28 رجب 60 ہجری کو امام حسینؑ حج کی نیت سے اپنے خانوادے اور اصحاب کو لے کر مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ تقریباً450 میل کا فاص طے کر کے آپ 3 شعبان 60 ہجری کو وارد مکہ ہوئے۔ یہاں آپ نے اصلاحِ دین اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فروغ کیلئے چار ماہ سے زائد عرصہ گزارا، اس دوران بصرہ او حجاز کے لوگ آپ کے گرد جمع رہے اور استفادہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ذوالحج کا مہینہ آگیا۔ لیکن جب آپ کو خبر ملی کہ یزیدنے حجاج کے روپ میں اپنے آدمیوں کو آپ ؑ کے قتل پر مامور کیا ہے تو آپ ؑ نے حرم خدا کی حرمت کو بچانے کیلئے حج کو عمرے سے تبدیل کیا اور کوفہ کی جانب عازم سفر ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ نے عراق جانے والے عام راستے سے ہٹ کر اپنے سفر کا آغاز التنعیم سے کیا جس کے بعد آپ ؑ کی پہلی منزل الصفّاح تھی۔
الصفّاح : یہاں آپ ؑ کی ملاقات عرب کے مشہورشاعر رفرزدق سے ہوئی ۔ آپ ؑ نے اس سے کوفہ کے حالات پوچھے اس نے کہا کہ ـ’’ کوفے والوں کے قلوب آپ کے ساتھ اور تلواریں آپ کے خلاف ہیں‘‘۔آپ ؑ نے کہا کہ تمام معاملات خدا کے دست قدرت میں ہیں ہمیں قضائو قدر کے فیصلوں پر شاکر رہنا چاہئے۔ فرزدق کہتا ہے کہ پھر میںنے آپ ؑ سے حج کے کچھ مسائل پوچھے انہوں نے میری رہنمائی کی اور پھر اپنے راستے پر چل دئیے۔ آپ ؑ کی اگلی منزل ذات العرق تھی جہاں آپ ؑ نے قیام کیا ۔
وادی عقیق : ’’ اس علاقہ میں پانی اور سبزہ بہت ہے اور آبادیاں کثرت سے ہیں۔ اس منزل پر عبداللہ بن جعفر طیار ؑ کے دونوں صاحبزادے عون و محمد اپنے والد کا خط لے کر امام حسین ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے’’۔ )
وادی ِ صفراء : اس کے بعد امام ؑ وادیِ صفراء پہنچے جو مدینہ کے قریب واقع ہے۔ یہاں آپ کی ملاقات مجمع بن زیاد اور عباد بن مہاجر سے ہوئی جو کربلا میں آپ کے ساتھ شہید ہوئے ۔ (حدیث کربلا، طالب جوہری)
ذات العرق: ’’اس منزل پر بشر بن غالب نے، جو عراق سے آرہا تھا ، امام حسین سے ملاقات کی اور یہیں حضرت عبداللہ بن جعفر نے کچھ افراد کے ہمراہ اپنے دونوں بیٹوں کو حضرت عون اور حضرت محمد کو اپنے خط کے ساتھ حسین ؑ کی خدمت میں بھجوایا۔ خط کا متن کچھ یوں تھا۔’’میری اللہ سے دعا ہے کہ آپ خیریت سے ہوں ۔ اگر میرا خط ملنے سے پہلے آپ عازم سفر ہو چکے ہیں تو میں آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو راستہ آپنے اختیار کیا ہے وہ آپ کی اور آپ کے خانوادے کی تباہی پر منتج ہے اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو یہ زمین آپ کے نور سے خالی ہو جائے گی ۔ آپ صاحبان ایمان کی امیدوں کا محور و مرکز ہیں، برائے مہربانی اپنا ارادہ ملتوی کردیں اور اس راستے پر نہ جائیں۔ والسلام۔ آپ ؑنے مختصراً جواب دیا کہ میری منزل اللہ کے اختیار میں ہے۔ ادھر عمر ابن سعد نے حالات پر گہری نظر رکھی ہوئی تھی اور جب اسے علم ہوا کہ امام حسین ؑ کوفے کی جانب بڑھ رہے ہیں تو اس نے حصین بن نمیر کو کمانڈر کی حیثیت سے قادسیہ روانہ کیا اور احکامات جاری کر دئیے کہ کوفہ آنے جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی جائے اور قافلوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔
یہ بھی پڑھئے:
