Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
وہ آپ کو اتا ترک ایئرپورٹ یادہے؟ ڈاکٹر خلیل طوقار نے پوچھا۔ ابھی دو برس ہی تو ہوتے ہیں جب وہ یہاں ہوتے تھے، یوں لگتا تھا جیسے جدی پشتی لاہورئیے ہیں۔ بس،اسی میل جول میں کچھ ایسی کیمسٹری وجود میں آئی کہ ہر دوسرے تیسرے ایک دوسرے کی خیریت معلوم نہ کر لیں تو چین نہیں آتا جب سے کورونا نے دھاوا بولا ہے، اس معمول کی باقاعدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ رات دیر تک کام کرنے کے عادی ہیں اور یہاں موجود ان کے اس دعا گو کی عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دونوں میں سے کوئی ایک لکھنا پڑھنا معطل کر کے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتا ہے پھر مطمئن ہو کر کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ رابطہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ چھوٹتے ہی انھوں نے ائیر پورٹ کے بارے میں سوال کیا اور میرے ذہن میں فلم چل پڑی۔
اس ایئر پورٹ کا وہ کون سا گوشہ ہے جس کی تصویر ان آنکھوں میں محفوظ نہیں۔ وہ منظر میری آنکھوں میں آج بھی تازہ ہے،صبح کی نرم دھوپ اور جہاز کی کھڑکی، شہر فریم میں جڑی تصویر کی طرح آنکھوں میں سماتا چلا جاتا تھا۔ پائلٹ نے آبنائے باسفورس کے سبز پانیوں پر دو چکر لگائے اور لینڈنگ گیئر دبا دیا۔ یہ جب سفر شروع ہوا تو رات بھیگ چکی تھی۔ پرواز میں قدرے تاخیر تھی اور احتیاط نے مسافروں کو وقت سے بہت پہلے ایئرپورٹ پر لا بٹھایا تھا۔ مسافر دو طرح کے ہوتے ہیں، ذرا سی مہلت ملنے پر نشستوں میں مڑ تڑ کر نیند کی وادی میں اتر جانے والے یا جوگر چڑھا کر ایئرپورٹ کے گوشے گوشے میں پھرکی کی طرح گھوم جانے والے۔ مسافر اور ہم سفروں کا شمار دوسری قسم میں ہوتا تھا۔ آستانہ کا نور سلطان نذر بائیف ائیرپورٹ گرچہ اتنا مصروف نہیں رہتا، اس کے کچھ حصوں میں اصراف سے بچنے کے لیے روشنی بھی نسبتاً کم رکھی جاتی ہے لیکن دنیا کے بڑے ائیرپورٹس کی طرح اس کی لمبائی چوڑائی بھی اتنی ہے کہ چلتے چلتے دو بار تو بھوک لگ ہی جائے۔ اسی مٹر گشت کی برکت تھی کہ رات کا کھایا ہوا کھانا دیر ہوئی اپنی عمر پوری کر چکا تھا۔ اب ہم اتا ترک ایئرپورٹ پر تھے لیکن خوف تھا کہ میلوں کا سفر طے کر کے شہر میں کسی ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے کہیں دوپہر ہو گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟
اسی شش و پنج میں ایک نئی صورت حال سے واسطہ پڑا۔ مسافر سامان اٹھاتے اور مسکراہٹ بکھیرتی ہوئی ایئر ہوسٹس سے دعائیں لے کر ٹنل کا رخ کرتے، ہمیں حکم دیا گیا کہ سیڑھی سے نیچے اتریں اور کھڑے ہو جائیں۔ مرتے کیا نہ کرتے کھڑے ہو گئے، اتنے میں سرخ رنگ میں رنگی ہوئی ایک کوچ آ ن پہنچی، اس سے برآمد ہونے والے خوش خصال نے مسافروں کو سمیٹا اور انھیں ایک آراستہ و پیراستہ بلڈنگ میں لا پہنچایا، معلوم ہوا کہ یہ خاص الخاص لوگوں کا لاؤنج ہے۔ حکم ہوا کہ اگلے حکم تک آپ یہیں ہیں، ناشتہ غتر بود ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ سامان اس خوش خصال نے اپنی تحویل میں رکھا اور ہلکے پھلکے ہو کر بازو جھلاتے ہوئے ہم لوگ عمارت میں داخل ہوگئے۔ اس راہبر نے رومال سے کبوتر نکالنے والے مداری کی طرح دائیں بائیں دو دروازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کاردش(برادر)! جہاں جی چاہے، بیٹھئے اور حظ اٹھائیے۔ گویا ناشتہ گول، مسافروں کے خدشات نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔ یہاں سمت(Simit) بھی ہے، اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ۔ یہ بات کسی نے سنی، کسی نے نہیں سنی اور آگے بڑھ گئے۔ سامنے ایک فریم میں بیٹھے اتاترک مسکرا رہے تھے، ان کے دائیں بائیں وہ سرخ پرچم جس کے عین وسط میں ہمارے پرچم کی طرح ستارہ و ہلال ضو فشاں ہے۔ فضل ان پرچموں کے عین بیچ جا کھڑے ہوئے اور کہا کہ سر یہاں ایک کلک نہ ہو جائے؟ تصویر سے فارغ ہوئے تو بیٹھنے کے لیے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی، جگہ بہت تھی لیکن اس جگہ سے پہلے نگاہیں ہال کی آخری دیوار سے ٹکرائیں جہاں پیتل کا چمکتا ہوا سماوار بہار دکھا رہا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ سرت اور بہت کچھ سے کیا مراد تھی۔
