سے اپنے آپ سمیت صرف 6 ارکان کی حمایت حاصل رہی، جن میں مجلس وحدت مسلمین کے 3 (بمع 2 تحریک انصاف کوٹہ والے)، 2 تحریک انصاف اور ایک رکن اسلامی تحریک پاکستان کا تھا۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تحریک انصاف باقی چار ارکان خود امیدوار تھے یا انکے حامی۔
اس پورے عمل میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور صوبائی صدر خالد خورشید خان کے نامزد امیدوار راجہ اعظم خان اپنی پارٹی کے خود سمیت 2 ہی ارکان حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے، تحریک انصاف کے خالص 19 ارکان میں سے 17 نے پارٹی کے مرکزی چیئرمین اور صوبائی صدر کے حکم کو نہیں مانا، اگر چہ آخری دنوں میں نامزد امیدوار راجہ اعظم خان نے خود بھی پارٹی کے بجائے ہم خیال گروپ کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے بھرپور کوشش کی، مگر کامیابی نہ مل سکی۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ راجہ اعظم خان کے پاس 5 جولائی 2023ء کی ہنگامی پولنگ (پبلک نوٹس، کاغذات نامزدگی جمع، جانچ پڑتال، کاغذات واپسی اور انتخاب کے لیے ٹوٹل 6 گھنٹے تھے) کی صورت میں واضح اکثریت تھی، مگر اسپیکر نزیر احمد ایڈووکیٹ کی جانب سے پارلیمانی قوائد و ضوابط اور گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے دئے گئے تقاضوں کو پورا نہ کرنے پر پاکستان تحریک انصاف فاروڈ بلاک نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے 5 جولائی 2023ء کے وزیر اعلی انتخابی شیڈول کو معطل کرکے اسپیکر کو ہدایت کی کہ 6 جولائی 2023ء کو گلگت بلتستان آرڈر 2018ء اور اسمبلی کے قوائد و ضوابط کے مطابق نیا شیڈول بناکر عدالت میں پیش کریں، بعد ازاں عدالتی حکم کے مطابق شیڈول ملنے پر عدالت نے شیڈول کے مطابق وزیر اعلی کے انتخاب کا حکم دیا۔
نئے شیڈول میں پبلک نوٹس اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل 12 جولائی 2023ء، جبکہ کاغذات واپس لینے اور انتخاب 13 جولائی 2023ء کو رکھا گیا۔
یعنی 5 سے 12 جولائی کے دوران گیم کلی طور پر الٹ ہوگیا، حاجی گلبرخان نے 5 جولائی کو تحریک انصاف کے نامزد امیدوار کے مقابلے میں امیدوار بننے کا اعلان کیا تو اس وقت انکو اپنے آپ سمیت تحریک انصاف کے 4 ارکان کی حمایت حاصل تھی، جبکہ پارٹی کے نامزد امیدوار 17 ممبرانِ کی حمایت تھی اور ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان کی بڑی تعداد نے قرآن مجید پر حلف کرکے حمایت کی یقین دہانی کرائی تھی۔
تحریک انصاف کے نامزد امیدوار راجہ اعظم خان اور تحریک انصاف ہم خیال گروپ کا دعویٰ ہے کہ انکو روکنے کے لیے وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں نے انتہا درجے کا اثر رسوخ استعمال کیا اور انکا یہ دعویٰ حقائق کے انتہائی قریب تر ہے۔
وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کی حمایت اور تعاون کے حاجی گلبرخان کے لیے اپنے ووٹ کو 4 سے 19 ارکان تک پہنچنا انکے اپنے بس کی بات نہیں تھی۔
بظاہر حالات سے محسوس ہوتا ہے کہ وفاق اور متعلقہ اداروں نے تعداد پوری کرنے کے لیے ہر ممکن مدد کی ہے، وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ کے 11 جولائی کے دورہ گلگت بلتستان کو بھی اسی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بات بھی درست لگ رہی ہے۔
