ٹھیک تین برس قبل یعنی 26 جولائی 2019 کو رات کے اندھیرے میں پولیس کی اینٹی ٹیررسٹ فورس نے ایک شہری کے گھر دھاوا بول کر اسے گرفتار کر لیا۔ یہ عرفان صدیقی تھے، ممتاز،صحافی،دانشور اور شاعر۔
اہل علاقہ، ان کے اہل خانہ اور وہ خود حیران تھے کہ ان سے کون سی دہشت گردی سرزد ہوگئی ہے کہ یوں انھیں ذلت آمیز طریقے سے گرفتار کر لیا گیا؟ گرفتاری کے وقت ہاتھا پائی بھی ضروری سمجھیں گئی جس کی وجہ سے ان کی معمر اہلیہ اور صاحب زادی زخمی بھی ہوگئیں۔
یہ بھی دیکھئے:
پہلی رات انھیں اسلام آباد کے معروف رمنا تھانے میں گزارنی پڑی۔ اگلی صبح ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ انھیں دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ ایک سو اٹھاسی کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی اور دہشت گردی؟ اس حیران کن سوال کا جواب تب ملا جب اگلے دن عدالت میں انھیں بتایا گیا کہ انھوں نے ایک مکان کروائے پر دے رکھا ہے لیکن اس کے کوائف انھوں نے پولیس میں درج نہیں کرائے۔
عرفان صدیقی صاحب کو اگلے روز جب عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو وکلا نے واضح کیا کہ جس مکان کا ذکر کیا گیا ہے، وہ عرفانِ صدیقی صاحب کا نہیں، ان کے صاحب زادے کا ہے لیکن مجسٹریٹ نے اس کے باوجود چودہ دن کے ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم سنا دیا۔
یہ بھی پڑھئے:
پارٹی ڈسپلن اراکین پارلیمان کا فری مینڈیٹ اور پارٹی ہیڈ
جیل میں انھیں ہائی سیکیورٹی بلاک میں آٹھ بائی آٹھ فٹ کی کھولی میں انھیں بند کر دیا گیا جہاں ان سے پہلے پانچ خطرناک مجرم بند تھے۔ عرفان صاحب کو یہاں بیت الخلا کی دو فٹ اونچی دیوار کے قریب جگہ ملی۔
عرفان صاحب نے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو اسلام آباد انتظامیہ نے عدالت کو لکھ کر دے دیا کہ جرم ثابت نہیں ہوا جس پر یہ مقدمہ ختم کر دیا گیا۔ تاہم یہ آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ عرفان صدیقی صاحب کی گرفتاری کیوں عمل میں لائی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا عمران خان کی خواہش پر کیا گیا تھا۔
یہ مقدمہ کئی اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ خاص طور پر عدلیہ اور انتظامیہ کے ضمن میں جو قانون کے مطابق علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن اسلام آباد میں ایسا نہیں۔ اس گرفتاری کو بنیاد بنا کر ضابطہ فوجداری مجریہ 1898ء میں ترمیم کے لیے قانون سازی ہوئی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس قانون کی منظوری دے دی لیکن صدر مملکت عارف علوی نے اس کی آج تک منظوری نہیں دی۔ اسے سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