اشعرنجمی کے ناول ”اس نے کہاتھا” اور ”صفرکی توہین” حیران کن طور پرپاکستان سے بھی شایع ہوگئے۔ان منفرد،بے مثل اورمتنازعہ ناولز پر تبصرہ کرنا آسان نہیں۔میں کوئی نقاد نہیں۔ تبصرے صرف فروغِ مطالعہ کے نقطہ نظرسے کرتاہوں اور عام طور پرکتاب یارسالے کی خوبیاں ہی بیان کرتاہوں ۔تاکہ قاری کوپڑھنے کی ترغیب ملے۔میںجدیدیت، مابعدجدیدیت یاکوئی اور ایسی پیچیدہ بحث سے چھیڑکراپنی تحریر کو گنجلک بھی نہیں بناسکتا۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دونوں ناولز نے مجھ پرسحر طاری کردیا۔کوئی مصنف اس طرح بھی اظہارِ خیال کر سکتاہے۔ان مسائل اور موضوعات کوجن پرسوچتے ہوئے بھی ہم اردگردنظرضرورڈال لیتے ہیں۔ اس بے باکی اور سچائی سے بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ہم جنسیت کے موضوع پر”اس نے کہاتھا” میں جنسی تعلقات کی کوئی مکروہ تفصیلات نہیں۔ اس کے باوجود قاری کاتجسس برقرار رہتاہے۔”صفر کی توہین” انتہائی حساس موضوع کے باوجودکہیں الحادکی تلقین نہیں ۔ بس وہی سوالات ادبی شائستگی سے اٹھائے جوہرذی شعورانسان کبھی نہ کبھی خودسے ضرور کرتاہے۔
اشعرنجمی پرفیکشنسٹ ہیں یاانفرادیت پسند، لیکن انہیں ادب میں روایتی اور پامال راہوں پرچلناپسندنہیں۔ ادبی رسالہ”اثبات ” کااجراکیاتو اس کے ایسے خصوصی شمارے شایع کیے ۔جن کے بارے میں پاک وہندکے کسی اورمدیرِ نے سوچابھی نہ تھا۔ان کی انفرادیت اور محنت کی چھاپ ”اثبات”کے ایک ایک صفحے پرنظرآتی ہے۔فیس بک پرمختلف شخصیات اورکتب پران کے تبصروں کی کاٹ چونکادیتی ہے۔ وہ خود سمیت کسی سے بھی رو رعایت کے قائل نہیں ، جومحسوس کرتے ہیں،بے دھڑک کہہ دیتے ہیں۔اردوکے معروف ادیب ،شاعر، نقاد ، افسانہ و ناول نگار اورچالیس سال دھوم مچانے والے جدیدادب کے ترجمان ”شب خون” کے مدیرشمس الرحمٰن فاروقی کے حقیقی مداح ہونے میں فخر محسو س کرتے ہیں۔ لیکن ان سے بھی اختلاف ہوا،تو کئی سال بول چال بندرہی، لیکن احترام کارشتہ قائم رہا،اسی لیے صلح بھی ہوگئی۔
یہ بھی دیکھے:
شمس الرحمٰن فاروقی کے انتقال کے بعدان کی عظمت کاعلَم اشعرنجمی نے ہی اٹھایا۔شمس الرحمٰن فاروقی کے بے مثال ناول”کئی چاندتھے سرآسماں” کے وزن پر”وہ جوچاندتھاسرآسماں” جیسی ضخیم کتاب اشعرنجمی ہی لکھ سکتے تھے۔اس میں شامل ”یہ لوحِ مزار میری ہے” جیسابے مثل رپورتاژ شایدہی کسی ادبی شخصیت پرتحریرکیاگیاہو۔ یہ تحریربھی اشعرنجمی کے قلم کاایک شاہکاراورفاروقی صاحب سے عقیدت کا بین ثبوت ہے ۔ فاروقی صاحب کے تراجم کویکجاکرنے کاکارنامہ بھی اشعرنجمی نے انجام دیا۔
”اثبات” کے دور سوم میں اشعرنجمی نے ناصرف کئی شاندار اوریادگارنمبرشایع کیے۔بلکہ انہیں ہندوستان کے ساتھ پاکستان سے بھی شایع کر نے کااہتمام کیا۔اس طرح پاکستانی قارئین کوبھی ان کی مدیرانہ صلاحیتوں سے استفادے کاموقع میسرآیا۔حال ہی میں ”اثبات” کے دو شمارے یکجا کراچی کے سٹی بک پوائنٹس سے شایع ہوئے ہیں ،اور قارئین کے لیے پیغام مسرت ہے کہ آئندہ ”اثبات” کاہرشمارہ یہی ادارہ پاکستان سے چھاپے گا۔اس سے قبل ”مشاعرہ نمبر” بھی سٹی بک پوائنٹ شایع کرچکاہے۔
اشعرنجمی کا پہلاناولٹ”دھکم پیل” تھا، جو”اثبات” کے ”فحش اورعریاں نگاری نمبر” میں شایع ہوا۔اپنے پہلے ہی ناولٹ سے انہوں نے ادبی ناقدین کوچونکادیا۔لیکن جوسب سے بڑاکمال ”دھکم پیل” میں مصنف نے دکھایا،وہ یہ کہ جنس کے موضوع پربھی عریانیت اورفحاشی کے الزام سے بچتے ہوئے کیسے اپنا نقطہ نظربیان کیاجاسکتاہے۔کچھ عرصہ قبل ان کے دوناول”اس نے کہاتھا” اور ”صفرکی توہین” منظرعام پرآئے ۔ دونوں منفرداسلوب اورحساس موضوعات پرلکھے گئے۔جن سے اردومصنفین عموماً گریز کرتے ہیں، یا اگرذکرکرنا ہی پڑجائے توسرسری بیان کرکے آگے نکلتے ہیں۔اپنے پہلے ہی دوناول اس عمدگی سے لکھ کرانہوں نے اپنی انفرادیت توتسلیم کرادی۔ لیکن موضو ع کی حساسیت کی وجہ سے پاکستان سے انہیں شایع کراناآسان نہ تھا۔ تاہم فکشن ہاؤس کے ظہوراحمدخان نے ان دونوں ناولوں کوچھاپنے کی ہمت دکھائی اور بہت خوبصورتی سے انہیں شایع بھی کیا۔کتابت ،طباعت، جلدبندی عمدہ پروف کی غلطیاں بہت کم ہیں اورقیمت بھی مناسب رکھی گئی ہے۔ جس کے لیے فکشن ہاؤس پبلشرزکے ظہوراحمدخاں کوبھرپور مبارکباد۔
”اس نے کہاتھا” عام انسانوں سے مختلف اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے مسائل کے بارے میں ہے۔ہمارے منافق معاشرے میں ان پر بات کرنابھی گناہ سمجھاجاتاہے۔گھروں کے بندکمروں میں کیاکچھ ہوتاہے۔محرمات کوبھی نہیں چھوڑا جاتا۔لیکن ان باتوں کاذکرممنوع ہے ۔کیونکہ ہم گناہ سے نہیں گناہگار سے نفرت کرتے ہیں۔ اشعرنجمی نے ایسے موضوع کوچناہے ،جواردوادب میں شجرممنوعہ ہے۔’عصمت چغتائی کے ایک معمولی افسانے”لحاف” نے اردوادب میں ہلچل مچادی تھی۔خان فضل الرحمٰن نے ایک عمدہ افسانہ ”ادھ کھایاامرود” لکھاتھا اورمحمدعلی ردولوی کاافسانہ ”تیسری جنس” کے علاوہ بہت کم مصنفین نے ان موضوعات پرلکھا۔”ہم جنس پرست ”یا معروف معنوں میں’گے ‘اور’لزبین ‘افراد کوہمارے ہاں انسانیت سے خارج سمجھاجاتا۔انہیں والدین بھی قبول نہیں کرتے۔ مذہب میں بھی امردپرستی یاغیرفطری تعلق بڑاگناہ ہے۔ ایسے افراد کے مسائل کاذکر، جنہیں ہمارا معاشرہ انسانیت سے باہرقرار دیتا ہے ۔ تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی مثال اردوشاعر،افسانہ وکالم نگارافتخارنسیم تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
ن لیگ کے دشمنوں نے اسے ایک بار پھر طاقت ور بیانہ کیسے دیا
چھبیس جولائی: سنیٹر عرفان صدیقی کی پراسرار گرفتاری کا راز کیا تھا؟
بازی ایک بار پھر پلٹ گئی۔ سپریم کورٹ کا فل بینچ بننے کی راہ ہموار
فیصل آباد کایہ شخص مرد ہونے کے باوجودنسوانیت کاحامل تھا ، یہ اس کاایسا گناہ تھاکہ ناصرف اسے گھرسے نکال دیاگیا بلکہ ایک متنازع نظم لکھنے پر مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی کے بعداسے ملک ہی چھوڑنا پڑا ۔ افتخارافتی شگاگومیں بھارتی جیون ساتھی پریم کے ساتھ رہتا تھا۔ان کے تین شعری مجموعے ”نرمان”،” غزال”،”آبدوز” افسانوں کا مجموعہ”شبری” اور نثری کتاب”افتی نامہ” شایع ہوئیں ۔’نرمان ‘ میں افتی نے ہم جنسیت کے تجربات بیان کیے،اور عورتوں اوراقلیتوں کے مسائل پر بھی بات کی۔”شبری ” کے بیشترافسانے بھی اسی موضوع پرہیں۔اردوکے کسی شاعر،ادیب نے افتخارنسیم کی طرح شاید ہم جنس پرستی کا اس طرح کھل کراس کا اعتراف نہیں کیا ۔ مذہبی ممانعت کے باعث ان افرادسے نفرت ہی کی جاتی ہے۔لیکن نفرت اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
افتی خود آگاہی کے عمل کو بہت آہستہ اور تکلیف دہ کہتے ہیں۔”جب مجھے پتہ چلا کہ میں ہم جنس پرست ہوں تو میں مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔ مجھے زندگی بے مقصد لگی۔مجھ میں خود کشی کا رجحان بڑھ گیا مگر میری ملاقات خوش قسمتی سے ایک نفسیات دان چندر ناتھ آہوجہ سے ہوگئی۔ اس کی تھراپی سے مجھے معلوم ہوا کہ زندہ رہنے کے اور بہت سارے بہانے ہیں۔ لوگوں کی خدمت کرنا میری زندگی کا مقصد بن گیا۔کسی نے مجھے ہم جنس پرست نہیں بنایا۔ میں ایساہی پیدا ہوا تھا۔لیکن میں نے اپنے بارے میں جھوٹ نہیں بولا۔بہت سارے ہم جنس پرست نام نہاد شادی کی پیچھے پناہ لیتے ہیں۔ والدین، معاشرہ اور رشتہ داریہ ثابت کرکے خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بیٹا’ بیمار’ نہیں ہے۔ وہ نارمل ہے۔ لیکن یہ جھوٹ آخر میں سب کو تباہ کر دیتا ہے۔ ہمیں سچ کو مان لینا چاہئے۔ خواہ وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔ افتی کے اپنے خاندان کا ردعمل بہت سخت دل گرفتہ تھا۔میرا باپ کئی سال پہلے مر چکا تھا۔لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس کو سمجھ سکتا تھا۔ جب میرے بھائی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے مجھے عاق کر دیا ۔”
مذہبی اورمعاشرتی اقدارکے یکسرخلاف ہونے کے باوجوداگرکوئی انسان ایساہی پیداہواہے،تواس کاکیاقصورہے۔وہ تمام ترخامیوں کے باوجودانسان توہے۔اشعرنجمی نے ”اس نے کہاتھا” میں انہی انسانی سکھ دکھ سے سروکاررکھاہے۔ان کی تنہائی اورکرب کومحسوس کیاہے۔ان کے پاس اپنی فطرت کاگلاگھونٹنے یااس کااظہارکرکے ساری زندگی کے لیے معتوب ہونے کے سواکوئی راستہ نہیں۔مصنف کاایک اورکمال یہ ہے کہ ہم جنسیت کے موضوع پرہونے کے باوجودکہیں ذومعنی جملے،فحاشی اورابتذال کونہیں برتاگیا۔ناول کاکوئی پلاٹ نہیں ہے اورنہ ہی اٹھائیس ابواب میں کوئی باہمی ربط یاتسلسل ہے۔لیکن تحریرکی روانی قاری کی دلچسپی کوکہیں کم نہیں ہونے دیتی اورغیرمربوط ہونے پربھی اپنے موضوع سے نہیں ہٹتی۔اشعرنجمی کی نثرآسان اور سادہ اوربیانیہ دلچسپ ہے۔ انہوں نے اکتیس مختصرکہانیوں میں عام انسانوں سے الگ ان افرادکاالمیے اس خوبصورت پیرایے میں پیش کیاہے کہ اس غیرفطری تعلق کے بارے میںکوئی منفی تاثراجاگرہونے کے بجائے ان کی نفسیاتی کیفیت ، احساس تنہائی اورکمتری سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔
اپنے پہلے ہی ناول میں ایسے مشکل اورحساس موضوع کاانتخاب اوراسے اس خوبصورتی سے پیش کرنے پراشعرنجمی کوخراج تحسین پیش کیاجانا چاہیے۔ہم جنس پرستی یاامردپرستی کوئی نئی بات نہیں۔اس کاپتہ قدیم ترین تاریخ سے بھی ملتاہے۔بادشاہ ، حکمران،نامورادیب،شاعراور اہل قلم بھی اس علت کاشکار رہے ہیں۔”اس نے کہاتھا” میں بھی ایسے چندتاریخی کرداروں کابھی ذکرہے۔لیکن ہمارا معاشرہ میں جس میں جنس کاذکرہی شجرممنوعہ ہے اوراسی لاعلمی کے باعث بے شماربچے اوربچیاں اپنے قریبی افرادکی ہوس کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہاں اس موضوع پرناول لکھنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔جس کی اشعرنجمی میں کمی نہیں۔
ناول”صفرکی توہین” کے پیش لفظ”کچھ باتیں ” میں اشعرنجمی کیاپتے کی باتیں لکھی ہیں۔”جہاں تک ناول کے موضوع کاتعلق ہے،تومجھے یادپڑتاہے کہ سارترنے ایک بارکہاتھاکہ جنوبی ایشیامیں مسائل اورموضوعات کی کمی نہیں،لیکن پتہ نہیں لوگ ان پرکیوں نہیں لکھتے؟ شاید سارتر کوپتہ نہ تھا کہ ہمارے ہاں، بطورخاص اردومعاشرے میں کچھ موضوعات کوشجرممنوعہ سمجھاجاتارہاہے۔ظاہرہے ایسے میں کون زمانہ شناس اورمعاملہ فہم ادیب بھڑوںکے چھتے میں ہاتھ ڈالے گا؟
میں نے یہ غلطی پہلے ناول میں بھی کی تھی اوراس بار بھی کررہاہوں۔دراصل شاعری یافکشن کے بیشتر ادیب وقارئین کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں وہی اچھالگتاہے جوان کے تصورات کی تصدیق کرے،جبکہ ادب عموماً ایسے تصورات کوچیلنج کرتاہے۔ چنانچہ ایک معقول تخلیق کارکوقارئین سے زیادہ توقع نہیں رکھناچاہیے۔میرے نزدیک لفظ اورمعنی کے شراب ہو جانے کانام ادب ہے۔جن چیزوں سے شراب بنتی ہے،ان میں نشہ نہیں ہوتابلکہ ان کے امتزاج میں ہے۔