لاہور میں پی ٹی آئی جلسہ 25 مئی کے ناکام مظاہرے اور فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کا پہلا مظاہرہ تھا۔ توقع بھی تھی اور دعویٰ بھی کیا جارہا تھا کہ اس موقع پر عمران خان کوئی بڑا اعلان کریں گے ۔ عمران خان نے خود اپنی تقریر میں بھی کہا کہ وہ ‘ حقیقی ازادی’ کاروڈ میپ دیں گے لیکن ان کی تقریرمیں پرانی باتوں کی جگالی کے علاوہ کوئی نئی بات نہ تھی۔
انھوں نے اپنی تقریر صرف نظری قسم کی باتیں کیں جیسے غلامی چار قسم کی ہوتی ہے وغیرہ۔ اس قسم کی باتوں کی وجہ سے یہ تقریر کسی سیاسی راہنما کی کم اور کسی موٹیویشنل اسپیکر کی زیادہ تھی۔ اپنے اعلان کے مطابق وہ کوئی روڈ میپ دینے میں ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران چونکہ کوئی جارہانہ سیاسی حکمت عملی دینے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں ہے کہ وہ موجودہ سیاسی حقائق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اب انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ یہ حقیقت عمران خان پر واضح ہو چکی اور انھوں نے اسے قبول بھی کر لیا ہے۔ عمران خان کی تقریر کی خاص بات بھی یہی ہے کہ انھوں نے انتخابات پر زور بالکل نہیں دیا۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ انھوں نے شہباز گل کی حمایت سے بھی گریز کیا۔
عمران خان کی تقریر کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ وہ امریکا کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو انھوں نے حکومت سے معزولی کے بعد تسلسل سے کہی ہے۔ حالیہ دنوں میں انھوں نے امریکی لابنگ فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں تاکہ امریکی فیصلہ سازوں کی آنکھ کا تارہ بن سکیں۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان کی تقریر: تین مغالطے، تین ناکامیاں
اس پس منظر میں تیرہ اگست کو پی ٹی آئی جلسہ میں بار بار یہ کہنا کہ وہ امریکا مخالف نہیں، ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ وہ آزادی اور حقیقی آزادی کے وہ نعرے ضرور لگاتے ہیں لیکن اقتدار کے حصول کے لیے وہ اسی در پر سر جھکاتے ہیں جسے کچھ عرصہ قبل انھوں نے گالی دی تھی۔ عمران امریکا تعلقات اور اقتدار کی حسن طلب کے ضمن میں تیرہ اگست کا جلسہ یادگار رہے گا۔
لاہور کا جلسہ قومی پرچم کی بے حرمتی کی وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا۔ اس موقع پر پنجاب حکومت کی گاڑیوں پر سوار سرکاری اہل کاروں نے یوم آزادی کے موقع پر لگائے گئے قومی پرچم اتار کر ان کی جگہ پی ٹی آئی کے جھنڈے لگائے۔ اس طرزِ عمل نے قوم میں غم و غصہ پیدا کر دیا۔ قومی جھنڈے کی توہین کے اس واقعے کو ایک تاریخی واقعے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے ڈھاکہ میں پاکستان کا جھنڈا جلا کر بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ حقیقی آزادی کے علمبردار نے لاہور میں قومی پرچم اتار تو دیا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
قومی پرچم کی توہین کا یہ واقعہ ایک اور تاریخی حادثے کے پس منظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ چودہ اگست پر الطاف حسین نے ایک بار کہا تھا کہ ہم کیوں پاکستانی جھنڈا لہرائیں؟ عوام نے انھیں سبق سکھا دیا۔ اب وہی کچھ لاہور میں ہو رہا ہے۔ قومی پرچم اتار کر سیاسی جماعت کا جھنڈا لہرایا جا رہا ہے۔ دیکھئے عمران خان کے ساتھ عوام کیا سلوک کرتے ہیں؟