محبت کی داستانیں سنی تو بہت کبھی ھیر رانجھا، کبھی لیلی مجنوں، کبھی سسی مہینوال، کبھی ماروی پر جو محبت کی زندہ مثال میں نے دیکھی شاید ھی یہ محبتیں اس کے مقابلے کچھ بھی ھوں، یہ ایک حقیقی محبت ھے اور جو پہلے بیان کی انکو کچھ دوست تخیل پر مبنی محبت کی داستانیں بھی کہتے ھیں۔
1990 میں نیشنل کالج آف آرٹس لاھور میں داخلہ ھوا تو ساھیوال سے سعدیہ زینب ھماری کلاس فیلو تھی، سعدیہ اچھی دوست ھیں پر ان سے ملنے ساھیوال کا ھی ایک لڑکا سوزوکی ٹریل بائیک پر آتا تھا، میری دلچسپی اس کے کندھے پر لٹکے کیمرے سے تھی اس کے آنے جانے میں نہ تھی، پھر ھوا یوں کہ سعدیہ سے دوستی تو تھی ھی پر وہ لڑکا سید آصف حسین زیدی جگر جان دوست بن گیا۔ اب یا تو میں شاہ جی کی طرف ھوتا یا پھر شاہ جی میرے ھاسٹل، ھماری گفتگو کا محور فوٹوگرافی ھوتی یا پھر شکار، شاہ جی گورنمنٹ کالج لاھور میں ایم اے فلاسفی کے طالبعلم تھے اور ان کے والد صاحب پروفیسر شاھد حسین زیدی صاحب فلاسفی ڈیپارٹمنٹ کے ھیڈ تھے، ھماری دوستی ھمارے گھروں تک پہنچ چکی تھی ھم سب ایک دوسرے کے دوست تھے، میں سعدیہ زینب کا شکر گزار ھوں جو اتنے اچھے انسان سے ملوایا۔
جب بھی گورنمنٹ کالج جاتا شاہ جی جن کو سب چھوٹو کہتے تھے، کیونکہ وہ گھر میں سب سے چھوٹے ھیں، تو سب دوست احباب چھوٹو ھی کہتے ھیں۔ جب بھی گورنمنٹ کالج جاتا چھوٹو کلاس فیلوز کے ساتھ بیٹھا ھوتا، جس میں مختلف لوگ ھوتے سب ھی میرے بھی آج تک دوست ھیں۔
1994 میں واپس اسلام آباد آگیا لیکن دوستی ویسے ھی تھی، شاہ جی اپنی ایک کلاس فیلو کو پسند کرتے تھے پر نام کبھی نہیں لیا تھا، پھر ھم مل کر کام کرنے لگے، لاھور دفتر بنایا شاہ جی اس کا حصہ تھے، ھم دونوں دین سے دور ھی رھتے تھے، 1996 کا رمضان تھا میرا دین کی طرف واپسی کا عمل شروع ھوچکا تھا، آخری عشرے میں اعتکاف پر تھا، تو گھر سے بھائی جب افطاری لیکر آئے تو کہنے لگے یار وہ شاہ جی کی والدہ محترمہ کا فون آیا تھا، کہ اظہر حفیظ سے بات کروادیں تو امی جی نے کہا کہ وہ اعتکاف پر ھیں تو فون بند ھوگیا دوبارہ فون آیا جی یہ اظہر حفیظ کا ھی گھر ھے، امی جی نے کہا جی باجی میں اس کی والدہ بات کر رھی ھوں، اچھا اظہر سے بات کروا دیں، جی وہ اعتکاف پر ھیں اچھا یہ کب ھوا، جی ھمیں خود اندازہ نہیں ھے۔
اچھا باجی چھوٹو آیا ھے آپ کی طرف، نہیں اظہر کی غیر موجودگی میں نہیں آتا، وہ اصل میں اپنی ایک کلاس فیلو کے ساتھ غائب ھے کچھ پتہ نہیں چل رھا میں نے سوچا کہ اظہر حفیظ کے علاوہ کہاں جائے گا۔ ھم سب پریشان ھیں، آئے تو اطلاع کیجئے گا، جی بہتر، بھائی نے بات بتائی اعتکاف چھوڑنا تو مشکل تھا پر اب سب بھول کر چھوٹو کیلئے دعائیں شروع کردیں۔
عید پر رابطہ ھوا، چھوٹو کدھر ھے یار؟
بلوچستان۔ میں نے اور رابعہ نے شادی کرلی ھے،
وھاں کیسے پہنچا، یار؟
