Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مجھے میرے ڈاکٹر نے ایک اہم طبی معائنے کی تاریخ چھ ہفتے کے بعد کے لیے دی تھی۔ جس کے بعد اس موذی مرض کی تصدیق ہوتی یا انہیں عام گلٹیاں تسلیم کر کے کسی بھی وقت آپریشن کے بعد نکال دیا جانا تھا ۔ اس وقت صرف ممکنہ بیماری تصدیق ہونے کی صورت میں علاج کا ایک بڑا مرحلہ بیان کر دیا گیا تھا۔ اس دوران میں کام سے چھٹی لے کر گھر کا باغیچہ درست کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ ساتھ ہی تین سال قبل چھوٹی بیٹی مایا کا ایک ادبی پروجیکٹ مکمل کرنا چاہ رہی تھی۔ طبیعت کبھی مطمئن اور کبھی بے چین محسوس ہورہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا چند دنوں کے لیے ہی سہی میں کسی ایسے مقام پر چلی جاؤں جہاں خود سے گفتگو کرنا اور خود کو تنہائی میں سمجھانا آسان ہو۔ مجھے اپنے شوہر ، بچوں ، بہن بھائی اور دوستوں کی تسلیوں اور ڈاکٹروں کی امید و دلاسوں سے آگے بڑھ کر سوچنا تھا ۔ زندگی کے دائمی سفر کی تیاری کے لیے “ to do” کی فہرست پر سوچنا تھا۔
سفر صرف جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا دورانیہ نہیں ہوتا بلکہ اصل سفر تو روحانی ہی ہوتا ہے لیکن جب ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب ہم ذہنی آمادگی اور روحانی تسلی کی ساتھ جسمانی طور پر کہیں منتقل ہوجائیں تو اس سفر کی تاثیر کا احساس دو چند ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی میں حالتِ سفر میں تھی لیکن صرف روحانی طور پر ۔۔۔۔ جسم جس زمین پر اپنا سایہ ڈالے کھڑا تھا ذہن اور روح اسی مقام سے کوسوں میل آگے بڑھ چکی تھی۔
اُس روز لندن سے ہمارے ایک دوست فہیم اختر صاحب نے اطلاع دی کہ استنبول یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد راشد حق مجھ سے جلد رابطہ کریں گے ۔ وہاں ایک دو روزہ اردو کانفرنس ہے جہاں مجھے بھی اپنا مقالہ پیش کرنا کرنے کے لیے مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ جامعہ استنبول اور ڈاکٹر پروفیسرحلیل طوقار اُردو زبان کے حوالے سے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں ۔ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ان کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اس سے قبل بھی اردو کانفرنس اس شعبے کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے منعقد کی جاچکی تھی جس میں میں اپنی کچھ نجی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکی تھی ۔ یہ موقع مجھے دوسری بار مل رہا تھا ۔ لیکن اس بار بھی حتمی طور پر جانے کا ارادہ ابھی باقی تھا ۔ چند ہی دنوں میں جامعہ استنبول سے رابطہ ہوا اور میرے ہاتھ میں استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی جانب سے ترک مجاہد شاعر عاکف ارصوئے اور جہد آزادی کی صد سالہ تقریب کا دعوت نامہ پہنچ گیا۔ میں جس کیفیت میں تھی اور فرار کی راہ یا خود سے گفتگو کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی وہ اس دعوت نامے کی صورت میں مجھے موصول ہوچکا تھا ۔
میں نے ابھی اپنا سفر شروع نہیں کیا لیکن سوچ سلطنت عثمانیہ کے گزرے دور میں کہیں داخل ہوچکی تھی ۔
سلطنت عثمانیہ بارہویں تیرہویں صدی عیسوی سے۱۹۲۴ ء تک قائم رہنے والی ایک ایسی پر حشم و جلال مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک مسلم تھے۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں یہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اورجنوب مشرقی یورپ شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کی سرحدوں میں شامل تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قذوین ، خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں کے قریبی ممالک سلواکیہ اور گریما یا یوکرائن تک اور جنوب میں سوڈان ، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت کے کئی خطے بڑے بڑے صوبوں کی صورت اس مملکت کو جوڑ رہے تھے۔ عثمان خان غازی یا عثمان بن ارطغرل، عثمان اول یا عثمان خان غازی اس سلطنت کے پہلے سلطان تھے جو سلطنت عثمانیہ کے بانی کہلائے۔ ان کی پیدائش تاریخی کتب کے مطابق۱۲۵۸ءکی ہے جبکہ ان کی ۹ اگست ۱۳ ۲۷ ہے۔ اس سے قبل یہ علاقہ سابقہ روم کی وسیع و عریض سلطنت میں شامل تھا۔
اس زمانے میں مذہب اسلام جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا وہاں کچھ اولیا کرام اور دین اسلام کے سچے پیروکاروں میں کچھ سلطنت کو وسیع کرنے والے سالار و شہنشاہ بھی شامل تھے۔
تاریخ کی صفحات پر یہ بھی رقم ہے کہ عثمان کے والد ارطغرل کی وفات کے بعد سابقہ روم کے دار الحکومت قونیہ پر منگولوں کے قبضے اور سلجوقی سلطنت کے خاتمے کے بعد عثمان کی جاگیر خود مختار ہو گئی جو بعد میں سلطنت عثمانیہ کہلائی۔
عثمان خان کی جاگیر کی سرحدوقسطنطنیہ کی بازنطینی سلطنت سے ملی ہوئی تھی۔ یہ وہی بازنطینی حکومت تھی جو عربوں کے زمانے میں رومی سلطنت کے نام سے مشہور تھے جسے الپ ارسلان اورملک شاہ کے زمانے میں سلجوقیوں نے باجگزار بنالیا تھا اب یہ بازنطینی سلطنت بہت کمزور اور چھوٹی ہو گئی تھی لیکن پھر بھی عثمان خان کی جاگیر کے مقابلے میں بہت بڑی اور طاقتور تھی۔ بازنطینی قلعہ دار عثمان کی جاگیر پر حملے کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے عثمان خان اور بازنطینی حکومت میں لڑائی شروع ہو گئی۔ عثمان نے ان لڑائیوں میں بڑی بہادری اور قابلیت کا ثبوت دیا اور بہت سے علاقے فتح کرلیے جن میں بروصہ کا مشہور شہر بھی شامل تھا۔ بروصہ کی فتح کے بعد عثمان کا انتقال ہو گیا۔
مجھے میرے ڈاکٹر نے ایک اہم طبی معائنے کی تاریخ چھ ہفتے کے بعد کے لیے دی تھی۔ جس کے بعد اس موذی مرض کی تصدیق ہوتی یا انہیں عام گلٹیاں تسلیم کر کے کسی بھی وقت آپریشن کے بعد نکال دیا جانا تھا ۔ اس وقت صرف ممکنہ بیماری تصدیق ہونے کی صورت میں علاج کا ایک بڑا مرحلہ بیان کر دیا گیا تھا۔ اس دوران میں کام سے چھٹی لے کر گھر کا باغیچہ درست کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ ساتھ ہی تین سال قبل چھوٹی بیٹی مایا کا ایک ادبی پروجیکٹ مکمل کرنا چاہ رہی تھی۔ طبیعت کبھی مطمئن اور کبھی بے چین محسوس ہورہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا چند دنوں کے لیے ہی سہی میں کسی ایسے مقام پر چلی جاؤں جہاں خود سے گفتگو کرنا اور خود کو تنہائی میں سمجھانا آسان ہو۔ مجھے اپنے شوہر ، بچوں ، بہن بھائی اور دوستوں کی تسلیوں اور ڈاکٹروں کی امید و دلاسوں سے آگے بڑھ کر سوچنا تھا ۔ زندگی کے دائمی سفر کی تیاری کے لیے “ to do” کی فہرست پر سوچنا تھا۔
سفر صرف جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا دورانیہ نہیں ہوتا بلکہ اصل سفر تو روحانی ہی ہوتا ہے لیکن جب ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب ہم ذہنی آمادگی اور روحانی تسلی کی ساتھ جسمانی طور پر کہیں منتقل ہوجائیں تو اس سفر کی تاثیر کا احساس دو چند ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی میں حالتِ سفر میں تھی لیکن صرف روحانی طور پر ۔۔۔۔ جسم جس زمین پر اپنا سایہ ڈالے کھڑا تھا ذہن اور روح اسی مقام سے کوسوں میل آگے بڑھ چکی تھی۔
اُس روز لندن سے ہمارے ایک دوست فہیم اختر صاحب نے اطلاع دی کہ استنبول یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد راشد حق مجھ سے جلد رابطہ کریں گے ۔ وہاں ایک دو روزہ اردو کانفرنس ہے جہاں مجھے بھی اپنا مقالہ پیش کرنا کرنے کے لیے مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ جامعہ استنبول اور ڈاکٹر پروفیسرحلیل طوقار اُردو زبان کے حوالے سے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں ۔ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ان کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اس سے قبل بھی اردو کانفرنس اس شعبے کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے منعقد کی جاچکی تھی جس میں میں اپنی کچھ نجی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکی تھی ۔ یہ موقع مجھے دوسری بار مل رہا تھا ۔ لیکن اس بار بھی حتمی طور پر جانے کا ارادہ ابھی باقی تھا ۔ چند ہی دنوں میں جامعہ استنبول سے رابطہ ہوا اور میرے ہاتھ میں استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی جانب سے ترک مجاہد شاعر عاکف ارصوئے اور جہد آزادی کی صد سالہ تقریب کا دعوت نامہ پہنچ گیا۔ میں جس کیفیت میں تھی اور فرار کی راہ یا خود سے گفتگو کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی وہ اس دعوت نامے کی صورت میں مجھے موصول ہوچکا تھا ۔
میں نے ابھی اپنا سفر شروع نہیں کیا لیکن سوچ سلطنت عثمانیہ کے گزرے دور میں کہیں داخل ہوچکی تھی ۔
سلطنت عثمانیہ بارہویں تیرہویں صدی عیسوی سے۱۹۲۴ ء تک قائم رہنے والی ایک ایسی پر حشم و جلال مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک مسلم تھے۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں یہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اورجنوب مشرقی یورپ شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کی سرحدوں میں شامل تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قذوین ، خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں کے قریبی ممالک سلواکیہ اور گریما یا یوکرائن تک اور جنوب میں سوڈان ، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت کے کئی خطے بڑے بڑے صوبوں کی صورت اس مملکت کو جوڑ رہے تھے۔ عثمان خان غازی یا عثمان بن ارطغرل، عثمان اول یا عثمان خان غازی اس سلطنت کے پہلے سلطان تھے جو سلطنت عثمانیہ کے بانی کہلائے۔ ان کی پیدائش تاریخی کتب کے مطابق۱۲۵۸ءکی ہے جبکہ ان کی ۹ اگست ۱۳ ۲۷ ہے۔ اس سے قبل یہ علاقہ سابقہ روم کی وسیع و عریض سلطنت میں شامل تھا۔
اس زمانے میں مذہب اسلام جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا وہاں کچھ اولیا کرام اور دین اسلام کے سچے پیروکاروں میں کچھ سلطنت کو وسیع کرنے والے سالار و شہنشاہ بھی شامل تھے۔
تاریخ کی صفحات پر یہ بھی رقم ہے کہ عثمان کے والد ارطغرل کی وفات کے بعد سابقہ روم کے دار الحکومت قونیہ پر منگولوں کے قبضے اور سلجوقی سلطنت کے خاتمے کے بعد عثمان کی جاگیر خود مختار ہو گئی جو بعد میں سلطنت عثمانیہ کہلائی۔
عثمان خان کی جاگیر کی سرحدوقسطنطنیہ کی بازنطینی سلطنت سے ملی ہوئی تھی۔ یہ وہی بازنطینی حکومت تھی جو عربوں کے زمانے میں رومی سلطنت کے نام سے مشہور تھے جسے الپ ارسلان اورملک شاہ کے زمانے میں سلجوقیوں نے باجگزار بنالیا تھا اب یہ بازنطینی سلطنت بہت کمزور اور چھوٹی ہو گئی تھی لیکن پھر بھی عثمان خان کی جاگیر کے مقابلے میں بہت بڑی اور طاقتور تھی۔ بازنطینی قلعہ دار عثمان کی جاگیر پر حملے کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے عثمان خان اور بازنطینی حکومت میں لڑائی شروع ہو گئی۔ عثمان نے ان لڑائیوں میں بڑی بہادری اور قابلیت کا ثبوت دیا اور بہت سے علاقے فتح کرلیے جن میں بروصہ کا مشہور شہر بھی شامل تھا۔ بروصہ کی فتح کے بعد عثمان کا انتقال ہو گیا۔
