بلوچستان کے جوں مرگ شاعر اورنقاد دانیال طریرکی زیرادارت اکتوبر 2012ء میں بلوچستان ادب کاترجمان” مہر نامہ” کا پہلا شمارہ شایع ہوا تھا ۔یہ ایک منفرد اوربہترین ادبی جریدہ تھا۔ جس کادانیال طریر کی ناگہانی وفات کی وجہ سے ایک ہی شمارہ شایع ہوسکا۔ کیاخوب صورت اٹھان تھی اس رسالے کی۔ہرسلسلہ کی ابتدا میں مدیردانیال طریر کامختصرادارتی نوٹ،سب رنگ کے شکیل عادل زادہ کی یاد دلارہاتھا۔دریچہ کے زیر عنوا ن علاقائی زبانوں کے تراجم اوربلوچستان سے شایع شدہ کتب کاتعارف ، غرض ایک گلدستہ تھا جو”مہرنامہ” کے ذریعے قومی ادب سے متعارف ہوا۔
الم ناک صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان پاکستان کا ہی حصہ ہے لیکن ہم اس سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ بلوچستان میں سیلاب آئے تو کئی روز تک قومی میڈیاکی توجہ سے محروم رہتاہے۔لاپتہ افراد کی خبریں بھی قومی میڈیاسے زیادہ سوشل میڈیاکی وساطت سے منظرعام پرآتی ہیں اور انتہائی افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم بلوچستان کے ادب اورادیبوں سے بھی زیادہ آشنانہیں۔ حتیٰ کہ بلوچستان کے اردوشاعروادیب بھی ملک میں غیرمعروف ہیں۔مجھ جیسامطالعے کاعادی ایک عرصے تک منفردبلوچ شاعرعطاشاد اورمنفردادیب ومحقق شاہ محمد مری ہی کا نام جانتاتھا اورکوشش کے باوجود بلوچستان کے اردوادیب وشعراکی کتب دستیاب نہ ہوسکیں۔
نویدایڈوکیٹ نے کوئٹہ سے ایک قابل قدر اردو ادبی جریدہ”حرف” کا آغاز کیاتھا۔ اس کاصرف ایک ہی شمارہ دستیاب ہوسکا۔وہ جاری رہا یا بند ہوگیا، یہ بھی علم نہ ہوسکا۔پھراکادمی ادبیات کے سہ ماہی جریدے”ادبیات” کے طفیل کچھ بلوچ ادبا وشعرا سے آشنائی ہوئی۔سوشل میڈیا کے ذریعے ادیب ،شاعر،ناول و افسانہ نگار فارس مغل،منیربادینی، ناول نگار محمدوسیم شاہد،آغاگل اورعابدمیر سے تعارف ہوا۔”مہرنامہ” یقینا بلوچستان کی علاقائی زبانوں اور پاکستان کے دوسرے حصوں کے درمیان پل ثابت ہوگا۔”مہرنامہ” ہمیں بلوچی، براہوی، پشتو،ہزارگی اور بلوچستان کے اردو ادیبوں روشناس کرانے کا باعث بنے گا۔
دس سال بعدبلوچستان کے نوجوان قلم کار،افسانہ اورکالم نگار عابدمیرنے دانیال طریر کی یادمیں ”مہرنامہ ” کے دورِ جدید کا آغازکیاہے،اور اس کے ابتدائی دوشمارے ایک ساتھ شایع کیے ہیں۔ وہی پھبن اورشان ہے جودس سال قبل منظرعام پرآنے والے ”مہرنامہ ” کی تھی۔ دانیال طریرنے”مہرنامہ” کے پہلے شمارے کے حوالے سے پالیسی”احوال نامہ” میں رقم کی تھی ، جوقندِمکررکے طور پرپیش کی گئی۔ملاحظہ کریں۔” کیابلوچستان کاادب، روحِ ادب کے حقیقی معیاراورجوہرسے آشناہے؟ کیایہ ادب اپنے جغرافیائی مسائل کاادراک رکھتے ہوئے بحربے کراں سے اتصال کاامکان رکھتاہے؟ کیا یہ ادب، تشنگانِ ادب کی پیاس بجھانے کے جوہرسے بہرہ مندہے؟ کیایہ ادب معاصریت کے تقاضے پورے کرتاہے؟ کیااس ادب کوملکی اوربین الاقوامی ادب کے مقابل پیش کیاجاسکتاہے؟کیایہ ادب اپنے انفرادی اور امتیازی خدوخال کااثبات پیش کرتاہے؟
یہ بھی دیکھئے:
کیایہ ادب نئے مسائل ومباحث پیدا کرنے کی اہلیت رکھتاہے؟ نیز کیایہ ادب اشاعتی جواز رکھتا ہے؟یہی وہ استفہامیے ہیں جوخالصتاً بلوچستان کے ادب کے ترجمان ادبی مجلے کاتقاضا کرتے ہیں۔اور یہی استفہامیے ان خطوط کوبھی روشن کرتے ہیںجومہرنامہ کے اجراکے پیش کار ہیں۔ مہرنامہ اپنا اشاعتی جواز پیش کرنے میں کتناکامیاب ہے اوراپنے مقاصد کے حصول میں کس حدتک سرخروہوپائے گا،اس کافیصلہ تخلیقات اورمباحث کے دیانت دارانہ تجزیے کے بعدہی ممکن ہے۔ ہم امیدکرتے ہیں کہ مہر نامہ ادب کے قاری کے عمومی معیاربلندکرنے اوراس کے فکری افق کوکشادہ کرنے میں اساسی کرداراداکرے گا۔”
عابدمیر نے ”اشاعت ثانی پردوباتیں” میں پرچے کے مقاصدواضح کیے ہیں۔” بلوچستان کے اردوادب ،اوریہاں کی اپنی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کوتراجم کے ذریعے اردوکے مرکزی دھارے سے کیسے جوڑا جاسکے،یہ وہ مشترکہ خواب تھا جومہرنامہ کی صورت تکمیل پذیر تو ہوا، مگراس کی ادارت کی ذمے داری سنبھالنے والے ہمارے ایک تخلیقی دماغ دانیال طریر کی جواں مرگ کے باعث ادھورا رہ گیا۔اس کا صرف ایک ہی پرچہ منظرعام پرآسکا۔اب لگ بھگ دس برس بعداس کی اشاعت ثانی کاآغازہم اسی پرچے کی تازہ اشاعت سے کررہے ہیں۔اوراسی لیے یہ پہلا پرچہ ہم نے اپنے اسی عزیزدوست کے نام کیاہے۔ اس پرچے کی صوری ترتیب کے علاوہ مواد اور متن میں کوئی مقداری تبدیلی نہیں کی گئی۔ ماسوائے اس کے کہ نام کی مناسبت سے ابواب کے عنوانات نئے تجویز کیے گئے ہیں تاکہ ان کی ترتیب آئندہ پر چوں میں یکساں رہ سکے۔
دانیال کاتعین ِ قدرکے حوالے سے طویل مضمون صرف اس خیال سے حذف کیاگیاکہ بعدازاں یہ اس کی اسی موضوع پرشایع شدہ کتاب میں مزیدتفصیل سے آچکا۔البتہ بلوچستان ہی سے ایک خالص تحقیقی پرچہ جب بھی ہم چھاپ پائے ، یہ اورایسے مضامین اس میں یقینا ہمار ے لیے اہم ہوں گے۔ کوشش ہوگی کہ مہرنامہ کے سال میں دوپرچے پیش کیے جاسکیں،ایک سے آغاز میں اور ایک سال کے آخر میں۔یہ بہار اورخزاں کے پرچے کہلائیں گے۔ امسال اولین پرچے سمیت، دونوں یک جا پیش کیے جارہے ہیں۔یہ ہمارے خطے میں پائی جانے والی کثیرالجہت دوریوں کوادب کے ذریعے کم کرنے اورایک دوسرے کوسمجھنے کی ایک علمی کاوش ہے۔ہم توقع کر تے ہیں کہ اردودنیاکے قارئین اسے پذیرائی بخشیں گے اوراس میں حصہ ڈالیں گے۔اس ضمن میں بہتری کے لیے آنے والی تجاویزہماری رہنمائی کریں گی۔مکالمے کی جو راہیں دیگر محاذوں پرمسدودکردی گئی ہیں،ہم امید کرتے ہیں کہ وہ مکالمہ ادب کے وسیلے سے زیادہ باوقاراور بامعنی بنایاجاسکتاہے۔”
شمارہ ١ کاسرورق تمثیل حفصہ نے بنایاہے، جوبلوچستان کے معروف علمی وادبی گھرانہ”گوہرگھر” کی لائق وفائق آرٹسٹ ہیں۔وہ بلوچستا ن یونی ورسٹی ٹیکنالوجی اینڈمینجمنٹ سائنسزکے شعبہ فائن آرٹس پڑھاتی ہیں۔شاعری بھی کرتی ہیں۔”چاردیواری” کے نام سے چارمصرعوں کی مختصرنظم کی خالق بھی ہیں۔آرٹ کی متعددنمائشوں کاحصہ رہ چکی ہیں۔ان کااصل تعارف مختلف رسائل وکتب کے لیے بنائے سرورق ہیں ۔مہرنامہ کے اولین شمارے کاٹائٹل بھی انہوں نے ہی ڈیزائن کیا۔یہ مہرگڑھ سے برآمد ہونے والے ابتدائی نوادرات کی آرٹسٹک شکل ہے ۔جس میں اس خطے کے ہزاروں برس کے تہذیبی سفرکی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
شمارہ٢ کا ٹائٹل حاجرہ بانوکی تخلیق ہے۔حاجرہ بانوکابنیادی تعلق مستونگ سے ہے۔انھوں نے بلوچستان یونی ورسٹی سے فائن آرٹس میں ماسٹرز کیا۔ا ب سرداربہادرخان ویمن یونی ورسٹی کوئٹہ کے شعبہ فائن آرٹس سے وابستہ ہیں۔آرٹ ان کی کل وقتی سرگرمی ہے۔آئل پینٹنگ ان کی توجہ کاخاص محورہے۔ وہ بلوچستان کوپینٹ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ان کی اکثرپینٹنگزبلوچستان کے مختلف ثقافتی مظاہرکی عکاسی کر تی ہیں۔مصوری کے علاوہ وہ شاعری بھی کرتی ہیں اورنظمیں لکھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
اشعرنجمی کے دو بے مثل ناول: اس نے کہا تھا اور صفر کی توہین
عمران خان، شہباز گل اور رائے ریاض حسین
پی ٹی آئی جلسہ ، عمران خان کوئی روڈ میپ کیوں نہ دے سکے؟
”مہرنامہ” جن مقاصدکوپیش نظررکھتے ہوئے جاری کیاگیاہے، اس کا اردودنیا میں بھرپور خیرمقدم کیاجاناچاہیے۔”مہرنامہ” کے شمارہ اول کا آغازبلوچی کے معروف ادیب اورنقاد اے آرداد کے مضمون ”میراتخلیقی عمل” سے کیاگیاہے۔ تعارفی نوٹ میں ان کاتعارف کچھ یوں کرایا گیا ہے۔” ایک تخلیق کارتخلیقی عمل کے دوران جن کیفیات سے گزرتاہے،وہ بلاشبہ اس کی تخلیق پراثرانداز ہوتی ہیں، اس لیے تخلیق کوجانچنے کے لیے تخلیق کار کے تخلیقی عمل سے تعلق کوجانناخالی ازدلچسپی نہ ہوگا۔ ہماری خواہش ہوگی کہ اس سلسلے کے تحت ہم بالخصوص بلوچستان کے نام ورتخلیق کارو ںکے خیالات جان سکیں۔اے آرداد ،بلوچی زبان کے نامور ادیب اورنقادہیں۔وہ ان چندادبامیں شامل ہیں جومعاصر تنقیدی تھیوری پر انتہائی گہری نظررکھتے ہیں۔جامعہ بلوچستان کے شعبہ بلوچی سے وابستہ ہیں۔اس سلسلے کا پہلا مضمون ان کے زورِ قلم کانتیجہ ہے۔”
”خاص نامہ” کے عنوان سے پروفیسرسائرہ خان سارہ کے غزلیں اور نظمیں شامل اشاعت ہیں۔دانیال طریرکے قلم سے سائرہ خان کی غزلو ں اورنظموں پرمختصرمضمون ان کی شاعری کاعمدہ تعارف ہے۔”خصوصی مطالعہ” کے نام سے شاعرہ سے متعارف کرایاہے۔” بلوچستان کی نسوانی شاعری کاحال، خواتین کی سماجی حالتِ زارسے کچھ مختلف نہیں، پسماندہ،استحصال زدہ۔ یوں لگتاہے خواتین نے مردوں کے سماجی استحصال کابدلہ شاعری سے لینے کاتہیہ کیاہواہے۔مگرجیسے کچھ اچھے لوگوں کے وجود سے دنیامیں اچھائی کابھرم قائم ہے، یوں ہی کچھ اچھی نسوا نی شاعری سے نسوانیت کابھرم بھی قائم ہے۔ دبنگ ،سائرہ خان کی شاعری اس کاایک ثبوت ہے۔ہجرووصل کے اعلیٰ جذبوں سے گندھی ہے ان کی شاعری کسی قسم کی نام نہاد بے ہودہ سماجی رسم ورکاوٹ کی پرواہ کیے بنانسوانی جذبا کابھرپوراظہارکرتی ہے۔
غزل ہویانظم، ہندی الفاظ ومحاورات کااستعمال، روایت شکنی کی ایک مثال ہے ان کے کلام میں۔ ان کی نظم ‘پریم دشا’ ہی پڑھ لیجیے ،موسیقی اورآہنگ سے بھرپور یہ نظم ان کے پورے شعری رویے سے آپ کومتعارف کروانے کے لیے کافی ہے۔ مہرنامہ کے پہلے پرچے کے خصوصی مطالعے کے لیے ان کی شاعری سے کچھ انتخاب پیش ہے۔”
”بلوچی نامہ” کی ابتدا ممتازادیب اوردانش ورڈاکٹرشاہ محمدمری کے مضمون ”بلوچی ناول اورمنیربادینی کافن” سے ہواہے۔منیربادینی بلوچی زبان کے معروف ناول نگار ہیں۔شاہ محمدمری نے ان کے آٹھ ناولزکاجائزہ اس مضمون میں لیاہے۔ جس میں اس بلوچ ناول نگار کے فن کی تفہیم کے لیے بہت عمدگی سے کیاگیاہے۔ ان ناولز میں بلوچ دیہات،کلچراورسیاسی بیداری کوخوبصورتی سے اجاگرکیاگیاہے۔ مدیراپنے نوٹ میں لکھتے ہیں۔” منیر بادینی بلوچی فکشن کا معتبرنام ہیں۔ قلیل عرصے میں انھوںنے بلوچی ادب کویکے بعددیگرے دودرجن سے زائدناولوں کاتحفہ دے کر انمول ادبی کارنامہ انجام دیاہے۔
ان کے اس اعلان نے اپنے قارئین اورناقدین کوورطہ حیرت میں ڈال رکھاہے کہ وہ بلوچی میں سوناول لکھنے کاارادہ رکھتے ہیں،جن میں سے بیشتروہ مکمل کرچکے ہیںانھی کے ایک ہم عصردانش ورڈاکٹرشاہ محمدمری نے بیک وقت ان کے آٹھ ناولوں کاتنقیدی جائزہ لے کرگویاانھی کی ریکارڈ سازی کی روایت ورفتارکونبھایاہے۔یہ مختصرتاثراتی تبصرے بالخصوص غیربلوچ قارئین کو بلوچی ناول کے جدیددورسے روشناس کرانے میں بلاشبہ مفید ثابت ہوں گے۔”
غنی پرواز کے تخلیق وترجمہ کردہ تین بلوچی افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ جس کے بارے میں مدیرعابدمیر بتاتے ہیں۔” بلوچی افسانہ اپنی کم عمری کے باوجودشاندارماضی اورحال کامالک ہے۔ ایک طرف بلوچ سماج کے مجموعی سیکولرمزاج نے جہاں اس کی آبیاری کی، وہاں آغاز سے ہی اسے لکھنے والے میسر رہے جوعالمی ادب کے وسیع مطالعے کا پس منظررکھتے تھے۔موضوع سے لے کرتکنیک تک بلوچی ادب میں یہ صنف سرخرو رہی ہے۔
