15 جون 2016ء کو پاکستان کے نام ور اردو نقاد محقق اور شاعر ڈاکٹر اسلم فرخی کراچی میں وفات پاگئے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی 23 اکتوبر 1924ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے ان کا سابق وطن فتح گڑھ ضلع فرخ آباد تھا اور اسی نسبت سے وہ فرخی کہلاتے تھے تھے ۔
قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر اسلم فرخی نے کراچی میں اقامت اختیار کی۔ پہلے وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے تاہم بعد میں انہوں نے درس و تدریس کے پیشے کو اپنا لیا۔ وہ جامعہ کراچی میں شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے ناظم بھی رہے اور انہوں نے اسی جامعہ میں رجسٹرار کے فرائض بھی انجام دیے۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے محمد حسین آزاد، حیات و تصانیف کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی۔ یہ مقالہ جب کتابی شکل میں سامنے آیا تو اسے داؤد ادبی انعام سے نوازا گیا کیا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی ابتدا میں شاعری کرتے تھے تاہم بعد میں انہوں نے تحقیق اور خاکہ نگاری کو اپنی شناخت بنا یا۔ ان کی خاکوں کے مجموعوں میں گلدستہ احباب انگن میں ستارے، لال سبز کبوتروں کی چھتریچسات آسمان اور رونق بزم جہاں کے نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر اسلم فرخی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے اور انہوں نے اس نسبت سے بھی کئی کتابیں مرتب کی تھی جن میں نظام رنگ، دبستان نظام، بچوں کے سلطان جی اور فرمایا سلطان جی نے کے نام سرفہرست ہیں۔ انہوں نے محمد حسین آزاد کی کتابوں کی ترتیب و تدوین بھی کی جس میں اردو کی پہلی کتاب اب نیرنگ خیال، پھول اور قصص ہند کے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے شاہد احمد دہلوی کے خاکوں کا ایک مجموعہ بزم شاہد کے نام سے اور اشرف صبوحی کے خاکوں کا مجموعہ بزم صبوحی کے نام سے مرتب کئے تھے۔ انہوں نے تذکرہ گلشن ہمیشہ بہار کی تدوین بھی کی تھی۔ حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا تھا۔ڈاکٹر اسلم فرخی جامعہ کراچی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