سرت آٹے کا بنا ہوا سیاہی مائل ایک کوکلا سا ہوتا ہے جس پر تل جیسے اسی رنگت کے کوئی بیج سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس مسافر خانے میں جسے دیکھا، اسی کوکلے سے لطف اندوز ہوتے پایا۔ ترک بڑی بے تکلفی کے ساتھ دانتوں میں دبا کر اسے توڑتے ہیں اور چائے کے کے گھونٹ کے ساتھ اسے نگل لیتے ہیں۔ ترک چائے کی بھی ایک ہی رہی۔ چائے کا بنانا ہمارے ہماں بھی سگھڑاپے کی ایک بڑی علامت ہے، لڑکیوں کے رشتوں میں اس کا کردار کلیدی ہے لیکن اس چائے کا نخرا ہماری چائے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ چائے دو منزلہ چینک میں بنتی ہے۔ چینک کا نچلا حصہ بڑا اور اوپر کا چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹی خالی چینک میں ترک پتی ڈال کر اسے بڑی چینک کے کھانچے میں فٹ کر دیا جاتا ہے جس میں ابلتا ہوا پانی پتی میں کچھ کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، اس کے بعد نچلی چینک سے پانی لے کر اوپر کی چھوٹی چینک کو بھر کر دوبارہ اسی جگہ جما دیا جاتا ہے، نچلے پانی کی بھاپ سے جب اوپر کا پانی پکتا ہے تو چائے کی پتی از خود نیچے بیٹھ جاتی ہے، لیجیے چائے تیار ہے۔ اس روز مسافروں نے سمت اور نسبتاً کسیلی ترک چائے کا جو ناشتہ کیا، اس کی یاد آج بھی خوشبو دیتی ہے۔ ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، بات پہنچی تری جوانی تک۔ برادر محترم خلیل طوقار نے اتا ترک ایئرپورٹ کا ذکر کیا تو یہ پیار بھری یاد اس طرح تازہ ہو گئی جیسے نوعمری کا پیار آخری عمر میں بھی دل میں ہلکورے لیا کرتا ہے۔
خلیل طوقار اصل میں بتا یہ رہے تھے کہ ان کی حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے۔بس ،یہیں سے بات ائیرپورٹ کی طرف مڑ گئی۔استنبول میں اب ایک نیا ایئر پورٹ بن چکا ہے اور وہ میلوں لمبا چوڑا ائیرپورٹ جس میں ہم کبھی مزے سے ناشتے کیا کرتے تھے، ان دنوں ایک بہت بڑے اسپتال کمپلیکس میں بدل چکا ہے جہاں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہ اسپتال ایک ہفتے کی مختصر مدت میں مکمل طور پر فعال کیا گیا ۔ ترکوں کے ہاں لاک ڈاؤن کی نوعیت بھی دیگر ملکوں کے مقابلے میں مختلف تھی۔ وبا پھیلی تو اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی مقبول ہواکہ یہ بیماری نوجوانوں کو کچھ نہیں کہتی۔ اصل میں بات یہ نکلی تھی کہ پاکستان میں ان دنوں بہت سے نوجوان وبا کی لپیٹ میں آئے اور دنیا سے گئے۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ ترکی میں تو لاک ڈاؤن ہی سب سے پہلے نوجوانوں کے لیے کیا گیا۔ ایک سے اٹھارہ سال کے بچوں کا گھر سے نکلنا بالکل ممنوع کر دیا گیا ۔ تصور یہ تھا کہ یہ لوگ غیر محتاط ہوتے ہیں، اپنا خیال رکھتے ہیں نہ کسی دوسرے کا، اس لیے سب سے زیادہ پابندی کا نشانہ بھی وہی بنے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس دیس میں وبا اب دم توڑ رہی ہے، لہٰذا لاک ڈاؤن بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے، اس عمر کے بچے اب والدین کے ساتھ گھروں سے نکل سکتے ہیں۔اس احتیاط کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعدادبہت کم رہی ہے اور نوجوان تو مکمل طور پر محفوظ رہے ہیں۔ میں نے یہ سب سنا اور سوچا کہ کاش! کچھ ایسا ہی اہتمام ہم لوگوں نے بھی کیا ہوتا۔