وہ تجھے تو پتہ ھے نا “مجھے چاند چاھیئے” فلم کی سیٹ ڈیزائنر تنویر رحمان، جی جی اس کی سوزوکی ایف ایکس پر، لاھور سے بلوچستان، جان محمد جمالی میرے دوست ھیں ان کے پاس آگئے تھے انھوں نے نکاح کروادیا، اب واپس لاھور آگئے ھیں، اتنا لمبا سفر یار میاں کچھ نہ پوچھ بڑی پولیس چوکیاں آئیں طرح طرح کے سوال، پر پہنچ گئے، اچھا ولیمہ رکھا ھے تو نے آنا ھے۔
جی بھائی۔
میں اور میری دوست جیا علی ولیمہ میں شرکت کیلئے لاھور گئے،غالبا اپریل یا مئی تھا، چھوٹو کے والد صاحب نے شرکت نہ کی لیکن میں اماں کو منا کر لے ھی گیا، واپسی پر گورنمنٹ کالج اماں کو گھر چھوڑنا تھا ان کا اصرار تھا کہ پہلے اس بچی کو گھر چھوڑ آتے ھیں اس پر انکو بتایا یہ ساتھ واپس اسلام آباد جائیں گی تو اماں کو گھر چھوڑا اور واپسی ھوگئی،
جون 1996 سے محبت کے امتحان شروع ھوتے ھیں، اور چھوٹو کی بائیک ایک بس کے نیچے آگئی، سر بری طرح کچلا گیا، چھوٹو بہت ھمت والا انسان ھے خود رکشے میں بیٹھا شیخ زید ھسپتال پہنچا انھوں نے جنرل ھسپتال بھیج دیا، اور یہ وھاں پہنچ کر بے ھوش ھوگیا، فورا سرجری ھوئی، اور ڈاکٹروں نے کہا کہ یا تو اس کا ذھنی توازن بگڑ جائے گا یا پھر جسمانی معذوری کا بھی چانس ھے، میں لاھور فورا پہنچا، شادی کو ابھی چار ماہ ھی ھوئے تھے، رابعہ ایک طرف کھڑی تھی ایک نرس آئی آپ کیا لگتی ھیں مریض کی، رابعہ جی میرے شوھر ھیں، ھائے اننی جوانی وچ بیوہ ھوجاو گی، رابعہ تو دیکھتی رہ گئی، کننا عرصہ ھویا شادی نوں، چار ماہ، اچھا فر دعا کرو،
کچھ سمجھ نہیں آرھی تھی کھوپڑی ٹوٹ گئی تھی اور اس کا ایک حصہ نکال دیا تھا، چھوٹو آئی سی یو وارڈ میں تھا، رابعہ بہن کہنے لگی جا اظہر دیکھ لے چھوٹو کو، میری ھمت نہیں تھی، اندر سے چیخوں کی آوازیں آرھیں تھیں کسی مریض کی ھائے میں مر گیا ھائے میں مرگیا مجھے لگے یہ چھوٹو نہ ھو، اتنے میں نرس آئی جگر کون ھے، مریض ھوش میں آگیا ھے کسی جگر کو بلا رھا ھے، میں دوڑا ھوا اندر گیا، جی مرشد، میاں تیری بندوق کتھے، مجھے سمجھ نہ آئے ھوش میں آکر یہ کیا سوال ھے، ڈر بھی گیا کہ مرشد ذھنی طور پر فارغ تو نہیں ھوگئے، پھر بھی ھمت کرکے کہا حکم کریں مرشد، یار اے نال دا مریض بڑا رولا پا رھیا اے، اس نوں فائر مار دے اور ساتھ ھی مرشد اپنی شیطانی ھنسی ھنسا تو میری جان میں جان آئی، چل ھاتھ، پیر ھلا کر دکھا سب اچھا تھا شکر الحمدللہ،
میں اسلام آباد واپس آگیا، اگلے دن گھر فون کیا، اسد زیدی صاحب بڑے بھائی ھیں چھوٹو کے، فون اٹینڈ ھوا، اسد بھائی چھوٹو کا کیا حال ھے، اوئے میاں چھوٹو ھی بول رھا ھوں ذرا اماں سے ملنے گھر آیا تھا دوست کے بائیک پر، ساتھ ھی اسد نے فون لے لیا، یار یہ کسی کی سنتا نہیں ھے، انفیکشن ھوجائے گا سارا سر کھلا ھوا ھے، اور پھر کئی دن بخار رھا، پر رابعہ ھر حال میں ساتھ ثابت قدم رھی۔