لہٰذا لفظ ومعنی اپنی علیحدہ شکل میں ادب نہیں بلکہ اپنے ملاپ میں ہیں۔اس بار میرے پاس دوآپشن تھے۔ ایک اپنے پہلے ناول یا بیشترناولوں کی طرح میں تخیلی کردار اور واقعات کاسہارالوں۔دوسرا، یا میں اصلی کردار اوراصلی واقعات کوتخیلی رنگ میں رنگ دوں۔ میں نے اس بار دوسرے راستے کاانتخاب کیا ۔ اصل چیلنج دوسروں کے اندربیٹھ کرلکھناہوتاہے،اپنے کندھوں پر دوسرے کاسرلگاکرسوچناہوتاہے۔یہ تجربہ ایک چھوٹے سے جہاز پر تنہا اڑنے کے مترادف ہے،اس میں آپ کے اندربیٹھاقاری،نیوی گیٹرکی طرح کام کرتاہے۔لہٰذا ناول نگار کیسابھی ہو،مگراسے ایک اچھا قاری ضرورہوناچاہیے۔”
”صفرکی توہین” اردوں میں اپنی نوعیت کا پہلا ناول ہے۔جسے میں ایک الگ نظرسے دیکھتاہوں۔ایک سوساٹھ صفحات پر مبنی ناول کے آٹھ ابواب ہیں۔جس میںبنیادی طور پرصفر کی قوت کاموازنہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اوراختیارسے دلچسپ انداز میں کیاگیاہے۔صفرجواپنی ذاتی حیثیت میں کچھ نہیں، صفرکامطلب ہی بے قدروقیمت ہے، لیکن کسی بڑی سے بڑی قیمت کاتعین صفرکے بغیرممکن نہیں۔ دنیا میں آج ”پارٹیکل آف گاڈ” کی جوجستجو ہورہی ہے۔جس میں اس حقیقت کوثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ ہرنیوٹرون میں ایک ناقابل شناخت عنصر موجودہوتاہے۔سائنس دان پرامیدہیں کہ وہ جلداللہ کی حقیقت جاننے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
یہ الگ بحث ہے کہ ایساہوتاہے یا نہیں ۔چندسال قبل عکسی مفتی نے اس موضوع پر بہت عمدہ کتاب”تلاش” انگریزی میں لکھی تھی،جودراصل ان کے پی ایچ ڈی کامقالہ ہے ۔ جس کاترجمہ نجیبہ عارف نے کیا،اردوحلقوں نے اس کتاب پرتوجہ نہیں دی،لیکن تلاش بہت اہم موضوع پرقابل قدرکتاب ہے۔اشعرنجمی نے اس موضوع کوبہت خوبصورتی سے ناول کے روپ میں پیش کیا۔صفرکی قدرواضح کرنے کے ساتھ مصنف نے اللہ،بھگوان،گوڈیادیگر مذاہب میں تصورخدااوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کاذکر شاندار انداز سے کیاہے۔اسلام،ہندومت ،یہودیت اور عیسا ئیت سمیت مذہبی انتہاپسندی اوراس سے پریشان افرادکی مذہب بیزاری کوبھی اپنے کرداروں کے حوالے سے پیش کیاہے۔اس کے لیے سائنسی اورلسانی اصطلاحات الگورتھم، لائٹ ایئر،تھیوری آف ریلیٹویٹی،کمپیوٹرمیں کنٹرول،آلٹ اورڈیلیٹ کوبات سمجھانے کے لیے کامیابی سے استعمال کیاہے۔
ناول کے کرداربابوراؤناستک، ریحانہ،رنجن،عیسائی ماں یہودی باپ کی بیٹی، جمیل ملک،باجی عزیزہ،بوقول صیام کے ذریعے مذہبی تضا دات اوران کے نتیجے میںکچھ لوگوں کے دہریے بننے کاعمل قاری کے دل میں اترجاتاہے اوراسکے دل میں چندایسے سوالات جنم لیتے ہیں ،جوہرذی شعورفرد کے ذہن میں کبھی نہ کبھی اٹھتے ضرورہیں۔مفکرین کے اقوال سے کہانی کوآگے بڑھانے کاکام بہت خوبی سے لیا ہے ۔
ناول کے ہرباب کاآغاز کسی مفکرکے قول سے کیاگیاہے اوران اقوال کے ذریعے کہانی کوآگے بڑھانے کاکام بہت عمدگی سے لیاگیاہے۔ پہلے باب میں ترکی کے مہمت مرات کے قول کامفہوم ہے۔”صفرکے قریب ایک پوائنٹ پرجوتقریباً موت کے قریب ہوتاہے ،زندگی کی ویلیوجمپ لگاکرلامحدودہوجاتی ہے۔”
ناول کامرکزی کردارشودر بابوراؤڈوم ہے،جس نے والدین،بھائی کے ساتھ برہمن سماج کے رویہ کی وجہ سے اپنانام سرکاری طوربابوراؤ ناستک کرالیا ہے ۔بابوراؤکے بھائی کاقصور یہ تھا کہ اس نے تحصیلدارکی بائیک چھولی تھی ۔اسے بائیک پسندتھی ،وہ خریدبھی سکتاتھا لیکن گاؤں میں چھوٹی ذات والوں کے لیے گھوڑے اوربائیک کی سواری ممنوع تھی۔ بڑے بھائی کوبھی بائیک چھونے کے جرم میں اتناپیٹا گیا کہ وہ اسپتال لے جاتے ہوئے مرگیا۔باپ تھانے گیاتوالٹاپٹ کرلوٹا۔لیکن بابوراؤ کے اپنانام ناستک کرانے کواس سنگین واقعے کے باوجود فیملی سمیت شودربرادری نے بھی پسند نہیں کیا۔جس سے معاشرتی تضاد واضح ہوتاہے۔اٹھارہ جولائی انیس سو بیاسی کے دن کمپیوٹر انجینئر بابو راؤ ناستک کی بظاہرموت کادن ہے۔ موت میں اشعرنجمی کے لیے بہت کشش ہے۔ ان کے پہلے ناول ”اس نے کہاتھا” کا آغاز بھی مرکزی کردار کی خودکشی سے ہوتاہے۔ لیکن ناستک آخر میں موت سے ہمکنار نہیں ہوتا۔
مصنف قاری کوبابوراؤناستک کے فلیٹ میں دوانجان افرادکے اچانک داخلے سے چونکادیتاہے۔ جواستفسار پربتاتے ہیں کہ وہ مبشراور بشیر ہیں۔جنہیں کچھ لوگ منکرنکیربھی کہتے ہیں۔ناول”صفرکی توہین” ناستک اورمنکرنکیرکے مکالمے پرمبنی ہے۔یہاں ایک سوال پیداہوتاہے کہ ہندوشودرکے ذہن میں منکرنکیرکاتصور کیونکرآیا۔اس کاجوازاس کی مسلمان پس منظررکھنے والی بیوی ریحانہ اوراس کی مذاہب کے بارے میں وسیع معلومات کوقراردیاجاسکتاہے۔
جس میں دیگرکرداروں کی کہانی بھی بیان ہوئی ہے۔جس کابنیادی موضوع ان عوامل کابیان ہے ،جوانسان کومذہب سے بیگانہ اوردورکرتے ہیں۔ہندومت میں نچلی ذات کے افرادکے ساتھ اعلیٰ ذاتوں کاناروا سلوک اس کا باعث بنتاہے۔دیگر مذاہب میں مذہبی رہنماؤں کے تضادات اس کی وجہ بنتے ہیں۔ایک اقتباس ملاحظہ کریں، جس سے اشعرنجمی کانقطہ نظرواضح ہوتاہے۔” دیکھیے ،صفرمیراخداہے،سب کاوہی خداہے کہ صفرطاقتورہے کیونکہ یہ انفینیٹی کاجڑواں ہے۔دونوں یکسا ںبھی ہیںاورمتضاد بھی،ین اوریانگ ، سائنس اورمذہب میں سب سے بڑے سوالات عدمیت اورابدیت،باطل اورلامحدود،صفر اورلامحد ودیت کے بارے میں ہیں۔صفر پرہونے والی جھڑپیںوہ لڑائیاں تھیں جنھوں نے فلسفے ، سائنس،ریاضی اورمذہب کی بنیادوں کوہلاکررکھ دیا۔ ہرانقلاب کے نیچے ایک صفر اورایک لامحدودیت ہوتی ہے۔ اس لیے میں صفرکی طاقت اوراس کی لامحدودیت کوجانتے ہوئے اس کی توہین کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔”
