ہزاروں میں دور بیٹھے ایک شخص کو اللہ نے غیر معمولی طاقت سے نوازا ہے۔ وہ ایک نگاہ مجھ پر نگاہ ڈالتا ہے اور ذرا سا کسمسا کر یہ کہتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ لیتا ہے کہ اوںہوں، آگے کھائی ہے۔ یہ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار ہیں۔
میرے والد مرحوم نے ایک بار بڑی عجیب بات بتائی تھی۔جب تک ہمارے خاندان کے مرد پگڑی باندھتے رہے، قدرت نے انھیں ایک غیر معمولی طاقت سے سرفراز رکھا۔ انھیں اپنے گھر، کھیت یا جہاں کہیں بھی وہ ہوتے، معلوم ہو جاتا کہ ان کے گرد و پیش میں سے کسی کو سانپ یا بچھو نے کاٹ کھایا ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی وہ اپنی پگڑی زمین پر رکھ کر اس پر بیٹھ جاتے اور مریض دیکھتے ہی دیکھتے بھلا چنگا ہو جاتا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہمارے بھائی خلیل طوقار کو بھی اللہ نے کسی ایسی ہی صلاحیت سے نواز رکھا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
کبھی رات کے پچھلے پہر، کبھی فجر کے آس پاس اور کبھی دن ڈھلے فون ذرا سا لرزنے کے بعد ان کی تصویر دکھانے لگتا ہے۔ السلام علیکم کہہ کر میں انھیں خوش آمدید کہتا ہوں تو وہ بات تو حسب عادت اسی جملے کے ساتھ کرتے ہیں کہ کیسے ہیں، فاروق بھائی! میں ابھی جواب کے بارے میں کچھ سوچ ہی رہا ہوتا ہوں تووہ خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
‘ ذرا احتیاط میرے بھائی، حالات اچھے نہیں’۔
میں حسب عادت کہتا ہوںحالات کیوں اچھے نہیں ، سب کچھ تو معمول کے مطابق ہے ۔وہ ہمیشہ کی طرح خاموشی کے ساتھ میری بات سن کر کہتے ہیں کہ میں نے اپنا کام کر دیا، اب تک اپنا کام کرو۔ اب جو بات بتانے کی نہیں، وہ بتاتا ہوں کہ جب جب اس شخص نے مجھے خبردار کیا، میں کسی نہ کسی مصیبت سے بچ نکلا۔
یہ بھی پڑھئے:
تین جولائی: ممتاز شاعر، محقق اور کالم نگار ناصر زیدی کا یوم وفات ہے
سودی بنکاری کے خلاف فیصلہ اور جمیعت علمائے اسلام
یہ کیا کہانی ہے؟ میں ہمیشہ سوچتا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آتا۔ چند دن ہوتے ہیں، ڈاکٹر اشرف کمال نے یہ معمہ حل کر دیا ہے۔ انھوں نے ایک ترک بزرگ کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک بار وہ کسی کے ہاں گئے۔ یہ اس زمانے میں کی بات ہے جب ہمارا جانا پہچاناموجودہ ترکی وجود میں نہیں آیا تھا یعنی یہ اس پرانے ترکیہ کی بات ہے جب پچاس پچھتر برس پرانے پاکستان کی طرح خواتین پردے کی اوٹ سے ہو کر بات کیا کرتی تھیں۔ ہمارے اس ترکیہ کی خواتین کا چلن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ یہ بزرگ کسی کے ہاں پہنچے، جن سے ملنا تھا، ان سے ملاقات تو نہ ہو سکی۔ چلمن سے جھانکتی ہوئی آنکھوں سے ملاقات ہو گئی۔ ان آنکھوں کی چھب ایسی تھی کہ دل دے بیٹھے۔ ہمارے خلیل طوقار اسی بزرگ کے رشتے کے نواسے ہیں۔ گویا تعلق اور اس کی شدت گھٹی میں پڑی ہے۔
ہمارے پیارے اشفاق احمد مرحوم تعلق کی شدت کے بارے میں دو باتیں فرمایا کرتے تھے۔ اس میں ایک بات تو بڑی مقبول ہو گئی۔ وہی آپس میں بے پناہ محبت کرنے والے میاں بیوی پر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ان کی شکلیں ایک جیسی ہو جاتی ہیں۔ دوسری بات انھوں نے یہ فرمائی تھی کہ انسان جس کے بارے میں شدت، محبت اور اخلاص کے ساتھ سوچتا ہے، اس کے اچھے برے کی خبر اسے کسی نہ کسی مل ہی جاتی ہے۔ اسے کوئی روحانی انتظام سمجھ لیں چاہے، ٹیلی پیتھی کی کوئی صورت سمجھ لیں۔ تو واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص جسے دنیا ڈاکٹر خلیل طوقار کے نام سے جانتی ہے، اپنے دوستوں سے محبت کرتا ہے اور استنبول میں بیٹھ کر اپنے اسلام آباد کے دوست کو اس کے اچھے برے سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔
ایک زمانہ تھا، میرا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تنہا میرا ہی ایسا رشتہ ہے لیکن ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹر محمد کامران جیسے دوستوں سے تبادلہ خیالات کے بعد پتہ چلا کہ ان کے تجربات بھی کچھ ایسے ہی ہیں تو دل بجھ سا گیا۔ اس کیفیت کے ممکن کچھ منفی اثرات مرتب ہوتے لیکن بیچ میں ڈاکٹر حافظ اکرام الحق آگئے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی خوش کلامی اور خوش اخلاقی سے دلوں پر دستک دینے والے عالم دین ہیں۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ چند برس قبل پورے پانچ برس تک ان کی اقتدا میں نماز جمعہ ادا کی اور ان کا خطبہ سنا اور جھولی بھر کر گھر لوٹا۔
یہ عین وہی دن تھے جب خلیل طوقار کی محبت میں تقسیم پر میں ذرا سا دل گرفتہ تھا۔ ڈاکٹر اکرام الحق نے بتایا:
‘ اللہ نے کچھ لوگ اپنے ہاتھ سے تخلیق کیے ہیں، انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان خوش خلق اور خوش اخلاق لوگوں کا رویہ خاص طور پر میرے ساتھ ہی ایسا ہے۔ حدیث میں ہے کہ دراصل ایسے لوگ ہی مومن قرار دیے گئے ہیں’۔
بس، اس دن کے بعد سے میرے دل میں اس شخص کا مرتبہ کچھ اور بڑھ گیا۔
مجھے خوشی ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص سے دوستی کا اعزاز حاصل ہے جس میں قدرت نے ایسی صفات پیدا کر رکھی ہیں جو مرغوب و مطلوب ہیں۔ڈاکٹر خلیل طوقار کی خوش اطواری و دلداری اپنی جگہ لیکن گزشتہ دنوں ڈاکٹر اشرف کمال نے اکادمی ادبیات پاکستان اور اس کے صدر نشین ڈاکٹر یوسف خشک کے ساتھ مل کر ایک اور دھماکا کر دیا ہے۔ اکادمی کی مطبوعات کا ایک مستقل سلسلہ ہے، ‘پاکستانی ادب کے معمار’ کوئی ستر کی دہائی سے جب سے یہ ادارہ وجود میں آیا ہے، اس عنوان سے کتابیں شائع ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ گزشتہ مئی میں اس عنوان سے شائع ہونے والی کتاب ڈاکٹر خلیل طوقار سے منسوب کی گئی ہے۔ گویا یہ نجیب الطرفین ترکان بھی پاکستانی ادب کے معماروں میں سے ایک ہے۔
بات یہ ہے کہ بھائی خلیل طوقار پاکستان کے داماد ہیں اور ترکیہ کے ان عظیم فرزندوں میں سے ایک ہیں جنھیں اس دیس میں پاکستان کی آواز سمجھا جاتا ہے۔ ترکیہ ہی نہیں دنیا بھر میں انھوں نے مسئلہ کشمیر پر اس جرات سے بات کی کہ کیا کوئی پاکستانی کرے گا۔ حکومت پاکستان نے انھیں سول ایوارڈ سے نواز رکھا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی یہ سوال کرے کہ یہ شخص پاکستانی ادب کا معمار کیسے ہے تو ڈاکٹر اشرف کمال نے اپنی اس کتاب میں اسی سوال کا جواب دیا ہے ۔
انھوں نے بتایا ہے کہ نجیب الطرفین ترک ہونے کے باوجود یہ شخص اردو میں سوچتا، اردو میں بولتا اور اردو میں لکھتا ہے۔ اس طرح کے اردو دوست تو دنیا میں ہر جگہ مل جائیں گے لیکن ایسا اردو دوست کہاں سے ملے گا جس مادری زبان کچھ اور ہو لیکن اردو میں پچاس سے زاید کتابیں اس نے لکھ رکھی ہوں؟ اس کا نظام فکر اردو میں متحرک ہوتا ہو۔ اسے ایک پاکستانی زبان یعنی ہندکو کی گرامر تشکیل دینے کا اعزاز حاصل ہو اور اس سفر میں وہ اتنا آگے بڑھ چکا ہو کہ من و تو کا فرق ہی مٹ جائے۔ تو ڈاکٹر اشرف کمال نے پوری تفصیل کے ساتھ بتا دیا ہے
کہ یہ ہیں ہمارے ڈاکٹر خلیل طوقار۔
اس کارنامے کے لیے دو افراد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ایک تو یہی اس کتاب کے مصنف یعنی ڈاکٹر اشرف کمال اور دوسرے اکادمی کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک جن کے ذہن رسا میں ایسا خیال آیا اور انھوں نے یہ کتاب شائع کر کے پاک ترک خوب صورت رشتے میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر دیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے ڈاکٹر خلیل طوقار پر تحقیق کے لیے اس کتاب سے استفادہ کر لے اور جس کا جی چاہے دو قوموں کے درمیان محبت کی ایک دلچسپ داستان سے لطف اندوز ہو لے، محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