بلوچی افسانے کی شکل کوسنوارنے اورنکھارنے والوں میں غنی پروازصفِ اول کے چنداہم ناموں میں شمارہوتے ہیں۔عمربھر ادب پڑھتے اورپڑھاتے رہے ہیں، یوں ادب ان کااوڑھنابچھونارہاہے۔ تنقید میں بھی ان کاکام کم معیاری نہیں ہے، لیکن اصل میدان ان کاافسانہ نگاری ہی رہا۔ مہرنامہ کے لیے یہ کہانیاں ان کے خصوصی اجازت نامے کے ساتھ شامل کی جارہی ہیں، جن کاترجمہ بھی انھوں نے خودکیاہے۔گوکہ یہ کہانیاں نوے کی دہائی کے آغاز میں لکھی گئیں ، لیکن بلوچستان میں چوںکہ حالات برسوں سے یکساں ہیں، اس لیے یہ افسانے بھی آپ کوتروتازہ ہی محسوس ہوں گے۔”
اس حصے میں غنی پروازکی کہانیاں”ہتھکڑیاں”،”قدآور” اور”جہاد” شامل ہیں۔جن سے بخوبی غنی پرواز کے فن کی تفہیم اور بلوچ ادب سے تعارف ہوتاہے۔بلوچی شاعری میں مبارک قاضی کے کلام کے تراجم عمران ثاقب نے کیے ہیں اوریہ بلوچی کا نمائندہ ادب ہے۔ مدیرکا کہنا ہے۔” بلوچستان کی وسیع وحسین ساحلی پٹی پہ واقع پسنی سے تعلق رکھنے والے پیرسن، مبارک قاضی اس وقت بلوچی شاعری کازندہ حوالہ ہیں ۔ بلوچی شاعری کا موجودہ عہدبلاشبہ قاضی صاحب کاعہدہے۔حال ہی میں ان کامجموعہ کلام ‘حانی منی ماتیں وطن’ شایع ہواہے۔مہرنامہ کے اولین پرچے کے ذریعے جدید بلوچی شاعری کے تعارف کے لیے قاضی صاحب کے علاوہ اوربھلاکون سانام’ مبارک’ہوسکتاتھا! سو، ان کے مذکورہ مجموعہ سے ہی لیاری کے بانکے شاعرعمران ثاقب نے ہماری گزارش پہ کچھ تخلیقات اس پرچے کے لیے ترجمہ کی ہیں۔ ”
مہرنامہ کا اگلا حصہ ” براہوی نامہ ” ہے۔جس میں جاویداختر کامضمون” گل خان نصیربحیثیت براہوی شاعر”بے حداہم ہے۔” میرگل خان نصیربلوچستانی ادب کاایک ایساحوالہ ہیں،جن کے بناکسی صنفِ سخن کاتذکرہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔شایدان کے کام کی اسی ہمہ جہتی کے باعث ان کی شخصیت کے کئی گوشوں پراب تک خاطر خواہ کام نہیں ہوپایا۔ پروفیسرجاویداختراپنے مختصرمگرجامع مضمون میں ان کی شخصیت کے ایسے ہی ایک فراموش کردہ گوشے پرروشنی ڈال رہے ہیں۔”غمخوارحیات کی براہوی کہانیوں کاترجمہ سمیر بلوچ نے کیاہے۔
” براہوی بلوچوں کی دوسری بڑی مادری زبان ہے۔اس میں لکھنے پڑھنے کارحجان ایک عرصے سے موجودرہاہے۔ بالخصوص گزشتہ ایک دہائی کے حالات نے اس رحجان میں خاصااضافہ کیاہے۔جس سے ان زبانوں کے ادب کونئے لکھنے والوں کی ایک وسیع کھیپ میسر آئی ہے۔میرگل خان نصیرکے محلے دار، نوشکی سے تعلق رکھنے والے غمخوار حیات اپنی مادری زبان میں لکھنے والوں کی اسی نئی کھیپ سے تعلق رکھتے ہیں۔کہانی ان کاخاص میدان ہے۔ حال میں ‘چہ دہ’ کے نام سے ان کی براہوی کہانیوں کاایک مجموعہ سامنے آیاہے۔اسی مجموعہ سے نوشکی ہی سے تعلق رکھنے والے نوجوان سمیر بلوچ نے یہ کہانیاں ترجمہ کی ہیں۔ بعض تکنیکی خامیوں کے باوجود، ان کہانیوں کی اشاعت کا مقصداس زبان کی نئی کہانی کے ذائقے سے آپ کی آشنائی ہے۔”
اس غمخوارحیات کی تین کہانیاں،”مہناز”،”لوڑی” اور”چے دہ”شامل ہیں۔ افضل مرادبلوچستان میں تومعروف ہیں ہی، اردودنیا کے لیے بھی ان کانام کچھ ایساغیرمعروف نہیں۔اردو میں’برف پرجلتے دیے’ کے نام سے وہ ایک شعری مجموعہ کے علاوہ بلوچستان کے نمائندہ افسانو ںکے تراجم پرمشتمل ایک مجموعہ بھی دے چکے ہیں۔گوخودشاعر،افسانہ نگار،ڈرامہ نگار،مترجم، مبصر اورمحقق کی شناخت رکھتے ہیں، لیکن شاعری ہی ان کااصل میدان ہے۔مادری زبان براہوی ہونے کے باوصف ظاہرہے کہ ان کے تخلیقی جذبات کافطری اظہاراسی میں ممکن ہے ۔ مہرنامہ کے لیے ان کے منتخب براہوی کلام کی ایک اہمیت اورافادیت یہ بھی ہے کہ یہ تراجم بھی خودانھی کے کیے ہوئے ہیں۔جس سے ان کی حقیقی تخلیقی روح کے متاثرہونے کاخدشہ کم سے کم رہ گیاہے۔”
