ڈاکٹر انصارشیخ اردوادب کے خاموش خدمت گزاروں میں شامل ہیں۔وہ کراچی سے منفردادبی کتابی سلسلہ”زیست ” کئی سال سے شایع کررہے ہیں۔کتابی سلسلہ کے سولہ شمارے شایع ہوکرادب شناسوں سے بھرپورداد حاصل کرچکے ہیں۔کتابی سلسلہ اردوکے صاحب طرزافسانہ نگارسعادت حسن منٹوکی یادمیں شروع کیاگیاتھا۔تاہم حالیہ دوشماروں میں منٹوکاکوئی ذکر نہیں اورنہ ان کی کوئی یادگارتحریر شامل کی گئی ہے۔
اس کی وجہ توانصارشیخ ہی کے علم میں ہوگی۔لیکن ”زیست ” کامعیارہرشمارے کے ساتھ خوب سے خوب ترکی جانب گام زن ہے ، اوراپنے مشمولات سے قارئین کوعمدہ اور معلوماتی مواد فراہم کررہے ہیں۔جس کے لیے ڈاکٹرانصارشیخ اوران کے معاونین تزئین راز زیدی اور پروفیسرشبنم امان مبارک بادکے مستحق ہیں۔
شمارہ 15کے مقالہ جات میں پروفیسر غازی علم الدین کا”نام رکھنے،لکھنے اورپکارنے کے مسائل”، جمیل احمدعدیل نے اردوکی ایک نایاب اورفراموش شدہ براڈکاسٹرعشرت رحمانی کی آپ بیتی” عشرت فانی ایک مطالعہ” ، مبشراحمدمیر”اردواورفرنگی۔کمپنی بہادرسے تاجِ برطانیہ تک بدلتے رشتے”،ڈاکٹرغلام شبیررانا” دکنی اوراردومیں لسانی ارتقااورگرامر کے اصول” ڈاکٹرداؤدعثمانی ”منشی پریم چندکے خطوط رازق الخیری کے نام” ،تفسیرحسین ”زباںبریدہ: دانہ،دانت،آنت کی کش مکش جیبھ ودھ کابیانیہ” اورمنیب الحسن رضا کا”کراچی کی الف لیلہ :ماروی اور مرجینا ”شامل ہیں۔محمودالحسن کا”کئی چاندتھے سرِآسماں” کے مصنف شمس الرحمٰن فاروقی سے ایک دلچسپ اورمعلوماتی مصاحبہ اس شمارے کا اختصاص ہے۔ڈاکٹرشکیل احمدخان کاسفرنامہ ”تطہیرِ ذات(حصہ آخر)”بھی قابل مطالعہ تحریرہے۔ شعروسخن میںرفیع الدین راز،اجمل اعجاز ،رضیہ سبحان، رضوانہ سعیدروز،ڈاکٹرسیدرضی محمد، مرزاعاصی اختر،ڈاکٹر حبیب الرحمٰن چوہان، تسنیم الہیٰ زلفی،اعجازانصاری، شفیق مراد، مشتاق دربھنگوی، عنبرین حسیب عنبر اورتزئین راز زیدی کی تخلیقات کوشامل کیاگیاہے۔
یہ بھی دیکھئے:
آصف زہری کاایک سوساٹھ صفحات پرمشتمل ناول”زباں بریدہ”بھی اس شمارے میں شامل ہے۔جبکہ افسانوں کے حصہ بھی خاصاوقیع ہے۔جس میں پندرہ مصنفین کے سترہ افسانے شامل ہیں۔جن میں سینئر تخلیق کارعذرااصغرکا”ناصح ِ مشفق”،سلمٰی اعوان کا” ممتاکی مصلحتیں”،اجمل اعجازکا” جال” ،ابوالفرح ہمایوں کے”جان بچی” اور”انڈا اور بیضہ”،جمیل عثمان کا”حشرساماں”،نجیب عمرکا” ہائے قربت تری”، شاکرانورکا”زردپتوں کی موت”،مسرت افزا روحی کا” آنکھیں”، محمد طارق علی کا”متاع مسافرت” ،نعیم فاطمہ علوی کا”توازن”،انجم یوسف خان کا” اداکار”نیرعامرکے” زندگی” اور ”ان دنوں۔” اقبال خورشیدکا” جب ایک اردوادیب کونوبل ایوارڈملا”،سماویہ اقبال کا”محبت” اورتزئین راززیدی کا”ثوں گربہ عاجز شود” شامل ہیں۔بیشترافسانے اپنے موضوع،اسلوب کے مطابق دلچسپ اورعمدہ ہیں۔پرچہ کاآخری حصہ تراجم پر مبنی ہے۔جس میں مشرق ومغرب کی بہترین نثری تخلیقات کے تراجم کیے گئے ہیں۔چارسوبتیس صفحات کے شمار ے کی قیمت چھ سوروپے ہے۔
”زیست ”شمارہ نمبر16چارسوبتیس صفحات پرمشتمل ہے اوراس کی قیمت چھ سوروپے ہے۔پرچے کا آغازحسب معمول مقالہ جات سے کیا گیا ہے۔ اس حصے میں نو مقالے شامل کیے گئے ہیں۔مرحوم ڈاکٹرایس ایم معین قریشی کامقالہ” حضرت مولاناکے دربارمیں” ہے۔جو مصنف کے ترکی کے سفرنا مہ کا حصہ اورعظیم صوفی شاعر اور”شاہنامہ اسلام” کے خالق مولانا جلال الدین رومی کے دربار میں حاضری کی داستان ہے۔اس مختصرتحریر میں ایس ایم معین قریشی نے مولانا روم کے بارے میں بہت سی قابل ِ ذکرمعلومات قارئین کوفراہم کی ہیں۔معین قریشی کاشماراردوکے اچھے مزاح نگارو ں میں کیاجاتاہے۔ سنجیدہ موضوع پربھی ان کی تحریرکی سادگی اور روانی پڑھنے والے کومتاثرکرتی ہے۔شمس تبریزی سے مولانا روم کے تعلق اور علامہ اقبال کے مجموعے”بال ِ جبریل” میں درج مکالماتی نظم” پیرومرشد” کے حوالے سے ان کے افکارکے کچھ گوشے بھی عیاں کیے گئے ہیں۔اس سفرمیں ڈاکٹر معین قریشی اوران کی بیگم کومولانا روم کے مزارپرحاضری کاشرف اوران سے وابستہ ”رقصِ درویش” دیکھنے کابھی موقع ملا۔ اس بارے میں دونوں میاں بیوی کے تاثرات کس خوبصورتی سے اس آخری پیرے میں پیش کیے گئے ہیں:
” ہم نے بیگم سے کہا، ‘ اللہ کی شان، یا روہم ان جلووں سے بالکل مایوس ہوکرآشفتگی کاشکارتھے یااب شگفتگی سنبھالی نہیں جارہی ۔یاتوآج سہ پہرہی واپسی کا پروگرا م بنارہے تھے یاشام کوگورنرصاحب اوران کی بیگم کے ساتھ ایسی یادگاراورپاکیزہ بزم میں شرکت کی۔ آپ اس نعمت ِ غیر مترقبہ کے بارے میں کیاکہیں گی؟ ان کامختصرتبصرہ یہ تھا:جہاں چاہ، وہاں راہ!”
