وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے دوران پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے ایک نئی آئینی جنگ عدالتی محاذ پر شروع ہونے کی توقع ہے۔ آرٹیکل 63 اے کے مطابق جو ممبر “پارلیمانی پارٹی” کی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالے گا وہ “پارٹی ہیڈ” کے تحریری ڈیکلریشن پر منحرف قرار پائے گا۔ اس شق میں “پارٹی ہیڈ” سے مراد متعلقہ سیاسی پارٹی کا ہیڈ ہے۔ سو آج جو صورتحال پنجاب میں پیدا ہوئی ہے اس میں پارٹی ہیڈ تو چودھری شجاعت ہی ہیں مگر آرٹیکل 63 اے کے پہلے حصے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ممبران کو ووٹنگ کی ہدایات “پارٹی ہیڈ” نے نہیں جاری کرنی بلکہ “پارلیمانی پارٹی” کی ہدایات کو ممبر نے فالو کرنا ہے۔
اسی بارے میں یہ بھی دیکھئے:
اب اگر “پارلیمانی پارٹی” اور “پارٹی ہیڈ” کے درمیان اختلاف رائے ہو تو اس صورت میں کیا ہوگا؟ کیا “پارٹی ہیڈ” بذات خود “پارلیمانی پارٹی” کے فیصلے کو نظرانداز کر کے کوئی ہدایات جاری کر سکتا ہے؟ آئین کے مطابق تو اس کی گنجائش نہیں نکلتی۔ فیصلہ “پارلیمانی پارٹی” ہی نے کرنا ہے اور اس سے روگردانی کی صورت میں “پارٹی ہیڈ” نے منحرف اراکین کے خلاف کاروائی کا آغاز کرنا ہے۔ میری دانست میں چودھری شجاعت نے بطور “پارٹی ہیڈ” اپنے متعین آئینی کردار سے تجاوز کیا ہے۔
کچھ مبصرین کے خیال میں آرٹیکل 63 اے کی رو سے پارلیمانی پارٹی نے بہرحال پارٹی لیڈر کی ہدایات کو ہی اپنانا ہے اور ان ہدایات سے روگردانی انحراف کی کاروائی کا جواز بنے گی۔ یعنی چودھری شجاعت کی بطور پارٹی لیڈر ہدایات پارلیمانی پارٹی پر لازمی طور پر لاگو ہوتی ہیں اور جو ممبر ان ہدایات کو نہ مانے وہ منحرف ممبر قرار پائے گا۔ ہماری دانست میں یہ فہم بالکل غلط ہے اور سردست ہمیں اس غرض نہیں کہ یہ رائے کس فریق کے حق میں جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں بدیانتی کا ایک پہلو
نئی بھارتی صدر دروپدی مرمو کون ہیں؟
اگر پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی پر اس طرح حاوی کر دیا جائے تو کسی پارٹی کے لیڈر کو سرے سے الیکشن لڑنے کی جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بغیر الیکشن لڑے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں سے باہر بیٹھا ایک پارٹی لیڈر سپر وزیراعظم بن کر ہدایات صادر کر سکتا ہے تو پھر تو سارا کھیل ہی اس کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ یہ بات بدیہی طور عوامی ووٹوں کی طاقت سے نمائندگی کا حق رکھنے والے ممبران کے اختیارات کے خلاف ہے۔
باقی رہا سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ جس کی رو سے پارٹی لیڈر کی شکایت پر ممبران کو منحرف قرار دے کر ان کے ووٹ کو سرے سے شمار ہی نہ کئے جانے کا کہا گیا ہے تو وہ فیصلہ آئین کے صریح الفاظ کو تبدیل کر کے متعلقہ شق از سر نو لکھنے کے مترادف تھا۔ پارٹی لیڈر کا کردار ووٹنگ کے عمل کے مکمل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور یہی اصول عمران خان اور چودھری شجاعت پر برابر و یکساں لاگو ہونا چاہیئے۔
پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برخلاف ووٹنگ کے بعد ہی پارٹی لیڈر کاروائی کر سکتا ہے۔ یہ مفروضہ کہ ایسا ہوگا یا پھر اس ووٹنگ کو ہی لغو قرار دینا میری دانست میں آئین کی منشاء نہیں ہے۔ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف ووٹ دینے کی پاداش میں سزا ڈی سیٹ ہونا ہے اور کئی صورتوں میں یہ سزا ممبران کے لئے اعزاز کا باعث بھی بن سکتی ہے کہ انہوں نے ضمیر کی آواز پر کسی مسلط کئے جانے والے منی بل کی مخالفت کی ہے وغیرہ۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں سقم ہے۔
ایک لحاظ سے ہمارے ہاں جاری بحث خوش آئند ہے کہ کم از کم اس سے منتخب ممبران پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلق کی نوعیت کے بارے میں گفتگو تو ہو رہی ہے۔ اس تعلق کے بارے میں بہت سا لٹریچر موجود ہے اور معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ پارٹی لائن کی پاسداری کو ہمیشہ ہی ایک اہم فریضہ سمجھا جائے۔ جمہوریت میں عوام کے منتخب نمائندوں کے فری مینڈیٹ کو تحفظ دینے کی ضرورت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے کے پیچھے ہمیشہ کرپشن اور جوڑ توڑ جیسے مقاصد نہیں ہوتے۔ مثلا منی بل کے ذریعے کسی ظالمانہ ٹیکس کی مخالفت میں اگر کوئی ممبر پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے برعکس ووٹ دیتا ہے تو وہ دراصل اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتا ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں یہ بحث خالصتا سیاسی تنازعہ پر اور کرپشن کے الزامات کے تناظر میں ہوتی ہے سو ہم اس کے دوسرے پہلوؤں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اس وقت ماحول بہت جذباتی ہو چکا ہے اس لئے فریقین ایسی پوزیشن لے رہے ہیں جس کے نتائج مستقبل میں ان کے گلے پڑ سکتے ہیں۔
جو لوگ پارٹی ہیڈ کے فیصلے کو پارلیمانی پارٹی پر لازمی طور پر لاگو کرنے کی بات کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ووٹ تو پارٹی یا پارٹی ہیڈ کے نام پر مانگے جاتے وہ محض عمران خان یا نواز شریف کو ذہن میں رکھ کر بات کرتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں مودی اپنے پارٹی کا پاپولر لیڈر ہے مگر بی جے پی کا پارٹی ہیڈ ایک اور شخص ہے۔ ووٹ تو مودی کے نام پر پڑتے ہیں مگر پارٹی ہیڈ اپنی پارلیمانی پارٹی کے متفقہ فیصلے کے خلاف اپنی ہدایات چلانا شروع کر دے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ پاکستان میں بھی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو مخصوص حالات میں پارٹی ہیڈ کی پوزیشن سے دستبردار ہونا پڑا تھا۔ سو مطلق العنان پارٹی ہیڈ اور ڈسپلن کی دھجیاں بکھیرنے والے ممبر پارلیمنٹ کے درمیان توازن پر مبنی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