شاعری انسانی جذبات واحساسات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔یہ احساسات انفرادی و اجتماعی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔انسان اپنی زندگی جیتا ہے اور تجربات اکٹھے کرتاہے۔ہر انسان زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے مگر ایک شاعر ہے کہ نہ صرف اپنی بل کہ افراد کی زندگیاں بسر کرتاہے۔زندگی کے حقائق و مسائل کو زبان دیتا ہے۔آج کل نجمہ عثمان کی شاعری میرے زیر مطالعہ ہے۔ان کی غزلیں فردی مسائل کو بہ آسانی اور بہ چشم و سر لاشعوری ربودگی سے بچاتے ہو انسانی شعور کے وسیع صحن میں لے آتی ہیں۔ان کی شاعری پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ ہر خاص و عام کی زندگی کی تصریحات پر مبنی ہے۔
وہ کہتی ہیں:
زندگی چھاؤں میں بسر کی ہے
یہ تھکن جانے کس سفر کی ہے
کس کو معلوم دکھ کے جنگل میں
کون سی شاخ کس شجر کی ہے
ایک اور غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
بے بسی گردش ادوار میں رکھی ہوئی ہے
زندگی کون سے آزار میں رکھی ہوئی ہے
نرم لہجے کی کھنک اور محبت کی زباں
میرے احساس میں اشعار میں رکھی ہوئی ہے۔
اس تیز ترین دنیا میں جب مصنوعی ذہانت کا تخیلاتی تصور حقیقت میں بدل رہا ہے،ایسے میں روایت سے جڑے کچھ خاص لوگ اپنی شاعری سے موجودہ دور کو احساساتی طور پر فطری قوانین سے جوڑے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان ناموں میں سے ایک نجمہ عثمان کا نام بھی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان گرلز گائیڈ: قائد اعظم کے تصورات اس بارے میں کیا تھے؟
گلگت بلتستان: خالد خورشید کی وہ غلطی جس نے پی ٹی آئی کو تباہ کیا
نو مئی اور ایک لایعنی دلیل
“شاخ حنا”سے “کڑوے موسموں زد پر”اور پھر “نئی رت کی خوشبو”تک نجمہ عثمان کا شعری سفر ان کے فکری ارتقاء کا ثبوت ہے۔
نجمہ عثمان نے اپنے مختلف اشعار میں اپنی عصری حیثیت کو بھی بہ حیثیت استعداد اپنے فکر و قلم میں سمو کر پیش کیا ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کے درد و الم انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
فاصلوں کو دل کے جب چشم تر بھگوتی ہے
راستے کی تنہائی ہم سفر کو روتی ہے
زندگی سے پوچھوں گی درد کی مسافت میں
پھول کیوں بچھاتی ہے خار کیوں وہ بوتی ہے
خواب دیکھنے کی اب یہ سزا تو ملنی تھی
رات میری پلکوں پر رت جگے پروتی ہے
زندگی کی بے ثباتی اور غیر یقینی ہر شاعر کے ہاں بیان ہوئی ہے نجمہ عثمان نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
وہ کہتی ہیں:
جب یہ ٹوٹا تو پھر خاک تھا اور بس
جسم سے روح کا رابطہ اور بس
زندگی گزارنے کا تجربہ ہر شخص کا اپنا اپنا ہے شعرا نے جن تجربات سے گزر کر اسے بسر کیا اپنی اپنی اسلوب میں اس کے بارے میں لکھا ہے نجمہ عثمان کہتی ہیں:
زندگی دشت حقیقت تھی مگر
خواب میں اس کو سمندر دیکھا
یہاں تو مرگ و ہستی کے تماشوں میں ازل سے
کہانی ہے وہی کردار سارے مختلف ہیں۔
نجمہ عثمان کی ایک اور غزل جو ان کے اسلوب کی انفرادیت کی حامل ہے ملاحظہ فرمائیں:
ہر کسی کو کہاں میسر ہے
عشق کی بے کلی وہ گوہر ہے
زخم دیتا ہے احتیاط کے ساتھ
مجھ سے بہتر میرا ستم گر ہے
بارشوں کے حسین موسم میں
ایک صحرا سا میرے اندر ہے
گونج سی اک سنائی دیتی ہے
شور اندر ہے یا کہ باہر ہے
خشک آنکھوں کی خاموشی میں بھی
ایک بپھرا ہوا سمندر ہے
تم ہو میرے وجود کا حصہ
عکس کیوں آئینے سے باہر ہے
نجمہ عثمان لمبی بحر میں غزل کہنے کا ہنر بھی جانتی ہیں۔آج کل بہت کم شعرا کے ہاں ان بحور کا استعمال ملتا ہے جو نجمہ عثمان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ان کے ہاں کلاسیکی ادب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔اس حوالے سے ان کی یہ غزل پڑھنے کے قابل ہے:
کہا تھا میں نے بچھڑے کارواں کی بھی خبر رکھنا کہا تھا نا!
پھر اس کے بعد کوئی اہتمام راہ بر رکھنا کہا تھا نا!
یہ زیبائش سجاوٹ رنگ و روغن عارضی سکھ ہیں زمانے میں
در و دیوار کو مضبوط کرنا اس میں گھر رکھنا کہا تھا نا!
لو تم نے گفتگو کو طول دے کر بات ہی کھو دی میں کیا کرتی
جو دل کی بات کہنی ہو اسے تم مختصر رکھنا کہا تھا نا!
خاموشی جب نہ کام آئے تمہارے رات دن کا چین کھو جائے
تو پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں بھی کہنے کا ہنر رکھنا کہا تھا نا!
نئے منظر نئے چہرے ہوئے ہیں خاک آلودہ تو کیا شکوہ
پرانی نسبتوں سے بھی کبھی آنکھوں کو تر رکھنا کہا تھا نا!
اپنے ماضی سے انسان کا رشتہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔کبھی نا ختم ہونے والا یہ تعلق شاعری کی صورت جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یاد کے لفظ کا استعمال شعرا کے ہاں بڑی کثرت سے ملتا ہے۔اسلوب ہر ایک کا الگ ہے۔نجمہ عثمان کہتی ہیں:
تمہاری یاد آنے کی جو شدت بڑھ گئی ہے
تو کیا ان دوریوں سے میری قربت پڑ گئی ہے
نظر آتے نہیں اب خواب میں بھی لوگ ایسے
کہا کرتے تھے جو ہم سے کہ چاہت بڑھ گئی ہے
یہ ماننا پڑے گا ان کی شاعری کی حقیقی اور اہم خصوصیات میں سلاست بیان، شعری غنایت اور جمالیاتی فکر شامل ہیں۔جن کے تار و پود انسانی رشتوں کے باہمی ربط و اختلاف،وجود ذات کی کشاکش اور بدلتے موسموں کا قرب جیسے موضوعات سے تشکیل پاتی ہے۔ان کی شاعری اکیسویں صدی کی خواتین کے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے۔ان کے لہجے میں آج کی نسائی آواز سنی جا سکتی ہے۔
مزید ادبی تحریریں پڑھئے:
مہر نامہ، بلوچستانی ادب کاترجمان منفردرسالہ