”پشتونامہ” کے تحت محمودایاز کامضمون” معاصرپشتوشاعری پروجودیت کے اثرات” معلومات سے بھرپور ہے۔ پائیدین گران اچکزئی کے افسانوں”سچ کی تلاش”،” محفلِ شب کاچراغ” اور”جوتے کی دہشت” کا تراجم مصنف نے خودکیے ہیں۔”پائیدان گران متنوع تخلیقی صلا حیتوں کے حامل تخلیق کارہیں۔تاہم معاشی مجبوریوں نے ڈرامہ نگاری کوان کی تخلیقی ذات کے غالب اظہارکی صورت ضرور دے دی ہے۔مصوری،شاعری،افسانہ نگاری اورڈرامہ نگاری ان کی تخلیقی ذات کے اظہار کی مختلف صورتیں ہیں۔مہرنامہ نے ان کی تخلیقی ذات کے اظہارکی افسانوی صورت کی پیش کش کوزیادہ ضروری سمجھا۔”
پشتونامہ میں محمودایاز کی پشتونظموں کے دانیال طریر مرحوم کے تراجم کوشامل کیاگیاہے۔”ہزارگی نامہ” میں ہزارگی کہانیاں اور شاعری پیش کی گئی ہے۔قادرنائل کی نظموںکاترجمہ طالب حسین طالب نے کیاہے۔جبکہ منظورپویا کی ہزارگی کہانیوں کاترجمہ علی باباتاج نے کیا ہے ۔ ”منظور پویاہزارگی کے نوجوان شعرامیں شمارکیے جاتے ہیں۔شاعر ی اورکہانی کاری ان کاخاص شعبہ ہے”یگ تخلے آوور” (بادل کاایک ٹکڑا) کے عنوان سے ان کی ہزارگی کہانیوں کامجموعہ زیراشاعت ہے۔منظورپویاہزارگی محافل اور مشاعروں میں فعال شخصیت مانے جاتے ہیں ۔ ان کی نثری تخلیقی کاوشوں کاانتظارشدت سے کیاجارہاہے۔ یہ کہانیاں معروف شاعر،مبصر اورمحقق علی بابا تاج نے ترجمہ کی ہیں۔”
مہرنامہ کاایک قابل قدرگوشہ ”اردونامہ” ہے۔جس میں ننگرچناکامضمون” عصرحاضراورعطاشاد” اورمدیرعابدمیرکا”بلوچستانی شاعرات کا المیہ” ، فیصل ندیم کے افسانے”خودکش”،” ابلیس کاوضو” اور”قبل ازوقت”شامل ہیں۔فیصل ندیم بنیادی طور پرشاعرہیں۔اچھی نظمیں کہتے ہیں،خوب صورت شعرلکھتے ہیں۔کچھ خامہ فرسائی نثرمیں بھی کی ہے۔ شعرکی طرح نثر میں بھی وہ معیارکومقدار پرترجیح دیتے ہیں۔ شایداسی لیے بہت کم افسانے لکھے ۔ان بہت کم میں سے یہ تین منتخب افسانے ان کے معیارکابھی پتہ دیتے ہیں اوران سے بلوچستان کی نئی نسل میں افسانے کے مستقبل کا بھی عندیہ ملتاہے۔ محسن چنگیزی اورصورت سمیع کی غزلیں اور ظہیرظرف اورعمران ثاقب کی تروینیاں شامل ہیں۔
ملکی نامہ کے تحت اسحاق سمیجوکا مضمون ”ایاز کی بغاوت” کوجگہ دی گئی ہے۔ جس کے تعارف میں مدیر نے لکھا۔” مہرنامہ کابنیادی مقصداور کوشش تویہی ہے کہ بلوچستانی ادب کو پاکستان کے مرکزی ادبی دھارے سے جوڑا جائے ،اور یہاں تخلیق ہونے والے ادب کاحقیقی چہرہ پیش کیاجاسکے۔ساتھ ہی ہماری خواہش ہوگی کہ بلوچستان کے تخلیق کاراورقارئین کا حلقہ پاکستان اوردنیا کی دیگرزبانوں کے تخلیق کاروں اور تخلیقات سے بھی آشنائی حاصل کرتے رہیں۔یہ گوشہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس سلسلے کا پہلا مضمون ہم سندھی ادب سے متعلق شایع کر رہے ہیں۔شیخ ایاز جدیدسندھی ادب کے بانیوں میں شمارہوتے ہیں۔سندھ میں انھیں لطیف ثانی بھی کہاجاتاہے۔اسحاق سمیجو،سندھ یونی ورسٹی جامشوروکے شعبہ سندھی سے وابستہ ہیں۔زیرنظر مقالہ ان کے ایم فل کے تھیسزکاحصہ ہے،جس کااردوترجمہ ان کی اجازت سے عابد میر نے کیاہے۔”
آخر میں ”کتاب نامہ” کے عنوان سے بلوچستانی کتابوں پر تبصرے شامل کیے گئے ہیں۔
مہرنامہ ٢ کودوہزاراکیس میں وفات پانے والے پروفیسرعزیزبگٹی، عبدالحکیم بلوچ اورڈاکٹرکہورخان سے معنون کیاگیاہے۔”احوال نامہ” میں عابدمیرلکھتے ہیں۔”یہ اس پرچے کادوسراجنم ہے،سوجس طرح دوسری بار،سب کچھ عین پہلی بار جیسا نہیں رہتا،بعینہٰ کچھ معاملات اس پرچے کے دوسرے جنم میں بدل دیے گئے ہیں۔ مہرنامہ کی وجہ تسمیہ وتخلیق توآپ نے پہلے پرچے کے احوال نامہ میں جان لی، اب کچھ وضا حت اس کی مخصوص ترتیب سے متعلق پیش ہے۔ ہماری اولین کوشش تویہ ہے کہ مہرنامہ کے ذریعے ہم اپنی زبانوں کے ادب کے تراجم قارئین تک پہنچاسکیں۔
اس لیے اولین ترتیب اسی طرح سے ہے۔احوال نامہ میں اس پرچے کامرتب آپ سے براہ راست مخاطب ہوگا۔ باقی ناموں اور موادکی تزئین کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ بلوچی، براہوی، پشتو اورہزارگی نامہ میں مذکورہ زبان کے ادب سے متعلق ایک مضمون،ایک افسانہ نگاراورشاعرکی منتخب تخلیقات کے تراجم پیش ہوں گے۔اردونامہ میں بلوچستان میں تخلیق ہونے والے اردوادب سے منتخب تخلیقات پیش کی جائیں گی۔پاکستان نامہ میں پاکستان کی مختلف زبانوںکے ادب سے منتخب تراجم شامل کیے جائیں گے۔نوخیزنامہ میں بلوچستان کی اپنی زبانوںسمیت اردومیں لکھنے والے نوجوان ونوآموزلکھاریوں کی تخلیقات شامل ہوں گی۔ خاص نامہ میں ہمارے ادبی آسمان سے جداہونے والی شخصیات پہ تعارفی مضامین دیے جائیں گے۔آرٹ نامہ میں بلوچستان سے ادب کے علاوہ فنون لطیفہ کی دیگر اصناف سے متعلق مضامین شامل ہوں گے۔کتاب نامہ میں بلوچستان سے شایع ہونے والی تازہ کتب کاتعارف ہوگا۔ساتھ ہی مہرنامہ کے ہرپرچے کاانتساب ہمارے حال ہی میں رخصت ہونے والے ادیبوں کے نام ہوگا۔”
اس طرح مہرنامہ کے پہلے دوشماروں کے احوال نامہ میں عابدمیر نے پرچے کی پالیسی اورخدوخال کی وضاحت کردی ہے۔دوسرے شمارے کے ”بلوچی نامہ” کا آغازڈاکٹرشاہ محمدمری کے مضمون ”بلوچی افسانہ،ماضی،حال،مستقبل” سے کیاگیاہے۔ شاہ محمدمری ”آپ اپنا تعارف ہوابہارکی ہے” کی مانندہیں۔ان کے بارے میں کچھ معلومات اس طرح بہم پہنچائی گئی ہیں۔”ڈاکٹرشاہ محمدمری1953ء میں کوماوندکوہلومیں پیداہوئے۔پیشہ ورانہ طور پرپیتھالوجسٹ ہیں۔ بولان میڈیکل کالم میں پڑھاتے رہے اوروہیں سے بہ طور وائس پرنسپل ریٹائرہوئے۔ان کی بنیادی شناخت ایک ترقی پسندبلوچ ادیب،محقق اورمورخ کی ہے۔
وہ 1997ء سے ماہنامہ سنگت شایع کررہے ہیں۔پیپلزہسٹری آف بلوچستان کے نام سے بلوچ تاریخ کوازسرنومرتب کررہے ہیں۔ یہ کام دس جلدوں پرپھیلاہواہے۔ عشاق کے قافلے کے عنوان سے عالمی،ملکی ومقامی روشن خیال، ترقی پسند افرادکی سوانح لکھ رہے ہیں۔یہ سلسلہ بتیس جلدوں تک پہنچ چکاہے۔ان کے تخلیقی کام کی ایک اورجہت ترجمہ نگاری بھی ہے۔وہ مارکسی اورترقی پسندادب کی منتخب کتابوںکے اردواور بلوچی میں تراجم کرتے رہتے ہیں ۔اب تک ایسی دودرجن کتب کاترجمہ کرکے چھاپ چکے ہیں۔علاوہ ازیںبلوچی زبان ادب پربھی ایک ضخیم کتاب لکھ چکے ہیں۔ان کازیر نظر مضمون آج سے لگ بھگ دس برس قبل لکھاگیا۔مگریہ آج بھی بلوچی افسانے کاایک جامع تعارف پیش کرتاہے۔”
حنیف شریف کے تین افسانوں”بارش”،”آگے موڑہے” اور”پتنگ” کے تراجم ایف جے فیضی نے کیے ہیں۔”ڈاکٹرحنیف شریف بلوچی کے مشہورافسانہ نگار،ناولسٹ ،اسکرپٹ رائٹروفلمی ہدایت کار ہیں۔ وہ اپنے عہدکے ہی نہیں بلوچی تاریخ کے دوسرے افسانہ نگاروںاور ناول نگاروں سے یکسر مختلف اسلوب کے مالک ہیں۔ان کی تحریروں میں جدیدیت کارنگ نمایاں ہے۔جن میں روسی ادیبوں کی تحریروں اور اسلوب کی چاشنی بھی ہے۔
ان کے اکثرموضوعات سیاسی،مزاحمتی اورانقلابی رنگ میں رنگے ہیں۔دراصل وہ اپنے معاشرے میں موجو دحالات وواقعات کی عکاسی کرتے ہیں اوراپنے کرداروں کے ذریعے معاشرے میں رہنے والوںکی نفسیات پرباتیں کرتے ہیں۔زیرنظر افسانے ان کے اولین افسانوی مجموعے سے لیے گئے ہیں۔ڈاکٹرحنیف شریف کابنیادی تعلق تربت کیچ سے ہے،ان دنوں جرمنی میں رہائش پذیرہیں۔ایف جے فیضی کاتعلق خاران سے ہے۔بلوچی اور اردومیں لکھتے ہیں۔ شاعری اورافسانہ نگاری کرتے ہیں،تنقیدبھی ان کا پسندیدہ میدان ہے۔گورنمنٹ کالج خاران میں اردوپڑھارہے ہیں۔”
اس شمارے میں بلوچی نامہ کے شاعرمنیرمومن ہیں۔ان کے کلام کاترجمہ احسان اصغر نے کیاہے۔”منیرمومن جدیدبلوچی شاعری کااہم نام ہیں۔وہ جدیدحسیت کوسمجھنے اوربرتنے والے شاعرہیں۔ان کابنیادی تعلق گوادرکے قرب میں واقع ساحلی پٹی سے سے ہے،جسے بلوچستا ن کامنی لکھنؤ بھی کہاجاتاہے۔ منیر مومن کی خوش بختی ہے کہ انھیں ایسامترجم نصیب ہواجونہ صرف جواں فکر ہے بلکہ خوداچھاشاعر اورنہایت اچھاشعرفہم ہے۔
پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے سے کوئٹہ آکربسنے اوربلوچی پڑھنے کی کوشش کرنے والے اس نوجوان شاعراحسان اصغرنے بہت جلداس زبان میں اس قدرسدھ بدھ حاصل کرلی کہ منیرمومن کی کتاب جتنی منتخب شاعری ترجمہ کرلی۔یہ کتاب گزشتہ برس لاہور سے” گم شدہ سمندرکی آواز” کے عنوان سے شایع ہوئی ہے۔ایک پنجابی نوجوان کابلوچ شاعرکوترجمہ کرناہماری ادبی تاریخ کاایک انوکھااوردلچسپ واقعہ ہے۔مگرجس قدرتوجہ اورپذیرائی اس ترجمے،اس کتاب اوراس واقعے کوحاصل ہوناچاہئے تھی ،بوجوہ نہیں ہوسکی۔ہم اس کتاب کے منتخب تراجم اس خیال سے شامل کررہے ہیں کہ شایداسی سے اردوقارئین کی توجہ اس جانب مبذول ہوسکے۔”
”براہوی نامہ” میں غفورجان ساسولی کا مضمون ”اصطلاح سازی اوربراہوی ادب” دلچسپ اورمعلومات افزاہے۔غففورساسولی ،براہوی زبان وادب کاجانا پہنچانانام ہے۔انھوں نے بالخصوص براہوی مضمون نویسی،تنقیدنگار ی اورترجمہ نگاری میں نام کمایاہے۔اصطلاح سازی اوربراہوی میں اس حوالے سے ہونے والے کام سے متعلق انھوں نے اپنے مضمون کوترجمہ مہرنامہ کے لیے خودکیاہے۔ڈاکٹر سعیدتبسم مارچ 1980ء کوخضدار میں پیداہوئے۔وٹنری ڈاکٹر ہیں۔ساتھ ہی اردوادب میں ایم اے کررکھاہے۔براہوئی ،اردومیں افسانے ،شاعری اورفکاہیہ کالم لکھتے ہیں۔براہوی افسانوں کامجموعہ”نازنین” کے نام سے مہردرسے شایع ہوچکاہے۔خضدار ہی کے نوجوان لکھاری زیب باجوئی نے اسی مجموعے سے ان کے افسانوں ”نازنین”،” مزاحمت” اور”اسکول کابابا” کاترجمہ کیاہے۔ سیدغریب شاہ کا تعلق مستونگ سے ہے۔اردو اوربراہوی میں شاعری کرتے ہیں۔جدید براہوی کے نمائندہ شعرا میں ان کاشمار ہوتاہے۔انھوں نے اپنی منتخب شاعری کا ترجمہ خودکیا ہے۔
”پشتونامہ” فطرت یوسف زئی کے مضمون” ادبی متن کاتناظر” کاترجمہ وصاف باسط نے کیاہے۔فطرت یوسف زئی نے گریجویشن سافٹ ویئرانجینئرنگ میں کی اورمختلف اساتذہ کے زیرسایہ ادبی سفربھی جاری رکھا۔انھوںنے شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں۔تراجم بھی کرتے ہیں اور دوسفرنامے بھی تحریر کیے ہی۔
فاروق سرورنے انگلش ادب میں ماسٹرزکیا۔ سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔انھیں نائن الیون اورافغانستان کے تناظرمیں ناول”سگوان” پر اکیڈمی خوش حال خان خٹک ایوارڈدیاگیا۔وہ بیک وقت پشتو،اردو اورانگریزی میں لکھتے ہیں اورسترہ کتابوں کے مصنف ہیں۔وہ کئی ٹی وی ڈرامے لکھ چکے ہیں اوربطور اداکاربھی کام کیاہے۔فاروق سرور کے چارافسانے ”روتاہوابوڑھا”،” وہ کمرہ”،” عجیب سی مسکراہٹ” اور” پاگل شخص” شمارے میں شامل ہیں۔ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ جامعہ بلوچستان میں پشتوڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔شاعری کے ساتھ وہ تحقیقی وفکری مضامین بھی لکھتے ہیں۔پشتوادب پراعلیٰ خدمات پرانھیں ایکسی لنسی ایوارڈ سے بھی نوازاگیاہے۔ان کی شاعری بھی پشتونامہ کاحصہ ہے۔جس کاترجمہ بھی انھوں نے خودکیاہے۔
”ہزارگی نامہ” میں علی تورانی کامضمون”ہزارہ اورہزارگی زبان” عمدہ اور قابل قدرہے۔ جوادخاوری کی براہوی لوک کہانی”بخت بیدار، عقل خفتہ”کاترجمہ شرافت عباس نے کیاہے۔علی ارمان کی شاعری کاترجمہ لطیفہ نوروزعلی نے کیاہے۔
”اردونامہ” میں معروف فسانہ نگارآغاگل کے قلم سے ”بلوچستان میں اردوفکشن” خاصے کی تحریرہے۔ آغا گل بلوچستان کے فکشن کاجانا پہچانا نام ہے۔ انھوں نے بلوچستان کے اردوفکشن پرپہلے ایک مضمون اور پھراسی کوپھیلاکرپوری ایک کتاب لکھ ڈالی۔ان کایہ مضمون خصوصی طور پر مہرنامہ میں شامل کیاگیاہے۔صبالونی کے تین افسانے ”گڑیاکی شادی”،” آج آخری دن تونہیں!” اور ”ایک تھی شہزادی” بھی اردو نامہ میں شامل ہے۔
ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والی صبالونی کاسبی سے تعلق رکھتی ہیں۔کوئٹہ گرلزکالج میں اردوپڑھاتی ہیں۔اردوشاعری اور افسانے لکھتی ہیں۔ان کے افسانے بلوچستان میں خواتین کے مسائل کانسائی تناظرپیش کرتے ہیں۔ پروفیسربیرم غوری بلوچستان کے اردو ادب کامعتبرحوالہ ہیں۔وہ عطاشاد کی روایت کا تسلسل ہیں۔ان کاشعری مجموعہ”آدھی نیند” کے نام سے شایع ہوا۔ان کی غزلوںکا انتخاب بھی اس شمارے میں شامل ہے۔
”ملکی نامہ” کے تحت اس شمارے میں پنجابی کہانی کے ترجمے کوجگہ دی گئی ہے۔اکمل شہزادگھمن کی ”دھرتی کے لال” کاترجمہ ننگرچنا نے کیا ہے۔اکمل شہزادگھمن پنجابی اوراردوکے لکھاری ہیں۔ بنیادی تعلق فیصل آباد کے قریبی قصبے سمبڑیال سے ہے۔ریڈیوپاکستان سے بطور پروڈیوسروابستہ ہیں۔ان کی کتاب ”میڈیامنڈی” بہت پسندکی گئی۔پنجابی کہانیوں کامجموعہ”ایہہ کہانی نئیں”کے عنوان سے شایع ہوا۔
”نوخیزنامہ” کے زیرعنوان بلوچستان کے تین نوجوان قلم کاروں سے متعارف کرایاگیاہے۔ اویس معلوم، بلوچستان کے اردوادب کے منظرنامے میں تیزی سے ابھرتے ہوئے لکھاری ہیں۔جنھوں نے اپنی سنجیدہ تنقیدی رائے سے لکھنے اورپڑھنے والوںکومتوجہ کیاہے۔وہ جواں مرگ دانیال طریرکے چہیتے شاگردہیں انہوں نے دانیال طریر کی نظم ”خدامری نظم کیوں پڑھے گا” کاتنقیدی جائزہ لیاہے۔جلال فراق کاتعلق خاران سے ہے۔گورنمنٹ کالج میں اردوپڑھاتے ہیں۔شعروافسانہ لکھتے ہیں۔ان کے افسانے میں بلوچستان کاروایتی لینڈ اسکیپ اورحقیقی منظرنامہ دیکھاجاسکتاہے۔نسیم خان کاتعلق ژوب سے ہے۔انھوں نے کم عمری میں اورتیزی سے اردونثری نظم میں خودکو نما یا ں کیاہے۔نسیم خان کی نظمیں ایک خاص اسلوب اورتہہ داری رکھتی ہیں،جواب ٹریڈمارک بن چکاہے۔انہوں نے حال ہی میں بلوچستان پشتوڈپارٹمنٹ سے امتیازی نمبروں سے بی ایس کیاہے۔
”خاص نامہ” مہرنامہ کایہ حصہ اپنے اکابرینِ علم وادب کی یادکے لیے وقف ہے۔اس باراس میں تین اکابرین کویادکیاگیاہے۔عابد میر نے پروفیسر عزیز بگٹی کی تصانیف کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کی علمی خدمات کودہرانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ قاری کوان کے علمی قدکاٹھ کا اندازہ ہو سکے۔ واجہ عبدالحکیم بلوچ پہ، محمدیاسین بلوچ نے بلوچستان یونی ورسٹی سے ایم اے اردوکاتفصیلی تحقیقی مقالہ تحریرکیاہے۔ان پر مضمون اسی مقالے سے مقتبس ہے۔ڈاکٹرکہورخانبیک وقت ہماری سیاسی وعلمی روایت کاایک شان دارکردارتھے۔ ان کی علمی جدوجہدپرمحمد صدیق کھیتران کامضمون اس حصے میں شامل ہے۔
”آرٹ نامہ” میں لیاری نشیںذولفقارعلی زلفی کاایک بلوچی فلم ”جاور” پرتبصرہ شامل کیاگیاہے۔ زلفی نوجوان فلمی ناقدہیں۔ان کی فلمی تنقید نگاری کوایک وسیع حلقے میں قدرسے دیکھاجاتاہے۔آخر میں ”کتاب نامہ”میں دوہزاراکیس میں بلوچستان سے شایع ہونے والی کتب کے تفصیلات دی گئی ہیں۔بلوچستان سے اردومیں تازہ کیاچھپ رہاہے؟ سال بھرمیں کون سے تصانیف شایع ہوئیں؟ کن موضوعات پہ کون سی کتابیں شایع ہوئیں؟ یہ آخری حصہ انھی تفصیلات پرمبنی ہے۔سال کے آغازمیں آنے والے پرچے میں گذشتہ برس شایع ہونے والی کتابوں کی فہرست شایع کی جائے گی اورسال کے آخر کے پرچے میں تازہ کتابوں پرتبصرے کیے جائیں گے۔
اس طرح ”مہرنامہ”کے ابتدائی دوشماروں نے پاکستان بھرکے اردوقارئین کے لیے بلوچستان کاایک دریچہ وا کردیاہے۔جس کے ذریعے قاری بلوچستان کی تمام زبانوں کے ادب کی پیش رفت سے آگاہ ہوسکے گا اور مقامی ادیب وشعراسے متعارف ہونے کاموقع بھی ملے گا۔ ان شان دارپرچوں کی اشاعت پرمہردرپبلشرز اورعابدمیرکوبھرپور مبارک باد پیش ہے اور امید ہے کہ قارئین بلوچستان کی اس ادبی کاوش کا کھلے دل سے استقبال کریں گے۔