یہ بھی پڑھئے:
پاکستانی ادب کا ترک معمار، ڈاکٹر خلیل طوقار
سودی بنکاری کے خلاف فیصلہ اور جمیعت علمائے اسلام
معروف افسانہ،ناول وسفرنامہ نگارسلمیٰ اعوان کے مقالے کاعنوان ہے۔”چین کی قومی زندگی میں ستارہ بن کرروشن ہونے والایان” ۔یہ چین میں انقلابی تبدیلیاں کرنے والے یان کی جدوجہدکی کہانی ہے۔جس نے ایک ارب تیس کروڑ آبادی کے ملک سے بھوک کوختم کردیا۔ ” 1978ء میںتیس سالہ یان فونگ شینگ نے بیجنگ ریڈیوسے چیئرمین ماؤکی موت کی دوسالہ برسی کی تفصیلات کوئی پانچویں بار سنیں ، اسے سنتے ہوئے اسے محسوس ہواتھا،اس کابلڈپریشرشوٹ کررہاہے۔اس کی زبان سے ماؤاوراس کے جانشین ہواگوفنگ کے لیے مذمت اور دکھ میں ڈوبے ہوئے لفظ نکلے۔” یہ مرنے والے کی ذات پرسیاست چمکارہے ہیں۔نہیں جانتے کہ لوگ تباہ ہوگئے ہیں۔بھوک سے مر رہے ہیں۔ہمارے کھیت،ہمارے جانور،ہمارے پیاروں کی زندگیاں داؤپرہیں۔گزرتے وقت کے ساتھ اس گوفنگ کی تومت ماری جا رہی ہے ۔چلوثقافتی انقلاب کے خاتمے کے لیے اس کی کاوشوں کوداددینی پڑتی ہے،مگریہ کیاکہ ماؤکی چھترچھاؤں سے نکلنے کانام ہی نہیں لے رہا ہے۔بیجنگ کے طاقتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے کمیونسٹ پارٹی کے بااثرلوگوں کوبھی بس اسے ہٹانے کی فکر ہے۔لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ اس کی قطعاًانھیں کوئی پروا نہیں۔بس اقتدارکی جنگ ہے۔لوگ جائیں بھاڑ میں۔ان کی غیرمساوی معاشی منصوبہ بندیوںنے ہم غریب کسانوں کوموت کے منہ میں دھکیل دیاہے۔ نہ انھیں خشک سالی کی فکر ہے اورنہ انھیں قحط کاکوئی خوف ہے۔”
اس اقتباس سے ایسا معلوم ہوتاکہ یہ پاکستان کاذکرہورہاہے۔ وہی اقتدارکی جنگ، وہی عوام کی مشکلات سے بے پروائی۔تاہم چین کو یان فونگ شینگ جیساانقلابی مل گیا۔جس نے عوام کی بھوک ختم کرنے کابیڑہ اٹھایا اوریہ کیونکر ممکن ہوسکا۔یہ داستان سلمیٰ اعوان نے بڑی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔
اس حصے کے دیگرمقالہ جات میں شفیق احمدشفیق ”ادب،صحافت اورفلسفہ” کے ساتھ شامل ہیں۔مرزاسلیم بیگ”عزیزِادب” کاتحفہ لائے ہیں ۔ایم خالدفیاض کے مقالے کاعنوان” اردومیں مفاہمتی بیانیے کی اہم مثال:”چھمی بیگم” ہے۔اس مقالے میں قرة العین حیدرکے افسانے”حسب نسب” کے کردار”چھمی بیگم” کاتجزیہ کیاگیاہے۔نعمت الحق نے نائیجیریاکے نوبل انعام یافتہ ناول نگارچینوااچیبے کاتعارف کرایاہے اوران کے دومضامین” جدیدافریقاتہذیب کے چوراہے پر” اور” ناول کیسے لکھتے ہیں” کا ترجمہ کیاہے۔خالدمحمودسامٹیہ ”مابعد جدید ڈسکورس،اردوناول اورنارنگ” پرمقالہ لکھاہے۔ مجموعی طور پریہ حصہ بہترین مقالہ جات سے مرصع اور انتہائی وقیع ہے۔
اخترمرزا نے معروف ناول نگار مرزا اطہربیگ سے مصاحبہ کیا ہے۔جس کاترجمہ کبیرعلی نے کیاہے۔مرزااطہربیگ کے تین ناول”غلام باغ ”،”صفرسے ایک تک” اور”حسن کی صورت حال” اورافسانوں کاایک مجموعہ” بے افسانہ” جس میں ناولٹ ”بے افسانہ” بھی شامل ہے۔ شایع ہوچکے ہیں اوران کے نئے ایڈیشن الحمدپبلشرزنے شایع کیے ہیں۔الحمد نے ہی نے مرزااطہربیگ کاچوتھاناول”خواب بیتی” بھی شایع کیاہے۔انہوں نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل بھی تحریر کیے۔مرزااطہربیگ نے اپنی تحریروں میں موجود ”حیرت” کے بارے میں سوال پرکہا۔” یہ اس لیے ہے کہ میں ہمیشہ حیرت میں رہتاہوں! اوریہ کوئی استعاراتی بیان نہیں ہے۔ یہ حرفاً درست ہے۔میں ایک لحاظ سے طبیعات کاطالبِ علم بھی ہوں۔جب آپ علمِ کائنات پڑھتے ہیں،توآپ کومعلوم ہوتاہے کہ یہ کائنات کہا ں سے آئی۔بگ بینگ جوایک سو تیرہ اعشاریہ سات ارب سال پہلے واقع ہوا۔کائنات اس واقعے کی یک جائی اورکثافت سے پیداہوئی، لیکن پھرسوال پیداہوتاہے ،بگ بینگ سے پہلے کیاتھا۔مذہبی سائنس دان جواب دیں گے کہ یہ ایک لغوسوال ہے۔بگ بینگ سے قبل کوئی مکاں اورزماں نہیں تھے، لیکن تصور کریں۔ کیاہم ایک ایسی صورت حال تصور میں لاسکتے ہیں ، جب کوئی مکاںاورزماں نہیں تھے؟ کیاآپ حیران نہیں ہیں؟ حیرت کے بغیرکچھ نہیں ہے ۔آپ علم،ادب،فلسفے کے سفرمیں آگے بڑھ ہی نہیں سکتے۔حیرت ہرلمحے میں ہے۔اگرکوئی فن کار،یاکوئی سائنس دان ،حیران ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتاتووہ تخلیقی نہیں ہوسکتا۔”
یہ ایک بہترین ادیب سے یادگار انٹرویو ہے اور”زیست” کے اس شمارے کاحاصل کہاجاسکتاہے۔”شعروسخن ” کے زیرعنوان شفیق احمدشفیق ، اجمل اعجاز،ڈاکٹرسیدرضی محمد، ڈاکٹر حبیب الرحمٰن چوہان، الفت بٹالوی، نورشمع نور،راشدحسین راشد،پروین سلطانہ، سرفرازعارض،راشد ندیم، علی قاسم اورتزئین راز زیدی کی غزلیات کوشامل کیاگیاہے۔
”زیست ” میں کچھ شماروں سے ایک مکمل ناول بھی شایع کیاجاتاہے۔ تازہ شمارے میں شاکرانورکاناول” بلندی” شامل ہے۔ شاکرانور کے افسانوں کا مجموعہ”ستمبرکاچاند” اور ایک ناول ”دھواں” بھی منظرعام پرآکرمقبولیت حاصل کرچکاہے۔شاکرانورکوکردار نگاری پرعبور حاصل ہے اور وہ غیرضروری جزئیات کوشامل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اسی وجہ سے ناول”بلندی”ایک سوتیس صفحات پرمشتمل ہے اور مصنف نے اسے طوالت دینے سے گریز کیاہے، جس سے ناول کی دلچسپی میں اضافہ ہوگیاہے۔اس کاموضوع مشرقی معاشرے میں عورت کی قربانی ہے،اوراس میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بارے میں واقعات بھی شامل ہیں۔ شاکرانورنے ناول کاپلاٹ بہت عمدگی سے پیش کیاہے۔
ناول کے تین مرکزی کردارزرینہ، اخترملک اوران کا بیٹا بلنداخترہیں،کچھ ضمنی کرداربھی کہانی کوآگے بڑھانے میں موثررول اداکرتے ہیں ۔اخترملک مالی طور پرمستحکم ہیں۔جبکہ زرینہ کاخاندان باپ کے انتقال کے بعد مشکلات کاشکارہے۔ انہی تین کرداروں کے گرد کہانی کاتانابانا بنا گیاہے۔زرینہ امی ذکیہ اوربلنداخترکی والدہ عذرا پرانی سہیلیاں ہیں۔ان کاایک دوسرے کے گھر آناجانااوربے تکلفی ہے۔ عذرااپنے بیٹے بلنداقبال کے لیے زرینہ کومانگے کاعندیہ دیتی رہتی ہے اورزرینہ بھی بلنداخترسے محبت کرتی ہے ، بلنداخترجوبیرون ملک تعلیم حاصل کررہاہے،اس کاریل کے سفرمیں ثمن سے سامناہوتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہین۔عذرا کا دوسالہ بیٹا ببلو، زرینہ سے بہت زیادہ مانوس ہے اورہروقت اسی کے ساتھ رہتاہے۔
عذراایک پکنک پر حادثاتی طور پرڈوب جاتی ہے۔ایسے میں جب اخترملک ، زرینہ کے گھر آتے ہیں تو اس کے گھرکے تمام افرادسمجھتے ہیں کہ وہ بلند اخترکے لیے زرینہ کا رشتہ مانگنے آئے ہیں۔لیکن اس کے بجائے اخترملک صاحب دوسالہ ببلو اورآٹھ سالہ سوئٹی کی دیکھ بھال کے لیے زرینہ سے شادی کی پیش کش کرتے ہیں۔زرینہ دوچھوٹی بہنوں اورایک بھائی کے بہترمستقبل کے لیے یہ قربانی دینے کوتیار ہوجاتی ہے اور بلنداختر کے بجائے اخترملک کی دلہن بن جاتی ہے۔ملک صاحب حسب وعدہ زرینہ کے گھر والوں کوکوئی تکلیف نہیں ہونے دیتے، لیکن زرینہ کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی کرتے ہیں کہ اسے ماں بننے کی اہلیت سے محروم کروادیتے ہیں۔شاکرانور نے کہانی کی بنت بہت خوبصورتی سے کی ہے ۔تین مرکزی کرداروں کی کش مکش اور مسائل کے گردواقعات کودلچسپ اندازمیں بیان کیاہے۔جس کے لیے مصنف مبارک بادکے حقدار ہیں۔
”زیست” کے افسانوں کا سیشن بانوے صفحات پرمشتمل ہے۔جس میں چودہ افسانہ نگاروں کی تخلیقات کوشامل کیاگیاہے۔جس میںسینئر افسانہ نگارسمیع آہوجہ کا”مامیران ہِلدُو”،اے خیام کا”چھ فٹ کافاصلہ”،اجمل اعجازکا”خواہشیں کیاکیا”،نجیب عمرکا”تاریخ کی انگڑائی”، امیرحکمت خان کا”انتقام”،مبشراحمدمیرکا”آؤٹ آف کورس”،جمیل احمدعدیل کا” آنات سے الجھتی زندگی”،غافرشہزادکا”ایک لمحے کی زندگی”،ڈاکٹرشکیل احمدخاں کاپرموشن؟” ،انجم یوسف خان کا ”ماں”، سیدہ صائمہ کاظمی کا”نامکمل بصارتیں”،نازش جلیل کا”آنول نال” ، مہرین فیروز کا” سامع کی تلاش” اورتزئین راز زیدی کاافسانہ” بڑاآدمی” شامل ہیں۔
سمیع آہوجہ نے”مامیران ہِلدُو” اپنے روایتی دیومالائی داستانی اسلوب میں لکھاہے۔جس کی پڑھت بہت دلچسپ ہوتی ہے اوراس کا مفہوم قاری پررفتہ رفتہ آشکار ہوتاہے اور وہ دیرتک اس سے لطف اندوز ہوتاہے۔ابتدائیہ ملاحظہ کریں۔” کاجل کی کجلوٹی اورنیناکے سنگھرش سنگار بان چلتے ہی دھری رہ گئی۔ساری چترکاری،جی داری کاچترشالا، وہ تونربداسے لوٹنے والے کی باتوںکے بھنورمیں پھنسا ، سانولے سلونے روپ بنت اورانتہائی جذب کرتے سحرپھونکتے نقوش سے اٹھتے ہیولانماتحیرمیں لپٹامرئی تمثالی جھولنے میں جھولتے،لہکتے کا نشانہ لگاکہاں ؟
وہ ان دیکھے بان سے مجروح احساسِ نشاط وطرب انگیزی کے رنگوں میں سمیٹنے کوبے تاب۔اورسوداگرباپ جواس کی بے عیب ،لوہے کی لٹھ جوانی کونقاشی کے رنگوںمیں گھلتے دیکھ کرگرج برس کرمفلس ہوگیا۔سوداگری توساتھ والے کی بانہوں سنگ پروان چڑھتی ہے ، مگرسوداگرکابچہ چترنگ لشکرکی ڈوریں تھامے ،رنگ روغن کے رتنوں کولڑانے میدانِ جدال میں اترگیا۔ہزاروں لاکھوںبار منت خوشا مد کی،پگڑی اتارکرپاؤں میں ڈالتے سوداگری کاتناؤبرت کرحکومت کے ساتوں انگ کاسارا مال سمیٹتے ہوئے خزانہ سوداگرمیں مقفل کرنے کی چالیں بھی بچھائیں،مگربے رُت صاحب زادے کے ہاں شایدرُت راج لکھاہی نہیں گیاتھا،بس انکارکے استھان پربندھارہ گیا۔”
یہ سمیع آہوجہ کاایک اورسحرانگیزافسانہ ہے۔اے خیام کاحال ہی میں انتقال ہواہے ،ان کے جانے سے اردوافسانہ مزیدمفلس ہوگیا۔اس شمارے میں افسانہ”چھ فٹ کافاصلہ” اے خیام کا نمائندہ افسانہ ہے۔جس کاموضوع دنیاکاقدیم ترین پیشہ ہے۔کروناوباکے دوران اس سے وابستہ تین لڑکیوں پرکیاگذری کہ وہ یہ کہنے پرمجبور ہوگئیں کہ ہمارا کام ایسا نہیں جوچہرے پرماسک لگاکراورچھ فٹ کے فاصلے سے کیا جا سکے۔مصنف کاکمال کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ بیان کرنے کی قدرت ہے۔بقول فلمی شاعر”کچھ بھی نہ کہااورکہہ بھی گئے،کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔”یہ اس شمارے کا بہترین افسانہ ہے۔
اجمل اعجاز افسانہ وڈرامہ نگاراورشاعر ہیں۔ان کے افسانوں اور ڈراموں کے کئی مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔”خواہشیں کیاکیا”میں صورت اورآواز کاتضاد بیان کیاگیاہے۔آوازسے پیارکرنے والے آوازکی حامل شخصیت کی شکل بھی برداشت نہیں کرسکتے۔”زیست” میں شامل دیگرافسانے بھی ایک سے بڑھ کرایک ہیں اورپرچے کے وقاراوروقعت میں اضافہ کرتے ہیں۔
”زیست ” کاآخری حصہ تراجم پر مبنی ہے۔ایک سوچالیس صفحات مبنی اس حصے میں سولہ نثری تخلیقات کوشامل کیاگیاہے۔ جس میںانگریزی کے ساتھ برصغیرکی زبانوں کے تراجم کوبھی جگہ دی گئی ہے۔انتون چیخوف کاترجمہ تنویررؤف نے کیاہے۔ پروفیسرکرن سنگھ کی سندھی تحریر کو اردو کا جامہ حسن منصور نے پہنایاہے۔ ننگرچناکی سندھی کہانیوں کوتہمینہ مفتی،زیب نظامانی ،ایوب عمرانی اوربانومحبوب نے اردو کاروپ دیا ہے ۔ جہاں گیرعباسی کے سندھی افسانوں کاترجمہ سائیں بخش رنداورخادم بگھیونے کیاہے۔ محمدعباس نے موہن راکیش اورنرمل ورماکی تین تین ہندی کہانیوں کاترجمہ کیاہے۔ جبکہ محمدمبشرنواز نے بھی موہن راکیش کی دوکہانیوں کواردومیں ڈھالاہے۔
مجموعی طور پر”زیست” کے تازہ شمارے بہترین تحریروں سے آراستہ ہیں اورانہیں صف اول کے ادبی جریدوں میں جگہ دی جانی چاہیے ۔ بہترین شمارہ پیش کرنے پرڈاکٹرانصارشیخ کوبھرپورمبارک باد۔”زیست ” کاآئندہ شمارہ ”افسانہ نمبر” ہوگا۔جس کاانتظاررہے گا۔