کہیں ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد حبیب شاہ نے دفتر کے باہر آ کر میرا پاسپورٹ اور دو تصویریں مجھ سے لیں اور آدھے گھنٹے بعد حج کا نام درج ہونے کی دستاویز لا کر میرے حوالے کر دی اور بتایا کہ اس میں درج کمپنی والے فون کرکے جانے کے بارے میں بتائیں گے۔ دو ہفتے بعد بھی کوئی فون نہ آیا تو میں نے اس دستاویز کو دیکھا، جس میں روس کے مفتیوں کی کونسل کے توسط سے Slots نام کی کمپنی نے چار ہزارآٹھ سو ڈالروصول کیے تھے لیکن اس کاغذ پہ کمپنی کا کوئی فون نمبر یا ای میل درج نہیں تھا۔ ایک روز، بعد از نماز ظہر میں آئے نارا کو ملا تو اس نے اپنا وزٹنگ کارڈ دے دیا کہ کہ چند روز بعد معلوم کرلیں۔ چند روز کے بعد نہ تو وہ فون پہ ملتی تھی اورنہ دفترمیں۔ مناسک حج سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں۔ بالآخرایک روزوہ مل ہی گئی توکہنے لگی ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ آپ کب جائیں گے۔ حج سے متعلق ایک کانفرنس پہلے ہو چکی ہے اورایک اس اتوارکو گیارہ بجے ہوگی۔ آپ آ جائیں ۔ میں بھی آؤں گی اورآپ کو بتا دوں گی۔ کانفرنس کیا تھی بارہ چودہ افراد پر مشتمل ایک اکٹھ تھا، جس سے مخاطب ہوتے ہوئے مسجد کے نوجوان نائب امام نے پہلا فقرہ یہ کہا تھا کہ ان سے حج پہ جانے سے متعلق کوئی سوال نہ پوچھا جائے کیونکہ یہ کام آئے نارا کا ہے اور جہاں تک انہیں معلوم ہے اس سلسلے میں اسے بھی شاید ہی کچھ علم ہو کیونکہ قافلے جانے سے محض ایک دو روز پیشتر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ پھرانہوں نے مناسک حج اورساتھ لے جانے والی ضرورت کی چیزوں اور دوران قیام احتیاطوں کے بارے میں بتایا۔ ظہرپڑھنے کے بعد چند عورتیں اورچند مرد آئے نارا کے دفتر کے باہر موجود تھے لیکن وہ حسب معمول دفتر میں نہیں تھی۔ دفترکو تالا لگا ہوا تھا۔ مولانا کی گفتگو کے بعد سوال و جواب کے سیشن میں ایک داڑھی والے شخص نے جو تاجک نہیں تھا جبکہ میرے علاوہ موجود بیشتر لوگ تاجک تھے، احرام کے ساتھ ماسک استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا تھا، جس سے لگا تھا کہ وہ “ہیلتھ کانشیس” شخص ہے یا اس کا تعلق کسی حوالے سے طب کے ساتھ ہے۔ آئے نارا کے بند دفتر کے باہر اس سے علیک سلیک ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ افغانستان سے ہیں۔ وہ یہاں آنے سے پہلے کابل کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اوران کا نام جمشید صافی ہے۔ اکتا کربالآخر انہوں نے ہی آئے نارا کے ساتھ فون پہ رابطہ کیا تھا جس نے آنے سے انکار کیا تھا کیونکہ اسے تاحال کچھ معلوم نہیں تھا یعنی کہ مولانا موصوف نے درست فرمایا تھا۔
اگلے روز بھی آئے نارا فون پہ میسر نہیں تھی البتہ دوسرے روز اس نے بتایا کہ آپ آٹھ مارچ دس بجے دن ایر پورٹ دومادیوا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوں گے، یعنی سفر حج پہ روانہ ہونے میں محض پانچ روز باقی تھے۔ دو روز بعد اس سے معلوم کیا کہ احرام کہاں سے خریدیں تو اس نے بتایا تھا کہ مدینہ سے ہی خرید لینا باقی مجھے کچھ اورمعلوم نہیں ہے۔ جب اس سے حبیب شاہ کے بارے میں معلوم کیا تواس نے بتایا کہ اس کا نام تو فہرست میں ہے ہی نہیں۔ یا مظہرالعجائب، مجھے حج پہ لے جا رہا ہے اورخود نہیں جا رہا کیا؟ اب حبیب شاہ ٹیلی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ بالآخر رشیت حضرت کوفون کیا۔ وہ میرے نام ایم ایم ایم سے خوب محظوظ ہوئے وجہ یہ تھی کہ اس نام کی ایک کمپنی بہت سے شہریوں کو ڈبل شاہ کا سا غچہ دے کر بدنام ہوچکی تھی۔ حضرت نے عقدہ کھولا کہ بھئی دس بجے ایئر پورٹ پہ اکٹھے ہونا ہے، روانگی البتہ ڈیڑھ بجے دن ہوگی۔ اگلے روزحبیب شاہ بھی فون پہ مل گیا۔ میرے متعجب ہونے پہ گویا ہوا “میں تو وی آئی پی لسٹ میں ہوں ناں”۔ طبیعت بہت مکدرہوگئی تھی کہ اس نے یہ امتیاز کیوں روا رکھا۔ بس اسے اتنا کہا کہ جا بچّو! مجھے حج کروانے کا تجھے ثواب بھی آدھا ہی ملے گا۔ حبیب شاہ کی روانگی چار اکتوبرکو تھی۔ اب وہ ساتھی نہیں رہا تھا، اس لیے جمشید صافی سے رجوع کیا کہ چلواورکچھ نہیں تو ہمسایہ ملک سے تو ہے ہی ناں۔ ساتھ میں یا تو تاجک تھے یا قفقاز کی ریاستوں کے لوگ جن سے کبھی راہ و رسم نہیں رہی، میری علیک سلیک اورتعلق روسی النسل لوگوں سے رہا جو ظاہر ہے مسلمان نہیں۔
خیرجانے کی تیاری شروع کردی تھی لیکن دل بجائے خوش ہونے کے کچھ بجھا بجھا سا تھا جس کی وجہ حبیب کی حرکت، حج کی سفری کمپنی کا گم سم ہونا اورشاید اس سفرمیں کسی اپنے کا ساتھ نہ ہونا تھا یا کوئی اورمخفی وجہ جس کا مجھے کوئی علم نہیں۔ گاڑی والے ایک نوجوان کوفون کیا تھا کہ وہ مجھے صبح آٹھ بجے گھرسے لے لے اورہوائی اڈّے پر پہنچا دے۔ اس نے خود کہا تھا کہ جی سات بجے نکلنا چاہیے کیونکہ ٹریفک بہت جیم ہوتی ہے۔ میں نے اسے آٹھ بجے ہی آنے کو کہا تھا۔ اس نے وعدہ کرلیا تھا لیکن مجھے شک تھا کہ وہ سویا رہے گا۔ وہی ہوا میں نے پونے آٹھ بجے صبح سے اسے فون کرنا شروع کیا تونورپلائی تھا۔ سوا آٹھ بجے تک تین بارفون کیا نتیجہ وہی جواب نہ داشتم۔ ایسے وقت میں ٹیکسی بلانا مزید وقت کا ضیاع ہوتا چنانچہ میں ایک بیگ اورایک دستی تھیلا لے کر زیرزمین ریل سے جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا تھا۔ اگرچہ بیگ کے پہیے تھے لیکن سیڑھیاں اترنے، سیڑھیاں چڑھنے، زیر زمیں راہداریوں سے گذرنے، پاولیتسکی سے نکل کر اسی نام کے ریلوے سٹیشن سے چلنے والی ایر پورٹ ایکسپریس کے ٹکٹ گھرتک پہنچتے پہنچتے میرے پسینے چھوٹ گئے تھے۔
