اٹھارہ سے بیس فروری تک کا سہ روزہ مادری زبان کا ادبی میلہ انڈس کلچرل فورم اور اکادمی ادبیات کے باہمی تعاون سے اپنی تمام تر سج دھج کے ساتھ اختتام پزیر ہوا۔لٹریری فیسٹیول کا پہلا میلہ ڈاکٹر فوزیہ سعید کے تعاون سے لوک ورثہ میں سجایا گیا۔۔بلاشبہہ ڈاکٹر فوزیہ سعید جب کسی کام کو کرنے کا بیڑہ اٹھا لیتی تھیں تو اس میں ایسی روح پھونکتیں کہ درو دیوار بھی باتیں کرنے لگتے۔پھر وہ پی این سی اے میں گئیں تو وہاں بھی یہ میلہ بھر پور طریقے سے منایا گیا اور اب کی بار ڈاکٹر یوسف خشک میں بھی مجھے ڈاکٹر فوزیہ ہی کی روح نظر آئی۔ اکادمی کو بھرپور طریقے سے سجایا گیا۔اور تین دن مختلف نشستیں بغیر کسی تعطل کے تسلسل کے ساتھ چلتیں رہیں۔
تین دن لگاتار ملک بھر کے ادیبوں شاعروں کو ایک چھت تلے جمع کرنا،ان کی رہائش کا خیال رکھنا، کھانے پینے کا انتظام کرنا، معاشرے کےحساس ترین طبقے کی طبع نازک کا خیال رکھتے ہوئےادبی فیسٹیول کو کامیابی سے ہمکنار کرنا کوئ معمولی بات نہیں۔اس میلے کے کسی مرحلے پر بھی کوئ کج روی اور ناہمواری محسوس نہیں ہوئی۔
یہ بھی دیکھئے:
انڈس کلچرل فورم کے نیاز ندیم منور حسن اور ان کی ٹیم ہمہ وقت منکسرانہ مزاج اور مسکراتے چہروں کے ساتھ ہر نشست میں موجود رہے
اکادمی ادبیات کے چیئر مین ڈاکٹر یوسف خشک بھی ہر نشست میں بہ نفس نفیس شریک رہے ۔ہر مذاکرے کو تحمل سے سنا۔ہر پہلو کا جائزہ لیا۔اور یوں میلے کی مقصدیت میں روح پھونک دی۔اکادمی کوبہت خوبصورتی سے سجایا گیا۔تاکہ میلے کا ماحول پیدا ہو ۔اکادمی کا عملہ بھی مستعد رہا۔
میلے کی ہر نشست بہت بھرپور تھی۔ملک میں محبت اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کرنے کے لیئے ایسے میلوں کا انعقاد ہوتے رہنا چاہیئے۔
تخلیق کاروں کی میل ملاقات اور آپس میں جڑت کے ایسے موقعے روز روز نہیں ملتے ۔ان ادبی نشستوں میں تخلیق ،تحقیق ناول اور افسانے کی ٹیکنیک اور تنقید پر بات ہوئ ۔افسانے پڑھے اور دلچسپی سے سنے گئے۔آئندہ کے لیئے لائحہ عمل تیار ہوا ۔
یہ بھی پڑھئے:
مادری زبان کو مسترد کرنا کیوں ضروری ہوا؟
مزاح نگاری کا فوجی مزاج: کاکولیات
اطہر متین احمد: کراچی ڈائری کا آخری ورق
کورونا کے ماحول میں لکھی گئی تحریروں پر بھی بھر پور نشست ہوئی۔ نئی کتابوں کی پزیرائ پر بھی گفتگو ہوئ۔اس کے علاوہ مختلف صوبوں کے لکھاریوں کو لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ بھی دیئے گئے۔
ادبی میلے میں ادیبوں کو موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنی تصانیف کے بارے میں بات کریں اور ان کو متعارف کروائیں۔ اس میلے میں “یو این ڈی پی “ کی بنائی ہوئ ڈاکو مینٹری دکھائ گئی۔جس میں معدوم ہوتی زبانوں کو بولتے ہوئے بھی دکھایا گیا اور ان سے ان کے مسائل بھی سنے گئے۔
کلیدی خطبے کے لیئے اورئینٹل کالج کے ڈاکٹر ناصر کو مدعو کیا گیا۔انہوں نے حاضرین اور ناظرین کی توجہ اس طرح کھینچی کہ ہر ہر جملہ دل میں اترتا چلا گیا۔
چئیرمین یوسف خشک کی افتتاحی تقریر نے بھی متاثر کیا کیونکہ زبانوں کے حوالے سے ان کی تحقیق مکمل اور بھر پور تھی ۔ادبی میلے کی اختتامی تقریب میں انہوں نے کہا کہ جہاں اس لٹریری فیسٹیول کا کام ختم ہوتا ہے وہاں ہمارا کام شروع ہو جاتا ہے۔
ہم ملک اور بیرون ملک مختلف زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کے تراجم کے سلسلے میں صفارت خانوں سے میٹنگز کر رہے ہیں جسمیں خلیجی ممالک بھی شامل ہیں ۔آپ لوگوں نے کلاسیکل لکھاریوں کو تو پڑھا ہوا ہی ہوگا ہم ڈیجیٹل دور کے نوجوان لکھنے والوں کی کتابوں کے تراجم کروا رہے ہیں تاکہ عصر حاضر میں لکھے گئے ادب کو اردو کے قالب میں ڈھال کراسے ملک کے عوام تک پہنچایا جائے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آئیندہ اکادمی ادبیات آپ کو ہر تنظیم کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی۔
سچ بات تو یہ ہے کہ میں نے تو اس لٹریری فیسٹیول سے بہت لطف اٹھایا۔
اس ادبی میلے کا بہت خوبصورت پہلو موسیقی بھی تھا پہلے دن رحمت بانو نے خوب رنگ جمایا۔اور آخری دن گوالیار خاندان کے دو صاحبزادوں ڈاکٹر زلفقارعلی اور مظہر حسین نے سات زبانوں میں مشہور گیتوں کو سروں کی تفہیم اور اردو ترجمے کے ساتھ سنا کر محفل لوٹ لی۔بہت مشکل کام ہوتا ہے ایک ہی نشست میں کبھی دھیمے سروں میں اور کبھی اونچے سروں کے ساتھ تمام سامعین کے ذوق سلیم کا خیال رکھتے ہوئے گلدستہ تیار کرنا بہر حال انہوں نے اسے نبھایا اور خوب نبھایا۔پروگرام کا اختتام اسفندیار خٹک کے کلاسیکل رقص پر ہوا انہوں نے ایک پشتو غزل کو رقص کی شاعری میں پیش کیا تو بھلا سامعین کیسے خاموش رہتے۔سب نے بھر پور داد دی۔
میں نے اپنی دوست تحریم ظفر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔تحریم یوں لگتا ہے کہ دل دماغ اور روح پر بہار آ گئی ہے۔ایسی علمی فکری اور ذ ہنی تفریح تو ہزارہا روپے خرچ کرکے بھی نہیں مل سکتی تھی ۔۔جیسی تفریح ہمیں اکادمی ادبیات کے ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی ٹیم ،انڈس کلچرل فورم کے منور حسن نیاز ندیم اور ان کے ساتھیوں نے فراہم کی۔