Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
یہ ہیں ہمارے سینیٹر عرفان صدیقی جو شہری آزادیوں کا پرچم تھامے کھڑے ہیں۔ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر لازم ہے کہ تمام روشن ضمیر جمہوریت پسند ان کا ساتھ دیں اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر دیں۔
دنیا انھیں ادبیات کے استاد کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن ان سطور کے لکھنے والے کا تعارف ذرا مختلف ہے۔ میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزے سے وابستہ ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد عرفان صاحب کی تحریریں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ شہید محمد صلاح الدین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے جونیئرز حتی کہ اپرنٹس کے طور پر کام کرنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے جس سے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ عرفان صاحب کی تحریریں جس زمانے میں آنی شروع ہوئیں، شاید صلاح الدین صاحب سمیت کوئی بھی انھیں نہیں جانتا تھا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ان کی کوئی تحریر پڑھ کر مرحوم نے کہا کہ یہ شخص تو بہت بڑا لکھاڑ ہے۔ گویا یہ تعریف ویسی نہ تھی جیسی ہم لوگوں کی ہوا کرتی تھی بلکہ یہ ایک ایسے شخص کو خراج تحسین تھا جسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی خدمات باقاعدہ حاصل کر لی گئیں اور یوں ہم نو آموز ہونے کے باوجود ان کے ساتھی اور کولیگ ہو گئے۔ اتنی تفصیل بیان کرنے کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا تعلق اس پرچم سے ہے جس کے ذکر سے اس تذکرے کا آغاز ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عرفان صاحب اس زمانے میں ہفت روزے کے لیے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ کیسی کیسی شخصیت کا انھوں نے انٹرویو نہیں کیا اور اسے اپنا گرویدہ نہیں بنایا۔ بلوچستان میں میاں نواز شریف کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک حاجی احمد علی کھوسہ مرحوم گرفتار ہوئے تو میں برادرم یامین عباسی کے ساتھ صحبت پور میں ان کے گھر گیا جہاں مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے انٹرویو کے لیے درخواست کی تو فرمانے لگے کہ بھئی ہم تو عرفان صدیقی صاحب کو انٹرویو دیتے ہیں۔ لوگوں کے دل میں گھر کر لینے والی بات تو اپنی جگہ اہم ہے اور صحافیوں کے لیے اس میں بھی سبق ہے لیکن یہاں مجھے ان کی ایک اور خوبی کا ذکر کرنا ہے۔ ہر ہفتے جب ان کی تحریر موصول ہوتی تو ہم سب شوق سے اسے دیکھا کرتے۔ اس زمانے میں وہ فانٹین پین سے لکھا کرتے تھے یعنی پکی روشنائی کے ساتھ۔ پوری تحریر کا ایک ایک لفظ موتی کی طرح چمک دار تو ہوتا ہی تھا، سرخی وہ اس مہارت اور خوش خطی سے لکھتے گویا کسی خطاط نے بڑی مہارت سے جس کی خطاطی کی ہو۔ شروع میں تو ہم ان کی خطاطی اور تحریر کی خوب صورتی کے ہی اسیر ہوئے لیکن رفتہ رفتہ سمجھ میں آیا کہ یوں جما کر لکھی ہوئی تحریر اسی صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والے کا ہوم ورک بھرپور ہو۔ یوں ہم نے یہ سیکھا کہ اگر اس پیشے میں کمال حاصل کرنا ہے اور کچھ نام پیدا کرنا ہے تو اس کی کنجی یہی ہے۔
انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ خواہ عمر کے جس حصے میں بھی ہو، سیکھنے کی حس اس کی ہمیشہ بیدار اور توانا رہے۔ عرفان صدیقی صاحب اس وقت عمر کے جس مرحلے میں بھی ہیں، ہمارے اساتذہ کی صف میں جگہ پاتے ہیں اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے ہم عمروں کے برعکس ان میں سیکھنے کا جذبہ اور صلاحیت آج بھی نوعمروں سے بڑھ کر ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں وہ عمران خان کے عتاب کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہوئے اور وہ عدالتی کشا کش سے گزرے تو ان پر یہ کھلا کہ گو پاکستان کا آئین عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کرتا ہے لیکن ایک مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر آج بھی مدعی بھی ہے اور منصف بھی۔ یہ تجربہ خود ان کی جان پر بیتا۔ وہ اس تلخ تجربے سے گزرے تو ہماری طرح جھیلنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ جب وہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تو اس آئین شکنی کے خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے۔
بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ بڑا انسان وہی ہے جو کسی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد اصلاح احوال پر اس لیے کمربستہ ہو جائے تاکہ مستقبل میں اللہ کے دیگر بندے اس نا انصافی سے محفوظ رہیں۔ اس مرحلے پر ان کی وہی صحافت والی تربیت بروئے کار آئی اور انھوں نے خوب ہوم ورک کے ساتھ سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کا آئینی تصور حقیقت کی صورت اختیار کر سکے۔ عرفان صدیقی صاحب نے یہ کام اتنی محنت اور عرق ریزی سے کیا کہ ایوان بالا میں کوئی بھی حزب اختلاف کی طرف سے پیش کیے جانے والے بل کی مخالفت نہ کر سکا بلکہ میں تو یہ جان کر بھی حیران رہ گیا کہ بل کی منظوری یقینی بنانے کے لیے ان کے کھلے مخالف اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اس میں تعاون کیا۔ قومی اسمبلی نے بھی یہی بل مکمل اتفاق رائے کے ساتھ منظور کر لیا۔ اس کے بعد غضب ہو گیا۔
طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایوان جب کوئی قانون سازی کر لیتے ہیں تو اس کے بعد پارلیمنٹ سیکریٹریٹ اسے سیدھا ایوان صدر کو ارسال کر دیتا ہے تاکہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو جائے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل یہیں سے ایوان صدر ارسال کر دیا گیا جس کی اطلاع عرفان صدیقی صاحب کو بھی باضابطہ طور پر مل گئی۔ آج چودہ مہینے ہوتے ہیں، نہیں معلوم کہ یہ بل کہاں گیا؟ ایوان صدر کہتا ہے کہ یہ بل وہاں نہیں پہنچا جب کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اسے ارسال کر چکا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ بل اب کہاں ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے۔ عرفان صدیقی صاحب بڑے دکھ کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک میں انسان لا پتہ ہواکرتے تھے، اب قانون بھی ہونے لگے۔ عرفان صاحب نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھا ہے کہ یہ بل آپ کے دفتر سے نکلا اور لاپتہ ہو گیا براہ کرم اسے بازیاب کر کے ایوان صدر ارسال کریں تاکہ پراسس مکمل ہو سکے۔ عرفان صدیقی صاحب بل کی بازیابی کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے رہے ہیں، ان کی آواز میں ہر باضمیر پاکستانی کو آواز ملانی چاہئے۔ اس لیے کہ یہ کوئی سیاسی محاذ آرائی کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بحالی اور شہری آزادیوں کی بحالی کا قانون ہے۔ آج ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو کل کلاں ہم عوام میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی تو ہمارے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔
یہ کالم پر https://wenews.pk/ بھی شائع ہو چکا ہے
اسی بارے میں:
یہ ہیں ہمارے سینیٹر عرفان صدیقی جو شہری آزادیوں کا پرچم تھامے کھڑے ہیں۔ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر لازم ہے کہ تمام روشن ضمیر جمہوریت پسند ان کا ساتھ دیں اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر دیں۔
دنیا انھیں ادبیات کے استاد کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن ان سطور کے لکھنے والے کا تعارف ذرا مختلف ہے۔ میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزے سے وابستہ ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد عرفان صاحب کی تحریریں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ شہید محمد صلاح الدین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے جونیئرز حتی کہ اپرنٹس کے طور پر کام کرنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے جس سے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ عرفان صاحب کی تحریریں جس زمانے میں آنی شروع ہوئیں، شاید صلاح الدین صاحب سمیت کوئی بھی انھیں نہیں جانتا تھا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ان کی کوئی تحریر پڑھ کر مرحوم نے کہا کہ یہ شخص تو بہت بڑا لکھاڑ ہے۔ گویا یہ تعریف ویسی نہ تھی جیسی ہم لوگوں کی ہوا کرتی تھی بلکہ یہ ایک ایسے شخص کو خراج تحسین تھا جسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی خدمات باقاعدہ حاصل کر لی گئیں اور یوں ہم نو آموز ہونے کے باوجود ان کے ساتھی اور کولیگ ہو گئے۔ اتنی تفصیل بیان کرنے کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا تعلق اس پرچم سے ہے جس کے ذکر سے اس تذکرے کا آغاز ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عرفان صاحب اس زمانے میں ہفت روزے کے لیے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ کیسی کیسی شخصیت کا انھوں نے انٹرویو نہیں کیا اور اسے اپنا گرویدہ نہیں بنایا۔ بلوچستان میں میاں نواز شریف کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک حاجی احمد علی کھوسہ مرحوم گرفتار ہوئے تو میں برادرم یامین عباسی کے ساتھ صحبت پور میں ان کے گھر گیا جہاں مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے انٹرویو کے لیے درخواست کی تو فرمانے لگے کہ بھئی ہم تو عرفان صدیقی صاحب کو انٹرویو دیتے ہیں۔ لوگوں کے دل میں گھر کر لینے والی بات تو اپنی جگہ اہم ہے اور صحافیوں کے لیے اس میں بھی سبق ہے لیکن یہاں مجھے ان کی ایک اور خوبی کا ذکر کرنا ہے۔ ہر ہفتے جب ان کی تحریر موصول ہوتی تو ہم سب شوق سے اسے دیکھا کرتے۔ اس زمانے میں وہ فانٹین پین سے لکھا کرتے تھے یعنی پکی روشنائی کے ساتھ۔ پوری تحریر کا ایک ایک لفظ موتی کی طرح چمک دار تو ہوتا ہی تھا، سرخی وہ اس مہارت اور خوش خطی سے لکھتے گویا کسی خطاط نے بڑی مہارت سے جس کی خطاطی کی ہو۔ شروع میں تو ہم ان کی خطاطی اور تحریر کی خوب صورتی کے ہی اسیر ہوئے لیکن رفتہ رفتہ سمجھ میں آیا کہ یوں جما کر لکھی ہوئی تحریر اسی صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والے کا ہوم ورک بھرپور ہو۔ یوں ہم نے یہ سیکھا کہ اگر اس پیشے میں کمال حاصل کرنا ہے اور کچھ نام پیدا کرنا ہے تو اس کی کنجی یہی ہے۔
انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ خواہ عمر کے جس حصے میں بھی ہو، سیکھنے کی حس اس کی ہمیشہ بیدار اور توانا رہے۔ عرفان صدیقی صاحب اس وقت عمر کے جس مرحلے میں بھی ہیں، ہمارے اساتذہ کی صف میں جگہ پاتے ہیں اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے ہم عمروں کے برعکس ان میں سیکھنے کا جذبہ اور صلاحیت آج بھی نوعمروں سے بڑھ کر ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں وہ عمران خان کے عتاب کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہوئے اور وہ عدالتی کشا کش سے گزرے تو ان پر یہ کھلا کہ گو پاکستان کا آئین عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کرتا ہے لیکن ایک مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر آج بھی مدعی بھی ہے اور منصف بھی۔ یہ تجربہ خود ان کی جان پر بیتا۔ وہ اس تلخ تجربے سے گزرے تو ہماری طرح جھیلنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ جب وہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تو اس آئین شکنی کے خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے۔
بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ بڑا انسان وہی ہے جو کسی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد اصلاح احوال پر اس لیے کمربستہ ہو جائے تاکہ مستقبل میں اللہ کے دیگر بندے اس نا انصافی سے محفوظ رہیں۔ اس مرحلے پر ان کی وہی صحافت والی تربیت بروئے کار آئی اور انھوں نے خوب ہوم ورک کے ساتھ سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کا آئینی تصور حقیقت کی صورت اختیار کر سکے۔ عرفان صدیقی صاحب نے یہ کام اتنی محنت اور عرق ریزی سے کیا کہ ایوان بالا میں کوئی بھی حزب اختلاف کی طرف سے پیش کیے جانے والے بل کی مخالفت نہ کر سکا بلکہ میں تو یہ جان کر بھی حیران رہ گیا کہ بل کی منظوری یقینی بنانے کے لیے ان کے کھلے مخالف اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اس میں تعاون کیا۔ قومی اسمبلی نے بھی یہی بل مکمل اتفاق رائے کے ساتھ منظور کر لیا۔ اس کے بعد غضب ہو گیا۔
طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایوان جب کوئی قانون سازی کر لیتے ہیں تو اس کے بعد پارلیمنٹ سیکریٹریٹ اسے سیدھا ایوان صدر کو ارسال کر دیتا ہے تاکہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو جائے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل یہیں سے ایوان صدر ارسال کر دیا گیا جس کی اطلاع عرفان صدیقی صاحب کو بھی باضابطہ طور پر مل گئی۔ آج چودہ مہینے ہوتے ہیں، نہیں معلوم کہ یہ بل کہاں گیا؟ ایوان صدر کہتا ہے کہ یہ بل وہاں نہیں پہنچا جب کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اسے ارسال کر چکا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ بل اب کہاں ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے۔ عرفان صدیقی صاحب بڑے دکھ کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک میں انسان لا پتہ ہواکرتے تھے، اب قانون بھی ہونے لگے۔ عرفان صاحب نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھا ہے کہ یہ بل آپ کے دفتر سے نکلا اور لاپتہ ہو گیا براہ کرم اسے بازیاب کر کے ایوان صدر ارسال کریں تاکہ پراسس مکمل ہو سکے۔ عرفان صدیقی صاحب بل کی بازیابی کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے رہے ہیں، ان کی آواز میں ہر باضمیر پاکستانی کو آواز ملانی چاہئے۔ اس لیے کہ یہ کوئی سیاسی محاذ آرائی کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بحالی اور شہری آزادیوں کی بحالی کا قانون ہے۔ آج ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو کل کلاں ہم عوام میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی تو ہمارے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔
یہ کالم پر https://wenews.pk/ بھی شائع ہو چکا ہے
اسی بارے میں:
ADVERTISEMENT
یہ ہیں ہمارے سینیٹر عرفان صدیقی جو شہری آزادیوں کا پرچم تھامے کھڑے ہیں۔ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر لازم ہے کہ تمام روشن ضمیر جمہوریت پسند ان کا ساتھ دیں اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر دیں۔
دنیا انھیں ادبیات کے استاد کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن ان سطور کے لکھنے والے کا تعارف ذرا مختلف ہے۔ میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزے سے وابستہ ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد عرفان صاحب کی تحریریں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ شہید محمد صلاح الدین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے جونیئرز حتی کہ اپرنٹس کے طور پر کام کرنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے جس سے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ عرفان صاحب کی تحریریں جس زمانے میں آنی شروع ہوئیں، شاید صلاح الدین صاحب سمیت کوئی بھی انھیں نہیں جانتا تھا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ان کی کوئی تحریر پڑھ کر مرحوم نے کہا کہ یہ شخص تو بہت بڑا لکھاڑ ہے۔ گویا یہ تعریف ویسی نہ تھی جیسی ہم لوگوں کی ہوا کرتی تھی بلکہ یہ ایک ایسے شخص کو خراج تحسین تھا جسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی خدمات باقاعدہ حاصل کر لی گئیں اور یوں ہم نو آموز ہونے کے باوجود ان کے ساتھی اور کولیگ ہو گئے۔ اتنی تفصیل بیان کرنے کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا تعلق اس پرچم سے ہے جس کے ذکر سے اس تذکرے کا آغاز ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عرفان صاحب اس زمانے میں ہفت روزے کے لیے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ کیسی کیسی شخصیت کا انھوں نے انٹرویو نہیں کیا اور اسے اپنا گرویدہ نہیں بنایا۔ بلوچستان میں میاں نواز شریف کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک حاجی احمد علی کھوسہ مرحوم گرفتار ہوئے تو میں برادرم یامین عباسی کے ساتھ صحبت پور میں ان کے گھر گیا جہاں مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے انٹرویو کے لیے درخواست کی تو فرمانے لگے کہ بھئی ہم تو عرفان صدیقی صاحب کو انٹرویو دیتے ہیں۔ لوگوں کے دل میں گھر کر لینے والی بات تو اپنی جگہ اہم ہے اور صحافیوں کے لیے اس میں بھی سبق ہے لیکن یہاں مجھے ان کی ایک اور خوبی کا ذکر کرنا ہے۔ ہر ہفتے جب ان کی تحریر موصول ہوتی تو ہم سب شوق سے اسے دیکھا کرتے۔ اس زمانے میں وہ فانٹین پین سے لکھا کرتے تھے یعنی پکی روشنائی کے ساتھ۔ پوری تحریر کا ایک ایک لفظ موتی کی طرح چمک دار تو ہوتا ہی تھا، سرخی وہ اس مہارت اور خوش خطی سے لکھتے گویا کسی خطاط نے بڑی مہارت سے جس کی خطاطی کی ہو۔ شروع میں تو ہم ان کی خطاطی اور تحریر کی خوب صورتی کے ہی اسیر ہوئے لیکن رفتہ رفتہ سمجھ میں آیا کہ یوں جما کر لکھی ہوئی تحریر اسی صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والے کا ہوم ورک بھرپور ہو۔ یوں ہم نے یہ سیکھا کہ اگر اس پیشے میں کمال حاصل کرنا ہے اور کچھ نام پیدا کرنا ہے تو اس کی کنجی یہی ہے۔
انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ خواہ عمر کے جس حصے میں بھی ہو، سیکھنے کی حس اس کی ہمیشہ بیدار اور توانا رہے۔ عرفان صدیقی صاحب اس وقت عمر کے جس مرحلے میں بھی ہیں، ہمارے اساتذہ کی صف میں جگہ پاتے ہیں اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے ہم عمروں کے برعکس ان میں سیکھنے کا جذبہ اور صلاحیت آج بھی نوعمروں سے بڑھ کر ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں وہ عمران خان کے عتاب کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہوئے اور وہ عدالتی کشا کش سے گزرے تو ان پر یہ کھلا کہ گو پاکستان کا آئین عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کرتا ہے لیکن ایک مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر آج بھی مدعی بھی ہے اور منصف بھی۔ یہ تجربہ خود ان کی جان پر بیتا۔ وہ اس تلخ تجربے سے گزرے تو ہماری طرح جھیلنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ جب وہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تو اس آئین شکنی کے خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے۔
بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ بڑا انسان وہی ہے جو کسی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد اصلاح احوال پر اس لیے کمربستہ ہو جائے تاکہ مستقبل میں اللہ کے دیگر بندے اس نا انصافی سے محفوظ رہیں۔ اس مرحلے پر ان کی وہی صحافت والی تربیت بروئے کار آئی اور انھوں نے خوب ہوم ورک کے ساتھ سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کا آئینی تصور حقیقت کی صورت اختیار کر سکے۔ عرفان صدیقی صاحب نے یہ کام اتنی محنت اور عرق ریزی سے کیا کہ ایوان بالا میں کوئی بھی حزب اختلاف کی طرف سے پیش کیے جانے والے بل کی مخالفت نہ کر سکا بلکہ میں تو یہ جان کر بھی حیران رہ گیا کہ بل کی منظوری یقینی بنانے کے لیے ان کے کھلے مخالف اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اس میں تعاون کیا۔ قومی اسمبلی نے بھی یہی بل مکمل اتفاق رائے کے ساتھ منظور کر لیا۔ اس کے بعد غضب ہو گیا۔
طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایوان جب کوئی قانون سازی کر لیتے ہیں تو اس کے بعد پارلیمنٹ سیکریٹریٹ اسے سیدھا ایوان صدر کو ارسال کر دیتا ہے تاکہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو جائے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل یہیں سے ایوان صدر ارسال کر دیا گیا جس کی اطلاع عرفان صدیقی صاحب کو بھی باضابطہ طور پر مل گئی۔ آج چودہ مہینے ہوتے ہیں، نہیں معلوم کہ یہ بل کہاں گیا؟ ایوان صدر کہتا ہے کہ یہ بل وہاں نہیں پہنچا جب کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اسے ارسال کر چکا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ بل اب کہاں ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے۔ عرفان صدیقی صاحب بڑے دکھ کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک میں انسان لا پتہ ہواکرتے تھے، اب قانون بھی ہونے لگے۔ عرفان صاحب نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھا ہے کہ یہ بل آپ کے دفتر سے نکلا اور لاپتہ ہو گیا براہ کرم اسے بازیاب کر کے ایوان صدر ارسال کریں تاکہ پراسس مکمل ہو سکے۔ عرفان صدیقی صاحب بل کی بازیابی کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے رہے ہیں، ان کی آواز میں ہر باضمیر پاکستانی کو آواز ملانی چاہئے۔ اس لیے کہ یہ کوئی سیاسی محاذ آرائی کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بحالی اور شہری آزادیوں کی بحالی کا قانون ہے۔ آج ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو کل کلاں ہم عوام میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی تو ہمارے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔
یہ کالم پر https://wenews.pk/ بھی شائع ہو چکا ہے
اسی بارے میں:
یہ ہیں ہمارے سینیٹر عرفان صدیقی جو شہری آزادیوں کا پرچم تھامے کھڑے ہیں۔ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر لازم ہے کہ تمام روشن ضمیر جمہوریت پسند ان کا ساتھ دیں اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر دیں۔
دنیا انھیں ادبیات کے استاد کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن ان سطور کے لکھنے والے کا تعارف ذرا مختلف ہے۔ میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزے سے وابستہ ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد عرفان صاحب کی تحریریں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ شہید محمد صلاح الدین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے جونیئرز حتی کہ اپرنٹس کے طور پر کام کرنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے جس سے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ عرفان صاحب کی تحریریں جس زمانے میں آنی شروع ہوئیں، شاید صلاح الدین صاحب سمیت کوئی بھی انھیں نہیں جانتا تھا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ان کی کوئی تحریر پڑھ کر مرحوم نے کہا کہ یہ شخص تو بہت بڑا لکھاڑ ہے۔ گویا یہ تعریف ویسی نہ تھی جیسی ہم لوگوں کی ہوا کرتی تھی بلکہ یہ ایک ایسے شخص کو خراج تحسین تھا جسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی خدمات باقاعدہ حاصل کر لی گئیں اور یوں ہم نو آموز ہونے کے باوجود ان کے ساتھی اور کولیگ ہو گئے۔ اتنی تفصیل بیان کرنے کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا تعلق اس پرچم سے ہے جس کے ذکر سے اس تذکرے کا آغاز ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
عرفان صاحب اس زمانے میں ہفت روزے کے لیے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ کیسی کیسی شخصیت کا انھوں نے انٹرویو نہیں کیا اور اسے اپنا گرویدہ نہیں بنایا۔ بلوچستان میں میاں نواز شریف کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک حاجی احمد علی کھوسہ مرحوم گرفتار ہوئے تو میں برادرم یامین عباسی کے ساتھ صحبت پور میں ان کے گھر گیا جہاں مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے انٹرویو کے لیے درخواست کی تو فرمانے لگے کہ بھئی ہم تو عرفان صدیقی صاحب کو انٹرویو دیتے ہیں۔ لوگوں کے دل میں گھر کر لینے والی بات تو اپنی جگہ اہم ہے اور صحافیوں کے لیے اس میں بھی سبق ہے لیکن یہاں مجھے ان کی ایک اور خوبی کا ذکر کرنا ہے۔ ہر ہفتے جب ان کی تحریر موصول ہوتی تو ہم سب شوق سے اسے دیکھا کرتے۔ اس زمانے میں وہ فانٹین پین سے لکھا کرتے تھے یعنی پکی روشنائی کے ساتھ۔ پوری تحریر کا ایک ایک لفظ موتی کی طرح چمک دار تو ہوتا ہی تھا، سرخی وہ اس مہارت اور خوش خطی سے لکھتے گویا کسی خطاط نے بڑی مہارت سے جس کی خطاطی کی ہو۔ شروع میں تو ہم ان کی خطاطی اور تحریر کی خوب صورتی کے ہی اسیر ہوئے لیکن رفتہ رفتہ سمجھ میں آیا کہ یوں جما کر لکھی ہوئی تحریر اسی صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والے کا ہوم ورک بھرپور ہو۔ یوں ہم نے یہ سیکھا کہ اگر اس پیشے میں کمال حاصل کرنا ہے اور کچھ نام پیدا کرنا ہے تو اس کی کنجی یہی ہے۔
انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ خواہ عمر کے جس حصے میں بھی ہو، سیکھنے کی حس اس کی ہمیشہ بیدار اور توانا رہے۔ عرفان صدیقی صاحب اس وقت عمر کے جس مرحلے میں بھی ہیں، ہمارے اساتذہ کی صف میں جگہ پاتے ہیں اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے ہم عمروں کے برعکس ان میں سیکھنے کا جذبہ اور صلاحیت آج بھی نوعمروں سے بڑھ کر ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں وہ عمران خان کے عتاب کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہوئے اور وہ عدالتی کشا کش سے گزرے تو ان پر یہ کھلا کہ گو پاکستان کا آئین عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کرتا ہے لیکن ایک مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر آج بھی مدعی بھی ہے اور منصف بھی۔ یہ تجربہ خود ان کی جان پر بیتا۔ وہ اس تلخ تجربے سے گزرے تو ہماری طرح جھیلنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ جب وہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تو اس آئین شکنی کے خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے۔
بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ بڑا انسان وہی ہے جو کسی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد اصلاح احوال پر اس لیے کمربستہ ہو جائے تاکہ مستقبل میں اللہ کے دیگر بندے اس نا انصافی سے محفوظ رہیں۔ اس مرحلے پر ان کی وہی صحافت والی تربیت بروئے کار آئی اور انھوں نے خوب ہوم ورک کے ساتھ سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کا آئینی تصور حقیقت کی صورت اختیار کر سکے۔ عرفان صدیقی صاحب نے یہ کام اتنی محنت اور عرق ریزی سے کیا کہ ایوان بالا میں کوئی بھی حزب اختلاف کی طرف سے پیش کیے جانے والے بل کی مخالفت نہ کر سکا بلکہ میں تو یہ جان کر بھی حیران رہ گیا کہ بل کی منظوری یقینی بنانے کے لیے ان کے کھلے مخالف اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اس میں تعاون کیا۔ قومی اسمبلی نے بھی یہی بل مکمل اتفاق رائے کے ساتھ منظور کر لیا۔ اس کے بعد غضب ہو گیا۔
طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایوان جب کوئی قانون سازی کر لیتے ہیں تو اس کے بعد پارلیمنٹ سیکریٹریٹ اسے سیدھا ایوان صدر کو ارسال کر دیتا ہے تاکہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو جائے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل یہیں سے ایوان صدر ارسال کر دیا گیا جس کی اطلاع عرفان صدیقی صاحب کو بھی باضابطہ طور پر مل گئی۔ آج چودہ مہینے ہوتے ہیں، نہیں معلوم کہ یہ بل کہاں گیا؟ ایوان صدر کہتا ہے کہ یہ بل وہاں نہیں پہنچا جب کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اسے ارسال کر چکا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ بل اب کہاں ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے۔ عرفان صدیقی صاحب بڑے دکھ کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک میں انسان لا پتہ ہواکرتے تھے، اب قانون بھی ہونے لگے۔ عرفان صاحب نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھا ہے کہ یہ بل آپ کے دفتر سے نکلا اور لاپتہ ہو گیا براہ کرم اسے بازیاب کر کے ایوان صدر ارسال کریں تاکہ پراسس مکمل ہو سکے۔ عرفان صدیقی صاحب بل کی بازیابی کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے رہے ہیں، ان کی آواز میں ہر باضمیر پاکستانی کو آواز ملانی چاہئے۔ اس لیے کہ یہ کوئی سیاسی محاذ آرائی کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بحالی اور شہری آزادیوں کی بحالی کا قانون ہے۔ آج ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو کل کلاں ہم عوام میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی تو ہمارے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔
یہ کالم پر https://wenews.pk/ بھی شائع ہو چکا ہے
اسی بارے میں: