اجارتنا انا ان المزار قريب و انِّى مقيم ما أقام عسيبُ
أجارتنا انا غريبان ههنا و كل غريب للغريب نسيبُ
“پڑوسن! ملاقات قریب آ پہنچی ہے
اب میں اس وقت تک کے لیے یہیں مقیم رہوں گا
جب تک کوہ عسیب اپنی جگہ پر قائم ہے
پڑوسن! ہم دونوں یہاں غریب الدیار ہیں
اور ہر غریب الدیار کا دوسرے غریب الدیار سے ایک رشتہ ہوتا ہے”
یہ اشعار عربی کے معروف صاحب معلّقہ امرؤالقیس کے ہیں جو اس نے موت کی آغوش میں جاتے ہوئے کہے۔ شعروں میں مذکور “پڑوسن” ایک رومی شہزادی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب امرؤالقیس کو موت کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی تو اس نے اپنےمذکورہ اشعار میں اس غریب الوطن شہزادی کےساتھ دفن ہونے کی تمنا کی۔ عربی شاعری سے دلچسپی رکھنے والے اس بات سے واقف ہیں کہ امرؤالقیس کی قبر کے مقام کے بارے میں اتنا کچھ معلوم نہیں۔ میں بھی اسی تجسس کی پیاس بجھانے کے لیےایک بار پھر انقرہ پہنچ گیا۔
قارئین اس بات سے واقف ہوں گے کہ میں نےدو سال قبل بھی اسی قبر کی جستجو میں انقرہ کا رخ کیا تھا مگر اس مہم میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکاتھا ۔ اس بار پہلے سے کہیں زیادہ جوش اورجذبے کے ساتھ میں انقرہ پہنچا۔انقرہ میں جس کسی سے بھی کوہ عسیب کی سمت جانے کا ذکرہوا، اس نے اس علاقے کے خطرناک ہونے کا تذکرہ کیااور مجھے وہاں جانے کے ارادے سے بازرکھنے کی کوشش کی اوربتایاکہ وہاں جانا خطرے سے خالی نہیں لیکن میرا عزم مصمم تھا اور میں یہ سب کچھ سننے کے باوجود انقرہ میں خضر لک پہاڑی (Hıdırlıktepe) پر واقع امرؤالقیس کی قبر دیکھنے کے ارادے سے بازنہ آیا ۔بعض لوگوں نے یہ بھی بتایاکہ یہاں جرائم پیشہ افراد رہتے ہیں اور اس جگہ حکومت کا بھی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ سب کچھ جاننے کے بعد میں نے تنہاجانے کی بجائے اپنی رفاقت کے لیے ایک ترک دوست کو ساتھ لے لیا۔ یوسف جان مُجور انقرہ یونیورسٹی کا ایک طالب علم ہے جس نے اس خطرناک سفر پرمیرے ساتھ جانے کی ہامی بھری ۔
یہ بھی پڑھئے:
امرو ءالقیس کی تلاش میں | محمد حذیفہ
عمران خان: تھوڑا جیا سیاست نوں دے دیو اسلامی ٹچ
آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ جانے سے پہلے میں نے ایک بار پھر اس موضوع پر تحقیق کی جس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ امرؤالقیس رومن امپراتور کے شہنشاہ یوسطینیانوس Justinian)) کے دربار میں اپنے باپ کے انتقام کے لیے سپاہیوں کی طلب میں حاضر ہوا۔ یوسطینیانوس Justinian)) کے ہاں اس کی شنوائی ہوئی اور دونوکے درمیان اس بات پر اتفاق ہوگیاکہ رومن سپاہیوں کے ساتھ امرؤالقیس اپنے باپ کے قاتل قبیلے (بنو اسد) کو شکست دے گا اور اس کے بدلے میں سلطنت روم کے مفادات کی نگہبانی کرکےخطہ عرب میں اس کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا سبب بنے گا۔ ایک کامیاب معاہدے کے بعد امرؤالقیس رومن امپراتور کے دارالحکومت قسطنطنیہ سے واپس لوٹ رہا تھا کہ شہنشاہ کے درباریوں کے حسد کا شکار ہو گیا۔ درباریوں نے یوسطینیانوس کو یہ پٹی پڑھائی کہ امرؤالقیس کوئی قابل اعتماد شخص نہیں، وہ شہنشاہ کی بیٹی پر عاشق ہو گیا ہے اور عرب لوٹ جانے کے بعدوہ اس سے اپنے تعلق پر شاعری کر کے آپ کو رسوا کرے گا حالانکہ ڈاکٹر خورشیدرضوی صاحب کی تحقیق کے مطابق امرؤالقیس کا یوسطینیانوس کی بیٹی سے ملنا تقریباً نا ممکن تھا۔
