دنیا بھر میں لوگ کرونا وباء سے خوفزدہ ہیں۔ ذہنی تناؤاور عصابی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ تعلقات میں تلخی اور روزگار میں کمی کی عام طور پرشکایات سنائی دے رہی ہیں۔ یہ سب کسی بزدلی کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ ہی غیر فطری ہے ۔
اگر اس بیان کو درست مان لیا جائے تو کوئی پوچھ سکتا ہے کہ پھر مسئلہ کیا ہے؟ جواباً عرض ہےکہ مسئلہ تب ہوتا ہے جب کوئی اس کا خوف اپنے اوپرطاری کرلے، خوف کے تحت روئیے میں تبدیلی آنے لگے اور انسان مایوسی کا شکار ہوکر رہ جائے۔ خوش ہونا تو دور انسان زندگی سے لاتعلق اور بے عمل ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
حال ہی میں ІРSOS نے پاکستان میں ایک سروے کیا ہے۔ نتائج بتاتے ہیں کہ 86 فیصد بے روزگاری اور83 فیصد لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں جبکہ کرونا وبا نے 78 فیصد پریشانی میں اضافہ کیا ہے۔ ذرا غور کیا جائے تو بے روزگاری اور مہنگائی کا بڑا سبب بھی کرونا ہی ہے۔ گویا کرونا اس وقت ہماری زندگیوں پر بہت اثر انداز ہورہا ہے۔
ضروری ہے کہ ہم کرونا وبا کے خوف اور اثرات کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے؟ کس قدر مسئلہ حقیقی ہے اور کس قدر ہماری سوچ اور میڈیا کی رپورٹنگ کا نتیجہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کورونا وا ئرس میں ملازمت کو برقرار رکھنا | ارشد عاکف
کوروناوائرس کے دوران ملازمت کاحصول| ارشد عاکف
کورونا وائرس اور مینیجرز کے لیے چیلنجز | ارشد عاکف
پہلا سوال اس تجزیے میں یہ ہے کہ کیا یہ مسئلہ بنی نوع انسان کو پہلی دفعہ پیش آیاہے؟
دوسرا سوال؛ کیا کرونا کی تباہ کاری انسانی تاریخ کی دیگر وباؤں کے لحاظ سے زیادہ ہے؟
جواب سے شاید آپ کو حیرت ہو ، نہ تویہ وباء انسانی تاریخ کی پہلی ہے اور نہ ہی اس کا نقصان (جانی و مالی) اس سے قبل کی وباؤں سے زیادہ ہے۔ بلکہ آج انسان ماضی کی نسبت کئی درجے زیادہ محفوظ ہے۔ اور مختلف ادویات سے صحت مند بھی ہو رہا ہے۔ معاشی بحالی کیلئےحکومتیں اور عالمی مالی ادارے مل کر انسانوں کیلئے کام کررہے ہیں۔
یوں تو انسانی تاریخ میں وباؤں نے بہت نقصان کیا ہے اور کئی دفعہ دنیا کو ہلا کر نئی دنیا کے آغاز کا سبب بنی ہیں۔ ہردفعہ نوع انسانی پہلے سے زیادہ صحت مند اور تواناء ہو کر اپنی بقاء کا سامان کرتی رہی ہے۔
چند بڑی وباؤں کا تذکرۂ تا کہ ہم تقابل کر سکیں
O پلیگ سال 541 سے 542 میں آئی اور3 سے 5 کروڑ انسان لقمۂ اجل بنے۔
O کالی پلیگ سال 1347 سے 1351 کے دوران رہی اور20 کروڑ کے لگ بھگ انسان مرے۔
O خسرے کی وباء سال 1520 میں آئی اور کئی دہائیوں تک بے قابو رہی ۔ اس دوران 5 کروڑ60 لاکھ اموت ہوئیں۔
O تیسری پلیگ سال 1885 میں چین اور انڈیا میں آئی جس سے 1 کروڑ20 لاکھ لوگ مرے۔
O سپینش فلو سال 19- 1918 میں آیا اور4 سے 5 کروڑ انسانوں کی اموات ہوئیں۔
ان چند وباؤں کے علاوہ بھی اور بہت سی وبائیں تاریخ کا حصہ ہیں مگر چند کے اعداد وشمار ذکر کیے ہیں تا کہ معلوم ہو کہ ہم اپنی تاریخ کی نسبت اب بہت محفوظ ہیں۔
اس وقت (30 جولائی) دنیا میں کرونا مریضوں کی تعداد ۱ کروڑ 70 لاکھ جبکہ اموات اب تک 6 لاکھ 73 ہزار 7 ہیں۔ اب اس اعدادو شمار کو دنیا کی کل آبادی جو کہ ساڑھے سات بلین ہے کے تناسب میں دیکھیں اور تجزیئہ کریں کہ کتنے فیصد ہے تو جواب ہوگا کہ قابل ذکر تعداد نہیں ہے۔
اگر پاکستان میں دیکھیں تو مریض 2 لاکھ 77 ہزار اور اموات 5924 ہیں۔ اب 23 کروڑ کی آبادی کا فیصد تناسب نکالیں تو دوبارہ جواب ہوگا کہ “قابل ذکر” نہیں۔
اس تجزیہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو انسان فوت ہوئے وہ کم نقصان ہے یا ہمارے لئے ان کی اہمیت نہیں ہے۔ نقطۂ یہ ہے کہ جس قدر خوف اور بے یقینی ہے اس قدر وباء جاں لیوا نہیں ہے۔ ذرا حوصلہ چایئے ہے۔
ہاں، اس وباء نے معاشی طور پر دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہی خوف کی بڑی وجہ ہے۔ مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ کاروبار سنبھلنا شروع ہوگئے ہیں اور چند احتیاطوں کے ساتھ زندگی معمول پر آرہی ہے۔
یہی امید لے کر اگر چلا جائے تو زندگی آسان ہو سکتی ہے۔
اب ہم اپنے سوال کی طرف آتے ہیں کہ کرونا وباء کےدوران کیسے خوش رہا جا سکتا ہے؟
خوشی جسمانی یا طبی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ ایک حالت کا نام ہے جب ہم دباؤ میں نہ ہوں یا اچھی امید میں ہوں، زندگی بامقصد ہواور بنیادی ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں۔ اگر پوری نہ بھی ہو رہی ہوں تو ہم دل گرفتگی کی بجائے اللہ کی رضاء سمجھ کہ پُر سکون رہیں۔
خوشی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ ان کو قابو کرنے میں ہے۔ خوشی مصیبت یا مشکل کے ٹل جانے کا نام نہیں بلکہ حوصلے اور صبر سے برداشت کرنے کا نام ہے۔ انسانی تاریخ میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا جس کی سو فیصد خواہشات پوری ہوئی ہوں یا اُسے کوئی مشکل پیش نہ آئی ہو۔ جبکہ خوش اور کامیاب وہ انسان رہا جو برداشت اور سلیقہ سے مشکل میں پُر سکون رہا۔
خوشی آپ کو ملتی نہیں، خود بنانا ہوتی ہے؛ اپنے مثبت رویئے سے ، برداشت سے، اور امید کو برقرار رکھ کے۔
اس ضمن میں چند تجاویز یہ ہیں جو کارآمد ہوسکتی ہیں۔
۱۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر راضی ہونا اور اللہ کا شکر گزار ہونا سیکھیے۔ دنیا میں خواہشات ، مال و دولت، اور آسائشوں کی کوئی حد نہیں۔ اس لئے خوشی مزید میں نہیں کیونکہ مزید کہیں ٹکنے نہیں دیتا، نہ ہی خوش ہونے دیتا۔
۲۔ ہم سوچتے ہیں کرونا بری وباء ہے، کل کیا ہوگا؟ خوف اور پھر ناامیدی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خود کو بتائیں کہ احتیاط سے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ غیر ضروری تجزیئے نہ کریں اور نہ ہی خواہ مخواہ کے نتائج مرتب کریں کہ دنیا ختم ہونے جا رہی ہے۔ ایسا کچھ نہیں، ہر ملک اور بالخصوص پاکستان میں حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔
۳۔ نارمل دن اور نارمل زندگی گزریں مگر احتیاط کے ساتھ۔۔ غیر ضروری احتیاطیں آپ کو نفسیاتی طور پر تھکا دیتی ہیں اور خوف میں مبتلا رکھتی ہیں۔ کوشش کریں کرونا سے پہلے والے معمولات برقرار رکھیں۔ آپ بھی نارمل رہیں گے اور معاشی حالت بھی۔
۴۔ ورزش جسمانی ہی نہیں ذہنی صحت کیلئے بھی ضروری ہے۔ اپنی سہولت کے مطابق سیر کریں، گھر میں ورزش کرلیں مگر ہر روز کچھ ایسا ضرور کریں۔ یہ سکون اور خوشی کی حالت میں رہنے کیلئے معاون ہے۔ بالخصوص تازہ ہوا نفسیاتی سکون دیتی ہے۔
۵۔ ہنسی کہتے ہیں علاجِ غم ہے۔ اس لئے خوشگوار باتیں کریں۔ ایسے لوگوں سے بات کریں جو ہر وقت حالات کا رونا نہ روتے ہوں۔ مزاحیہ پروگرامز دیکھیں اور تحریریں پڑھیں اور دوسروں کو دیں۔
۶۔ اپنے رشتوں کے قریب رہیں۔ انہیں حوصلہ دیں اور اُن سے حوصلہ لیں۔ میل ملاقات (فون پر یا سوشل میڈیا) رکھیں۔ پُر اُمید گفتگو کریں۔
۷۔ صدقہ اور خیرأت سے اللہ تعالی مشکلیں ختم کر دیتا ہے۔ انسان کے دل کو خوشی اور سکون ہوتا ہے۔ جس قدر ممکن ہو دوسروں کی مدد کریں۔
۸۔ ہمیشہ پُر اُمید رہیں۔ منفی لوگوں سے فاصلہ رکھیں۔ یہ لوگ کار کے پنکچر وہیل کی طرح ہیں جو آپ کو کہیں جانے نہیں دیں گے۔
۹۔ ایمان آپ کو اُمید دیتا ہے۔ ضروری ہے آپ اہل ایمان بنیں۔ آپ جس مسلک یا مذہب سے ہوں اُس پر یقین رکھیں۔ ایمان انسانیت سکھاتا ہے اور روحانی خوشی دیتا ہے۔ جس سے آپ طاقت لے کر بیماری، وباء اور معاشی مشکالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ خوشی ملتی نہیں، خود حاصل کرنا ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں اور انسان چھوڑ کر، کچھ کو نظرانداز کرکے، اور کچھ کو برداشت کرکے۔
****
ارشد عاکف پچھلے تئیس سال سے کارپوریٹ اور ڈیویلپمنٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ہیومن ریسورس منیجمنٹ، لیڈرشپ،
ایچ آر آوٰٹ سورسنگ، نو جوانون کی ترقی ، ملازمت اور شخصی مہارتوں کے شعبوں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔آپ آئی ایس او260 کے دو بین الاقوامی ورکنگ گروپس کے ممبر ہیں جو ریکروٹمنٹ، تنوع اور شمولیت کے حوالے سے کام کررہے ہیں ۔آپ پروفیشنل ٹرینر ہیں اور بیشتر قومی اور بین الاقوامی فورمز اور سیمنارز میں مختلف موضوعات پر بات کے لیٗے مدعو کیے جاتے ہیں۔
آپ اے ایس کے ڈویلوپمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی ہیں۔ اے ایس کے اپنی خدمات میں آیٗی ایس او سے تصدیق شدہ ا ادارہ ہے جو کہ ہیومن ریسورس اور منیجمنٹ کنسلٹینسی، ٹریننگ اینڈ دویلوپمنٹ، پروجیکٹ منیجمنٹ، فایٗنینشل منیجمنٹ، ریسرچ ، شخصیتی تشخیص اور ٹیسٹنگ سروسزاور ہیومن ڈویلوپمنٹ کے شعبوں میں کام کررہا ہے۔
(www.askdevelopment.org)