انتخابی شیڈول!
وزیر اعظم پاکستان کی سربراہی میں قائم 15 رکنی گلگت بلتستان کونسل کے 6 ارکان کے انتخاب کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا عمل مکمل ہوچکاہے ۔ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کے جاری شیڈول کے مطابق 9 نومبر کو حتمی فہرست جاری اور 12 نومبر 2021ء کو پولنگ ہوگی ۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے 33 ارکان 6 ارکان کونسل کا انتخاب کریں گے۔ کونسل کے لئے 11 امیدوار میدان میں اترے ہیں ، جن میں سے حکمراں جماعت تحریک انصاف کے 6، پیپلزپارٹی کے 2، مسلم لیگ(ن) کا ایک اور 2 آزاد امیدوار ہیں ۔
کونسل کے ارکان !
گلگت بلتستان آرڈر 2009ء ، 2018ء اور 2019ء کے میں آزاد کشمیر طرز پر15 رکنی گلگت بلتستان کونسل قائم کی گئی ہے ، 15 ارکان میں وزیر اعظم پاکستان (چئیرمین )، گورنر گلگت بلتستان، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور 6 وفاقی وزراء یا حکومت کے نمائندے نامزد ہوتے ہیں ، جبکہ کونسل کے 6 ارکان کا انتخاب 33 رکنی گلگت بلتستان اسمبلی کرتی ہے ۔
متنازع طریقہ انتخاب!
پیپلزپارٹی نے 2009ء میں گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس ایگزیکٹو آڈر2009ء جاری کیا اور یہ پہلا انتظامی حکم نامہ تھا ،جس میں گلگت بلتستان کا سیٹ آپ صوبائی طرز کا تھا ۔ آرڈر 2018ء اور 2019ء میں بھی کچھ ردوبدل کے بعد اسی سیٹ آپ کو برقرار رکھا گیا ہے۔ 2009ء کے حکم نامے کے مطابق کونسل کے انتخابات پیپلزپارتی کے دور میں خفیہ رائے شماری سے ہوئے اور 2016ء میں مسلم لیگ(ن) کے دور میں قوائد کو تبدیل کرکے ’’شو آف ہینڈ (ہاتھ اٹھاکر)‘‘ انتخاب کرایا گیا اور اب تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں 10 اگست 2021ء کو ’’شو آف ہینڈ ‘‘ انتخاب کرانے لئے قوائد و ضوابط بنائے گئے اور 12 نومبر 2021ء کے متوقع انتخابات کی تیاری انہی رولز کے مطابق کی گئی ہے ۔ مسلم لیگ (ن)گلگت بلتستان کے رہنماء عبدالرشید ارشد نے ’’شو آف ہینڈ ‘‘ کے عمل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ انتخاب کس طرح ہوگا اس کا حتمی فیصلہ تو اب اسلام آباد ہائی کورٹ ہی کرے گا ۔
ن لیگ اور تحریک انصاف کا موقف !
درخواست گزار مسلم لیگ (ن)گلگت بلتستان کے رہنماء عبدالرشید ارشد کا موقف ہے کہ آئین پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے 2021ء کے فیصلے کے مطابق اب ’’شو آف ہینڈ ‘‘ کی کووئی گنجائش نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کا موقف ہے کہ 2016ء میں ن لیگ نے ہی ’’شو آف ہینڈ ‘‘ کی بنیاد رکھی اور ہم گلگت بلتستان کونسل انتخابات 2016ء کے مطابق ہی کرانے چاہتے ہیں اور چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان نے رولز 2016ء کے مطابق ہی رولز 2021ء بنائے ہیں۔
دونوں جماعتوں کا خوف!
یہ ایک حقیقت ہے کہ 2016ء میں مسلم لیگ(ن)نے ایک رات میں رولز کی تبدیلی شکست کے خوف سے کی تھی اور ن لیگ کو اس بات کا ڈر تھا کہ خفیہ رائے شماری میں ان کے ارکان اسمبلی دوسرے امیدواروں کو ووٹ دے سکتے ہیں اور آج اسی طرح کے بدترین خوف کا سامنا تحریک انصاف کو بھی ہے۔ 2016ء میں مسلم لیگ(ن)کا عمل بد نیتی پر مبنی تھا اور آج تحریک انصاف کا عمل بھی نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے۔ مثال کی حدتک تحریک انصاف کا موقف وزنی ہے ،مگر آئین اور قانون میں کافی کمزور ہے۔
2016ء اور 2021ء میں فرق !
یہ بات درست ہے کہ 2016ء میں مسلم لیگ(ن)نے آئین کے منافی رولز بنائے اور شاید اس لئے کہ انتخابی اصلاحاتی ایکٹ 2017ء سے قبل چیزیں کافی مہم تھیں اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رولز بنائے اور ’’شو آف ہینڈ‘‘ سے انتخاب کروایا ۔ انتخابی اصلاحاتی ایکٹ 2017ء کے گلگت بلتستان میں اطلاق اور سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 2021ء فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے لئے ’’خفیہ رائے شماری‘‘ کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوگا۔
آئین پاکستان اور طریقہائے انتخاب!
آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 میں واضح ہے کہ ’’دستور کے تابع تمام انتخابات ماسوائے وزیراعظم اور وزیر اعلی ٰ کے خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہونگے ۔‘‘ آئین کے مطابق خفیہ رائے شماری کے بھی دو طریقے ہیں ایک خفیہ رائے شماری واحد قابل منتقلی ووٹ جو سینیٹ ممبران کا طریقہ انتخاب ہے اور دوسرا غیر منتقلی خفیہ ووٹ ہے۔ بلدیات ، ارکان قومی وصوبائی اسمبلی ، اسپیکر زاور ڈپٹی اسپیکرز ، سینیٹ کے چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین، اور دستور کے تابع دیگرتمام انتخاب (ماسوائے سینیٹ ممبران)کے ثانی الذکر ووٹ کے ذریعے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ وزیراعظم پاکستان کی سربراہی میں قائم 15 رکنی آزاد کشمیر کونسل کے انتخابات بھی خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں۔ کھلے عام رائے شماری کے حوالے سے آئین میں کوئی واضح طریقہ تو نہیں ، مگر ڈویژن ، شو آف ہینڈ اور کھڑے کرکے گنتی کرنے والے عمل کی روایت ہمارے ہاں عام ہے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے لئے مشکل امتحان !
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان اور ان کی جماعت کے لئے یہ مشکل ہے کہ وہ گلگت بلتستان کونسل کے انتخاب کو دستور کے تابع ثابت کرتے ہیں یا نہیں ۔ دستور کے تابع ثابت کرتے ہیں تو خفیہ رائے شماری کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوگا اور اگر دستور سے باہر ثابت کرتے ہیں تو شو آف ہینڈ پر عمل مشکل ہوگا اور اس سے گلگت بلتستان کونسل کی حیثیت سوالیہ نشان بنے گی اور لوگ یہ سوال ٓٹھاسکتے ہیں کہ اگر کونسل دستور کے تابع ادارہ نہیں تو پھر اس کی حیثیت اور فیصلوں کی اہمیت کیاہے ؟ پھر یہ کہ ایکٹ 2017ء کے گلگت بلتستان میں اطلاق کے بعد تمام انتخابی عمل جاری رہا اورصرف کونسل کے انتخاب کے لئے ایکٹ 2017ء سے انکار بہت مشکل فیصلہ ہوگا ۔ تحریک انصاف کے عدالت میں موقف کے سیاسی اثرات بھی ہونگے۔ تحریک انصاف کی حکومت ایک طرف خطے اور اس کے اداروں کو دستور کے تابع بنانے کا اعلان کرچکی ہے اور ساتھ ہی وزیر اعظم پاکستان کی سربراہی میں قائم 15 رکنی کونسل کو غیر دستوری قرار دینا بہت مشکل فیصلہ ہوگا۔ (جاری ہے)