اصل بات الفاظ کے چناؤ کی ہے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ بھی ابتداء میں مسئلہ رہا ہے 80 کی دہائی کے آخر میں انہیں خطاب کا موقع ملا۔ وہ اپنے بڑے بھائی کی نسبت تھوڑی تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ اب نہیں بلکہ پہلے بھی ان کی کوشش ہوتی کہ وہ اردو اور انگلش کے کچھ ثقیل الفاظ استعمال کریں
۔۔۔۔۔۔
سیاست میں ادب سے رجوع کا حوالہ آج سے نہیں۔ گزرے وقتوں علم سے واقفیت رکھنے والے جید حضرات میدان سیاست میں اترتے رہے۔ اسی طرح قانون اور معیشت کی جانکاری بھی ان اصحاب کیلئے ضروری رہی ہے۔ سیاستدان کا مخاطب ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے اس لئے اپنے بیان میں استعمال زبان کا خیال بھی کیاجاتا ہے۔ دنیا بھر میں عموماً اور ہمارے ہاں خصوصاً کسی ادارے سے فارغ التحصیل یا سندیافتہ افراد عوام کی نمائندگی کا فریضہ انجام نہیں دیتے پہلے وقتوں میں پارٹی کا عام کارکن اپنی محنت کے بل بوتے پر جماعت اور حکومت کا عہدہ لینے میں کامیاب ہوجاتا تھا۔ خیر اب ایسی کوئی روایت نہیں محض پیسہ اور تعلق ہی سیاست بلکہ سماجی حیثیت کے حصول کی واحد سیڑھی ہے۔
زبان و بیان کا استعمال سیاست میں آج بھی بےحد اہمیت کا حامل ہے۔ہمارے بڑے بڑے لیڈروں میں کئی بہت اچھے مکرر گزرے نصف عرصہ فوجی جنرلز بھی قوم کے قائد بنتے رہے انہیں بھی یہ شرف حاصل رہا ہے۔ محمد علی جناح انگریزی میں روانی سے بات کرلیتے مگر اردو کا انداز ویسا نہ تھا کچھ ایسے تھے جنہوں نے اس شعبے یعنی تقریر کرنے کیلئے محنت کی۔ بھٹو ان کی بیٹی بے نظیر نواسہ بلاول حتیٰ کہ نواز شریف ان کی بیٹی مریم ایسے ہی کئی نام ہیں جنہیں تھوڑا یا زیادہ اس کی تربیت کے عمل سے گزرنا پڑا۔ عمران خان بھی پہلے اتنی روانی سے نہیں بولتے تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
پلوامہ جیسا ایک اور ڈرامہ کرنے کی بھارتی سازش
ہم نے جو بھلا دیا، ماضی حال مستقبل کی کتاب
عسکریت پسندی مولانا اشرف علی تھانوی کی نگاہ میں
اصل بات الفاظ کے چناؤ کی ہے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ بھی ابتداء میں مسئلہ رہا ہے 80 کی دہائی کے آخر میں انہیں خطاب کا موقع ملا۔ وہ اپنے بڑے بھائی کی نسبت تھوڑی تیاری کے ساتھ آتے ہیں۔ اب نہیں بلکہ پہلے بھی ان کی کوشش ہوتی کہ وہ اردو اور انگلش کے کچھ ثقیل الفاظ استعمال کریں.شاید اس سے ذرا اچھا تاثر ملتا ہے کم ازکم پڑھے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ جیسے وہ ہمیشہ دل کی عمیق اور اتھاہ گہرائیوں ۔شبانہ روز محنت۔ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ دھیلے کی کرپشن ۔دمڑی اور پائی کا ذکر ایسے ہی کئی لفظ ہیں جنہیں پڑھے لکھے حضرات نے پڑھا یا سنا ہے لیکن جانتے نہیں۔ وہ محاورتاً جملے دھیلے کی کرپشن۔ پائی پائی یا کوڑی کوڑی کا محتاج اور دمڑی نہیں چھوڑی۔
یہ ساری کرنسی ماضی بعید سے تعلق رکھنے والے سکوں کے نام ہیں۔ آج جس نسل کو لیپ ٹاپ کے ذریعے نئی دنیا سے متعارف کرانے کا مشن لیا ہے۔ ان سکوں کا حوالہ محض جذبات کی رو میں کرجاتے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان میں چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ سکے جن میں مغلیہ دور میں پھوٹی کوڑی سب سے چھوٹی اور بنیادی کرنسی کا یونٹ تھا تین پھوٹی کوڑی کی ایک کوڑی اور دس کوڑی کی ایک دمڑی دو دمڑی کی ڈیڑھ پائی اور اسی ڈیڑھ پائی کا ایک دھیلا دو دھیلے کا ایک پیسہ سوا چھ پیسہ کا ایک آنہ اور پھر سولہ آنے کا ایک روپیہ ہوا۔
پھوٹی کوڑی یا کوڑی اصل میں کیا ہے بہت کم لوگ اس سے آشنا ہیں پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔
ان کے حوالے سے اردو میں محاورے بھی مشہور ہیں۔ جس کے پاس کچھ دینے کیلئے نہ ہو کہتا ہے میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں ہے فلاں نے کوڑیوں کے مول گھر بیچ دیا۔ چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے۔ آپ سولہ آنے درست بات کررہے ہیں۔ وہ دھیلے کا کام نہیں کرتا۔
وزیراعظم چونکہ ایک کاروباری پس منظر رکھتے ہیں اس لئے وہ مثال اور محاورے کا استعمال بھی ویسا کرتے ہیں مگر وہ شاید جانتے نہیں کہ سننے والا ان سے آشنا بھی ہے یا نہیں۔
میمن لوگ گھر میں اپنا مال بیچ کر پھر خریدلیتے ہیں جب بازار میں فروخت کرتے تو قسم کھاتے ہیں یہ مجھے اتنے میں گھر پڑتا ہے۔ اس طرح قسم سچی ہوتی ہے۔ کسی نے کہا شہباز شریف بھی حلفاً کہتے ہیں دھیلے کی کرپشن ثابت کریں۔ اب دھیلا ہے ہی نہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو ان کا انداز بیان بھلا لگتا ہے کم ازکم اپنے بھائی کے مقابلے نسبتاً تیاری سے بولتے ہیں۔ ان کا الفاظ کا چناؤ اب بھی ویسا ہے۔ زیادہ تیاری میں خان صاحب والا حال ہوجاتا ہے وہ کوئی منفرد بات کرجاتے ہیں جیسے دومختلف ممالک کی سرحدیں جوڑ دی تھیں۔ شاید سیاستدان جذبات کی رو میں یا اپنے مخاطب پر دھاک بٹھانے کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کا عزم کئے ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی پروا نہیں کہ بات کسی کے پلے پڑرہی ہے یانہیں۔