کبھی خوشی کبھی غم پر رابعہ باجی کو میں نے کبھی شکوہ کرتے نہیں دیکھا، پھر اللہ نے دو بیٹیاں عطا کردیں، زینب حسین اور زھرا حسین ماشاء اللہ بہت ذھین اور فرمابردار بیٹیاں ھیں، زندگی گزرتی جارھی تھی۔ اماں اور ابا بھی اب بہت خوش تھے چھوٹو کے صحیح فیصلے پر، ھر وقت رابعہ اور بچوں کے ساتھ ساتھ رھتے تھے، دونوں کو رابعہ نے ھی بیٹی بن کر آخری دم تک سنبھالا۔ ھم سیر سپاٹے ساتھ ساتھ کرتے تھے، پہلے اکیلے جاتے تھے اب فیملیاں بھی ساتھ جاتیں تھیں، میرے فوٹوگرافی کے شوق میں ریسرچ سب چھوٹو کی ھوتی تھی، کیمرہ کونسا لینا ھے، لینز کونسا لینا ھے فوٹوشاپ نیا آگیا ھے، سب چھوٹو ھی بتاتا تھا، پھر چھوٹو نے بیکن ھاوس یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کردیا، یار میاں میں ان کو تیرا کام دکھاتا ھوں پڑھاتے ھوئے یہ ھے کام میرے یار کا۔
بہت اچھا لگا، پہلی دفعہ اس نے میرے کام کو اتنا بھرپورسراھا تھا، رابعہ پہلے ھی سکول میں پڑھاتی تھی، زندگی بہتر ھونا شروع ھوئی، نیا موٹرسائیکل لیا اس کو اپنی مرضی کا نمبر لگوایا، ساتھ اپنی مرضی کی گاڑی تیار کی، 9 ایم ایم کا پسٹل بھی لے لیا،کیمرے بھی خرید لئے، اب زندگی آسان ھونا شروع ھوگئی تھی رابعہ،بچے اور چھوٹو خوش تھے، کہ 17 فروری2015 کو شکار پر جارھے تھے میانوالی کے نزدیک سائیکل والے کو بچاتے ھوئے گاڑی درخت سے ٹکرا گئی ڈرائیور تو موقع پر ھی فوت ھوگیا اور چھوٹو بے ھوش، اس کو لاھور لایا گیا، کئی ماہ ڈاکٹرز ھسپتال میں رھا کئی آپریشن ھوئے اب ساڑھے پانچ سال سے چھوٹو بیڈ پر بے سدھ پڑا ھے نہ بول سکتا ھے نہ اٹھ سکتا ھے نہ کھا سکتا ھے۔ بس آنکھیں کھول کر دیکھتا ھے اور رابعہ دن رات اس کا خیال کرتی ھے اس نے کھانا کیا ھے، پینا کیا ھے، دوائی کب دینی ھے، پیمپر کب بدلنا ھے، کپڑے کب بدلنے ھیں، نہلانا کب ھے، دھوپ میں کب بٹھانا ھے، کرونا کی وجہ سے اس کے بال بھی اب خود کاٹتی ھے، سکول میں نوکری کرتی ھے، بڑی بیٹی یونیورسٹی میں ھے اور چھوٹی کالج میں، اس مہینے میری اور چھوٹو کی سالگرہ ھے، پر ھم ایک دوسرے کو وش نہیں کرسکتے، میرے خوابوں میں ابھی بھی میں اور چھوٹو سفر ساتھ ساتھ کرتے ھیں، جب رابعہ کے ابا نے اس کو کہا اب ھمارا تمھارا کوئی تعلق نہیں تو اس دن سے رابعہ میری بیٹی ھے اور وہ مجھے اکثر ابا بھی کہہ کر بلاتی ھے۔ کچھ بیوقوف لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شادی کا فیصلہ درست نہیں تھا، لیکن میرا یہ یقین ھے کہ چھوٹو کی نہایت خوش قسمتی ھے کہ اس کو رابعہ باجی جیسی شاندار، عزت دار، پروقار، قابل بھروسہ،وفاشعار خاتون ملی، چھوٹو کی ھمت اور رابعہ کی محبت کو مدنظر رکھتے ھوئے ھم سب کا یقین ھے وہ ایک دن دوبارہ اپنے پاوں پر ضرور کھڑا ھوجائے گا انشاء اللہ۔
زندگی سچی محبت کرنے والوں کے ھی امتحان لیتی ھے اور ھر کوئی اس امتحان میں پورا بھی نہیں اترسکتا، پر میری بہن میری بیٹی رابعہ تم محبت کے اس امتحان میں پہلی پوزیشن پر ھو اور دور دور تک کوئی مدمقابل بھی تو نہیں ھے،
دعاوں کی درخواست ھے۔ اللہ تعالی چھوٹو کو جلد از جلد صحت کاملہ عطا کریں آمین،