مجھے میرے ڈاکٹر نے ایک اہم طبی معائنے کی تاریخ چھ ہفتے کے بعد کے لیے دی تھی۔ جس کے بعد اس موذی مرض کی تصدیق ہوتی یا انہیں عام گلٹیاں تسلیم کر کے کسی بھی وقت آپریشن کے بعد نکال دیا جانا تھا ۔ اس وقت صرف ممکنہ بیماری تصدیق ہونے کی صورت میں علاج کا ایک بڑا مرحلہ بیان کر دیا گیا تھا۔ اس دوران میں کام سے چھٹی لے کر گھر کا باغیچہ درست کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ ساتھ ہی تین سال قبل چھوٹی بیٹی مایا کا ایک ادبی پروجیکٹ مکمل کرنا چاہ رہی تھی۔ طبیعت کبھی مطمئن اور کبھی بے چین محسوس ہورہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا چند دنوں کے لیے ہی سہی میں کسی ایسے مقام پر چلی جاؤں جہاں خود سے گفتگو کرنا اور خود کو تنہائی میں سمجھانا آسان ہو۔ مجھے اپنے شوہر ، بچوں ، بہن بھائی اور دوستوں کی تسلیوں اور ڈاکٹروں کی امید و دلاسوں سے آگے بڑھ کر سوچنا تھا ۔ زندگی کے دائمی سفر کی تیاری کے لیے “ to do” کی فہرست پر سوچنا تھا۔
سفر صرف جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا دورانیہ نہیں ہوتا بلکہ اصل سفر تو روحانی ہی ہوتا ہے لیکن جب ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب ہم ذہنی آمادگی اور روحانی تسلی کی ساتھ جسمانی طور پر کہیں منتقل ہوجائیں تو اس سفر کی تاثیر کا احساس دو چند ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی میں حالتِ سفر میں تھی لیکن صرف روحانی طور پر ۔۔۔۔ جسم جس زمین پر اپنا سایہ ڈالے کھڑا تھا ذہن اور روح اسی مقام سے کوسوں میل آگے بڑھ چکی تھی۔
اُس روز لندن سے ہمارے ایک دوست فہیم اختر صاحب نے اطلاع دی کہ استنبول یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد راشد حق مجھ سے جلد رابطہ کریں گے ۔ وہاں ایک دو روزہ اردو کانفرنس ہے جہاں مجھے بھی اپنا مقالہ پیش کرنا کرنے کے لیے مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ جامعہ استنبول اور ڈاکٹر پروفیسرحلیل طوقار اُردو زبان کے حوالے سے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں ۔ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ان کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اس سے قبل بھی اردو کانفرنس اس شعبے کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے منعقد کی جاچکی تھی جس میں میں اپنی کچھ نجی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکی تھی ۔ یہ موقع مجھے دوسری بار مل رہا تھا ۔ لیکن اس بار بھی حتمی طور پر جانے کا ارادہ ابھی باقی تھا ۔ چند ہی دنوں میں جامعہ استنبول سے رابطہ ہوا اور میرے ہاتھ میں استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی جانب سے ترک مجاہد شاعر عاکف ارصوئے اور جہد آزادی کی صد سالہ تقریب کا دعوت نامہ پہنچ گیا۔ میں جس کیفیت میں تھی اور فرار کی راہ یا خود سے گفتگو کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی وہ اس دعوت نامے کی صورت میں مجھے موصول ہوچکا تھا ۔
میں نے ابھی اپنا سفر شروع نہیں کیا لیکن سوچ سلطنت عثمانیہ کے گزرے دور میں کہیں داخل ہوچکی تھی ۔
