عمران ریاض خان کی گرفتاری کیوں ضروری تھی؟ عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کے لیے کام کرنے والے اس اینکر کو حراست میں لیے جانے کے بعد پہلا سوال یہی ذہن میں آتا ہے۔
عمران ریاض کی گرفتاری موجودہ سیاسی منظر نامے کا ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ صورت حال اسلام آباد کے ہوٹل میں منعقد ہونے والی ایک متنازع تقریب کے بعد بنی ہے جس بارے میں کہاگیا ہے کہ اس کی میزبان اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن تھی۔
اس تقریب کی دوسری اہم بات وہ تقریریں ہیں جن کا شہرہ ہے۔ ان میں ایک تقریر ایاز امیر کی تھی اور دوسری عمران ریاض خان کی۔ ایک عمومی خیال یہ ہے کہ ان دونوں شخصیات کو جس قسم کی صورت حال کاسامنا کرنا پڑا ہے، اس کا باعث یہ تقریریں بنی ہیں۔ جیو نیوز پر حامد میر کے ساتھ ایاز امیر کی گفتگو سے بھی یہی تاثر ملتا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو نہ عمران ریاض خان کی گرفتاری کی تائید کی نہیں جاسکتی اور ایاز امیر والا واقعہ تو ہے ہی ہر اعتبار سے قابل مذمت۔ آزادی اظہار کا کوئی بھی حامی ان واقعات کی تائید تو کسی صورت میں نہیں کر سکتا، البتہ مذمت ضرور کرے گا۔ ہم بھی بلا امتیاز ان واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔
آزادی اظہار ہر شہری کا بنیادی حق ہے جس کی تنسیخ کسی صورت میں نہیں کی جاسکتی لیکن آزادی اظہار کے طریقہ کار پر توجہ ضروری ہے کیونکہ یہ موجودہ دور کا اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ٹی آئی کے ووٹروں کی عمران خان کو وارننگ
سودی بنکاری کے خلاف فیصلہ اور جمیعت علمائے اسلام
عمران فیکٹر کے ظہور میں آنے کے بعد صحافت اور پروپیگنڈے کا فرق ختم ہو گیا۔ ایسا کرنے والوں میں دیگر کے علاوہ عمران ریاض بھی شامل ہیں۔
عمران ریاض اور ان جیسے سیاسی خیالات رکھنے والوں کا یہ حق کبھی سلب نہیں کیاسکتا کہ وہ کوئی سیاسی موقف اختیار نہ کریں۔ وہ عمران خان اور ان کی جماعت کی حمایت کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا بنیادی حق ہے لیکن یہ حق وہ صحافت کے پلیٹ فارم سے استعمال نہیں کر سکتے۔ صحافی غیر جانب دار ہوتی ہے۔ وہ تجزیہ کرنے میں تو آزاد ہیں لیکن اس پلیٹ فارم سے انھیں پروپیگنڈا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عمران ریاض ہوں یا ان کے ہم خیال، وہ جو بھی سیاسی موقف اختیار کریں، یہ ان کا حق ہے لیکن اس کے لیے انھیں صحافت کی آڑ استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ صحافت نہیں ہے۔ ان کا طرز عمل کسی سیاسی جماعت کے پروپیگنڈا سیل جیسا ہے۔ اگر وہ عمران خان کا لب لہجہ دہرائیں گے اور مخالفین کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کریں گے تو یہ آزادیِ اظہار کا معاملہ نہیں اور نہ یہ صحافت ہے۔
انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی موقف اختیار کیا ہے۔ وہ آئین کی حدود میں جیسا موقف بھی اختیار کرنا چاہیں، یہ ان کا حق ہے لیکن اگر اس موقف پر وہ آزادی اظہار کے چیمپئن بنیں یا مجاہد جمہوریت تو یہ درست نہیں۔ اس لیے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ مخالفت جمہوریت کے لیے نہیں، ایک سیاسی جماعت کے لیے ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں ہو سکتی اور نیوٹرلز کو چاہیے کہ وہ انھیں اقتدار میں واپس لائیں۔ یہی موقف عمران ریاض کا بھی ہے۔ یہ طرز عمل جمہوری نہیں بلکہ مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ آج عمران خان کے دل کی مراد بر آئے تو عمران ریاض کی شکایات بھی ختم ہو جائیں گی۔ اس لیے عمران ریاض کی گرفتاری کو جمہوری جدو جہد تسلیم نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کی گرفتاری کی حمایت بھی نہیں کی جا سکتی۔