کہا جاتا ہے کہ عربی زبان کا سب سے عظیم شاعر عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔زمانہ قبل ازاسلام کے اس شاعر کے بارے میں جو کچھ سن رکھاتھاوہ بے حد دلچسپ اور اس کو مزید جاننے کی خواہش پیداکرنے ولاتھا۔اس کا کلام پڑھنے کی خواہش بھی دل میں چٹکیاں لیتی ہے اور اس کے بارے میں جاننے کا خیال بھی آتارہا ہے ۔ترکی کا سفر اختیارکرتے ہوئے یہ خیال بھی تھا کہ جب بھی موقعہ ملا انقرہ ضرورجاؤں گا اوروہاں اس کی قبر پر پہنچ کر اس شہر میں اس کو محسوس کروں گا۔
آج کل میں استنبول میں ہوں ،خوش قسمتی سے پچھلے ہفتے مجھے انقرہ جانے کا موقع ملا اورمیںنے پہلی فرصت میں اس جگہ جانے کا ارادہ کیا۔ خیال تھاکہ اب تو میں انقرہ میں ہوں جب چاہوں اس کے مقام پر جاسکتاہوں۔ لیکن جب یہ عزم کرکے نکلا تو معلوم ہواکہ یہ اتنا بھی آسان کام نہیں تھا ۔میں اپنے مقام کزلائی سے چلا ۔پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کوئی چالیس منٹ تک سفر کرنے کے بعدایک پہاڑی کے قریب پہنچا ۔گوگل سے مدد لیتارہا ۔ مسجد قیس کے علاقے میں پہنچا ۔وہاں پہنچ کر جستجوکرنے پر معلوم ہواتھا کہ انقرہ میں حضرلک کے نام سے ایک پہاڑی ہے۔ خیال ہے کہ اس پہاڑی پرہی اس عظیم شاعر کی آخری آرام گاہ ہے۔یہ وہی شاعر ہے جس کے بارے میں ایک حدیث بھی روایت کی جاتی ہے جس میں اسے اشعرالشعراءوقائدھم الی النار کہاگیاہے۔
یہ بھی پڑھئے:
دیار شمس اور اس کا مسافر | فاروق عادل
چارشی کے گلی کوچوں میں رقص اسود
میں اس سے پہلے انقرہ یونی ورسٹی جاچکاتھا میں نے حضرلک کے بارے میں جاننے کے لیے انقرہ یونی ورسٹی کے ایک استاد صاحب کو فون کیا اورپھر گوگل کی مدد سے تلاش کرتاہوا حضرلک پہاڑی پر پہنچ گیا لیکن یہاں پہنچ جانے پر بھی کچھ واضح نہ ہواتھا کہ مجھے کس جانب جاناہے ادھرادھر مختلف لوگ اپنی اپنی دلچسپیوں میں گم جاتے دکھائی دیے۔ میں نے چاہاکہ کسی سے اس بارے میں دریافت کیاجائے کہ عام طور سے علاقے کے لوگوں کواپنے علاقے کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلوم ہوتاہی ہے۔چنانچہ بعض لوگوں سے اس بارے میں استفسارکیا۔ ان میں سے اکثرتو بالکل ہی بے خبر تھے بعض لوگوں نے قبرکا سن کر اسی پہاڑی پر موجود ایک قدیم قبرستان کی طرف اشارہ کیاکہ وہاں جاکر ڈھونڈ لو۔ میں بھی آج ارادہ کرکے گیاتھا کہ اس مقام کو دریافت کرکے آﺅں گاچنانچہ ہمت کرکے پہاڑی پر چڑھ گیا اور وہاں موجود قبرستان میں پہنچ گیا ۔یہ ایک قدیم قبرستان تھا جو شاید اب استعمال میں بھی نہیں ہے ۔میں نے وہاں جا کر مختلف قبوردیکھناشروع کیں۔ ایک ایک کرکے قبریں دیکھتا چلاگیا لیکن اس ساری کوشش سے کوئی خاص تسلی نہ ہوئی۔وہاں البتہ ایک بزرگ صورت صاحب دکھائی دیے میں اس امیدکے ساتھ یہ کوئی پرانے آدمی دکھائی دیتے ہیں ان سے شایدکچھ معلوم ہوسکے ان کی جانب بڑھا ۔میںنے جب ان کے پاس جاکر انھیں ترکوں کے طریقے سے سلام کیا تو وہ رکے میں نے ان سے امروءالقیس کی قبرکا دریافت کیاکہ کیا آپ جانتے ہیں اس علاقے میں عربی کا شاعر امرو ءالقیس دفن ہے تووہ میراسوال کر چونک گئے اوربڑی حیرت سے مجھے اوپرسے نیچے تک دیکھنے لگے۔میں ان کے اس طرزِعمل پر حیران ہواکہ آخر وہ مجھے اس طرح تعجب سے کیوں دیکھ رہے ہیں ….؟