وہ آپ کو اتا ترک ایئرپورٹ یادہے؟ ڈاکٹر خلیل طوقار نے پوچھا۔ ابھی دو برس ہی تو ہوتے ہیں جب وہ یہاں ہوتے تھے، یوں لگتا تھا جیسے جدی پشتی لاہورئیے ہیں۔ بس،اسی میل جول میں کچھ ایسی کیمسٹری وجود میں آئی کہ ہر دوسرے تیسرے ایک دوسرے کی خیریت معلوم نہ کر لیں تو چین نہیں آتا جب سے کورونا نے دھاوا بولا ہے، اس معمول کی باقاعدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ رات دیر تک کام کرنے کے عادی ہیں اور یہاں موجود ان کے اس دعا گو کی عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دونوں میں سے کوئی ایک لکھنا پڑھنا معطل کر کے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتا ہے پھر مطمئن ہو کر کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ رابطہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ چھوٹتے ہی انھوں نے ائیر پورٹ کے بارے میں سوال کیا اور میرے ذہن میں فلم چل پڑی۔
اس ایئر پورٹ کا وہ کون سا گوشہ ہے جس کی تصویر ان آنکھوں میں محفوظ نہیں۔ وہ منظر میری آنکھوں میں آج بھی تازہ ہے،صبح کی نرم دھوپ اور جہاز کی کھڑکی، شہر فریم میں جڑی تصویر کی طرح آنکھوں میں سماتا چلا جاتا تھا۔ پائلٹ نے آبنائے باسفورس کے سبز پانیوں پر دو چکر لگائے اور لینڈنگ گیئر دبا دیا۔ یہ جب سفر شروع ہوا تو رات بھیگ چکی تھی۔ پرواز میں قدرے تاخیر تھی اور احتیاط نے مسافروں کو وقت سے بہت پہلے ایئرپورٹ پر لا بٹھایا تھا۔ مسافر دو طرح کے ہوتے ہیں، ذرا سی مہلت ملنے پر نشستوں میں مڑ تڑ کر نیند کی وادی میں اتر جانے والے یا جوگر چڑھا کر ایئرپورٹ کے گوشے گوشے میں پھرکی کی طرح گھوم جانے والے۔ مسافر اور ہم سفروں کا شمار دوسری قسم میں ہوتا تھا۔ آستانہ کا نور سلطان نذر بائیف ائیرپورٹ گرچہ اتنا مصروف نہیں رہتا، اس کے کچھ حصوں میں اصراف سے بچنے کے لیے روشنی بھی نسبتاً کم رکھی جاتی ہے لیکن دنیا کے بڑے ائیرپورٹس کی طرح اس کی لمبائی چوڑائی بھی اتنی ہے کہ چلتے چلتے دو بار تو بھوک لگ ہی جائے۔ اسی مٹر گشت کی برکت تھی کہ رات کا کھایا ہوا کھانا دیر ہوئی اپنی عمر پوری کر چکا تھا۔ اب ہم اتا ترک ایئرپورٹ پر تھے لیکن خوف تھا کہ میلوں کا سفر طے کر کے شہر میں کسی ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے کہیں دوپہر ہو گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟
اسی شش و پنج میں ایک نئی صورت حال سے واسطہ پڑا۔ مسافر سامان اٹھاتے اور مسکراہٹ بکھیرتی ہوئی ایئر ہوسٹس سے دعائیں لے کر ٹنل کا رخ کرتے، ہمیں حکم دیا گیا کہ سیڑھی سے نیچے اتریں اور کھڑے ہو جائیں۔ مرتے کیا نہ کرتے کھڑے ہو گئے، اتنے میں سرخ رنگ میں رنگی ہوئی ایک کوچ آ ن پہنچی، اس سے برآمد ہونے والے خوش خصال نے مسافروں کو سمیٹا اور انھیں ایک آراستہ و پیراستہ بلڈنگ میں لا پہنچایا، معلوم ہوا کہ یہ خاص الخاص لوگوں کا لاؤنج ہے۔ حکم ہوا کہ اگلے حکم تک آپ یہیں ہیں، ناشتہ غتر بود ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ سامان اس خوش خصال نے اپنی تحویل میں رکھا اور ہلکے پھلکے ہو کر بازو جھلاتے ہوئے ہم لوگ عمارت میں داخل ہوگئے۔ اس راہبر نے رومال سے کبوتر نکالنے والے مداری کی طرح دائیں بائیں دو دروازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کاردش(برادر)! جہاں جی چاہے، بیٹھئے اور حظ اٹھائیے۔ گویا ناشتہ گول، مسافروں کے خدشات نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔ یہاں سمت(Simit) بھی ہے، اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ۔ یہ بات کسی نے سنی، کسی نے نہیں سنی اور آگے بڑھ گئے۔ سامنے ایک فریم میں بیٹھے اتاترک مسکرا رہے تھے، ان کے دائیں بائیں وہ سرخ پرچم جس کے عین وسط میں ہمارے پرچم کی طرح ستارہ و ہلال ضو فشاں ہے۔ فضل ان پرچموں کے عین بیچ جا کھڑے ہوئے اور کہا کہ سر یہاں ایک کلک نہ ہو جائے؟ تصویر سے فارغ ہوئے تو بیٹھنے کے لیے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی، جگہ بہت تھی لیکن اس جگہ سے پہلے نگاہیں ہال کی آخری دیوار سے ٹکرائیں جہاں پیتل کا چمکتا ہوا سماوار بہار دکھا رہا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ سرت اور بہت کچھ سے کیا مراد تھی۔
سرت آٹے کا بنا ہوا سیاہی مائل ایک کوکلا سا ہوتا ہے جس پر تل جیسے اسی رنگت کے کوئی بیج سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس مسافر خانے میں جسے دیکھا، اسی کوکلے سے لطف اندوز ہوتے پایا۔ ترک بڑی بے تکلفی کے ساتھ دانتوں میں دبا کر اسے توڑتے ہیں اور چائے کے کے گھونٹ کے ساتھ اسے نگل لیتے ہیں۔ ترک چائے کی بھی ایک ہی رہی۔ چائے کا بنانا ہمارے ہماں بھی سگھڑاپے کی ایک بڑی علامت ہے، لڑکیوں کے رشتوں میں اس کا کردار کلیدی ہے لیکن اس چائے کا نخرا ہماری چائے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ چائے دو منزلہ چینک میں بنتی ہے۔ چینک کا نچلا حصہ بڑا اور اوپر کا چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹی خالی چینک میں ترک پتی ڈال کر اسے بڑی چینک کے کھانچے میں فٹ کر دیا جاتا ہے جس میں ابلتا ہوا پانی پتی میں کچھ کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، اس کے بعد نچلی چینک سے پانی لے کر اوپر کی چھوٹی چینک کو بھر کر دوبارہ اسی جگہ جما دیا جاتا ہے، نچلے پانی کی بھاپ سے جب اوپر کا پانی پکتا ہے تو چائے کی پتی از خود نیچے بیٹھ جاتی ہے، لیجیے چائے تیار ہے۔ اس روز مسافروں نے سمت اور نسبتاً کسیلی ترک چائے کا جو ناشتہ کیا، اس کی یاد آج بھی خوشبو دیتی ہے۔ ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، بات پہنچی تری جوانی تک۔ برادر محترم خلیل طوقار نے اتا ترک ایئرپورٹ کا ذکر کیا تو یہ پیار بھری یاد اس طرح تازہ ہو گئی جیسے نوعمری کا پیار آخری عمر میں بھی دل میں ہلکورے لیا کرتا ہے۔
خلیل طوقار اصل میں بتا یہ رہے تھے کہ ان کی حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے۔بس ،یہیں سے بات ائیرپورٹ کی طرف مڑ گئی۔استنبول میں اب ایک نیا ایئر پورٹ بن چکا ہے اور وہ میلوں لمبا چوڑا ائیرپورٹ جس میں ہم کبھی مزے سے ناشتے کیا کرتے تھے، ان دنوں ایک بہت بڑے اسپتال کمپلیکس میں بدل چکا ہے جہاں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہ اسپتال ایک ہفتے کی مختصر مدت میں مکمل طور پر فعال کیا گیا ۔ ترکوں کے ہاں لاک ڈاؤن کی نوعیت بھی دیگر ملکوں کے مقابلے میں مختلف تھی۔ وبا پھیلی تو اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی مقبول ہواکہ یہ بیماری نوجوانوں کو کچھ نہیں کہتی۔ اصل میں بات یہ نکلی تھی کہ پاکستان میں ان دنوں بہت سے نوجوان وبا کی لپیٹ میں آئے اور دنیا سے گئے۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ ترکی میں تو لاک ڈاؤن ہی سب سے پہلے نوجوانوں کے لیے کیا گیا۔ ایک سے اٹھارہ سال کے بچوں کا گھر سے نکلنا بالکل ممنوع کر دیا گیا ۔ تصور یہ تھا کہ یہ لوگ غیر محتاط ہوتے ہیں، اپنا خیال رکھتے ہیں نہ کسی دوسرے کا، اس لیے سب سے زیادہ پابندی کا نشانہ بھی وہی بنے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس دیس میں وبا اب دم توڑ رہی ہے، لہٰذا لاک ڈاؤن بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے، اس عمر کے بچے اب والدین کے ساتھ گھروں سے نکل سکتے ہیں۔اس احتیاط کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعدادبہت کم رہی ہے اور نوجوان تو مکمل طور پر محفوظ رہے ہیں۔ میں نے یہ سب سنا اور سوچا کہ کاش! کچھ ایسا ہی اہتمام ہم لوگوں نے بھی کیا ہوتا۔