سلطنت عثمانیہ بارہویں تیرہویں صدی عیسوی سے۱۹۲۴ ء تک قائم رہنے والی ایک ایسی پر حشم و جلال مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک مسلم تھے۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں یہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اورجنوب مشرقی یورپ شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کی سرحدوں میں شامل تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قذوین ، خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں کے قریبی ممالک سلواکیہ اور گریما یا یوکرائن تک اور جنوب میں سوڈان ، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت کے کئی خطے بڑے بڑے صوبوں کی صورت اس مملکت کو جوڑ رہے تھے۔ عثمان خان غازی یا عثمان بن ارطغرل، عثمان اول یا عثمان خان غازی اس سلطنت کے پہلے سلطان تھے جو سلطنت عثمانیہ کے بانی کہلائے۔ ان کی پیدائش تاریخی کتب کے مطابق۱۲۵۸ءکی ہے جبکہ ان کی ۹ اگست ۱۳ ۲۷ ہے۔ اس سے قبل یہ علاقہ سابقہ روم کی وسیع و عریض سلطنت میں شامل تھا۔
اس زمانے میں مذہب اسلام جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا وہاں کچھ اولیا کرام اور دین اسلام کے سچے پیروکاروں میں کچھ سلطنت کو وسیع کرنے والے سالار و شہنشاہ بھی شامل تھے۔
تاریخ کی صفحات پر یہ بھی رقم ہے کہ عثمان کے والد ارطغرل کی وفات کے بعد سابقہ روم کے دار الحکومت قونیہ پر منگولوں کے قبضے اور سلجوقی سلطنت کے خاتمے کے بعد عثمان کی جاگیر خود مختار ہو گئی جو بعد میں سلطنت عثمانیہ کہلائی۔
عثمان خان کی جاگیر کی سرحدوقسطنطنیہ کی بازنطینی سلطنت سے ملی ہوئی تھی۔ یہ وہی بازنطینی حکومت تھی جو عربوں کے زمانے میں رومی سلطنت کے نام سے مشہور تھے جسے الپ ارسلان اورملک شاہ کے زمانے میں سلجوقیوں نے باجگزار بنالیا تھا اب یہ بازنطینی سلطنت بہت کمزور اور چھوٹی ہو گئی تھی لیکن پھر بھی عثمان خان کی جاگیر کے مقابلے میں بہت بڑی اور طاقتور تھی۔ بازنطینی قلعہ دار عثمان کی جاگیر پر حملے کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے عثمان خان اور بازنطینی حکومت میں لڑائی شروع ہو گئی۔ عثمان نے ان لڑائیوں میں بڑی بہادری اور قابلیت کا ثبوت دیا اور بہت سے علاقے فتح کرلیے جن میں بروصہ کا مشہور شہر بھی شامل تھا۔ بروصہ کی فتح کے بعد عثمان کا انتقال ہو گیا۔
مجھے میرے ڈاکٹر نے ایک اہم طبی معائنے کی تاریخ چھ ہفتے کے بعد کے لیے دی تھی۔ جس کے بعد اس موذی مرض کی تصدیق ہوتی یا انہیں عام گلٹیاں تسلیم کر کے کسی بھی وقت آپریشن کے بعد نکال دیا جانا تھا ۔ اس وقت صرف ممکنہ بیماری تصدیق ہونے کی صورت میں علاج کا ایک بڑا مرحلہ بیان کر دیا گیا تھا۔ اس دوران میں کام سے چھٹی لے کر گھر کا باغیچہ درست کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ ساتھ ہی تین سال قبل چھوٹی بیٹی مایا کا ایک ادبی پروجیکٹ مکمل کرنا چاہ رہی تھی۔ طبیعت کبھی مطمئن اور کبھی بے چین محسوس ہورہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا چند دنوں کے لیے ہی سہی میں کسی ایسے مقام پر چلی جاؤں جہاں خود سے گفتگو کرنا اور خود کو تنہائی میں سمجھانا آسان ہو۔ مجھے اپنے شوہر ، بچوں ، بہن بھائی اور دوستوں کی تسلیوں اور ڈاکٹروں کی امید و دلاسوں سے آگے بڑھ کر سوچنا تھا ۔ زندگی کے دائمی سفر کی تیاری کے لیے “ to do” کی فہرست پر سوچنا تھا۔
سفر صرف جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا دورانیہ نہیں ہوتا بلکہ اصل سفر تو روحانی ہی ہوتا ہے لیکن جب ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب ہم ذہنی آمادگی اور روحانی تسلی کی ساتھ جسمانی طور پر کہیں منتقل ہوجائیں تو اس سفر کی تاثیر کا احساس دو چند ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی میں حالتِ سفر میں تھی لیکن صرف روحانی طور پر ۔۔۔۔ جسم جس زمین پر اپنا سایہ ڈالے کھڑا تھا ذہن اور روح اسی مقام سے کوسوں میل آگے بڑھ چکی تھی۔
اُس روز لندن سے ہمارے ایک دوست فہیم اختر صاحب نے اطلاع دی کہ استنبول یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد راشد حق مجھ سے جلد رابطہ کریں گے ۔ وہاں ایک دو روزہ اردو کانفرنس ہے جہاں مجھے بھی اپنا مقالہ پیش کرنا کرنے کے لیے مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ جامعہ استنبول اور ڈاکٹر پروفیسرحلیل طوقار اُردو زبان کے حوالے سے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں ۔ استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ان کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اس سے قبل بھی اردو کانفرنس اس شعبے کی صد سالہ تقریبات کے حوالے سے منعقد کی جاچکی تھی جس میں میں اپنی کچھ نجی مصروفیات کے باعث شریک نہیں ہوسکی تھی ۔ یہ موقع مجھے دوسری بار مل رہا تھا ۔ لیکن اس بار بھی حتمی طور پر جانے کا ارادہ ابھی باقی تھا ۔ چند ہی دنوں میں جامعہ استنبول سے رابطہ ہوا اور میرے ہاتھ میں استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی جانب سے ترک مجاہد شاعر عاکف ارصوئے اور جہد آزادی کی صد سالہ تقریب کا دعوت نامہ پہنچ گیا۔ میں جس کیفیت میں تھی اور فرار کی راہ یا خود سے گفتگو کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی وہ اس دعوت نامے کی صورت میں مجھے موصول ہوچکا تھا ۔
میں نے ابھی اپنا سفر شروع نہیں کیا لیکن سوچ سلطنت عثمانیہ کے گزرے دور میں کہیں داخل ہوچکی تھی ۔
سلطنت عثمانیہ بارہویں تیرہویں صدی عیسوی سے۱۹۲۴ ء تک قائم رہنے والی ایک ایسی پر حشم و جلال مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک مسلم تھے۔ یہ سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں یہ تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اورجنوب مشرقی یورپ شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کی سرحدوں میں شامل تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرہ قذوین ، خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں کے قریبی ممالک سلواکیہ اور گریما یا یوکرائن تک اور جنوب میں سوڈان ، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اتنی بڑی سلطنت کے کئی خطے بڑے بڑے صوبوں کی صورت اس مملکت کو جوڑ رہے تھے۔ عثمان خان غازی یا عثمان بن ارطغرل، عثمان اول یا عثمان خان غازی اس سلطنت کے پہلے سلطان تھے جو سلطنت عثمانیہ کے بانی کہلائے۔ ان کی پیدائش تاریخی کتب کے مطابق۱۲۵۸ءکی ہے جبکہ ان کی ۹ اگست ۱۳ ۲۷ ہے۔ اس سے قبل یہ علاقہ سابقہ روم کی وسیع و عریض سلطنت میں شامل تھا۔
اس زمانے میں مذہب اسلام جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا وہاں کچھ اولیا کرام اور دین اسلام کے سچے پیروکاروں میں کچھ سلطنت کو وسیع کرنے والے سالار و شہنشاہ بھی شامل تھے۔
تاریخ کی صفحات پر یہ بھی رقم ہے کہ عثمان کے والد ارطغرل کی وفات کے بعد سابقہ روم کے دار الحکومت قونیہ پر منگولوں کے قبضے اور سلجوقی سلطنت کے خاتمے کے بعد عثمان کی جاگیر خود مختار ہو گئی جو بعد میں سلطنت عثمانیہ کہلائی۔
عثمان خان کی جاگیر کی سرحدوقسطنطنیہ کی بازنطینی سلطنت سے ملی ہوئی تھی۔ یہ وہی بازنطینی حکومت تھی جو عربوں کے زمانے میں رومی سلطنت کے نام سے مشہور تھے جسے الپ ارسلان اورملک شاہ کے زمانے میں سلجوقیوں نے باجگزار بنالیا تھا اب یہ بازنطینی سلطنت بہت کمزور اور چھوٹی ہو گئی تھی لیکن پھر بھی عثمان خان کی جاگیر کے مقابلے میں بہت بڑی اور طاقتور تھی۔ بازنطینی قلعہ دار عثمان کی جاگیر پر حملے کرتے رہتے تھے جس کی وجہ سے عثمان خان اور بازنطینی حکومت میں لڑائی شروع ہو گئی۔ عثمان نے ان لڑائیوں میں بڑی بہادری اور قابلیت کا ثبوت دیا اور بہت سے علاقے فتح کرلیے جن میں بروصہ کا مشہور شہر بھی شامل تھا۔ بروصہ کی فتح کے بعد عثمان کا انتقال ہو گیا۔