انھوں نے اپنی حیرت کا سلسلہ اس سوال سے توڑاکہ” تمھیں اس سے کیا دلچسپی ہے اور تم یہ بات کیسے جانتے ہو کہ وہ یہاں دفن ہے“….میں نے ان سے اپنی دلچسپی کا حال بیان کیا تو انھیں کچھ اطمینان ہوا ۔اس کے بعدانھوں نے ایک اورسوال کیا۔معلوم نہیں کہ وہ سوال میراامتحان لینے کے لیے تھا یا واقعی وہ جاننا چاہتے ۔وہ کہنے لگے اچھایہ بتاﺅ کہ تم اسلام سے پہلے والے امروءالقیس سے دلچسپی رکھتے ہو یا اسلام کے بعد والے امروءالقیس سے ….؟میں سمجھ گیاکہ وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ایک صحابی رسول کانام بھی امروءالقیس ؓ تھا۔ان کا ایک حدیث میں بھی ذکر آیاہے ۔یہ وہی صحابی ہیں جن کا زمین کے کسی معاملے پر حضرت ربیعہ بن عبدان حضرمی سے جھگڑاہوگیاتھالیکن ان کااس شاعر عرب سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ بالکل ایک الگ شخصیت ہیں۔میں نے فوراً کہا :میں اسلام سے پہلے والے والے امروءالقیس کی تلاش میں ہوں ….میرایہ جواب سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور انھوں نے بڑی خوش دلی سے مجھ سے پوچھا کہ بیٹاتم کہاں سے آئے ہو….؟ میںنے اپنے پیارے وطن کانام لیا….پاکستان….پاکستان کانام سنتے ہی ان کے اندر والہانہ پن پیداہوگیااور انھوںنے بے ساختہ مجھے اپنے سینے سے چمٹالیا اور بڑے جذبے سے کہا ….”ہمارابھائی‘….
پھرکہنے لگے تم آﺅ میرے ساتھ اورکہنے لگے کہ میں خودتونہیں جانتا لیکن میں تمھیں ایک ایسی جگہ لے جاسکتاہوں جہاں سے تمھیں اس بارے میں پتا چل جائے گا۔وہ مجھے لے کر چل دیے میں ان کے ساتھ ساتھ چلتارہا،راستے میں ہمارے درمیان گفت و شنیدہوتی رہی ۔وہ مجھے اپنے ساتھ لے کرایک ادارے میں لے گئے ۔یہ ادارہ ہماری ملاقات کے مقام سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔یہ ان کے کسی دوست کا دفترتھا جو Eurasia یعنی یورپ اور ایشیا کی ثقافت پر ریسرچ کے اس ادارے کے سربراہ تھے۔وہاں ان کے عمررسیدہ دوست موجودتھے۔وہ میری دلچسپی کا حال جان کر بہت خوش ہوئے اور انھوںنے مجھے کینو کھلائے ۔مجھے اپنے ساتھ لانے والے بزرگ نے جب انھیں یہ بتایاکہ یہ نوجوان پاکستان سے آیاہے تو وہ بھی یہ سن کر خوش ہوئے،پاکستان کانام سنتے ہی انھوں نے پہلے تو بہادر شاہ ظفرکانام لیااور پھر علامہ اقبال کاجس سے مجھے اندازہ ہواکہ وہ ہماری تاریخ سے ناواقف نہیں ہیںپھر وہ علامہ اقبال کی عظمت کا اعتراف کرتے رہے ۔میںنے جب اپنے مطلوب شاعر کی بابت پوچھاتو مجھے اس بات سے تو خوشی ہوئی کہ وہ امروءالقیس کے بارے میں بھی جانتے تھے لیکن انھوں نے کہا کہ امروءالقیس تو بہت پرانی بات ہے۔ پھرانھوں نے اس موضوع پر ایک طویل گفتگوکی جس کا خلاصہ یہ تھاکہ یہ شاعر انقرہ میں ضروردفن ہوامگراب فراموش ہوچکاہے اور ٹھیک سے کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبرکہاں ہے ۔واقعی ترکی میں بلکہ انقرہ تک میں لوگوں کو معلوم نہیں کہ وہاں امروءالقیس بھی دفن ہے۔نہ ہی لوگوں کو اس شاعر کا علم ہے نہ اس کی قبرکا انھوں نے کہاکہ شاید یونانی دور تک یہ قبرموجودتھی اب اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں….
مجھے قدرے مایوسی ہوئی رات کو واپس جاکر میںنے پاکستان میں اپنے مآخذ یعنی ”دیارشمس“ کے مصنف کو فون کرکے اپنی جستجو سے آگاہ کیا۔ امروءالقیس اور حضر لک کے بارے میں وہی میری معلومات کا ذریعہ تھے ۔انھوںنے اس پر اطمینان کا اظہارنہیں کیا اور کچھ جدید تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب اور ترک اسکالرز محمد سوزائی ترک اور عبدالکریم اردوان کی تحقیقات دیکھنے کی ہدایت کی ۔میں نے یہ تحقیقات دیکھیں تو معلوم ہواکہ انقرہ میں اسی نام کا ایک اورعلاقہ بھی ہے جس میں ایک پہاڑ کی چوٹی پرامروءالقیس کی قبرواقع ہے ۔
اس قبر کی انقرہ میں موجودگی کی وجہ جاننا بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔امروءالقیس اپنا عیش سے بھراشباب بسر کر رہا تھا کہ اس کو خبر ملی کہ اس کے باپ کو بنو اسد کے قبیلے نے قتل کر دیا ہے۔ اپنے والد سے اچھے تعلقات نہ ہونے کے باوجود اس نے یہ خبر سنتے ہی عہد کیا کہ مجھ پر اس وقت تک شراب اور خواتین حرام ہیں جب تک کہ میں بنو اسد کے سوافراد کو اپنے باپ کے انتقام میں قتل نہ کر دوں۔یوں اس نے اپنے باپ کے انتقام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ ہتھیاروں اور جنگجوؤں کی تلاش میں وہ روم تک پہنچ گیا اور بازنطینی حکمران Justinian سے معاہدہ کرکے اس سے ایک فوج حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
امروءالقیس کامیاب روانہ ہوا تو اس کے حاسدوں نے بازنطینی حکمران کے کان بھرے کہ یہ ایسا شخص ہے جو آپ کی بیٹی کا نام لے کر ایسے اشعار کہے گا جو آپ کے لیے رسوائی کا باعث بنیں گے۔بادشاہ جو اس کے ساتھ بڑی اچھی طرح پیش آیاتھا یہ سن کر غضب ناک ہوگیا اور اس نے تحفے کے طور پر امروءالقیس کے لیے ایک پوشاک ارسال کی جو حقیقت میں ایک زہربھرالباس تھاجس کے پہنتے ہی زہرکے اثرات انسان کے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیں اوروہ اس کی تاب نہ لاسکے ۔چنانچہ ایساہی ہوا اور امروءالقیس کو یہ” تحفہ“ملاتو اس نے خوشی خوشی اسے زیب تن کیا لیکن بادشاہ کے منصوبے کے مطابق اسے پہن کر اس کا ساراجسم زخمی ہوگیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا چونکہ وہ ابھی اپنے سفر میں انقرہ کے قریب واقع اس مقام تک پہنچاتھا اس لیے اسے یہیں پر دفن کردیاگیا ۔
اگلے دن پھرمیںنے حضر لک پہاڑHidirlik Tepe) (لکھ کر گوگل میں اس کا محل وقوع تلاش کیا تو پتہ چلاکہ ترکی کی مشہور روحانی شخصیت حاجی بائیرا م (Haci Bayram) کا مزار بھی اسی علاقے میں واقع ہے چنانچہ میں نے کچھ اور سوچے بغیر وہاں حاضری دینے کا فیصلہ کیا۔نقشے کی مددسے محل وقوع دریافت کیا، پبلک ٹرانسپورٹ کی بس میں سوارہوااور،ایک گھنٹے کا سفر کرکے” اولس“ (Ulus)نامی جگہ پر پہنچا۔ وہاں سے میرامطلوبہ پہاڑقدرے دُورواقع تھا۔اس تک پہنچنے کے لیے کوئی گاڑی مددنہیں کرسکتی تھی چنانچہ میں پیدل ہی اس راہ پر گام زن ہوا۔ پہاڑ کی چڑھائی چڑھ کر حاجی بائرام کے مقام تک پہنچا۔ یہ ایک مسجدتھی میں نے وہاں نمازعصر اداکی، حاجی صاحب کے مزارپرحاضری دی۔ اب پہاڑکابالکل ویساہی منظردکھائی دیاجیساکہ میں کوہ عسیب کے بارے میں جان کرآیاتھا۔گویا دوپہاڑ میرے سامنے تھے بلکہ دونوں پہاڑ ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ امروءالقیس کی قبر ان میں سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر تھی۔ میں اس چوٹی تک نہیں جاسکا لیکن میں نے یہ دیکھا کہ دونوں پہاڑوں کی چوٹیاں ایک دوسرے سے اس طرح گفتگو کررہی تھیں کہ مجھے علامہ اقبال کی نظم ”ہمالہ“ کے اشعار یاد آئے :
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہ مہر عالم تاب پر
چوٹیاں تیری ثر یا سے ہیں سرگرم سخن
تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن
***
محمد حذیفہ استنبول مدنیت یونی ورسٹی استنبول، ترکی کے طالب علم اور ممتاز دانش ور ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے صاحب زادے ہیں۔