وہ آپ کو اتا ترک ایئرپورٹ یادہے؟ ڈاکٹر خلیل طوقار نے پوچھا۔ ابھی دو برس ہی تو ہوتے ہیں جب وہ یہاں ہوتے تھے، یوں لگتا تھا جیسے جدی پشتی لاہورئیے ہیں۔ بس،اسی میل جول میں کچھ ایسی کیمسٹری وجود میں آئی کہ ہر دوسرے تیسرے ایک دوسرے کی خیریت معلوم نہ کر لیں تو چین نہیں آتا جب سے کورونا نے دھاوا بولا ہے، اس معمول کی باقاعدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ رات دیر تک کام کرنے کے عادی ہیں اور یہاں موجود ان کے اس دعا گو کی عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دونوں میں سے کوئی ایک لکھنا پڑھنا معطل کر کے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتا ہے پھر مطمئن ہو کر کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ رابطہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ چھوٹتے ہی انھوں نے ائیر پورٹ کے بارے میں سوال کیا اور میرے ذہن میں فلم چل پڑی۔
اس ایئر پورٹ کا وہ کون سا گوشہ ہے جس کی تصویر ان آنکھوں میں محفوظ نہیں۔ وہ منظر میری آنکھوں میں آج بھی تازہ ہے،صبح کی نرم دھوپ اور جہاز کی کھڑکی، شہر فریم میں جڑی تصویر کی طرح آنکھوں میں سماتا چلا جاتا تھا۔ پائلٹ نے آبنائے باسفورس کے سبز پانیوں پر دو چکر لگائے اور لینڈنگ گیئر دبا دیا۔ یہ جب سفر شروع ہوا تو رات بھیگ چکی تھی۔ پرواز میں قدرے تاخیر تھی اور احتیاط نے مسافروں کو وقت سے بہت پہلے ایئرپورٹ پر لا بٹھایا تھا۔ مسافر دو طرح کے ہوتے ہیں، ذرا سی مہلت ملنے پر نشستوں میں مڑ تڑ کر نیند کی وادی میں اتر جانے والے یا جوگر چڑھا کر ایئرپورٹ کے گوشے گوشے میں پھرکی کی طرح گھوم جانے والے۔ مسافر اور ہم سفروں کا شمار دوسری قسم میں ہوتا تھا۔ آستانہ کا نور سلطان نذر بائیف ائیرپورٹ گرچہ اتنا مصروف نہیں رہتا، اس کے کچھ حصوں میں اصراف سے بچنے کے لیے روشنی بھی نسبتاً کم رکھی جاتی ہے لیکن دنیا کے بڑے ائیرپورٹس کی طرح اس کی لمبائی چوڑائی بھی اتنی ہے کہ چلتے چلتے دو بار تو بھوک لگ ہی جائے۔ اسی مٹر گشت کی برکت تھی کہ رات کا کھایا ہوا کھانا دیر ہوئی اپنی عمر پوری کر چکا تھا۔ اب ہم اتا ترک ایئرپورٹ پر تھے لیکن خوف تھا کہ میلوں کا سفر طے کر کے شہر میں کسی ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے کہیں دوپہر ہو گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟
اسی شش و پنج میں ایک نئی صورت حال سے واسطہ پڑا۔ مسافر سامان اٹھاتے اور مسکراہٹ بکھیرتی ہوئی ایئر ہوسٹس سے دعائیں لے کر ٹنل کا رخ کرتے، ہمیں حکم دیا گیا کہ سیڑھی سے نیچے اتریں اور کھڑے ہو جائیں۔ مرتے کیا نہ کرتے کھڑے ہو گئے، اتنے میں سرخ رنگ میں رنگی ہوئی ایک کوچ آ ن پہنچی، اس سے برآمد ہونے والے خوش خصال نے مسافروں کو سمیٹا اور انھیں ایک آراستہ و پیراستہ بلڈنگ میں لا پہنچایا، معلوم ہوا کہ یہ خاص الخاص لوگوں کا لاؤنج ہے۔ حکم ہوا کہ اگلے حکم تک آپ یہیں ہیں، ناشتہ غتر بود ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ سامان اس خوش خصال نے اپنی تحویل میں رکھا اور ہلکے پھلکے ہو کر بازو جھلاتے ہوئے ہم لوگ عمارت میں داخل ہوگئے۔ اس راہبر نے رومال سے کبوتر نکالنے والے مداری کی طرح دائیں بائیں دو دروازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کاردش(برادر)! جہاں جی چاہے، بیٹھئے اور حظ اٹھائیے۔ گویا ناشتہ گول، مسافروں کے خدشات نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔ یہاں سمت(Simit) بھی ہے، اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ۔ یہ بات کسی نے سنی، کسی نے نہیں سنی اور آگے بڑھ گئے۔ سامنے ایک فریم میں بیٹھے اتاترک مسکرا رہے تھے، ان کے دائیں بائیں وہ سرخ پرچم جس کے عین وسط میں ہمارے پرچم کی طرح ستارہ و ہلال ضو فشاں ہے۔ فضل ان پرچموں کے عین بیچ جا کھڑے ہوئے اور کہا کہ سر یہاں ایک کلک نہ ہو جائے؟ تصویر سے فارغ ہوئے تو بیٹھنے کے لیے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی، جگہ بہت تھی لیکن اس جگہ سے پہلے نگاہیں ہال کی آخری دیوار سے ٹکرائیں جہاں پیتل کا چمکتا ہوا سماوار بہار دکھا رہا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ سرت اور بہت کچھ سے کیا مراد تھی۔
سرت آٹے کا بنا ہوا سیاہی مائل ایک کوکلا سا ہوتا ہے جس پر تل جیسے اسی رنگت کے کوئی بیج سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس مسافر خانے میں جسے دیکھا، اسی کوکلے سے لطف اندوز ہوتے پایا۔ ترک بڑی بے تکلفی کے ساتھ دانتوں میں دبا کر اسے توڑتے ہیں اور چائے کے کے گھونٹ کے ساتھ اسے نگل لیتے ہیں۔ ترک چائے کی بھی ایک ہی رہی۔ چائے کا بنانا ہمارے ہماں بھی سگھڑاپے کی ایک بڑی علامت ہے، لڑکیوں کے رشتوں میں اس کا کردار کلیدی ہے لیکن اس چائے کا نخرا ہماری چائے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ چائے دو منزلہ چینک میں بنتی ہے۔ چینک کا نچلا حصہ بڑا اور اوپر کا چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹی خالی چینک میں ترک پتی ڈال کر اسے بڑی چینک کے کھانچے میں فٹ کر دیا جاتا ہے جس میں ابلتا ہوا پانی پتی میں کچھ کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، اس کے بعد نچلی چینک سے پانی لے کر اوپر کی چھوٹی چینک کو بھر کر دوبارہ اسی جگہ جما دیا جاتا ہے، نچلے پانی کی بھاپ سے جب اوپر کا پانی پکتا ہے تو چائے کی پتی از خود نیچے بیٹھ جاتی ہے، لیجیے چائے تیار ہے۔ اس روز مسافروں نے سمت اور نسبتاً کسیلی ترک چائے کا جو ناشتہ کیا، اس کی یاد آج بھی خوشبو دیتی ہے۔ ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، بات پہنچی تری جوانی تک۔ برادر محترم خلیل طوقار نے اتا ترک ایئرپورٹ کا ذکر کیا تو یہ پیار بھری یاد اس طرح تازہ ہو گئی جیسے نوعمری کا پیار آخری عمر میں بھی دل میں ہلکورے لیا کرتا ہے۔
خلیل طوقار اصل میں بتا یہ رہے تھے کہ ان کی حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے۔بس ،یہیں سے بات ائیرپورٹ کی طرف مڑ گئی۔استنبول میں اب ایک نیا ایئر پورٹ بن چکا ہے اور وہ میلوں لمبا چوڑا ائیرپورٹ جس میں ہم کبھی مزے سے ناشتے کیا کرتے تھے، ان دنوں ایک بہت بڑے اسپتال کمپلیکس میں بدل چکا ہے جہاں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہ اسپتال ایک ہفتے کی مختصر مدت میں مکمل طور پر فعال کیا گیا ۔ ترکوں کے ہاں لاک ڈاؤن کی نوعیت بھی دیگر ملکوں کے مقابلے میں مختلف تھی۔ وبا پھیلی تو اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی مقبول ہواکہ یہ بیماری نوجوانوں کو کچھ نہیں کہتی۔ اصل میں بات یہ نکلی تھی کہ پاکستان میں ان دنوں بہت سے نوجوان وبا کی لپیٹ میں آئے اور دنیا سے گئے۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ ترکی میں تو لاک ڈاؤن ہی سب سے پہلے نوجوانوں کے لیے کیا گیا۔ ایک سے اٹھارہ سال کے بچوں کا گھر سے نکلنا بالکل ممنوع کر دیا گیا ۔ تصور یہ تھا کہ یہ لوگ غیر محتاط ہوتے ہیں، اپنا خیال رکھتے ہیں نہ کسی دوسرے کا، اس لیے سب سے زیادہ پابندی کا نشانہ بھی وہی بنے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس دیس میں وبا اب دم توڑ رہی ہے، لہٰذا لاک ڈاؤن بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے، اس عمر کے بچے اب والدین کے ساتھ گھروں سے نکل سکتے ہیں۔اس احتیاط کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعدادبہت کم رہی ہے اور نوجوان تو مکمل طور پر محفوظ رہے ہیں۔ میں نے یہ سب سنا اور سوچا کہ کاش! کچھ ایسا ہی اہتمام ہم لوگوں نے بھی کیا ہوتا۔
