• مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

عرفان صدیقی کا گم شدہ بل

عرفان کا بل قومی اسمبلی نکل کر ایوان صدر پہنچا یا نہیں، اس کی منظوری کی راہ میں کون رکاوٹ ہےِ یہ بل منظور نہ ہوا تو کیا نقصان ہوگا ڈاکٹر فاروق عادل کا جائزہ

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
August 21, 2023
in محشر خیال
0
عرفان صدیقی کا گم شدہ بل
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
یہ ہیں ہمارے سینیٹر عرفان صدیقی جو شہری آزادیوں کا پرچم تھامے کھڑے ہیں۔ تاریخ کے اس اہم مرحلے پر لازم ہے کہ تمام روشن ضمیر جمہوریت پسند ان کا ساتھ دیں اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر دیں۔
دنیا انھیں ادبیات کے استاد کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن ان سطور کے لکھنے والے کا تعارف ذرا مختلف ہے۔ میں اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک ہفت روزے  سے وابستہ ہوا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد عرفان صاحب کی تحریریں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ شہید محمد صلاح الدین کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے جونیئرز حتی کہ اپرنٹس کے طور پر کام کرنے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے جس سے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا۔ عرفان صاحب کی تحریریں جس زمانے میں آنی شروع ہوئیں، شاید صلاح الدین صاحب سمیت کوئی بھی انھیں نہیں جانتا تھا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے کہ ان کی کوئی تحریر پڑھ کر مرحوم نے کہا کہ یہ شخص تو بہت بڑا لکھاڑ ہے۔ گویا یہ تعریف ویسی نہ تھی جیسی ہم لوگوں کی ہوا کرتی تھی بلکہ یہ ایک ایسے شخص کو خراج تحسین تھا جسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی خدمات باقاعدہ حاصل کر لی گئیں اور یوں ہم نو آموز ہونے کے باوجود ان کے ساتھی اور کولیگ ہو گئے۔ اتنی تفصیل بیان کرنے کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا تعلق اس پرچم سے ہے جس کے ذکر سے اس تذکرے کا آغاز ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کہروڑ پکا کی نیلماں، پاکستانی معاشرت و سیاست ہوش ربا کہانی
سانحہ جڑانوالہ : وہ مائیں بانجھ کیوں نہ ہو گئیں؟
مولانا اشرف علی تھانوی نے کانگریس کے بجائے پاکستان کا ساتھ کیوں دیا؟
شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
عرفان صاحب اس زمانے میں ہفت روزے کے لیے انٹرویو کیا کرتے تھے۔ کیسی کیسی شخصیت کا انھوں نے انٹرویو نہیں کیا اور اسے اپنا گرویدہ نہیں بنایا۔ بلوچستان میں میاں نواز شریف کے ابتدائی ساتھیوں میں سے ایک حاجی احمد علی کھوسہ مرحوم گرفتار ہوئے تو میں برادرم یامین عباسی کے ساتھ  صحبت پور میں ان کے گھر گیا جہاں مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے ان سے انٹرویو کے لیے درخواست کی تو فرمانے لگے کہ بھئی ہم تو عرفان صدیقی صاحب کو انٹرویو دیتے ہیں۔ لوگوں کے دل میں گھر کر لینے والی بات تو اپنی جگہ اہم ہے اور صحافیوں کے لیے اس میں بھی سبق ہے لیکن یہاں مجھے ان کی ایک اور خوبی کا ذکر کرنا ہے۔ ہر ہفتے جب ان کی تحریر موصول ہوتی تو ہم سب شوق سے اسے دیکھا کرتے۔ اس زمانے میں وہ فانٹین پین سے لکھا کرتے تھے یعنی پکی روشنائی کے ساتھ۔ پوری تحریر کا ایک ایک لفظ موتی کی طرح چمک دار تو ہوتا ہی تھا، سرخی وہ اس مہارت اور خوش خطی سے لکھتے گویا کسی خطاط نے بڑی مہارت سے جس کی خطاطی کی ہو۔ شروع میں تو ہم ان کی خطاطی اور تحریر کی خوب صورتی کے ہی اسیر ہوئے لیکن رفتہ رفتہ سمجھ میں آیا کہ یوں جما کر لکھی ہوئی تحریر اسی صورت میں ممکن ہے جب لکھنے والے کا ہوم ورک بھرپور ہو۔ یوں ہم نے یہ سیکھا کہ اگر اس پیشے میں کمال حاصل کرنا ہے اور کچھ نام پیدا کرنا ہے تو اس کی کنجی یہی ہے۔
انسان کی خوبی یہی ہے کہ وہ خواہ عمر کے جس حصے میں بھی ہو، سیکھنے کی حس اس کی ہمیشہ بیدار اور توانا رہے۔ عرفان صدیقی صاحب اس وقت عمر کے جس مرحلے میں بھی ہیں، ہمارے اساتذہ کی صف میں جگہ پاتے ہیں اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے ہم عمروں کے برعکس ان میں سیکھنے کا جذبہ اور صلاحیت آج بھی نوعمروں سے بڑھ کر ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں وہ عمران خان کے عتاب کا شکار ہو کر پابند سلاسل ہوئے اور وہ عدالتی کشا کش سے گزرے تو ان پر یہ کھلا کہ گو پاکستان کا آئین عدلیہ اور انتظامیہ کو علیحدہ کرتا ہے لیکن ایک مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر آج بھی مدعی بھی ہے اور منصف بھی۔ یہ تجربہ خود ان کی جان پر بیتا۔ وہ اس تلخ تجربے سے گزرے تو ہماری طرح جھیلنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گئے بلکہ جب وہ ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے تو اس آئین شکنی کے خاتمے پر کمر بستہ ہو گئے۔
بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ بڑا انسان وہی ہے جو کسی تلخ تجربے سے گزرنے کے بعد اصلاح احوال پر اس لیے کمربستہ ہو جائے تاکہ مستقبل میں اللہ کے دیگر بندے اس نا انصافی سے محفوظ رہیں۔ اس مرحلے پر ان کی وہی صحافت والی تربیت بروئے کار آئی اور انھوں نے خوب ہوم ورک کے ساتھ سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تاکہ عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی کا آئینی تصور حقیقت کی صورت اختیار کر سکے۔ عرفان صدیقی صاحب نے یہ کام اتنی محنت اور عرق ریزی سے کیا کہ ایوان بالا میں کوئی بھی حزب اختلاف کی طرف سے پیش کیے جانے والے بل کی مخالفت نہ کر سکا بلکہ میں تو یہ جان کر بھی حیران رہ گیا کہ بل کی منظوری یقینی بنانے کے لیے ان کے کھلے مخالف اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی اس میں تعاون کیا۔ قومی اسمبلی نے بھی یہی بل مکمل اتفاق رائے کے ساتھ منظور کر لیا۔ اس کے بعد غضب ہو گیا۔
طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایوان جب کوئی قانون سازی کر لیتے ہیں تو اس کے بعد پارلیمنٹ سیکریٹریٹ اسے سیدھا ایوان صدر کو ارسال کر دیتا ہے تاکہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو جائے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل یہیں سے ایوان صدر ارسال کر دیا گیا جس کی اطلاع عرفان صدیقی صاحب کو بھی باضابطہ طور پر مل گئی۔ آج چودہ مہینے ہوتے ہیں، نہیں معلوم کہ یہ بل کہاں گیا؟ ایوان صدر کہتا ہے کہ یہ بل وہاں نہیں پہنچا جب کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اسے ارسال کر چکا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ بل اب کہاں ہے۔ کوئی اس سوال کا جواب دینے پر تیار نہیں ہے۔ عرفان صدیقی صاحب بڑے دکھ کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ اس ملک میں انسان لا پتہ ہواکرتے تھے، اب قانون بھی ہونے لگے۔ عرفان صاحب نے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کو لکھا ہے کہ یہ بل آپ کے دفتر سے نکلا اور لاپتہ ہو گیا براہ کرم اسے بازیاب کر کے ایوان صدر ارسال کریں تاکہ پراسس مکمل ہو سکے۔ عرفان صدیقی صاحب بل کی بازیابی کے لیے مسلسل آواز اٹھا رہے رہے ہیں، ان کی آواز میں ہر باضمیر پاکستانی کو آواز ملانی چاہئے۔ اس لیے کہ یہ کوئی سیاسی محاذ آرائی کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بحالی اور شہری آزادیوں کی بحالی کا قانون ہے۔ آج ہم اس ظلم کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو کل کلاں ہم عوام میں سے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی تو ہمارے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔
یہ کالم پر https://wenews.pk/ بھی شائع ہو چکا ہے
اسی بارے میں:
سینیٹر عرفان صدیقی کا بل ایوان صدر میں کیسے غائب ہوا؟
Tags: پاکستانراجا پرویز اشرفسینیٹشیخ رشیدعرفان صدیقیقومی اسمبلیگم شدہ بلمسنگ بل
Previous Post

کہروڑ پکا کی نیلماں، پاکستانی معاشرت و سیاست ہوش ربا کہانی

Next Post

انوار الحق کاکڑ

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
انوار الحق کاکڑ

انوار الحق کاکڑ

محشر خیال

کیا یہ کانٹے نواز شریف کی راہ کے ہیں؟
محشر خیال

کیا یہ کانٹے نواز شریف کی راہ کے ہیں؟

نواز شریف بھٹو پر کیسے بھاری ہیں؟
محشر خیال

نواز شریف بھٹو پر کیسے بھاری ہیں؟

جناب سہیل وڑائچ کی مہا بھارت اور سینیٹر عرفان صدیقی
محشر خیال

جناب سہیل وڑائچ کی مہا بھارت اور سینیٹر عرفان صدیقی

انتخابی منشور محض کاغذ کا ٹکڑا ہے یا آئینی دستاویز؟
محشر خیال

انتخابی منشور محض کاغذ کا ٹکڑا ہے یا آئینی دستاویز؟

تبادلہ خیال

پپو تنگ کیوں نہیں کرتا؟
تبادلہ خیال

پپو تنگ کیوں نہیں کرتا؟

یوم دفاع کیسے منائیں؟
تبادلہ خیال

یوم دفاع منانے کے چھ طریقے

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
تبادلہ خیال

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو
تبادلہ خیال

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • ٹیکنالوجی
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions