ایشیائی معاشروں میں یہ بات عام ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں ۔زمین والے صرف آسمانوں کے تیارکردہ منصوبے پر عمل کرتے ہیں ۔اس بات کا تعلق جہاں تقدیرکے تصور سے ہے وہاں ایشیائی معاشروں کے تصور حیات سے بھی بہت گہراہے ۔چین کے ایک افسانہ نگار لف یوتانگ نے اس بات کو ایک نہایت خوبصورت افسانے میں ڈھال دیاہے جس کا ہیرو وائیکو اپنے لیے خوب صورت، خوب سیرت، خوش اطوار شریک حیات کی تلاش میں ہے ۔اس کی ملاقات مندر کی سیڑھیوں پر بیٹھے ایک پراسرار بوڑھے سے ہوتی ہے جس کے پاس ایک تھیلااورہاتھ میں عجیب وغریب رسم الخط میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جسے صرف وہی پڑھ سکتاہے ۔وائیکو جس لڑکی کی تلاش میں ہے بوڑھااسے بتاتاہے کہ وہ اسے نہیں مل سکتی ….”پھرکون ہے جومیری شریک حیات بنے گی اور اس تھیلے میں کیاہے“ وائیکوسوال کرتاہے ۔ ان سوالوںکا جواب دیتے ہوئے بوڑھااسے بتاتاہے کہ تھیلے میں سرخ ریشمی فیتے ہیں جن کی آپس میں شادی ہونی ہو میں ان کی پیدائش پر رات کو چپکے سے ان دونوکے پیر اس ریشمی فیتے سے باندھ دیتاہوں ۔میں گرہ خوب کس کے لگاتاہوں لہذااس کے بعد دنیاکی کوئی طاقت انھیں جدانہیں کرسکتی خواہ کوئی امیرہویاغریب خواہ ان کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہویاان کے خاندانوں میں لڑائی ہو، بہ ہر صورت وہ ایک ہوکررہیں گے۔تمھاری شادی جس لڑکی سے ہوگی وہ ابھی تین سال کی ہے ۔وائیکوکی فرمائش پر بوڑھااسے وہاں لے جاتاہے جہاں کسی کھوکھے میں ایک غلیظ گندی اور اندھی عورت بال بکھرائے بیٹھی سبزی بیچ رہی تھی اور اس کی گود میں ایک میلی کچیلی بچی سورہی تھی ۔وائیکوکا منہ غصے سے سرخ ہوگیا، اس نے بوڑھے کو بے نقط سنائیں،اس کا جی چاہاکہ وہ بوڑھے کا منہ نوچ لے لیکن جب اس نے مڑکردیکھاتووہاں کوئی بھی نہیں تھا ….وائیکو کو اس بچی سے شادی کا خیال اتنا کریہہ اورمہمل لگاکہ اسے گھن آنے لگی اوراس نے مارے کراہت کے قے کرڈالی ۔وائیکو کرائے کے ایک قاتل سے اس بچی پر قاتلانہ حملہ کروادیتاہے اور زندگی اپنے ڈھب پرگزرنے لگتی ہے ۔گزرتے وقت کے ساتھ وائیکو کے لیے کچھ بہت اچھے رشتے آتے ہیں لیکن ہربار لڑکی کسی حادثے کا شکار ہوجاتی ہے ،کسی مہلک بیماری کا شکار ہوجاتی ہے یاپھرخودکشی کرلیتی ہے ۔یہاں تک کہ وائیکو ادھیڑعمر میں داخل ہوکراپنی شادی سے مکمل طور پر مایوس ہوجاتاہے۔اب اس کی ساری توجہ اس اعلیٰ سرکاری عہدے پر مرکوز ہوجاتی ہے جو اس نے بڑی محنت سے حاصل کیاہے لیکن یہی عہدہ اس کی زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیتاہے۔ وائیکو کے کام اور جان فشانی سے متاثرہوکرحاکم اعلیٰ وائیکو کے لیے اپنی بھتیجی کا پیغام بھیجتاہے۔ وائیکو اپنے مقدّرپر صبرکرکے شادی کا خیال ترک کرچکاہے۔ اس کا کہناہے کہ اس کی عمر زیادہ ہوچکی ہے ، اب اس کی زندگی میں عورت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے لیکن حاکم اعلیٰ کی جانب سے اصرار اسے یہ تجویزمان لینے پر مجبور کردیتاہے ۔ دلھن ،جوان ہے اور سلیقہ شعار ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنے بال سنوارتے ہوئے ہمیشہ ایک لٹ دائیں جانب آوارہ چھوڑدیتی ہے۔ وائیکو اس سے اس کا سبب پوچھتاہے تو وہ اپنی زلفوں کی لٹ اٹھاکر پیشانی پر لگا گہرازخم دکھاتی ہے اور بتاتی ہے کہ جب میں تین سال کی تھی تو مجھ پر ایک بدمعاش نے قاتلانہ حملہ کیاتھا جس کے نتیجے میں میری جان تو بچ گئی لیکن اس کے خنجر کا نشان میری پیشانی پررہ گیا….
لف یوتانگ کے اس افسانے کا اردوترجمہ مختارمسعود نے کیا اور اس کااردو نام ”سرخ فیتہ“رکھاہے ۔یہ نام مترجم کی زندگی اوراس کی سرکاری ملازمت کے حوالے سے بہت موزوں ہے۔ گویااس نے کارکنانِ قضاوقدر میں بھی لوگوں کے کیسز کو سرخ فیتے کا شکارکرنے والے ڈھونڈ لیے ہیں ۔ترجمے کی عبارت بہت رواں ہے اور افسانہ پڑھتے ہوئے سوائے ہیروکے نام اور کچھ پس منظری تفصیلات کے اجنبیت کااحساس نہیں ہوتا۔ قارئین کے لیے یہ بات انکشاف انگیز ہوگی کہ بیوروکریسی کے ایک اہم رکن اور آوازدوست ،سفرنصیب اور لوح ایام جیسی کتب کے خالق مختارمسعود کا افسانے کی دنیاسے بھی کوئی تعلق تھااور انھوںنے اردو ادب کے قارئین کو ”سرخ فیتہ“ جیسے چینی ادب کے فن پارے سے آشنا کروایاتھا۔ افسانوی ادب سے مختارمسعودکا تعلق صرف ترجمے تک محدود نہیں رہابلکہ انھوںنے خود بھی افسانے لکھے ۔ان کے دو افسانے مطبوعہ صورت میں دستیاب ہیں ۔”قالین“ اور” فاصلے“ ۔
”قالین “ایک سیدھی سادی معصوم اور اجنبی جرمن لڑکی کی کہانی ہے جومصنف کے دفتر میں آکراس سے قالین کا مطالبہ کرتی ہے۔ مصنف جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہے اس سوال پر حیران ہوجاتاہے کہ اگراسے قالین چاہیے تو اسے بازار جاناچاہیے ،اس کا خیال کئی منطقوں میں بھٹکتاہے، شاید یہ لڑکی امدادچاہتی ہے ،شایدویزاکی میعاد میں توسیع ،شایددل جوئی، شاید مشورہ اور پھر سب کچھ ہونے یانہ ہونے کے باوجود وہ ایک جوان لڑکی ہے اور شاید….لیکن وہ اپنے مطالبے پراصرارکرتی ہے ۔اس کے ماں باپ ،جنگ میں کام آگئے اور وہ ایک رفیوجی کیمپ، ایک یتیم خانے، ایک چرچ اور ایک خیراتی تربیتی ادارے سے گزرتی ہوئی یہاں تک پہنچی تھی ۔جرمن کمپنی کو مقامی کام کا ٹھیکہ ملاتو وہ یہاں پہنچ گئی وہ گرجے جاتی ہے اور اپنی ہم وطن عورتوں سے ملتی ملاتی ہے۔ ایک روز کسی اجلاس میں ایک دن سفارت خانے کی طرف سے اعلان ہواکہ ان کے ملک کا ایک باشندہ ضلع کی سنٹرل جیل میں قید ہے اس ملک میں اس کا کوئی رشتہ دار ہے نہ اسے یہاں کی زبان آتی ہے لہذاسے قیدِبامشقت کے ساتھ قیدِتنہائی اورزبان بندی کی سزابھی کاٹنی پڑرہی ہے۔اس کے ہم وطن جو اس شہر میں رہتے ہیں ہفتہ وار ملاقات کے دن باری باری جیل ہوآیاکریں تو اس قیدی کا دل بہل جایاکرے گا ….یہ سادہ، غمگین اور یتیم لڑکی اس انسانی اور قومی ہمدردی کے کام کے لیے تیارہوکر اس قیدی سے ملنے کے لیے جانے لگتی ہے ۔قیدی کو مشقت میں ایک قالین بُننے کاکام ملا ہے۔ ابھی اسے مکمل ہونے میں چھ آٹھ ماہ لگ جائیں گے وہ اپنی رہائی کا حساب کیلنڈر سے نہیں قالین کی تیاری سے لگاتاہے ۔قالین میں جب بھی وہ گرہ لگاتاہے تو اسے خیال ہوتاہے کہ اس نے قیدکی زنجیر کا ایک حلقہ توڑ ڈالاہے پھروہ تیزی سے گرھیں لگانے لگ جاتاہے ۔لڑکی اس سے ملنے جاتی رہتی ہے اور جیلرسے مل کر اس کے لیے کچھ سہولتوں کا انتظام بھی کرتی ہے۔ جیلر اس کا معاوضہ لڑکی کے استحصال کی صورت میں وصول کرتاہے جسے وہ بہ اکراہ برداشت کرتی ہے ۔قیدی کی رہائی میں چارہفتے باقی رہ جاتے ہیں اور وہ دونو رہائی کے بعد فوراً شادی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ لڑکی چاہتی ہے کہ اس سے پہلے یہ قالین اسے مل جائے اور اتوار کی صبح جب چرچ میں شادی کے انعقادکے بعد قیدی، اس کے شوہر کی حیثیت سے پہلی بار فلیٹ میں داخل ہوتو اس کا پہلا قدم اسی قالین پرپڑے ۔لڑکی نے اس بات کا ذکر قیدی سے نہیں کیا لیکن وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر کے چکرلگاتی رہی، ادھر جیلر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر ہرہفتے اس کے استحصال کا سلسلہ جاری رکھتاہے ،یہاں تک کہ آخری ہفتہ آپہنچتاہے اسے بتایاجاتاہے کہ اسے قالین اسے صرف اس شرط پر مل سکتاہے وہ آج رات کا ڈنر بھی جیلر کے ساتھ کرے ۔لڑکی اسے سمجھاتی ہے کہ کل اس کی شادی ہے مگروہ نہیں مانتا۔ لڑکی اس پر ایک بار پھر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر جاپہنچی ہے اور اپنامطالبہ دہراتی ہے ۔”مسٹر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مجھے قالین چاہیے “….اگلے دن جب وہ دونوچرچ سے ہوکر اپنے فلیٹ میں پہنچتے ہیں تو لڑکی کی پلکیں بھیگ جاتی ہیں اور قیدی کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتاہے ،قیدی سوچنے لگتاہے کہ شایدوہ انھی دوچیزوں کوحاصل کرنے کے لیے جیل گیا تھا اس کی بیوی اور یہ قالین ۔
اس افسانے میں مصنف کی زندگی کے انتظامی تجربات اپنی جھلک دکھارہے ہیں۔ یہی نہیں اس کے کردار کا روشن پہلو بھی ابھاررہے ہیں کہ اسی کی خاموش کوشش ہے جس کے نتیجے میں ہیروئن کی شادی سے پہلے پہلے وہ قالین حاصل ہوگیاہے، جسے پالینا ہیروئن کی بہت بڑی خواہش تھی ۔یوں محسوس ہوتاہے کہ افسانہ نگار نے مقامیت اور ذاتی حوالے سے بچنے کے لیے ہیروئن کو جرمن بنایاہے ۔چونکہ افسانہ نگار کا کردار بہت مثبت ہے اس لیے اس نے اسے صیغہ واحد متکلم میں پیش کرنے کی بجائے شخص سوم (تھرڈ پرسن)بنادیاہے ۔افسانے میں کہانی پن بھی ہے اور تجسس بھی ،رمزیت جو اچھے ادب کی جان ہے افسانے میں بڑی خوبی سے موجود ہے۔ ہرچند کہ ایک پست معاشرے کے پست کرداروں کی پیش کش سے افسانہ خالی نہیں لیکن ان کی پیش کش میں برتی جانے والی شائستگی افسانے کو ابتذال سے محفوظ رکھتی ہے۔جیلرایک ایسا ہی پست کردار ہے جس کی پستی کو افسانہ نگار نے بڑے سلیقے سے پیش کیاہے ۔