• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

بلیاں کمزور ہو گئیں

آوازہ: فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
May 17, 2020
in محشر خیال
0
فارق عادل
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

”اس وبا نے تو بلیوں سے بھی رزق چھین لیا“۔خاتون خانہ نے صاف کی ہوئی پالک کی مٹھی ایک جانب رکھی اور دکھ کے ساتھ اطلاع دی۔ گھر میں بلی کبھی ہوتی تھی، اب نہیں ہوتی۔ اس لیے بچے محلے کی بلیوں کو دودھ ڈال کر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔بلی گھر کی پلی ہو یا آوارہ، اس کی نفاست اور نخرے کا جواب نہیں۔ہمارے ہاں دو بلیوں کا آنا جانا ہے، ایک سنہری اور دوسری مٹیالی۔ ان دونوں کا آپس میں شاید کوئی رشتہ بھی ہے، ہمیشہ اکٹھی آتی ہیں اور باورچی خانے کے اس دروازے کے پاس بیٹھ کر جو بالکونی میں کھلتا ہے، ہلکی سی میاؤں کر کے اپنی آمد کی اطلا ع دیتیں۔اس آواز پر بچے تڑپ کر اٹھتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیتے ۔بلیاں اپنی خاطر تواضع کے لیے بچوں کی پھرتیوں پر نگاہ ڈالتیں پھر کھانے کے پیالے کو سونگھ کر فیصلہ کرتیں کہ ماحضر تناول فرمانا ہے یا حاضری لگا کر پلٹ جانا ہے۔ برسوں کے اس معمول میں ان دنوں فرق آچکا ہے کیوں کہ بلیوں کے پیٹ پسلیوں سے جا لگے ہیں اور جو ڈالو فوراً ہی چٹ کر ڈالتی ہیں۔
بہت پرانی بات ہے، بچپن کی اور بچپن کے بھی اس حصے کی جب دستر خوان پر بزرگوں کی کہی ہوئی کوئی یاداشت میں کچھ ایسے محفوظ ہوتی ہے کہ کبھی محو نہیں ہوتی۔ یہی رمضان کے دن تھے۔ افطاری کا اہتمام ان دنوں بھی ہوا کرتا تھا لیکن کجھور سے روزہ کھولا، دو پکوڑے لیے اور شربت سے حلق تر کر کے نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ نماز کے وقفے کے بعد کھانے کی باری آتی۔ وہ شاید کھانے کی اسی نشست کا واقعہ رہا ہو گا۔ ا ن سطور کے لکھنے والے کی وہ پہلی افطاری ہو گی یا پھر دوسری۔ وہ چکن کا دور نہیں تھا، گوشت پکتاتھا ، بکرے کا یا پھر گائے کا۔ اب یہ اندازہ تو بالکل نہیں ہے کہ اس دن کے دستر خوان میں گوشت کی کون سی قسم شامل تھی لیکن وہ تھا گوشت ہی کا کوئی پکوان ، یقینا بہت مزے کا رہا ہوگا، اس لیے میں نے کوئی ہڈی لے کر اس کی صفائی کچھ زیادہ ہی کر ڈالی۔خلد آشیانی والد نے یہ کیفیت دیکھی تو مسکرائے، پھر کہا ، حکم یہ ہے کہ کھاتے ہوئے ہڈی کو بالکل دھو کر نہ پھینکا جائے، کچھ چھوڑ بھی دیا جائے۔”و ہ کیوں؟“۔ بچے نے ہڈی کو منہ میں رکھ کر اس کا گودا کھینچا اور اس کا مزہ لیتے ہوئے سوال کیا۔”اس لیے کہ اس رزق پر کچھ حق دوسری مخلوقات کا بھی ہے“۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب رات سونے سے قبل بچے کہانی سنا کرتے ۔ ان کہانیوں میں شہزادے شہزادی کے علاوہ جن ، پری اور آسیب چڑیل کا ذکر ضرور ہوتا۔ یہی سبب تھا کہ اس زمانے میں دوسری مخلوق کے ذکرپر صرف یہی مخلوق ذہن میں آتی لیکن آج اتنے زمانوں کے بعد جب بلیوں کے کمزور ہونے کا سنا تو پہلی بار سمجھ میں آیا کہ خشخشی داڑھی والے ابا جی نے جب کسی دوسری مخلوق کا ذکر کیا تھا تو اس سے ان کی مراد کیا تھی۔
تو واقعہ یہ ہوا ہے کہ اسٹریٹ فوڈ جب سے بند ہوئی ہیں، اس مخلوق کے رزق میں بھی کمی آگئی ہے جس کی قسمت کبھی انسانوں کے ساتھ لکھی گئی ہوگی۔گھر میں جب یہ بات ہورہی تھی، عین اسی وقت عمران خان اپنے دیسی اور بدیسی مشیروں کے جلو میں بیٹھے لاک ڈاو¿ن کھولنے کے لیے دلائل دے رہے تھے ۔ عمران لاک ڈاؤن کا کوئی ایک نقصان گنواتے پھر کسی مشیر کو اشارہ کرتے کہ اُن کی تحقیق اس باب میں کیا کہتی ہے، وہ جھٹ سے اعداد و شمار کی مدد سے اس کی تائید کر دیتے ۔ہر چند کہ اس بات چیت میں کسی ایسی مخلوق، خاص طور پر بلیوں کا بیان ہرگز نہیں تھا جن کے رزق کا کچھ حصہ بھی انسانوں کے رزق میں شامل کرد یا گیا ہے ، اس کے باوجود یہ بات دل کو لگی لیکن جیسے ہی انھوں نے ٹرانسپورٹ کھولنے کا حکم دیا ، ماتھا ٹھنکا اور حمید شاہد کی یاد آئی۔
