پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے گم شدہ بل کا سراغ لگائیں جو چودہ مہینے پہلے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر کی توثیق کے لیے بھیجا گیا تھا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے یہ مطالبہ سپیکر راجہ پرویز اشرف کے نام لکھے گئے ایک خط میں کیا ہے جو پریس کو بھی جاری کیا گیا ہے۔ سینٹر عرفان صدیقی نے اپنے خط میں کہا ہے کہ انہوں نے جولائی 2019 میں اپنی گرفتاری کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ آئین کے تقاضوں کے مطابق انتظامیہ کو عدلیہ سے مکمل طور پر الگ ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ 2019 میں کرایہ داری قانون کے تحت عرفان صدیقی کو گرفتار کر کے ہتھکڑیاں لگا کر ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس نے انہیں چودہ دن کے لئے عدالتی ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھجوانے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے سپیکر کے نام خط میں بتایا ہے کہ سینٹ کا رکن بننے کے بعد انہوں نے اس سوا صدی پرانے قانون کو آئین کے مطابق بنانے کے لئے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کا ایک بل تیار کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
پلوامہ جیسا ایک اور ڈرامہ کرنے کی بھارتی سازش
ہم نے جو بھلا دیا، ماضی حال مستقبل کی کتاب
عسکریت پسندی مولانا اشرف علی تھانوی کی نگاہ میں
پی ٹی آئی حکومت کے دور میں یہ بل سینٹ میں آیا جسے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ نے منظور کیا۔ 23 مئی 2022 کو یہ بل سینٹ اور 8 جون 2022 کو قومی اسمبلی نے منظور کر لیا جس کے بعد 21 جون 2022 کو یہ بل صدر مملکت کی رسمی توثیق کے لیے بذریعہ وزیراعظم ہاؤس ایوان صدر بھیج دیا گیا۔ سینٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ انہوں نے یہ مطالبہ پارلیمنٹ میں اٹھایا لیکن بل کا سراغ نہیں ملا۔ اگست 2022 میں ایوان صدر نے باضابطہ طور پر وضاحت کی کہ ان کے پاس ایسا کوئی بل نہیں آیا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے خط میں سپیکر سے استدعا کی ہے کہ وہ گمشدہ بل کا سراغ لگانے کے احکامات جاری کریں۔
اس بل کو گم کر دینے والے عناصر کا سراغ لگانے کے لئے تحقیقات کا حکم دیں کیونکہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کا نافذ ہونے سے پہلے ہی گم ہو جانا پارلیمنٹ کی کھلی توہین ہے جس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ خط کے آخر
میں انہوں نے سپیکر راجہ پرویز اشرف سے کہا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے باوجود وہ اپنے ائینی منصب پر قائم ہیں اس لیے انہیں چودہ ماہ سے گمشدہ بل کو ازسرنو نو صدارتی توثیق کے لئے بھیجنا چاہیے۔