غالباً اس مبینہ مداخلت کی بڑی وجہ سابق وزیر اعلی خالد خورشید خان کی غیر سنجیدہ اور انتہائی بچگانہ حکمت عملی بنی ہے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ سابق وزیر اعلی خالد خورشید خان نے مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی تمام تر توجہ صرف اور صرف پارٹی پر مرکوز رکھی اور وفاقی حکومت سے تصادم کا راستہ اختیار کیا، وفاقی حکومت کے تعاون کو انکی کمزوری تصور کرتے ہوئے انتہائی جارحانہ حکمت عملی اختیار کی، گلگت بلتستان کے اہم عوامی ایشوز پر بھی وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف سے ملاقات یا انکے ساتھ کسی اجلاس میں شرکت کو اپنی توہین سمجھتے رہے۔ صوبائی حکومت اور پارٹی پالیسی کو الگ الگ رکھنے کے بجائے ٹکراؤ پالیسی پر گامزن رہے اور جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر پہلے سے ہی اختلاف موجود تھا۔
اس کا اعتراف پاکستان تحریک انصاف ہم خیال گروپ کے جاوید علی منوا کئی بار میڈیا میں بھی کرچکے ہیں۔
سابق اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ کا دعویٰ ہے کہ سابق وزیر اعلی خالد خورشید خان نے صوبائی وسائل اور اداروں کو ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا اور گلگت بلتستان کو 9 مئی کے سنگین واقعات کے مطلوب افراد کے لیے پناہ گاہ بنادی۔
اس ضمن میں قومی میڈیا میں اپریل 2022ء سے جولائی 2023ء تک زیر بحث آنے والے واقعات اور خبروں کو مد نظر رکھیں تو سابق اپوزیشن لیڈر کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔
سابق وزیر اعلی خالد خورشید خان کی غیر سنجیدہ اور بچگانہ پالیسیوں کی وجہ سے آج گلگت بلتستان میں کوئی ایک رکن بھی اعلانیہ طور پر انکے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔
بظاہر حالات کا جائزہ لیا جائے تو گلگت بلتستان کی حساسیت اور خطے کے معروضی حالات کی وجہ سے سوا سال تک وفاق نے نہ صرف صبر و برداشت کام لیا بلکہ انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا، غالباً سابق وزیر اعلی اور انکے ساتھی اس کو اپنی کامیابی سمجھتے رہے اور کسی بھی موقع پر ٹکراؤ سے گریز نہیں کیا۔
مرکز اور گلگت بلتستان میں مخالف جماعتوں کی حکومتوں کا تجربہ پہلی بار نہیں تھا، بلکہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعلی سید مہدی شاہ اور مسلم لیگ نواز کے سابق وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان کے ساتھ بھی ایسا ہی، مگر وہ دونوں پارٹی اور حکومت کی پالیسیوں کو الگ الگ چلاتے رہے، یہی وجہ ہے کہ بآسانی اپنی مدت پوری کرلی۔
نئے وزیر اعلی حاجی گلبرخان نے 18 جولائی 2023ء کو اپنی کابینہ بھی تشکیل دے دی ہے، جس میں 12 وزراء اور دو مشیر ہیں، 12 وزراء میں تحریک انصاف فاروڈ بلاک کے 7 ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے 2، 2 اور جمعیت علماء اسلام کا ایک وزیر ہے، جبکہ دونوں مشیر تحریک انصاف فاروڈ بلاک سے ہیں۔
ڈپٹی اسپیکر کی خالی نشست پر پیپلز پارٹی کی سعدیہ دانش بلا مقابلہ منتخب ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اسپیکر نزیر احمد ایڈووکیٹ کی جانب سے کوئی واضح اعلان سامنے نہیں آیا ہے، مگر حالات سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے فاروڈ بلاک کے ساتھ جانے میں ہی عافیت محسوس کی ہے۔
اس پورے عمل کے دوران سب سے افسوسناک لمحہ وہ ہے جب 5 جولائی 2023ء کو بم کی اطلاع پر گلگت بلتستان اسمبلی کی عمارت سے تمام ممبران، عملے اور دیگر افراد کو نکال باہر کرکے عملا عمارت سیل کردی گئی اور اسپیکر اسمبلی سمیت کو داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
اس افسوسناک صورتحال پر پورے ایوان کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کرکے سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
اسی بارے میں:
گلگت بلتستان کے لوگ بھٹو کے لیے روتے کیوں ہیں؟
گلگت بلتستان کونسل کا انتخاب قانون کی خلاف ورزی کے شدید خطرات
گلگت بلتستان کونسل کا انتخاب قانون کی خلاف ورزی کے شدید خطرات