ہمارا افسانہ منٹو اور اشفاق احمد سے چلتا ہوا اب محمد حمید شاہد تک آپہنچا ہے۔ محمد حمید شاہد کی کہانی بھی عجب ہے، علم انھوںنے زراعت کا حاصل کیا یعنی زرعی سائنس دان ہیں، ملازمت انھیں بینک میں ملی اور اندر سے وہ آٹھوں گانٹھ کمیت ادیب تھے، لہٰذا بینکاری کے اعداد و شمار سے عمر بھر لڑنے جھگڑنے کے باوجود اُ ن کے اندر کا ادیب پھلتا پھولتا رہا۔سیرت نگاری کی، تنقید میں بھی معرکے مارے لیکن افسانے کے ساتھ ان کا رشتہ حقیقی اور اٹوٹ نکلا۔ یہ تو اب تحقیق کا موضوع ہے کہ عبداللہ حسین جیسے نامور ادیبوں کو چھوڑ کر ہمارے دیگر اہل قلم نے زمینی حقائق اور اُن دکھوں کو اپنی تخلیقات میں جگہ کیوں نہ دی جن کی وجہ سے قسمت کی دیوی ہماری نسلوں سے روٹھ گئی اور قوم پے درپے ایسے مسائل میں الجھتی چلی گئی جن سے نکلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ محمد حمید شاہدہم عصر ادیبوںمیں شاید واحد اور منفرد ادیب ہیں جنھوں نے اس روایت کو توڑاا ور ایسے تجربات کیے جن کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ان کا ایک ناوّل ہے،” مٹی آدم کھاتی ہے“، اس ناوّل میں انھوں نے المیہ مشرقی پاکستان کو جس تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے،وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں کہا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان کا سانحہ بنگالیوں کا تجربہ ہے، ان کے ادب میں اس کی جھلک آئے تو آئے، ہمارا اس سے کیا لینا دینا لیکن ان کے ناوّل نے اس تصور(Myth)کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔حمید شاہد کا تازہ ادبی تجربہ لاک ڈاؤن کی دین ہے۔وبا کے خوف سے زندگی جب ٹھہر سی گئی اور فضاو¿ں کے زخم بھرنے لگے تو ایک روز ان کے ایک کردار کے گھٹنوں کا درد غائب ہو گیا اور وہ ایک صبح نوجوانوں کی طرح کدکڑے مارتا ہوا چھت پر جاپہنچا جہاں کثافت سے پاک آسمان میں اسے دور تک دکھانے دینے لگا، یہاں تک کہ گل مرگ کے پہاڑ بھی جن کے پیچھے ہمارے کشمیر ی بہن بھائی بھارتی فوج کے لاک ڈاؤن میں جیتے ہیں اور ایک ایسی صبح کے انتظار میں دست بدعاہیں جس میں ظلم کا سورج ڈھل جائے اورامن و انصاف کی ایسی باد صبا چلے جس میں کوئی کسی کی گردن میں غلامی کا طوق نہ ڈال سکے۔ہمارے آسمانوں اور ان کی فضاؤں میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران میں اتنا گرد و غبار چھا گیا تھا کہ گل مرگ کی پہاڑیاںنگاہ سے اوجھل ہوگئی تھیں۔اب حمید شاہد کی نگاہ ان تک پہنچی ہے تو کیا عجب ہمارے مصلحت کیش ادیب کو بھی یہ چوٹیاں دکھائی دے جائیں نیز ان کی اوٹ میں صبح و شام جبرکی چکی میں پستے ہوئے کشمیری بھی۔ بس، اسی لیے میں سوچتا ہوں کہ عمران خان کی خواہش پر پبلک ٹرانسپورٹ چلے نہ چلے، میں چاہتا ہوں کہ ہماری فضائیں کچھ دن اور آلودگی سے بچی رہیں۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آلودگیاسٹریٹ فوڈافسانہبھارتی فوجپبلک ٹرنسپورٹعمران خانکشمیرلاک ڈاؤنمحمد حمید شاہدوبا
Previous Post

مختارمسعود کی افسانہ نگاری

Next Post

چوہدری خلیق الزماں کا انتقال

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
چوہدری خلیق الزماں کا انتقال

چوہدری خلیق الزماں کا انتقال

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions