• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home کتاب اور صاحب کتاب

منٹو کو فحش کیوں کہا گیا؟

اقرا انجم

آوازہ ڈیسک by آوازہ ڈیسک
June 15, 2020
in کتاب اور صاحب کتاب
0
منٹو کو فحش کیوں کہا گیا؟
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

کوئی بھی لکھاری نہ تو فحش ہوتا ہے اور نہ ہی فحش لکھتا ہے اور جو فحش ہو وہ لکھاری نہیں ہوتا معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو کاغذ کی زینت بنانے والوں کو فحش نہیں کہا جاسکتا منٹو نے صاف اور سیدھی باتیں کیں وہ بنیادی طور پر حقیقت نگار ہیں ایک لکھاری کی اولین زمہ داری ہے کہ معاشرہ جیسا ہے ویسا ہی ہمیں دکھائے معاشرے میں موجود اچھے اور برے کرداروں کو بالکل سچا اور کھرا پیش کرے
منٹو نے اپنے معاشرے میں جنس کے نام پر ہونے والے ظلم وستم کو روکنا چاہا اس نے اس گندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں معاشرہ گرا تھا وہ اس غلاظت کو جڑ سے ختم کرنا چاہتاہے اور ہمیں آگاہی دے رہا ہے کہ ہمیں جنسی راہ روی سے دور ہونا ہو گا لیکن بدقسمتی سے منٹو کو فحش گو کہا گیا مقدمات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہم غلط کرتے بھی ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی غلط نہ کہے لیکن ایک افسانہ نگار ایسا نہیں کر سکتا وہ برائی کو دیکھ کے آنکھ بند نہین کر سکتا وہ چپ نہیں رہ سکتا اس دور کے تمام افسانہ نگار ہمیں طوائفوں پر اپنا قلم اٹھاتے نظر آتے ہیں جن مین” غلام عباس” ,” عصمت چغتائی “, اور” منٹو “قابل ذکر ہیں غلام عباس کے ہاں طوائف کو دھیمے لہجے میں پیش کیا گیا اور مشرقی انداز کو مدنظر رکھا گیا لیکن جنس کے اوپر جن دو لوگوں نے کھل کر کام کیا ان میں منٹو اور عصمت چغتائی قابل ذکر ہیں ہم منٹو کی بات کریں تو منٹو شوق سے فحش چیزیں نہیں لکھتا وہ انہی کرداروں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا رہا ہے جو معاشرے میں ذلیل ورسوا ہورہے ہیں منٹو زندگی کی بدصورتیوں کو خوبصورت بنانے کے خلاف ہے نہ وہ گندی چھپاتا اور نہ ہی وہ بدنما چیزوں پر سفیدی پھیرتا ہے

منٹو اپنے افسانوں کاتعارف کرواتے ہوئے لکھتا ہے

“اگر آپ ان افسانوں کو برداش نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ زمانہ ناقابل برداش ہو گیا ہے ……. مجھ میں جو بھی برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں …….. میں تہذیب و تمدن کی اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا . جو ہے ہی ننگی …….. لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں لیکن میں تختہ سیاہ پر کالی سیاہی سے نہیں لکھتا سفید چاک استعمال کرتا ہوں . تاکہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی نمایاں ہو جائے “

منٹو نے بہت سے افسانے لکھے جن میں” کالی شلوار “, “کھول دو “,” ٹھنڈا گوشت” ,” ممی” , “سرکنڈوں کے پیچھے” , “دس روپے” , “سوکینڈل پاور کا بلب” وغیرہ قابل ذکر ہیں لیکن طوائف کے موضوع پر ” ہتک” اور “کالی شلوار” قابل داد افسانے ہیں

ان افسانوں سے ہمارے معاشرے کا چھپا چہرہ بے نقاب ہوا منٹو جنسی گمراہیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جنسی مسائل نے ہماری پوری نسل کو تباہ و برباد کر دیا ہے وہ اس نسل کے جنسی مسائل کے متعلق پریشان ہے وہ عورت کو صرف جنس کی غلام نہیں کہتا بلکہ اس کے اندر بھی محبت کرنے کا جذبہ موجود ہے منٹو کسی صورت طوائف کو برا نہیں کہتا وہ طوائف کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے اس کی الجھنوں کو پریشانیوں کو اور اس کے جذبات کو اپنے قلم کی زینت بناتا ہے اور معاشرے کو سبق دیتا ہے کہ طوائف بھی دل رکھتی ہے وہ صرف ضرورتیں پوری نہیں کرتی وہ بھی جینا چاہتی ہے تبھی تو” سہائے” اور” نذیر” اور “گوپی ناتھ نارنگ “جیسے کردار نکلتے ہیں
منٹو نے طوائف کو اسی طرح paint کیا ہے جس طرح وہ عام زندگی میں ہے منٹو کی جنس نگاری اس لحاظ سے بھی انفرادیت کی حامل ہے کہ اس نے ان مشاہدات کو بنیاد بنا کر افسانے لکھے جو اس کی آنکھوں نے دیکھے منٹو نے فارس روڈ کی طوائفوں کو بہت قریب سے دیکھا
کچھ لوگ اندر ہی اندر سے ٹوٹتے رہتے ہیں لیکن منٹو نے معاشرے کی حدوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے خوبصورت افسانے لکھ کر معاشرے کے نظام پر چوٹ لگانا چاہی منٹو بنیادی طور پر ترقی پسند تھا لیکن اسکی سوچ ترقی پسندانہ نہیں تھی وہ اپنا منفرد لب ولہجہ رکھتا ہے منٹو چاہتا ہے سب کھل کر جئیں کوئی کسی سے نہ ڈرے منٹو نے ایک نیا ادب پیدا کیا جس سے اسے بہت پذیرائی بھی ملی لیکن منٹو نئے ادب کے حوالے سے لکھتے ہیں

Ad (2024-01-27 16:31:23)

“جو سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل پیدا کیے غلطی پر ہیں , کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے نئے ادب کو پیدا کیا “

منٹو نے ہر لحاظ سے اردو ادب کو ایک نئے سانچے میں ڈھالا جن لوگوں کو منٹو کو افسانوں میں بے حیائی اور عریانی نظر آتی ہیں درحقیقت وہ تو خود سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں منٹو کا نقطہ نظر ہرگز بے حیائی پھیلانا نہیں بلکہ سمجھانا ہے جب کرنے والے شرم نہیں کرتے تو پھر لکھنے والا شرم کیوں کرئے؟؟؟؟؟؟؟ وہ تو ان پارسا کو منظر عام پر لائے گا لیکن منٹو نے جو بیڑہ اٹھایا تھا برائی کو ختم کرنے کا وہ آج بھی جو کا تو ہے آج بھی طوائف ویسی ہے منٹو کے ہاں انسانیت بدرجہ اتم موجود ہے اسں کے افسانوں میں صرف زندگی ہے زندگی کو جینے کا سلیقہ ہے

زندگی , زندگی زندگی …….. منٹو کے ہاں زندگی ہے !
زندگی منٹو کے ہاتھوں ڈھل کر افسانے بن جاتی ہے

منٹو نے حقیقت نگاری کا ایک نیا رحجان پیدا کیا یہ جہاں چاہیے فحش ہے یا برا یہ جہاں اس کا اپنا ہے منٹو نے اردو ادب میں اپنا مقام خود بنایا
ہم منٹو کو فحش نہیں کہہ سکتے مجھے اس کے افسانوں میں دوسروں کے لیے دکھ درد نظر آتا ہے خواہ منٹو نے بالکل سیدھی باتیں کیں اور بعض لوگ اس کے افسانوں کو غلط زاویوں سے دیکھتے ہیں لیکن میرے خیال میں برائی کو برا ہی کہنا مناسب ہے منٹو نے کسی پہلو سے دامن نہیں بچایا اس نے جو لکھا درست لکھا چاہیے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا منٹو نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جو ہر لحاظ سے معاشرے کی گندی سوچ پر غالب آتے ہیں یہ ہمارے اپنے دماغ کا فتور ہے کہ ہم کس طرح مثبت سوچ کو منفی رنگ چڑھاتے ہیں بلاشبہ منٹو نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا جس سے منٹو کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا انھوں نے ایساادبی کنواں ایجاد کیا ہے جس سے نت نئے رنگ نکلتے رہیں گے اور اردو ادب ترقی کرتا رہے گا

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: ادبافسانہفحاشیمنٹو
Previous Post

سمت، سماوار اور استنبول

Next Post

نوجوان نسل کی بربادی،ذمہ دار کون؟

آوازہ ڈیسک

آوازہ ڈیسک

Next Post
نوجوان نسل کی بربادی،ذمہ دار کون؟

نوجوان نسل کی بربادی،ذمہ دار کون؟

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions