Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
کوئی بھی لکھاری نہ تو فحش ہوتا ہے اور نہ ہی فحش لکھتا ہے اور جو فحش ہو وہ لکھاری نہیں ہوتا معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو کاغذ کی زینت بنانے والوں کو فحش نہیں کہا جاسکتا منٹو نے صاف اور سیدھی باتیں کیں وہ بنیادی طور پر حقیقت نگار ہیں ایک لکھاری کی اولین زمہ داری ہے کہ معاشرہ جیسا ہے ویسا ہی ہمیں دکھائے معاشرے میں موجود اچھے اور برے کرداروں کو بالکل سچا اور کھرا پیش کرے
منٹو نے اپنے معاشرے میں جنس کے نام پر ہونے والے ظلم وستم کو روکنا چاہا اس نے اس گندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں معاشرہ گرا تھا وہ اس غلاظت کو جڑ سے ختم کرنا چاہتاہے اور ہمیں آگاہی دے رہا ہے کہ ہمیں جنسی راہ روی سے دور ہونا ہو گا لیکن بدقسمتی سے منٹو کو فحش گو کہا گیا مقدمات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہم غلط کرتے بھی ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی غلط نہ کہے لیکن ایک افسانہ نگار ایسا نہیں کر سکتا وہ برائی کو دیکھ کے آنکھ بند نہین کر سکتا وہ چپ نہیں رہ سکتا اس دور کے تمام افسانہ نگار ہمیں طوائفوں پر اپنا قلم اٹھاتے نظر آتے ہیں جن مین” غلام عباس” ,” عصمت چغتائی “, اور” منٹو “قابل ذکر ہیں غلام عباس کے ہاں طوائف کو دھیمے لہجے میں پیش کیا گیا اور مشرقی انداز کو مدنظر رکھا گیا لیکن جنس کے اوپر جن دو لوگوں نے کھل کر کام کیا ان میں منٹو اور عصمت چغتائی قابل ذکر ہیں ہم منٹو کی بات کریں تو منٹو شوق سے فحش چیزیں نہیں لکھتا وہ انہی کرداروں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا رہا ہے جو معاشرے میں ذلیل ورسوا ہورہے ہیں منٹو زندگی کی بدصورتیوں کو خوبصورت بنانے کے خلاف ہے نہ وہ گندی چھپاتا اور نہ ہی وہ بدنما چیزوں پر سفیدی پھیرتا ہے
منٹو اپنے افسانوں کاتعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے
“اگر آپ ان افسانوں کو برداش نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ زمانہ ناقابل برداش ہو گیا ہے ……. مجھ میں جو بھی برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں …….. میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا . جو ہے ہی ننگی …….. لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی سیاہی سے نہیں لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں . تاکہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی نمایاں ہو جائے “
منٹو نے بہت سے افسانے لکھے جن میں” کالی شلوار “, “کھول دو “,” ٹھنڈا گوشت” ,” ممی” , “سرکنڈوں کے پیچھے” , “دس روپے” , “سوکینڈل پاور کا بلب” وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن طوائف کے موضوع پر ” ہتک” اور “کالی شلوار” قابل داد افسانے ہیں
ان افسانوں سے ہمارے معاشرے کا چھپا چہرہ بے نقاب ہوا منٹو جنسی گمراہیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جنسی مسائل نے ہماری پوری نسل کو تباہ و برباد کر دیا ہے وہ اس نسل کے جنسی مسائل کے متعلق پریشان ہے وہ عورت کو صرف جنس کی غلام نہیں کہتا بلکہ اس کے اندر بھی محبت کرنے کا جذبہ موجود ہے منٹو کسی صورت طوائف کو برا نہیں کہتا وہ طوائف کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے اس کی الجھنوں کو پریشانیوں کو اور اس کے جذبات کو اپنے قلم کی زینت بناتا ہے اور معاشرے کو سبق دیتا ہے کہ طوائف بھی دل رکھتی ہے وہ صرف ضرورتیں پوری نہیں کرتی وہ بھی جینا چاہتی ہے تبھی تو” سہائے” اور” نذیر” اور “گوپی ناتھ نارنگ “جیسے کردار نکلتے ہیں
منٹو نے طوائف کو اسی طرح paint کیا ہے جس طرح وہ عام زندگی میں ہے منٹو کی جنس نگاری اس لحاظ سے بھی انفرادیت کی حامل ہے کہ اس نے ان مشاہدات کو بنیاد بنا کر افسانے لکھے جو اس کی آنکھوں نے دیکھے منٹو نے فارس روڈ کی طوائفوں کو بہت قریب سے دیکھا
کچھ لوگ اندر ہی اندر سے ٹوٹتے رہتے ہیں لیکن منٹو نے معاشرے کی حدوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے خوبصورت افسانے لکھ کر معاشرے کے نظام پر چوٹ لگانا چاہی منٹو بنیادی طور پر ترقی پسند تھا لیکن اسکی سوچ ترقی پسندانہ نہیں تھی وہ اپنا منفرد لب ولہجہ رکھتا ہے منٹو چاہتا ہے سب کھل کر جئیں کوئی کسی سے نہ ڈرے منٹو نے ایک نیا ادب پیدا کیا جس سے اسے بہت پذیرائی بھی ملی لیکن منٹو نئے ادب کے حوالے سے لکھتے ہیں
“جو سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل پیدا کیے غلطی پر ہیں , کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے نئے ادب کو پیدا کیا “
منٹو نے ہر لحاظ سے اردو ادب کو ایک نئے سانچے میں ڈھالا جن لوگوں کو منٹو کو افسانوں میں بے حیائی اور عریانی نظر آتی ہیں درحقیقت وہ تو خود سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں منٹو کا نقطہ نظر ہرگز بے حیائی پھیلانا نہیں بلکہ سمجھانا ہے جب کرنے والے شرم نہیں کرتے تو پھر لکھنے والا شرم کیوں کرئے؟؟؟؟؟؟؟ وہ تو ان پارسا کو منظر عام پر لائے گا لیکن منٹو نے جو بیڑہ اٹھایا تھا برائی کو ختم کرنے کا وہ آج بھی جو کا تو ہے آج بھی طوائف ویسی ہے منٹو کے ہاں انسانیت بدرجہ اتم موجود ہے اسں کے افسانوں میں صرف زندگی ہے زندگی کو جینے کا سلیقہ ہے
زندگی , زندگی زندگی …….. منٹو کے ہاں زندگی ہے !
زندگی منٹو کے ہاتھوں ڈھل کر افسانے بن جاتی ہے
منٹو نے حقیقت نگاری کا ایک نیا رحجان پیدا کیا یہ جہاں چاہیے فحش ہے یا برا یہ جہاں اس کا اپنا ہے منٹو نے اردو ادب میں اپنا مقام خود بنایا
ہم منٹو کو فحش نہیں کہہ سکتے مجھے اس کے افسانوں میں دوسروں کے لیے دکھ درد نظر آتا ہے خواہ منٹو نے بالکل سیدھی باتیں کیں اور بعض لوگ اس کے افسانوں کو غلط زاویوں سے دیکھتے ہیں لیکن میرے خیال میں برائی کو برا ہی کہنا مناسب ہے منٹو نے کسی پہلو سے دامن نہیں بچایا اس نے جو لکھا درست لکھا چاہیے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا منٹو نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جو ہر لحاظ سے معاشرے کی گندی سوچ پر غالب آتے ہیں یہ ہمارے اپنے دماغ کا فتور ہے کہ ہم کس طرح مثبت سوچ کو منفی رنگ چڑھاتے ہیں بلاشبہ منٹو نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا جس سے منٹو کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا انھوں نے ایساادبی کنواں ایجاد کیا ہے جس سے نت نئے رنگ نکلتے رہیں گے اور اردو ادب ترقی کرتا رہے گا