”جب مجھ سے کوئی میرامذہب پوچھتاہے تومیںاسے کہتاہوں میراکوئی مذہب نہیں میں ایتھسٹ ہوں۔ایک مسلمان فخرسے بتاسکتاہے کہ وہ مسلمان ہے،ایک ہندوبتاسکتاہے،ایک کرسچن بتاسکتاہے تومیں اپنی شناخت کیوں چھپاؤں؟لیکن تمہارے ملک میں اسلام چھوڑنے پراسے مذہب کی توہین سمجھاجاتاہے۔توپھرسر،دین میں جبرنہیں،کے نعرے کاکیاہوگا؟”
مصنف نے مذہبی تضادات کوکیتھولک عیسائی ماں اوریہودی باپ کی بیٹی کی کہانی میں بھی واضح کیاہے۔ باپ یونیورسٹی میں پروفیسراورماں بینک منیجرتھی۔باپ کی وجہ سے بہن بھائی خودکوجیوش کہلاناپسند کرتے تھے لیکن گھرکی چاردیواری کے اندرسب اپنی شناخت میں آزاد تھے ۔ ماں ہراتوارکوچرچ جاتی اورباپ سبات کی رسم بڑے اہتمام سے اداکرتا۔ان پرمذہبی لحاظ سے کوئی پابندی عائد نہیں تھی۔لیکن جب بچوں کو مذہبی تعلیم دینے پراختلاف ہواتووہ طلاق پرمنتج ہوا۔باپ نے اپنے عقیدے کی عورت سے شادی کرلی۔ماںچرچ لے جاکر پادری کے حوالے کردیتی۔اس متضادصورتحال میں بھائی آئزک غیرقانونی نشہ آوراوور ڈوزلینے سے ہلاک ہوگیا۔ماں باپ میں تدفین پر بھی تکرار ہونے لگی۔حل آئزک کی وصیت سے لاش کوالیکٹرک بھٹی میں جلانے سے نکلا۔
ریحانہ کی کہانی بھی بہت عبرتناک ہے۔جوصومالیہ میں مسلمان گھر میں پیداہوئی۔اس کی مسلم عقائد پرپرورش ہوئی۔تمام دینی امورسے واقفیت اور ان پرعمل کے باوجودخاندان اوراردگردمذہبی تضادات اسے بھٹکاتے رہے۔ باپ کی اس کی شادی زبردستی عثمان سے کرنے کی کوشش اسے بھاگنے پرمجبورکردیتی ہے۔اسی کہانی میں اشعرننجمی نے عربوں کے لڑکیوں کے ختنے کے رواج کابھی سرسری ذکرکیاہے۔جو قطعی غیراسلامی اورلڑکیوں کوجنسی فعالیت سے روکنے کے لیے کیاجاتاہے۔
جمیل ملک کی کہانی بھی اسی نوعیت کی ہے۔ جس کاتعلق انتہائی مذہبی گھرانے سے ہے۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں مذاہب کے بارے میں وسیع معلومات بھی رکھتاہے۔لیکن مذہبی تضادات، مدرسے کے اساتذہ کے اپنی طلباسے ناروا سلوک اورجنسی زیادتی کے واقعات سے دین سے بیزار کردیتے ہیں۔جمیل ملک کی کہانی ”صفرکی توہین ” کی سب سے طویل کہانی ہے۔
ناول کے ان تمام واقعات سے میرامجموعی تاثریہ ہے کہ ناول”صفرکی توہین” اسلام یامذہب کے خلاف نہیں، نہ ہی دہریت کی تبلیغ کرتاہے ۔ اس میں مذہب کے بارے میں وہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ جوہرانسان کی ذہن میں کبھی نہ کبھی اٹھتے ہیں۔جس طرح اپنے پہلے ناول ”اس نے کہاتھا” میں اشعرنجمی نے کسی قسم کی حمایت کے بغیر اپنایہ نقطہ نظرپیش کیاتھاکہ مرد،عورت اورٹرانس جینڈرکی طرح پیدائشی ہم جنس پرست کوبھی جینے کاحق ہے اوریہ حق چھیننے کاکسی کواختیار نہیں ہوناچاہیے۔اگران کی اصلاح ہوسکتی ہے توکوشش کی جائے،لیکن انہیں عام انسان کی طرح جینے دیاجائے۔اسی طرح”صفرکی توہین” میں انہوں نے مسلمان، ہندو،کرسچن،یہودی،بدھسٹ کی ماننددہریہ کوبھی جینے کا حق دینے کی بات کی ہے اورمذہبی تضادات کوواضح کیاہے ، جوکسی مذہب سے وابستہ شخص کوبھی ایتھیسٹ بننے پرمجبورکردیتے ہیں۔دونوں ناولز میں کوئی ایسی بات نہیں جسے متنازعہ قرار دیاجاسکے۔ہاں یہ موضوعات عام نہیں ۔اشعر نجمی کواس قسم کے منفرد اورمشکل موضوعات پرپراثرناول لکھنے پربھرپورمبارک باد۔ان کے اگلے ناول”جوکر” کابے چینی سے انتظارہے۔
آخر میں اشعرنجمی کے چندخوب صورت جملے پیش ہیں۔
جوسب کوخوش رکھناچاہتاہے وہ شخص اکثراپنے آپ سے ناراض رہتاہے،اسی طرح جوادیب ہرقاری کے معیار پرکھرااترنے کاخواہش مند ہوتاہے، میری نظرمیں وہ خودسے آنکھیں چارکرنے کے لائق نہیں بچتا۔
گھڑی اپنی سوئیوں سے وقت کاشکارکرتی رہتی ہے لیکن آئندہ پل اس کے کشکول میں کچھ باقی نہیں رہتا جیسے آئینہ منظروں کااغواکرتے نہیں تھکتا۔
قبرکسی مٹی کے چھوٹے سے گڑھے کونہیں کہتے،بلکہ جہاں روح اس کاساتھ چھوڑدے، وہی اس کی قبرہے۔
مرنے کی خواہش جینے کی خواہش کے مقابلے میں ہمیشہ چھوٹی رہی ہے اورہمیشہ چھوٹی رہے گی۔
ندی پارکرنے کے بعدکشتی سے اترجاناچاہیے،چاہے وہ کشتی کتنی ہی خوب صورت کیوں نہ ہو۔خواہ پانی ہویاریت۔
سائنس اورمذہب میں سب سے بڑے سوالات عدمیت اورابدیت،باطل اورلامحدود ،صفر اورلامحدودیت کے بارے میں ہیں۔صفرپر چھڑ نے والی لڑائیوں نے فلسفے،سائنس، ریاضی اورمذہب کی بنیادوں کوہلاکررکھ دیا۔
گیلیلیو،برونو،مارٹن لوتھر اورگاندھی بھی باغی تھے،پیغمبراسلام باغی نہ ہوتے تواپنے ہاتھوں پرکفارکی پیش کش کوچاندسورج کی طرح سجالیتے
لیکن وہ جانتے تھے بے مقصدزندگی سے زیادہ عظیم بامقصد موت ہوتی ہے۔
منصورحلاج،ابن عربی اورابن رشدپرآج شروحات لکھنے والے ماضی میں قتل کے پروانوں پرمہرلگانے والوں اور پتھرپھینکے والوں کی صف میں تھے۔
اشعرنجمی نے پہلے دوناولزمیں ہی سے بے شمار سوالات اٹھائے ہیں۔ہربات کوبے سوچے سمجھے قبول کرنے کی روایت کوچیلنج کیاہے۔اخلاق ، مذہبیت، انسانی فطرت،دھریت ہرچیز پرسوال کرنا ضروری ہے۔اسی طرح انسان جس فطرت کے ساتھ پیداہوتاہے، اس میں اس کاکوئی دخل یاکردارنہیں تواسے اس کی سزادینابھی غلط ہے۔”اس نے کہاتھا” اور”صفرکی توہین” نے ادبی حلقوں میں ہلچل ضرور مچائی ہے اور مکالمہ اوربحث کاآغاز کیاہے۔ان دوناولوں کے بعداشعرنجمی کے آنے والے ناولزکاانتظار بھی شروع ہوگیاہے۔