ہائے! وہ مائیں بانجھ کیوں نہیں ہو جاتیں جن کی کوکھ سے سانحہ گوجرانوالہ کے ذمے دار جنونی ،دھشت پسند اور اللہ کی مخلوق کے لیئے زندگی مشکل کر دینے والے پیدا ہوتے ہیں ۔
وہ باپ لاولد کیوں نہیں ہو جاتے جو اولاد کو انسانیت کے دکھ درد کا مداوا کرنا نہیں سکھا سکتے۔ سانحہ جڑانوالہ میں اقلیتوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کے لیئے حکومت کے کارندے سو رہے ہیں کیا؟
پاکستان تو اس لیئے بنا تھا کہ یہاں ہر مکتبہ فکر تحفظ دیا جائے گا ۔۔جہاں انسانیت کے دکھ درد کو سمجھا جائے گا۔جہاں اقلیتوں کے بھی وہی حقوق ہونگے جو اکثریت کے ہونگے۔
جہاں انسانوں کے لیئے زندگی سزا نہیں ہو گی۔ جہاں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے جہاں حاکم وقت پر کوڑا پھینکنے والی عورت کو بھی عزت و احترام دیا جائے گا۔ جہاں کوئ بھی حاکم وقت سے سوال کر سکے گا کہ مال غنیمت سے ملنے والی ایک چادر سے آپ کا لباس نہیں بن سکتا تھا ۔۔آپ نے خیانت کرکے دو چادریں کیوں وصول کیں۔جہاں حاکم وقت غلام کو اونٹ نشیں کر کے پیدل چلنے میں فخر محسوس کرےگا۔
آہ! چودہ اگست ہمارا مذاق اڑاتا ہوا رخصت ہوا۔ پٹاخوں کی دھمک ہمارے سوختہ ذہنوں کو بیدار نہ کر سکی۔اور ہم روائتی ہرچم لہراتے کھوکھلے نعرے لگا تے اپنے دین اور پرچم کو لپیٹ کر طاق میں رکھ کر آنکھوں پر پٹی باندھے جذبات سے عاری دل اور غفلت کے نشے میں چُور زندگی کے اس دوراہے پر پھر سے چلنے لگتے ہیں جو صراط مستقیم ہر گز نہیں اللہ کی پھٹکار کا راستہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سینیٹر عرفان صدیقی کا بل ایوان صدر میں کیسے غائب ہوا؟