ٹکٹ دینے والی نے تین سو بیس روبل یعنی مبلغ دس ڈالر لے لیے اورچپ کرکے بیٹھ گئی۔ میں بولا بی بی! ٹکٹ؟ بولی میں آپ کو دے چکی۔ جبکہ ٹکٹ بنانے کے دوران وہ اپنی پشت پہ کھڑی ہم کارسہیلی کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے ٹکٹ ادھرادھر رکھ بیٹھی تھی۔ میرے تحیر پہ جزبز ہوکرادھرادھر ہاتھ مارے، ٹکٹ مجھے تھمایا، معذرت کی بجائے مسکراہٹ بکھیری اورپوچھنے پرمجھے ایک راستے کی جانب جانے کا اشارہ کر دیا۔ ایک اور طویل راہداری اورپھر پلیٹ فارم تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں۔ میں بیگ اٹھا کر سیڑھیاں چڑھا تو کھڑی ایکسپریس کے دروازے بند ہوئے اوروہ روانہ ہو گئی۔
میں پسینے میں شرابور تھا۔ پلیٹ فارم پہ خاصی خنکی بلکہ سردی تھی لیکن مجھ میں واپس ویٹنگ روم میں جا کربیٹھنے کا یارا نہیں تھا۔ اس لیے اگلی ٹرین کی روانگی تک کا آدھ گھنٹے کا وقفہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکربتانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد آرام دہ ریل گاڑی میں پاؤں پسارکربیٹھے, پینتالیس منٹ کے سفرکے بعد ایئر پورٹ پہنچا۔ گاڑی رکنے سے پہلے ہی جمشید صافی کا فون آ گیا تھا، انہوں نے پوچھا تھا کہ مجھے آنے میں تاخیر تونہیں ہوجائے گی۔ میں نے بتایا کہ میں بس پہنچ گیا ہوں، ریل گاڑی بس رکنے ہی والی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دوسری منزل پہ فلاں جگہ آ جاؤ۔
وہاں پہنچا تو پورا قافلہ موجود تھا جن میں صرف جمشید شناسا تھے البتہ مولانا رشیت (رشید) سے میں نے خود بڑھ کرمصافحہ کیا تھا اوراپنا نام ایم ایم ایم بتایا تھا۔ رشیت حضرت کوئی اڑتیس چالیس برس کے درمیانے قد، چھوٹی داڑھی اورکج نگاہ شخص تھے۔ کروکٹ بال تھے اورپاؤں میں چپل پہنے ہوئے تھے۔ پرواز ڈیڑھ بجے بھی روانہ نہیں ہوئی تھی۔ اس کی تاخیر کا اعلان مانیٹر پہ عیاں تھا۔ میں اورجمشید نماز پڑھنے کے لیے جگہ کی تلاش میں لگ گئے تھے۔ ایک کینٹین کے پیچھے کاریڈور میں بڑے سے گملے میں لگے پودے کی اوٹ میں کھڑکی کے سامنے نماز پڑھنے کی تیاری کی تھی ۔ ایک تاجک نوجوان بھی آ شامل ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک جائے نماز تھا۔ وہ اسنے آگے بچھا دیا تھا اور مجھے امامت کرنے کو کہا تھا۔ میں نے بھی عجلت میں اللہ اکبرکہہ دیا تھا لیکن وہ نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ فارسی یا دری و توجکی زبان میں محو کلام تھے۔ میں نے کسرفرض پڑھ لیے تو وہ تاجک نوجوان اذان کہنے لگا۔
حج کا ماحول بن چکا تھا۔ کہیں جاکرتین بجے اردن ایرلائن کا طیارہ روانہ ہوا اورہم پونے چار گھنٹے کے سفرکے بعدعمان کے ہوائی اڈے پرتھے۔ وہاں عصراورمغرب کی نمازپڑھی تھی۔ مجھے ایر لائن، عملہ، کھانا، عمان کا ہوائی اڈہ اور اہلکار سب اچھے لگے تھے۔ دوگھنٹے کے انتطار کے بعد ایک اورطیارہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم مدینہ ایرپورٹ پر تھے۔ امیگریشن اور دیگر اعمال سے گذرنے کے بعد ایک بس میں سوارہوگئے تھے جو ہمیں لے کرایک ہوٹل پہنچی تھی۔ یہاں سے سفر کی صعوبتوں اور کمپنی سلوٹس اور روس کے مفتیوں کی کونسل کی چابک دستیوں کو سہنے کا آغاز ہوتا ہے.
ہوٹل کیا تھا بقول جمشید صافی کے سیاہ رنگ کا “تیورما” یعنی قید خانہ تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے ماڈرن دکھائی دینے والا ایک عرب نوجوان تھا۔ رشیت حضرت سے اس نے عربی میں کچھ کہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تین تین مردوں اورتین تین عورتوں کی علیحدہ علیحدہ ٹولیاں بنا لیں تاکہ ان کو کمروں کی چابیاں دی جا سکیں۔ نہ جان نہ پہچان بھلا کون کس کا ساتھی بنے؟ خواتین میں سے تو بیشترویسے ہی حسب معمول ہوائی اڈے پہ شناسا ہوچکی تھیں چنانچہ ان کا معاملہ جلد نمٹ گیا تھا۔ تاجک تاجکوں کے ساتھ اورقفقازی قفقازیوں کے ساتھ، کچھ دیربعد اکٹھے ہونے پہ رضامند ہو گئے تھے۔ میری جوڑی صافی کے ساتھ تھی لیکن تیسرا شخص نہیں تھا۔ رشید حضرت نے ایک بہتر سالہ تاتار شخص کو ہمارے ساتھ جوڑ دیا تھا جو چہرے سے اکتائے اورجھلائے ہوئے لگتے تھے۔
چھوٹی چھوٹی لفٹیں تھی اورکمروں تک جلد پہنچنے کے خواہاں افراد زیادہ۔ ہم تقریبا” گیارہ بجے اپنے کمرے میں پہنچ پائے تھے۔ کمرہ کیا تھا ڈربہ تھا جس کی تین دیواروں کے ساتھ سنگل بیڈ لگے ہوئے تھے اورچوتھی جانب راہداری، باتھ روم اوردروازہ تھا۔ بستروں کی چادریں بظاہرصاف تھیں لیکن ان کے گجلے پن سے یہی گمان ہوتا تھا جیسے وہ میلی ہوں۔ باتھ روم بھی چھوٹا سا تھا۔ نہ صابن، نہ تولیہ اورنہ ہی ٹوائلٹ پیپر۔ طبیعت مکدرسے مکدرترہوگئی تھی۔ روس کے مفتیوں کی کونسل کے تحت کام کرنے والی کمپنی “سلوٹس” کا تحریری دعوٰی تھا کہ مدینہ منورہ میں تھری سٹار یعنی سٹینڈرڈ ہوٹل دیا جائے گا لیکن یہ “سب سٹینڈرڈ” ہوٹل تھا۔ میں نیچے گیا۔ کاؤنٹر والے کومیری بات سمجھ نہیں آتی تھی اورمجھے اس کے ” ما فی” کے ما فی الضمیر کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ اشاروں اور ملغوبہ زبان کا بس اتنا فائدہ ہوا کہ اس نے گول صابن کی پیک شدہ چھوٹی چھوٹی تین ٹکیاں اور شیمپو کے تین ساشے میرے ہاتھ میں دھما دیے تھے پھر مسکرا دیا تھا۔ صبح صبح بھی کہا تھا۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا اورجمشید کے ساتھ طے کیا تھا کہ ہم آرام نہیں کریں گے، نہائیں گے اورمسجد نبوی چلے جائیں گے۔