وہ آپ کو اتا ترک ایئرپورٹ یادہے؟ ڈاکٹر خلیل طوقار نے پوچھا۔ ابھی دو برس ہی تو ہوتے ہیں جب وہ یہاں ہوتے تھے، یوں لگتا تھا جیسے جدی پشتی لاہورئیے ہیں۔ بس،اسی میل جول میں کچھ ایسی کیمسٹری وجود میں آئی کہ ہر دوسرے تیسرے ایک دوسرے کی خیریت معلوم نہ کر لیں تو چین نہیں آتا جب سے کورونا نے دھاوا بولا ہے، اس معمول کی باقاعدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ رات دیر تک کام کرنے کے عادی ہیں اور یہاں موجود ان کے اس دعا گو کی عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دونوں میں سے کوئی ایک لکھنا پڑھنا معطل کر کے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرتا ہے پھر مطمئن ہو کر کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ یہ رابطہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ چھوٹتے ہی انھوں نے ائیر پورٹ کے بارے میں سوال کیا اور میرے ذہن میں فلم چل پڑی۔
اس ایئر پورٹ کا وہ کون سا گوشہ ہے جس کی تصویر ان آنکھوں میں محفوظ نہیں۔ وہ منظر میری آنکھوں میں آج بھی تازہ ہے،صبح کی نرم دھوپ اور جہاز کی کھڑکی، شہر فریم میں جڑی تصویر کی طرح آنکھوں میں سماتا چلا جاتا تھا۔ پائلٹ نے آبنائے باسفورس کے سبز پانیوں پر دو چکر لگائے اور لینڈنگ گیئر دبا دیا۔ یہ جب سفر شروع ہوا تو رات بھیگ چکی تھی۔ پرواز میں قدرے تاخیر تھی اور احتیاط نے مسافروں کو وقت سے بہت پہلے ایئرپورٹ پر لا بٹھایا تھا۔ مسافر دو طرح کے ہوتے ہیں، ذرا سی مہلت ملنے پر نشستوں میں مڑ تڑ کر نیند کی وادی میں اتر جانے والے یا جوگر چڑھا کر ایئرپورٹ کے گوشے گوشے میں پھرکی کی طرح گھوم جانے والے۔ مسافر اور ہم سفروں کا شمار دوسری قسم میں ہوتا تھا۔ آستانہ کا نور سلطان نذر بائیف ائیرپورٹ گرچہ اتنا مصروف نہیں رہتا، اس کے کچھ حصوں میں اصراف سے بچنے کے لیے روشنی بھی نسبتاً کم رکھی جاتی ہے لیکن دنیا کے بڑے ائیرپورٹس کی طرح اس کی لمبائی چوڑائی بھی اتنی ہے کہ چلتے چلتے دو بار تو بھوک لگ ہی جائے۔ اسی مٹر گشت کی برکت تھی کہ رات کا کھایا ہوا کھانا دیر ہوئی اپنی عمر پوری کر چکا تھا۔ اب ہم اتا ترک ایئرپورٹ پر تھے لیکن خوف تھا کہ میلوں کا سفر طے کر کے شہر میں کسی ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے کہیں دوپہر ہو گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟
اسی شش و پنج میں ایک نئی صورت حال سے واسطہ پڑا۔ مسافر سامان اٹھاتے اور مسکراہٹ بکھیرتی ہوئی ایئر ہوسٹس سے دعائیں لے کر ٹنل کا رخ کرتے، ہمیں حکم دیا گیا کہ سیڑھی سے نیچے اتریں اور کھڑے ہو جائیں۔ مرتے کیا نہ کرتے کھڑے ہو گئے، اتنے میں سرخ رنگ میں رنگی ہوئی ایک کوچ آ ن پہنچی، اس سے برآمد ہونے والے خوش خصال نے مسافروں کو سمیٹا اور انھیں ایک آراستہ و پیراستہ بلڈنگ میں لا پہنچایا، معلوم ہوا کہ یہ خاص الخاص لوگوں کا لاؤنج ہے۔ حکم ہوا کہ اگلے حکم تک آپ یہیں ہیں، ناشتہ غتر بود ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ سامان اس خوش خصال نے اپنی تحویل میں رکھا اور ہلکے پھلکے ہو کر بازو جھلاتے ہوئے ہم لوگ عمارت میں داخل ہوگئے۔ اس راہبر نے رومال سے کبوتر نکالنے والے مداری کی طرح دائیں بائیں دو دروازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کاردش(برادر)! جہاں جی چاہے، بیٹھئے اور حظ اٹھائیے۔ گویا ناشتہ گول، مسافروں کے خدشات نے ایک بار پھر سر اٹھایا۔ یہاں سمت(Simit) بھی ہے، اس کے ساتھ اور بھی بہت کچھ۔ یہ بات کسی نے سنی، کسی نے نہیں سنی اور آگے بڑھ گئے۔ سامنے ایک فریم میں بیٹھے اتاترک مسکرا رہے تھے، ان کے دائیں بائیں وہ سرخ پرچم جس کے عین وسط میں ہمارے پرچم کی طرح ستارہ و ہلال ضو فشاں ہے۔ فضل ان پرچموں کے عین بیچ جا کھڑے ہوئے اور کہا کہ سر یہاں ایک کلک نہ ہو جائے؟ تصویر سے فارغ ہوئے تو بیٹھنے کے لیے دائیں بائیں نگاہ دوڑائی، جگہ بہت تھی لیکن اس جگہ سے پہلے نگاہیں ہال کی آخری دیوار سے ٹکرائیں جہاں پیتل کا چمکتا ہوا سماوار بہار دکھا رہا تھا۔ اب سمجھ میں آیا کہ سرت اور بہت کچھ سے کیا مراد تھی۔
سرت آٹے کا بنا ہوا سیاہی مائل ایک کوکلا سا ہوتا ہے جس پر تل جیسے اسی رنگت کے کوئی بیج سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس مسافر خانے میں جسے دیکھا، اسی کوکلے سے لطف اندوز ہوتے پایا۔ ترک بڑی بے تکلفی کے ساتھ دانتوں میں دبا کر اسے توڑتے ہیں اور چائے کے کے گھونٹ کے ساتھ اسے نگل لیتے ہیں۔ ترک چائے کی بھی ایک ہی رہی۔ چائے کا بنانا ہمارے ہماں بھی سگھڑاپے کی ایک بڑی علامت ہے، لڑکیوں کے رشتوں میں اس کا کردار کلیدی ہے لیکن اس چائے کا نخرا ہماری چائے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ چائے دو منزلہ چینک میں بنتی ہے۔ چینک کا نچلا حصہ بڑا اور اوپر کا چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹی خالی چینک میں ترک پتی ڈال کر اسے بڑی چینک کے کھانچے میں فٹ کر دیا جاتا ہے جس میں ابلتا ہوا پانی پتی میں کچھ کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، اس کے بعد نچلی چینک سے پانی لے کر اوپر کی چھوٹی چینک کو بھر کر دوبارہ اسی جگہ جما دیا جاتا ہے، نچلے پانی کی بھاپ سے جب اوپر کا پانی پکتا ہے تو چائے کی پتی از خود نیچے بیٹھ جاتی ہے، لیجیے چائے تیار ہے۔ اس روز مسافروں نے سمت اور نسبتاً کسیلی ترک چائے کا جو ناشتہ کیا، اس کی یاد آج بھی خوشبو دیتی ہے۔ ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا، بات پہنچی تری جوانی تک۔ برادر محترم خلیل طوقار نے اتا ترک ایئرپورٹ کا ذکر کیا تو یہ پیار بھری یاد اس طرح تازہ ہو گئی جیسے نوعمری کا پیار آخری عمر میں بھی دل میں ہلکورے لیا کرتا ہے۔
خلیل طوقار اصل میں بتا یہ رہے تھے کہ ان کی حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے۔بس ،یہیں سے بات ائیرپورٹ کی طرف مڑ گئی۔استنبول میں اب ایک نیا ایئر پورٹ بن چکا ہے اور وہ میلوں لمبا چوڑا ائیرپورٹ جس میں ہم کبھی مزے سے ناشتے کیا کرتے تھے، ان دنوں ایک بہت بڑے اسپتال کمپلیکس میں بدل چکا ہے جہاں کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہ اسپتال ایک ہفتے کی مختصر مدت میں مکمل طور پر فعال کیا گیا ۔ ترکوں کے ہاں لاک ڈاؤن کی نوعیت بھی دیگر ملکوں کے مقابلے میں مختلف تھی۔ وبا پھیلی تو اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی مقبول ہواکہ یہ بیماری نوجوانوں کو کچھ نہیں کہتی۔ اصل میں بات یہ نکلی تھی کہ پاکستان میں ان دنوں بہت سے نوجوان وبا کی لپیٹ میں آئے اور دنیا سے گئے۔ اس پر انھوں نے بتایا کہ ترکی میں تو لاک ڈاؤن ہی سب سے پہلے نوجوانوں کے لیے کیا گیا۔ ایک سے اٹھارہ سال کے بچوں کا گھر سے نکلنا بالکل ممنوع کر دیا گیا ۔ تصور یہ تھا کہ یہ لوگ غیر محتاط ہوتے ہیں، اپنا خیال رکھتے ہیں نہ کسی دوسرے کا، اس لیے سب سے زیادہ پابندی کا نشانہ بھی وہی بنے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس دیس میں وبا اب دم توڑ رہی ہے، لہٰذا لاک ڈاؤن بھی تقریباً ختم ہو چکا ہے، اس عمر کے بچے اب والدین کے ساتھ گھروں سے نکل سکتے ہیں۔اس احتیاط کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعدادبہت کم رہی ہے اور نوجوان تو مکمل طور پر محفوظ رہے ہیں۔ میں نے یہ سب سنا اور سوچا کہ کاش! کچھ ایسا ہی اہتمام ہم لوگوں نے بھی کیا ہوتا۔