سائفر کیس: بچاؤ کا راستہ صرف ایک
پاسکل کی الٰہیاتی وجودیت اور ہمارا تہذیبی آشوب
ہم نے جو بھلا دیا، تتے توے پر بیٹھ کر لکھی ہوئی کتاب
نجمہ عثمان کی شاعری میں خیال اور جذبے کے رزم آرائی
بطن الرمہّ (حاجر):امام حسینؑ ذات لعِرق سے نکل کر حجاز کے ایک بلند مقا م بطن الرمّہ پہنچ گئے ۔ یہاں قیام کے دوران آپ کی ملاقات عبداللہ بن مطیع سے ہوئی جو عراق سے آرہے تھے۔ عبداللہ نے امام ؑ سے قصد سفر دریافت کیا، جب انہیں علم ہوا کہ امام ؑ کوفے کا قصد رکھتے ہیں تو عبداللہ نے کوفے کے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ کوفے کے لوگ قطعی ناقابل ِبھروسہ ہیں ۔ آپ اپنا ارادہ ملتوی کر دیں لیکن امامؑ اپنے ارادے پر قائم رہے ۔ چنانچہ آپؑ نے ایک خط تحریر کرایا اور کوفے کے رہنے والوں کو قیس بن مسہر کے ہاتھوں بھجوایا جس کا متن تھا ’’ اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان و کریم ہے۔ حسینؑ بن علیؑ بن ابی طالبؑ کی جانب سے اپنے بھائی مسلم بن عقیل ، اپنے پیروکاروں اور تمام مسلمانوں کیلئے نیک تمنائیں، میں نے اللہ کے حضور آپ کیلئے دعا کی ہے جسکے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، میرے پاس میرے بھائی مسلم بن عقیل کا خط ہے جس میں انہوں نے آپ کے جذبات اور ہم آلِ محمدؐ سے آپ کی اخوت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ اور یہ بھی کہ آپ کے زعما اور عمائدین ان سے ہماری مدد کا معاہدہ بھی کر چکے ہیں۔ اللہ آپ کو بہترین اجر عطافرمائے ۔ خیال رہے جیسے ہی میرا ایلچی یہ پیغام لے کر آپ تک پہنچے تو آپ میرے استقبال کی تیاریاں شروع کردیں۔ میں بہت جلد آپ کے پاس آرہا ہوں۔ اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے‘‘۔
دراصل اس وقت تک آپکو اپنے بھائی مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر نہیں مل سکی تھی۔ کیونکی حضرت مسلم نے مذکورہ خط اپنی شہادت سے 28روز قبل ارسال کیا تھا ۔ الغرض قیس امام حسین ؑ کا خط لے کر کوفہ روانہ ہو گئے ۔ جب آپ قادسیہ پہنچے تو حصین بن نمیر نے انہیں گرفتار کر لیا بعد ازاں انہیں ابن زیاد کے دربار میں پیش کر دیا گیا۔ ابن زیاد نے قیس سے نہایت نازیبا رویہ اختیار کیا اور اپنی جہالت و بغض کی بناء پر امام عالی مقام کی شان میں بھی نازیبا جملے کہے اور اُن سے کہا کہ قصر پر چڑھ جا اور کذاب کو سب وشتم کر، قیس چڑھ گئے قصر پر اور کہا’ ایہاالناس حسینؓ بن علیؓ بہترین خلق اللہ فرزند فاطمہ بنت رسول اللہؐ ہیں اور میں ان کا قاصد ہوکر تم لوگوں کے پاس آیا ہوں ، میں نے ان کو مقام حاجر میں چھوڑا ہے۔ ان کی نصرت کے لئے تم سب جاؤ۔ یہ کہہ کر قیس نے ابن زیاد اور اس کے باپ پر لعنت کی اور علی ابن ابی طالب کے لئے مغفرت کی۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ قیس کو دارالامارہ کی چھت پر لے جائو ، قیس کو یقین تھا کہ اب ان کا آخری وقت ہے، چنانچہ قیس نے دارالامارہ کی چھت سے باآواز بلند اعلان کیا کہ اے لوگومیں حسینؑ بن علی ؑ کا قاصد ہوں وہ حسین ؑ جو محمد ؐ کا نواسہ علی ؑ و فاطمہؑ کا بیٹا ہے۔ پھر اس کے بعد قیس نے ابن زیاد اور اس کے باپ پرنفرین کی اور نتیجتاً انہیں چھت سے گرا کر شہید کر دیا گی، (طبری ، ص ۲۲۱ )۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ہشتم ص ۲۱۸ ا) ۔ یہاں قیس کو شہید کیا جا رہا تھا تو وہاں امام حسین ؑ بطن الرمہّ سے اپنی اگلی منزل کی زرود کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔
فید: ایک مورخ(قزوینی) کے مطابق یہاں بھی امام حسین ؑ نے قیام کیا۔
خزیمیہ: ’’یہاں کنویں اور تالاب اور درختوں کی کثرت تھی۔ امام حسین ؑ نے یہاں ایک دن اور ایک رات قیام فرمایا’’۔ (حدیث کربلا، طالب جوہری)
زرود :یہاں دوسری جانب زہیر ابن قین اپنے قافلے کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے ۔ اس ضمن میں ان کے قافلے کے چند افراد بیان کرتے ہیں ابھی ہم قیام و طعام میں مصروف ہی ہوئے تھے کہ ایک شخص ہماری جانب آیا اور سلام کے بعد زہر ابن قین کے خیمے میں داخل ہوا۔ اس نے کہا کہ مجھے حسین ؑ بن علی ؑ نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ انہوں نے آپ کو یاد فرمایا ہے۔ یہ سن کر سب پر سکوت طاری ہو گیا ۔ آخر اس سکوت کو ابن قین کی زوجہ نے توڑا اور کہا ’’کیا رسول اللہ ﷺ کے بیٹے نے آپ کو بلایا ہے؟آپ کیوں نہیں جاتے ؟ آپ جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ کیا کہتے ہیں، آپ کو ان کی بات ضرور سننا چاہئیے، اس کے بعد آپ کو اختیار ہے وہاں رکیں یا آجائیں‘‘۔ زہیر یہ بات سن کر فوراً اٹھے اور امام ؑ کے خیمے کی طرف روانہ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد آئے اور حکم دیا کہ خیمے لپیٹ دئیے جائیں، میں حسین ابن علی ؑ کے ساتھ جا رہا ہوں بعد ازاں اپنی زوجہ سے کہا کہ میں تمہیں آزاد کرتا ہوں ، تم قافلے والوں کے ساتھ اپنے رشتہ داروں میں لوٹ جائو ، میں نہیں چاہتا کہ تمیں کوئی تکلیف پہنچے ۔زہیر امام حسین ؑ کے ساتھ سفر میں شامل ہوگئے اور یہ قافلہ مقام زُبالہ پہنچا۔
زُبالہ :یہاں آپ کو حضرت مسلم بن عقیل، ہانی اور قیس بن مسہر اور عبد اللہ ابن یقطر کی شہادت کی خبر ملی (طبری) ۔ آپ نے’ انااللہ و انا الیہ الراجعون‘‘کہا اور خیمے میں جا کر حضرت مسلم کی بچیوں کے سروں پر ہاتھ رکھا اور نہایت گریہ کیا۔ آپ نے اس شب اپنے رفقاء کو ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے فرمایا’’ میرا قتل یقینی ہے، میں تم لوگوں سے اپنی بیعت اٹھاتا ہوں، تمہارا جہاں دل چاہے چلے جائو‘‘۔ اس خطبے کے بعد چند افرا د تو رخصت ہو گئے مگر آپ کے حقیقی چاہنے والے اور دین الہیٰ کے پیروکار اپنی جگہ قائم رہے۔ اگلے روز آپ کی منزل ثعلبیہ تھی ۔
ثعلبیہ: یہاں آپ جناب زینب ؑ کی آغوش میں سر رکھ کر کچھ دیر کیلئے سو گئے۔ اچانک گریہ کرتے ہوئے بیدار ہوئے۔ جناب زینب ؑ اور جناب ام کلثوم ؑ نے سبب گریہ پوچھا تو کہا کہ میں نے خواب میں نانا رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے وہ مجھے بلا رہے ہیںاوراپنی شہادت اور خانوادے کی تباہی کا اشارہ دیا۔ اس پر جناب علی اکبر ؑ نے کہا کہ ـ: ’’بابا جب ہم حق پر ہیں تو ہمیں موت کا کیا ڈر‘‘۔ آپ کی اگلی منزل سراۃ تھی۔ آپ قطقطانہ اور نبی سکون اور بطن عقبہ سے ہوتے ہوئے منزل شراف پر خیمہ زن ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق اسی مقام پر ایک عیسائی نوجوان وہب بن عبداللہ کلبی، اپنی ماں اور بیوی کے ہمراہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے اور کربلا میں شہید ہوئے (ریاض القدس، قزوینی ، ص ۳۵۱ ) ۔ وہب کلبی کی ماں پہلی خاتون تھیں جو بروز عاشورہ کربلا میں شہید ہوئیں،اُن کے سرپر شمر کے غلام رستم نے شمر کے حکم سے لٹھ مارکر انھیں شہید کیا(طبری)
شراف : بطن عقبہ کے بعد کوفے کا راستہ واقصہ کی طرف سے ہے لیکن چونکہ شراف میں پانی کے وافر ذخائر موجود تھے اسی لئے امام نے اس جگہ کا انتخاب کیا۔آپؑ نے اپنے اصحاب سے کہا کہ جتنا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں کر لیں۔ یہیں آپ ؑ نے محرم الحرام 61 ہجری کا چاند دیکھا جو رسولؐ خدا کے گھرانے کی تباہی کی خبر لے کر نمودار ہوا تھا۔ مقام شراف پر ایک شب قیام فرمانے کے بعد آپؑ اپنے سفر پر روانہ ہوئے ابھی آپ کا سفر جاری تھا کہ ایک شخص نے بلند آواز سے تکبیر کہی، آپ نے پوچھا اس وقت تکبیر کہنے کا کیا محل ہے۔ اس شخص نے کہاکہ میں نے کھجوروں کے درخت دیکھے ہیں۔ اس پر بنی اسد کے لوگوں نے کہا کہ ’’یہاں کھجوروں کے درخت نہیں ہیں۔ ’’ (تاریخ ابن خلدون )امامؑ نے فرمایاکہ پھر تمہارے خیال میں کیا ہے!‘‘ انہو ں نے کہا’’ یہ دشمن کی فوج کے سپاہی اور انکے گھوڑوں کی گردنین ہیں۔ امامؑ نے فرمایا ’’ کیا کوئی ایسا مقام ہے کہ جسے ہم اپنی پشت پر رکھ کر دشمن سے مقابل ہوں تاکہ ایک رخ پر ہی مقابلہ ہو ‘‘ لوگوں نے کہا کہ ہاں یہاں بائیں جانب ایک منزل ذو حسم کے نام سے ہے‘‘ (طبری) ۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ دشمن آرہے ہیں لہذٰا اپنا راستہ تبدیل کر دو، امام کے حکم پر قافلے نے ذو حسم کا رخ کیا۔
ذوحسم : جب حصین بن نمیر کو قادسیہ میں امام ؑ کے کوفہ جانے کی اطلاع ملی تو ’’ حر ابن یزید ریاحی کو حصین بن نمیر نے قادسیہ سے ایک ہزار سپاہیوں کا دستہ دے کر امام حسین ؑ کا راستہ روکنے کے لئے بھیجا تھا۔ ’’(طبری) ۔ بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ ُحر نے امام کی لجام فرس پرہاتھ ڈالا ، بس یہ دیکھنا تھاکہ حضرت عباس ؑ آگے بڑھے اور اس سے کہا ــ’’ تیری ماں تیرے غم میں ماتم کرے‘‘۔ امام ؑ نے محسوس کیا کہ حر کا لشکر پیا س سے نڈھال ہے، آپ ؑ نے حکم دیا کہ لشکر کو سیراب کیا جائے، چنانچہ ُحر کے لشکر کو بشمول سواری کے جانوروں کے سیراب کر دیا گیا۔ امام ؑ کا حر کے ایک سپاہی سے حسن سلوک: ’’حر کے رسالہ کا ایک شخص پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ آپ ؑ نے جب میری اور گھوڑے کی حالت جو پیاس سے ہورہی تھی دیکھی توکہا راویہ کو بٹھاؤ۔ میں مشک کو راویہ سمجھا تو آپ ؑ نے کہا اے لڑکے اونٹ کو بٹھا میں نے اونٹ کو بٹھایا تو کہا پیو۔ جب میں پیتا تھا مشک سے پانی اونڈل اونڈل پڑتا تھا۔ آپؑ نے کہا مشک کے دہانے کو الٹ دو۔ مجھ سے الٹتے بن نہ پڑا ۔ آپ ؑ خود اٹھ کھڑے ہوئے اور دہانہ کو الٹ دیا۔ میں نے پانی پیا اپنے گھوڑے کو بھی پلایا’’(طبری ) ذوحسم میں جب ظہر کا وقت ہوا تو آپ نے اپنے ایک صحابی حجاج بن مسروق جعفی کواذان کا حکم دیا۔’’ موذن سے کہا اقامت کہو ۔ اس نے اقامت کہی تو امام حسینؓ نے حر سے پوچھا تم لوگ کیا الگ نماز پڑھو گے۔ حر نے کہا ’ نہیں ہم سب آپ ؑ کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ آپ ؑ نے سب کو نماز پڑھائی اور اپنے خیمے میں چلے گئے’’(طبری، ص ۲۲۸ ) ۔ اسی طرح آپ ؑ نے نماز عصر کی بھی امامت کی۔ جس کے بعد آپ نے حر کے لشکر سے خطاب فرمایا کہ وہ کوفہ والوں کے اصرار پر یہاں آئے ہیں۔ اب اگر کوفہ والوں کو امام ؑ کا کوفہ آنا منظور نہیں تو وہ واپس مدینہ چلے جاتے ہیں۔ امام ؑ نے وہ خطوط بھی حرکو دکھائے جو انہیں لکھے گئے تھے۔ حر نے جواب دیا کہ یہ خطوط جن لوگوں نے لکھے ہیں ہم ان میں سے نہیں ہیں۔ حر نے مزید کہا کہ نہ وہ امام حسین ؑ سے جنگ کرے گا اور نہ ہی انہیں مدینہ واپس جانے دے گا۔ حر نے کہا کہ وہ ابن زیاد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امام ؑ کو ابن زیاد تک لے جانا چاہتا ہے۔ تاہم امام ؑ کے انکار پر حر نے کہا کہ اگر امام ؑ اس کا کہا نہیں مانتے تو وہ کسی ایسے رستے پر چلیں جونہ کوفہ جاتا ہو اور نہ مدینہ ۔(طبری ) اس گفتگو کے بعد امام ؑ پھر روانہ ہوئے منزل بیضہ ٔکا رخ کیا۔ جب صبح نمودار ہوئی تو حرُ اپنے لشکر کے ساتھ پھرآن پہنچا۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ اب کیوں آیا ہے، اس نے کہا کہ ابن زیاد سے کسی نے مخبری کر دی ہے لہذٰا اب اس کا حکم ہے کہ آپ ؑ کے قافلے کو کسی ویران اور بے آب وگیاہ زمین پر روک لیا جائے۔ اس دوران امام ؑ کا سفر جاری رہا اور ُحر کا لشکر بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا یہاں تک کے آپ ؑ مقام بیضہ پہنچے ۔
بیضہ :آپ ؑ نے یہاں ایک خطبہ دیا جس کا مفہوم تھا کہ ’’ اے لوگو جب کوئی ایسا حاکم نظر آئے جو احکام خدا اور رسول ؐ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ احکام خدا اور رسول ؐ سے رو گردانی کی جارہی ہے۔ حق کو چھپایا جا رہا ہے اور باطل کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ میں اپنی موت کو دیکھ رہا ہوں مگر میں قیام دین ، اصلاح امت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیلئے نکلا ہوں۔
حرُ نے ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ ؑ کو کوفے کی جانب نہیں جانے دیا لہذٰا ان حالات میں اب کو فہ کسی طور پر بھی آپ کی منزل نہیں رہا تھا ۔ چنانچہ آپ نے عذیب الھجانات کا رخ کیا ۔
عذیب الھجانا ت : یہاں امام ؑ کی ملاقات طرماح بن عدی سے ہوئی ۔ اس نے کوفے کے حالات بتائے اور بہت کوشش کی کہ امام ؑ اپنا ارادہ ملتوی کر دیں ، لیکن جب اس نے دیکھا کہ حسین ؑ علیہ السلام اپنے موقف پر قائم ہیں تو اس نے امام ؑ کو 20,000تربیت یافتہ جنگ جو سپاہیوں کی پیشکش کی۔ امام ؑ نے ابن عدی کو دعائے خیر دی اور فرما یا میرا خروج جنگ و جدال کیلئے نہیں ہے۔پھر آپ اگلی منزل کی طرف گامزن ہو گئے۔ ایک طرح سے آپ کا قافلہ لشکر حر کے حصار میں چل رہا تھا۔
کربلا :الغرض آپ ؑ ابن عدی سے رخصت ہو کر آخر کار قصربنی مقاتل کے نزدیک مقام غضیریہ پر پہنچے ہی تھے کہ آپ نے محسوس کیا کہ آپ کے اسپ باوفا نے چلنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے کچھِ توقف کے بعد آس پاس کے لوگوں سے پوچھا کہ اس مقام کا کیانام ہے۔ کسی نے نینوا کہا اور کسی نے کربلا ۔بس امام علیہ السلام نے کربلا کا نام سنتے ہیں اپنے اصحاب سے کہا کہ یہیں خیمے لگا دئیے جائیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جو حامل کرب و بلا ہے۔ یہیں ہمارا خون بہایا جائے گا اور یہی ہماری منزل ہے۔ چنانچہ امام کے حکم سے نہر فرات کے نزدیک خیمے لگا دئیے گئے۔
02 محرم 61 ھ کا یہ دن تھا۔ یہ امامؑ عالی مقام، فرزند رسولؐ اور جگر گوشہ ء بتول ؑ کی آخری منزل اور آخری سفر تھا۔