ہیروئن اپنی سفارش پر قیدی کو ملنے والی سہولتوں کا شکریہ اداکرتی ہے تو اسے احساس دلایاجاتاہے کہ قیدی کو ملنے والی سہولتوں کی” قیمت“ کی ادائیگی کاسلسلہ ابھی جاری رہے گا ۔اسے بڑے دوٹوک انداز میں کہاجاتاہے کہ” اگر آپ آج رات ڈنرپر نہیں آئیں گی تو آپ کا قیدی واپس دھوپ میں بیٹھنے پر مجبور ہوگا، قیدی کی تکلیف کی ساری ذمہ داری آپ پر ہوگی، جو اس کے آرام کی خاطر دعوت پر آنے کی زحمت بھی گواراکرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ایسی خود غرض عورت سے مزیدگفتگوبے کار ہے آپ جاسکتی ہیں ….“ ہرہفتے اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں جیلر کے استحصال کا شکار ہونے والی جرمن لڑکی بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ ”وہ کتنا خودغرض اور بے وقوف ہے، وہ میری مسکراہٹ اور آمادگی کو کتنا غلط سمجھا،مسکراہٹ میری عادت ہے، آمادگی میری ضرورت۔ میںنے قیدی کے لیے قربانی دی، یہ شرافت ہے، وہ بے وقوف سمجھتاہے میں خراب لڑکی ہوں “ ۔
جس افسانے میں مختارمسعود کے فن کا بہترین اظہارہواوہ ”فاصلے“ہے۔ یہ افسانہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی ،طبقہ اِناث کے مطالعے ،سراپانگاری،منظرنگاری کا بہترین نمونہ ہے ۔انتظامی عہدوں پر فائز یا زندگی کے روکھے پھیکے معمولات میں محصور لوگوں کے لیے طبقہ اِناث سے رابطے کی راہیں کس طرح کشادہ ہوتی ہیں مصنف ان کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتاہے:
”کبھی بلی کے بھاگوں چھینکا خود ہی ٹوٹ جاتاہے کبھی سینیما یاسفرمیں نشستوں کی ترتیب رنگ لاتی ہے، کبھی ہوٹل یاکلب میں بازی لگ جاتی ہے، شہرکی بارونق سڑکوں پر بھی راہ و رسم کے مقامات آتے ہیں ،ٹیکسی اور تانگے بھی آپ کو منزل مقصودتک پہنچاسکتے ہیں،پکنک گاہوں میں بھی پینگیں بڑھانے کا سامان ہوتاہے، سمندرکے کنارے ہر ایک کادل ڈوبتا اورڈولتارہتاہے،نمائش میں تو سبھی نمود کے لیے بے قرارہوتے ہیں، ٹیلی فون کا غلط نمبر ہی بعض اوقات صحیح نمبر نکلتاہے“ ۔مصنف کویہ تجربہ ایک افسر کی حیثیت سے حج کی قرعہ اندازی کروانے کے نتیجے میں حاصل ہوتاہے ،جب اس کے دفتر میں اچانک تین خواتین آدھمکتی ہیں ۔یہ شیریں ،لیلیٰ اور عذرا تھیں ۔جن میں ایک نوخیز، ایک نوجوان اور ایک جوان تھی ۔مصنف کی نگاہیں ان تینوں کی عمروں تک ہی نہیں بلکہ سراپاکی تمام تفصیلات، دلچسپیوں اور رجحانات تک بھی پہنچ جاتی ہیں ۔اس کے خیال میں ان میں سے ایک سترہ سال کی ،دوسری بیس اور تیسری پچیس برس کی ہوگی ۔شیریں سب سے بڑی تھی۔ گدرے جسم، بڑے بڑے کولہوں اور گول چہرے والی شیریں نے سرخ ریشمی ساڑھی کے نیچے بغیرآستین کا مختصرسابلاﺅز پہناہواتھا اور اس کے گورے بدن کی ایک قاش، بلاﺅز اور جمپر کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔ اس کے بال کٹے ہوئے اور ناخن بڑھے ہوئے تھے، اس نے لاپروائی سے ساڑھی کا پلو یوں ڈالاہواتھا جیسے ایک ہی وقت میں خوداعتمادی اور خود نمائی کامظاہرہ کررہی ہو ۔اس کے سینڈل، پرس، رسٹ واچ، نیل پالش اور لپ اسٹک سبھی کا رنگ ایک تھا، یہ موزونیت اس کی جاذبیت کو بڑھارہی تھی ۔ ایساہی حال دوسری دولڑکیوں کا تھا۔ افسانہ نگار نے بڑی تفصیل اور مہارت سے ان تینوں کی سراپانگاری کی ہے جس سے اس کی قوت مشاہدہ اور باریک نگاہی کا اندازہ ہوتاہے ۔لیلیٰ کا تعارف کرواتے ہوئے مصنف جو عام طور سے بہت محتاط قلم ہے، اس کے پیکر کے خطوط تراشتاچلاجاتاہے ۔وہ اپنے قاری کو بتاتاہے کہ :” لیلیٰ سانولے رنگ اور تیکھے نقشوں والی لڑکی تھی اس نے چست قمیص اور تنگ شلوار کے ساتھ گلے میں بل داردوپٹہ ڈالاہواتھا۔ اس کی گردن صراحی دار اور انگلیاں مخروطی تھیں، اس کا جسم اگرمصور کے لیے تھا ،کمرشاعر کے لیے ،اس کے بال سامنے سے گھنگریالے تھے مگراس نے اصلی بالوں کی نقلی چوٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔ اس کی آنکھوںکے گردسبزہالہ بناہواتھا اورسیاہی کی ایک لکیر آنکھوں کے گوشوں سے نکلی ہوئی تھی ……..مجموعی طور پر وہ ایک ایساموزوں مصرع تھی جسے دیکھ کر ہرایک کو گرہ لگانے کی سوجھے“۔
ان تینوں کے بارے میں افسانہ نگارکاکہناہے کہ ”یہ تینوں لڑکیاں بڑے اطمینان سے میرے سامنے بیٹھی ہوئی تھیں ۔میں نے جس کی طرف دیکھا وہ مجھے بھری ہوئی دونالی بندوق نظرآئی، ان کی نگاہیں بے باک تھیں، باتیں البتہ وہ رُک رُک کر بڑی اداسے کرتیں، ان کے معنی خیز جملے سبھی ادھورے تھے، جنھیں پوراکرنے کے لیے وہ ایک دوسرے کوکنکھیوں سے دیکھتیں ،پھردیر تک مسکراتی رہتیں، کبھی کبھی مسکراہٹ گوشہءچشم سے پھیل کر ہونٹوں تک پہنچ جاتی ،خون ِکبوتر میں لتھڑی ہوئی قاشیں جداہوتیں اور موتیوں کی لڑیاں جگمگااٹھتیں “۔ اس صورت حال میں افسانہ نگار کی پہلی شکست تو وہ رویہ ہے جس میں وہ اپنے سیکریٹری سے کہتاہے کہ میں کسی فون کے لیے فارغ نہیں ہوں اور اس کے تمام ملاقاتی اور ٹیلی فون اس تمام عرصے کے لیے موقوف ہوجاتے ہیں جب تک یہ بھری ہوئی دونالی بندوقیں اس کے سامنے رہتی ہیں۔ یہ بندوقیں ،پوچھنے پر بھی اپنی آمد کی غرض و غایت نہیں بتاتیں ،سوائے اپنی مسکراہٹ اور” ہاﺅسویٹ آف یو“یا اشتیاق ِملاقات کے اظہارکے، جو افسانہ نگار کے سمند ِذوق پر مزیدتازیانوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ اس کے سامنے بیٹھی معنی خیز جملوںکا تبادلہ کرتی رہتی ہیں، کافی کا دور چلتارہتاہے، ایش ٹرے میں پھینکے ہوئے دھواں اگلتے سگریٹوں کے ٹکڑے سماتے رہے اوروقت چپکے چپکے گزرتارہتاہے یہاں تک کہ شیلف پر فائلوں کا ڈھیر لگ جاتاہے ۔اس افسانے میں مصنف اپنی شائستگی اورحسن ِنسوانی کی بجلی کے سامنے بے بسی کی دیانتدارانہ تصویریں پیش کرنے میں کامیاب رہاہے ۔ابتدامیں وہ بہ ظاہر فائل میں گم ہے لیکن بہ باطن اسی ادھیڑ بن میں رہتاہے کہ یہ کون ہیں اور کیا چاہتی ہیں ۔یہ لڑکیاں اس کی افسری اس کی مصروفیت اوراس کی کم آمیزی سب پر غلبہ پالیتی ہیں۔ عمر کے لحاظ سے ان کا تجربہ وسیع اور گہراتھا۔ وہ نیم واآنکھوں، متبسم لبوں اور ادھورے جملوں کے اثرسے واقف تھیں اوران کا برمحل استعمال کرلیتی تھیں ۔مصنف اِن اداﺅں کو سمجھنے کے باوصف ان سے متاثر ہوتارہتاہے ۔وہ مکڑی کی طرح ایک نقرئی جال بنتی رہتی ہیں اور افسانہ نگار سب کچھ جاننے کے باوجود اس میں الجھتا جاتا ہے۔ وہ پرندے کی طرح پھڑپھڑاکراس جال سے نکلنے کی کوشش کرتاہے تو عذرا کے ہونٹوں ،لیلیٰ کی زلفوں اور شیریں کے پیٹ کی قاش سے ٹکرا کر اور الجھ جاتاہے ۔افسانے کا اختتام افسانے ہی کا نہیں ان لڑکیوں کی مہارت کابھی نقطہ عروج ہے۔ طویل محفل اور گپ شپ کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگتی ہیں تو افسانہ نگار ان سے آمد کی غر ض وغایت پوچھتاہے ، جس پر چہکتی ہوئی وہ چڑیاں یکایک غمگین ہوجاتی ہیں اور اپنی اداﺅں کوکام میں لاکرکام بتانے سے پہلے کام ہوجانے کاوعدہ لینا چاہتی ہیں۔یہاں پہلی بار مصنف کا انتظامی تجربہ کام آتاہے اور وہ ایساکوئی وعدہ کرنے کی بجائے اپنا سوال دوہرا دینازیادہ مناسب سمجھتاہے۔ جس پر کہاجاتاہے کہ معمولی ساکام ہی توہے یعنی آپ کو وعدہ کرلینے میں تامل نہیں ہوناچاہیے ۔بالآخر وہ اپنا کام بتاتی ہیں کام یہ ہے کہ” ان کی ممی کو جیل ہوگیاہے“ مصنف کے تصورات کا محل دھڑام سے زمین پر گرتا ہے وہ اسے سنبھالادینے کے لیے وضاحت کرتی ہیں ”سمگلنگ کا کیس تھا تھوڑا سا سونا اور کوکین بنگلے سے نکلی تھی“ …………یہاں قالین کے مصنف سے قاری کیا توقع کرسکتاہے ؟کیاوہ یہاں بھی انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قیدی خاتون کے لیے سہولتیں اور ان دونالی بندوقوں کو ریلیف فراہم کرے گا؟ یا اس کا رویہ یکسر بدل جائے گا ؟قاری سے کچھ کہے بغیرافسانہ نگار کی پھڑپھڑاہٹ یک دم تیز ہوتی ہے اور افسانہ ختم ہوجاتاہے ۔اس افسانے میں ضمنی کرداروں کی دنیا بھی آبادہے ۔ ان کرداروں کی پیش کش میں بھی مصنف نے پورا زورقلم صرف کیاہے، انتخابِ الفاظ اور جذبات و کیفیات کی عکاسی کسی اعتبار سے بھی یہ کردار بھی کم نہیں ہیںمثلاً ایک خاتون کا تعارف ،جس کانام حج کی قرعہ اندازی میں نہیں نکلا، یوں کروایاگیا”وہ مدتوں خاموشی سے سلگنے کے بعد یکایک اپنی مایوسیوں کی مشعل ہاتھ میں لیے دوجہان کو آگ لگانے نکل پڑی“۔ ایک خوب صورت بڑھیا کے ہاتھ دیکھ کر جس کی زندگی دوسروں کے گھروں میں کام کرتے گزرگئی، افسانہ نگار یوں گویاہوتاہے :”اس نے مجھے اپنے دونو ہاتھ کھول کردکھائے یہ ایک بھیانک منظرتھا ،پچاس سال تک برتن مانجھے جائیں تو ہاتھ محض جھانواں بن کررہ جاتے ہیں۔ ان ہاتھوں سے کمائے ہوئے پیسے کو بھی شایدہاتھوں کی میل کہتے ہوں گے“ اصل میں حج کی اس قرعہ اندازی میں نامراد رہ جانے والوں کو تسلی دینے یاان کے غم کا مداواکرنے کے لیے افسانہ نگار انھیں اپنے دفتر آنے کاکہتاہے اور انھی لوگوں کی آمد کی رو میں عذرا، لیلیٰ اور شیریں اس کے دفتر میں آدھمکتی ہیں۔ جس طرح انھوںنے اس کے دفتر کی تمام مصروفیات پر غلبہ پالیا تھا اسی طرح افسانے کے باقی تمام کرداروں پر بھی ان کا کردار غالب آگیا اوران کے کردار نے تمام ضمنی کرداروں کو دبادیا ۔منظرنگاری کے دوران کہیں مصنف کے اندر تاریخ سے لگاﺅرکھنے والی شخصیت بھی جاگ اٹھتی ہے اور وہ تاریخ کے جھروکوں کی جانب مائل ہونے لگتاہے ۔مثال کے طور پر وہ اپنے دفتر کا منظر پیش کرتے ہوئے کہتاہے:”شام پڑچکی تھی ،عمارت میں کافی اندھیراتھا اور صرف دوچار چندھے بلب چوکیداری کررہے تھے، بوجھل قدموں کی چاپ برآمدے اور سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی کمرے تک میرا پیچھا کرتی رہی ۔اس اجنبی آواز سے گھبراکر میں رُک گیا۔ سامنے دیوار پر سر چارلس نیپیر کی تصویرلگی ہوئی تھی ،یہ وہی سرچارلس نیپیر ہیں جس نے سندھ فتح کرنے پر حکومت کو تاربرقی سے اطلاع دی کہ آج مجھ سے ایک گناہ سرزد ہواہے“۔ یہ آخری جملہ افسانہ نگار کے تاریخی ذوق کا عکاس تو ہے لیکن اس محل پر قاری کے لیے کسی معنویت کا باعث نہیں ہے،کہاجاسکتاہے کہ عمارت کی تاریکی اور پراسراریت کی کامیاب منظرکشی میں افسانہ نگار کے تاریخی ذوق نے مداخلت کی ہے لیکن اس کا قلم فوراً چونک کرمحتاط ہوگیاہے ۔پیشتر اس سے کہ قلم تاریخ کی وادیوں میں تیز قدم ہواس پر افسانوی دنیاکے تقاضے غلبہ پالیتے ہیں اور اس کا افسانہ دائرہ توازن سے نکلنے سے بچ جاتاہے ۔
………………………………….
ڈاکٹر زاہد منیرعامر پاکستان نام ور دانش ور اور محقق ہیں۔ ان دنوں پنجاب یونی ورسٹی لاہور کے شعبہ اردو کے سرباہ ہیں۔ وہ جامعہ الازہر قاہرہ میں پاکستان چیئر پر بھی خدمات انجام دے چکے۔ ّ آوازہ ٌ کی خوش نصیبی ہے کہ اسے اردو مائہ ناز ادیب مختار مسعود مرحوم کی افسانہ نگاری پر ان کا مقالہ شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے zahidmuniramir@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
Comments 1