شہنشاہ درباریوں کی باتوں میں آ گیا اور امرؤالقیس کو زہر قاتل سے مسموم ایک پوشاک تحفے کے طور پر بھیجی جس کے ساتھ ایک پیغام میں کہا کہ یہ تمہاری عزت افزائی کے لیے ہے اورحصول برکت کے لیے اس کو ملتے ہی پہن لینا، اسی کے ساتھ سفر کرنا اور مجھے مسلسل اپنے حال سے آگاہ کرتے رہنا۔ امرؤالقیس یہ تحفہ اور پیغام پا کر پھولا نہ سمایا اور پوشاک ملتے ہی اسے زیب تن کر لیا۔چونکہ پوشاک مسموم تھی اس لیے اس کے زہر کے جسم میں سرایت کرنے میں کچھ دیر نہ لگی۔ جلد ہی اس کی جلد گل کر گرنے لگی اور اس کو اسی وجہ سے “ذوالقروح” (زخموں والا) کا لقب ملا۔یہی مقام ہے جہاں پر امرؤالقیس نے مذکور بالا اشعار کہے اور ان میں کوہ عسیب پر دفن ہونے کی آرزو ظاہر کی۔ اگرکتاب الاغانی کی اس تردید کو پیش نظر رکھاجائے کہ امرؤالقیس کارومن امپراتور کے شہنشاہ یوسطینیانوس Justinian))کی بیٹی پر عاشق ہونا ممکنات میں نہیں تھا تو پھریہ کوئی اور شہزادی ہوگی جس کی محبت میں مبتلاہوکر اس نے یہ اشعار کہے اور اسی کے ساتھ کوہ عسیب پر دفن ہونے کی خواہش ظاہرکی ۔
زمانہء حاضر میں کوہ عسیب خضرلک پہاڑی کے نام سے جانا جاتا ہے۔شہر کے مرکز اور اہم مقامات سے دور ہونے کے باعث یہ جگہ ویران اور خاصی خطرناک ہو گئی ہے۔ اسی لیے انقرہ میں رہنے والوں نے مجھے وہاں ہر گز اکیلے نہ جانے کی نصیحت کی۔
میں اور یوسف جان مجور انقرہ کے علاقے قزل آئے (Kızılay) پہنچے اور وہاں سے بس نمبر ۵۳۰ میں سوارہوکر اُلُس (Ulus)سے ہوتے ہوئے آلطنداغ (Altındağ) بلدئہ میں واقع Şehit Kaya Aldoğan نامی سڑک کی ابتداپر بس سے اتر گئے۔ سڑک کانام ہی اسٹاپ کا نام بھی تھا۔
اس جگہ سے اوپر کوئی سڑک نہیں جاتی ۔ بس سے اتر کر ہم پورے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی منزل مقصود،یعنی پہاڑ ی کی چوٹی کی طرف گامزن ہوگئے اگرچہ میں نے جانے سے پہلت اپنے طورپر راستے کی پوری تحقیق کرلی تھی لیکن پھربھی اپنی تسلی کے لیے پہاڑ کے اوپر جانے والی ویران پگڈندی کے سامنے کھڑے ایک آدمی سے راستہ دریافت کیا۔ امرؤالقیس کا نام لینے پر وہ شخص مکمل لا علمی کا اظہار کرتا رہا۔ جب میں نے اس سے یہ کہاکہ یہاں پر ایک گمشدہ اور نادیدہ مزار ہےہم وہاں جاناچاہتے ہیں تو وہ چونکااور اس نے فورا ًکہا کہ، “Hıdırlık türbesi mi?” (خضرلک مزار؟) ۔ میں نے قیاس کیا کہ میری منزل مقصود یہی ہو گی اور بے ساختہ ، “جی وہی” کہا۔ اس شخص کا لہجہ بدل گیا اور بہت سختی سے ممانعت کرتے ہوئے کہنے لگا، “آپ کو کیا ضرورت ہے وہاں جانے کی؟اب ہم نے مزار سے پہلے اس شخص کے بارے میں جاننا چاہا تومعلوم ہوا کہ وہ شخص خضرلک علاقے کا مختار (Muhtar)ہے جو کہ داروغے سے ملتا جلتا عہدہ ہے۔
میں نے جب ثابت قدمی اور اوپر جانے کی شدید خواہش کا مظاہرہ کیا تو مختار نے بڑے اطمینان سے کہا، “ضرور جاؤ، اگر تمہارے سر پر کوئی بلا آئی، کسی نے تمہارا جانی، مالی نقصان کیا تو صرف اورصرف تم خود اس کے ذمہ دار ہو گے۔ یہاں سے اوپر والے علاقے میں پولیس بھی جانے کی ہمت نہیں کرتی۔ اوپر بہت خطرناک، غیر قانونی تارکین وطن جرائم پیشہ اور منشیات فروش افراد رہتے ہیں۔” اس نے کہا کہ وہ جگہ یہاں سے ڈرف دس منٹ کی پیدل مسافت پر واقع ہے لیکن تمھاری جان اس تحقیق سے زیادہ قیمتی ہے جس کے لیے تم وہاں جانا چاہتے ہو۔ان لوگوں کے پاس اسلحہ ہے وہ لوگ وہاں جانے والوں کو قتل تک کردیتے ہیں اور مقتول کی لاش کا بھی پتہ نہیں چلتا۔میرے شوق کودیکھتے ہوئے اس نے البتہ اتناکہا کہ وہ خود وہاں گیا ہے اور میں اس قبر کے بارے میں جو جاننا چاہتا ہوں اس سے پوچھ سکتا ہوں۔
اب ایک جانب تو میراوہ شوق تھا جس کے ہاتھوں میں انقرہ اور اب خضر لک پہنچاتھا دوسری طرف خطرہ جان جس کی اس علاقے کا مختار بڑے ہی خطرناک اندازمیں نشان دہی کررہاتھا۔اس نے اپنے گفتگوسے مجھے پریشان ہوتے دیکھاتو کہاکہ اگر تمھیں اس جگہ کے بارے میں ضرور ہی کچھ جاننا ہے تو میں تمھیں ایک ایسے شخص کے بارے میں بتاسکتاہوں جو تمھیں اس جگہ کے بارے میں تفصیل بتاسکتاہے ۔وہ ایک پروفیسر ہے اور اسی علاقے میں رہتاہے ۔اب وہ ہمیں اسی پہاڑ پر واقع اس شخص کے گھر کی سمت جانے والاراستہ بتارہاتھا ۔ یوں معلوم ہوتاتھاکہ اس شخص کو واقعی ہماری جانوں سے ہمدردی ہے ۔چنانچہ ہم اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے ۔
پہاڑ کی دشوار گزار اونچ نیچ سے گزرتے ہوئے یکایک خوف ناک آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔یہ آوازیں اتنی خوف ناک تھیں کہ ہم سہم گئے۔کچھ ہی دیر میں کیادیکھاکہ پندرہ سولہ خوفناک کتے ایک بہت بڑے جانور کوگھسیٹتے ہوئے ہماری جانب آرہے ہیں ۔کتوں کی دل ہلادینے والی مشترکہ آوازیں اور یہ ہولناک منظر دیکھ کر میرا ساتھی تو اپنا حوصلہ برقرارنہ رکھ سکا۔ اس نے آو دیکھا نہ تاو اور الٹے قدموں پہاڑ کی اونچائی کی سمت بھاگ نکلا۔ اب اس خوفناک منظر میں میں اکیلاتھا۔ میں نے بہ فضل خدااپنے حواس قائم رکھے اور واپس اس جانب چل دیا جدھر سے ہم آئے تھے ۔ بھاگ کر جانے کے باعث میراساتھی مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکاتھا جہاں سے ہم اس خوف ناک منظر کی جانب روانہ ہوئے تھے اور جہاں ہماری ملاقات علاقے کے مختار سے ہوئی تھی ۔
وہ مجھ سے پہلے پہنچ کر مختار کو یہ بتارہاتھاکہ میں نے اس موضوع پر تحقیق کا ارادہ ترک کردیاہے اور اب میں یونی ورسٹی سے منظوری لے کرکسی اور موضوع پر تحقیق کروں گا ۔یہ سب قصہ اس کا من گھڑت تھا ۔میری تحقیق کا تعلق کسی یونی ورسٹی یا ادارے سے نہیں تھا کہ میں اپنا موضوع تبدیل کرتااور اس کے لیے مجھے کسی کی منظوری کی ضرورت پیش آتی ۔میں تو عربی ادب سے شغف کے باعث ترکی اور انقرہ میں اس اشعرا لشعرا کانشان ڈھونڈنے یہاں آیاتھا۔ میں جب واپس پہنچاتو اسی مقام پرمیری بھی ”مختار”سے دوبارہ ملاقات ہوئی ۔ اس نے واپسی کا سبب پوچھاتواسے صورت حال سے آگاہ کیا۔ جس پر اس نے میرے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے کہاکہ ایک بار جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر گیاتھا اور اس نے وہ ستون دیکھاتھا جو قبرکو مٹانے کے بعد وہاں باقی بچ رہاہے تو اس نے اس ستون کی تصویر بھی بنائی تھی۔ تمھارے شوق کی خاطر میں تمھیں وہ تصویردے سکتاہوں ۔ چنانچہ اس نے اپنی یادوں کے ذخیرے سے نکال کر وہ تصویرمجھے دی ۔یہ تصویر مل جانے سے اس افسوس کی کچھ تلافی ہوئی جو اس چوٹی کے بالکل قریب پہنچ کر جب منزل تک محض پانچ دس منٹ پیدل کی مسافت رہ گئی تھی ہورہاتھا ۔
مختارنے صرف قبرکی آخری نشانی ہی نہیں دکھائی بلکہ ان پروفیسر صاحب کا فون نمبر بھی عنایت کیا جن سے کوشش کے باوجود ہم نہیں مل سکے تھے ۔ اس خوف ناک سفر سے واپسی پر ابھی ہم راستے ہی میں تھے کہ میں نے ان پروفیسر صاحب کو فون کیا اگرچہ ان کا ردعمل بہت حوصلہ افزانہیں تھا تاہم ان سے گفتگوکرکے بعض باتیں ضرور معلوم ہوئی ں مثلاً یہ کہ ان کے مطابق وہاں پر سلطنت روم کے زمانے میں امرؤالقیس کی قبر موجود تھی اور اس علاقے کے بزرگ اور پڑھے لکھے سکان کے مطابق امرؤالقیس ایک رومی افسر تھا، عثمانی دور میں قبر کو دیکھ کر سمجھا گیا کہ وہ کسی ولی اللہ کی قبر ہے اور اس لیے اس پر ایک مزار بنا دیا گیا۔
کافی عرصہ وہ مزار ایک زیارت گاہ کے طور پر قائم رہا ۔اس مزارکی قدیم تصاویر بھی موجود ہیں۔ انقرہ کے قدیم تاریخی تصاویرمیں پہاڑ کی چوٹی پر یہ مزار واضح نظر آتا ہے۔ تاہم امرؤالقیس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہونے کی بنا پر اس مزار سے لوگوں کی توجہ ہٹ گئی اور رفتہ رفتہ یہ مزار خستہ حالی کا شکار ہوتا چلا گیا۔یہاں تک کہ اب صرف اس کے آثار میں سے بڑے بڑے پتھر موجود ہیں۔
ایک روایت کے مطابق، رومی دور میں امرؤالقیس کی قبر پر اس کا ایک مجسمہ بھی نصب کیا گیاتھا جو عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دور تک موجود تھا اور مامون نے اسے خود دیکھا۔ آج کے زمانے میں اس مزار کی باقیات میں سے پتھروں کے علاوہ قبر کی ایک بہت اہم نشانی موجود ہے۔یہ ایک مدور ستون ہے ہمیں اوپر جانے سے باز رکھنے والے شخص نے جو تصویر دکھائی اس میں یہ ستون واضح دیکھاجاسکتاہے ۔
تصویر میں موجود ستون میری رائے میں امرؤالقیس کی قبرپر قیصر روم کی طرف سے نصب کروائے جانے والے مجسمے کا پیڈسٹل ہے جو کہ عین اس کی قبر پرنصب کیاگیا تھا۔اس ساری تحقیق کے بعد جو کچھ مقامی روایات سے معلوم ہوااس کے مطابق امرؤالقیس یہاں پر رومی حکومت کی طرف سے تعینات ہوا تھا اور یہیں مقیم تھا۔ اس دوران اس کو ایک شہزادی سے پیار ہو گیا جو کسی وبائی بیماری میں مبتلا ہو کراپنی جان کھو بیٹھی۔ امرؤالقیس بھی اسی بیماری میں مبتلا ہو کر موت کے قریب پہنچا تو اس نے اس شہزادی کے ساتھ دفن ہونے کی تمنا کی۔ پہاڑ کا نام امرؤالقیس کی شاعری میں اور پرانی روایات میں ‘کوہ عسیب’ ہے۔ ‘خضرلک’ نام اس علاقے میں ترکوں کے آباد ہونے کے بعدکا معلوم ہوتا ہے۔ مقامی روایات کے مطابق اس علاقے میں کئی بارلوگوں نے حضرت خضر کو دیکھنے کا دعویٰ کیا جس کے باعث اس کا پرانا نام رفتہ رفتہ بھلا دیا گیا اور خضرلک یعنی ”خضر والا”نام غالب آ گیا۔
اختتام پر امرؤالقیس کے رجز کے مصرعے حاضر خدمت ہیں جن میں انقرہ کانام بھی آیاہے اور جنھیں اس کے آخری کلمات بھی سمجھاجاسکتاہے۔ان مصرعوں اور آغازمیں درج اشعارکی نشان دہی ڈاکٹر خورشیدرضوی صاحب نے فرمائی ہے اور ان کے تراجم بھی انھی کے قلم سے ہیں۔جن کے لیے ناچیز مضمون نگار ڈاکٹرصاحب کا شکرگزارہے۔
وطعنة مستنفره وجفنة مثعنجره
تبقى غدا بأنقره
“نیزے کے کتنے ہی بھرپور وار
اور کتنے ہی لبریز پیالے
کل انقرہ میں دھرے رہ جائیں گے”