سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کی جعلی ڈگری کیس میں نااہلی سے خالی گلگت بلتستان اسمبلی کی نشست جی بی 13 استور 1 کے ضمنی انتخاب کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے ، پولنگ 9 ستمبر 2023ء ہوگی اور مجموعی طور پر 14 امیدوار میدان میں ہیں ۔ 33ہزار 378 ووٹرز میں سے 18 ہزار 231 مرد اور 15 ہزار 147 خواتین ہیں ۔جن کے لئے 56 پولنگ اسٹیشن اور 90 پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ، مجموعی طور پر تقریباً پونے 300 انتخابی عملہ تعینات ہوگا۔ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر سینئر سول جج لقمان حکیم اور سینئر سول جج محمد ذاکر نے صاف شفاف پولنگ اسٹیشن کے لئے انتظامات کئے ہیں ۔ پولنگ صبح 8 سے شام 5 بجے تک پولنگ ہوگی۔ مجموعی طور پر14امیدواروں میدان میں ہیں۔
مختصر تعارف اور مسائل!
گلگت بلتستان اسمبلی کا حلقہ جی بی اے 13 استور 1 ضلع استور ہمارا آبائی حلقہ ہے ، جو کئی حسین وادیوں جن میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی )سے منسلک وادی گریز (قمری ، منی مرگ ، کلشئی )، وادی گدائی ، وادی میر ملک ، وادی رٹو ، وادی ضلے بالا، وادی چورتھ، وادی تریشنگ ، وادی فیری میڈو ، وادی چھوگام اور دیگر پر مشتمل ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ حلقہ تقریباً 3ہزار مربع کلومیٹر علاقے تک پھیلا ہوا ہے ۔ تحصیل شونٹر ہیڈ کوارٹر سے آخری گائوں ٹٹوال تک تقریباً 130 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس حلقے کی سرحدیں ایک طرح آزاد کشمیر وادی نیلم ، دوسری طرح وادی گریز مقبوضہ کشمیر ، تیسری طرح گلتری بلتستان اور چوتھی طرف ضلعی ہیڈ کوارٹر استور گوریکوٹ (بمع دیوسائی)سے جاملتی ہیں ۔ غالبا پہلی بار موسم بہار میں پولنگ ہورہی ہے اور امکان ہے کہ زیادہ جوش و خروش رہے گا۔
ترقیاتی مسائل کے حوالے سے اس حلقے کا شمار چند شدید متاثرہ حلقوں میں شمار ہوتا ہے ۔ذرائع سے ملنے والے اعدادو شمار کے مطابق مردم شماری 2023ء میں آبادی 60ہزار کے قریب شمار ہوئی ہے، جبکہ اصل آبادی تقریباً ایک لاکھ سے زائدہے ، مگر بدقسمتی سے 40 فیصد سے زائد آبادی کلی یا جزوی ہجرت کرچکی ہے اور موسم سرما میں یہ 60 فیصد تک پہنچ جاتی ہے، اس الیمہ پر ہم سب غور کر کے حل تلاش کرنا ہے اور اسی میں ہماری تہذیب ، ثقافت ، زبان اور خطے کی بقا ہے۔
ماضی کے عوامی نمائندے!
گلگت بلتستان میں مشاورتی کونسل 1969ء میں قائم ہوئی ، 12 ارکان کا راجگان کی بنیاد پر انتخاب ہوا، جس میں استوراور گلگت ایجنسی کے لئے 2 نشستیں تھیں، تاہم گلگت بلتستان میں میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ناردرن ایریاز مشاورتی کونسل کے لئے پہلی بار 14 نشستوں پر انتخاب دسمبر 1970ء میں ہوا اور اس زمانے میں بھی استور کے دو حلقے تھے ، آج 50 سال بعد بھی جب اسمبلی کی 24 جنرل نشستیں ہیں تو تب بھی استور کے دو ہی حلقے ہیں۔ پہلے انتخاب میں وادی رٹو سے تعلق رکھنے والے محمد خورشید خان (سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کے والد )نے استور حلقہ نمبر 1 سے کامیاب ہوئے اور بعدازاں سرکاری ملازمت کو ترجیح دی ،جبکہ بلدیاتی سیاسی میدان میں ان کے بھائی حاجی عنایت مرحوم سرگرم رہے ، پس پردہ گرفت جج صاحب کی ہی رہی۔
یہ بھی پڑھئے:
کہروڑ پکا کی نیلماں، پاکستانی معاشرت و سیاست ہوش ربا کہانی
سانحہ جڑانوالہ : وہ مائیں بانجھ کیوں نہ ہو گئیں؟
1970ء کے انتخابات کے بارے میں بعض کا دعویٰ ہے کہ تھانوں میں بیلٹ بکس بھر دئے گئے تھے اور ممکن ہوکہ تھانوں میں پولنگ اسٹیشن بننے کی وجہ سے یہ تاثر قائم ہوا ہو ۔ ناردرن ایریاز کونسل 16نشستوں کے لئے انتخاب نومبر 1975ء اور اکتوبر 1979ء میں دوسرے اور تیسرے دونوں انتخاب میں استور حلقہ نمبر 1 سے ضلعے بالا مرمئی سے تعلق رکھنے والے قاری عبدالحکیم کامیاب ہوئے ۔ کونسل کے چوتھے انتخابات 24 اکتوبر 1983ء کو ہوئے اور اس حلقے سے ضلعے بالا درلے سے تعلق رکھنے والے حاجی جان محمد مرحوم (پیپلزپارٹی کے موجودہ نامزد امیدوار عبدالحمید خان کے والد )کامیاب ہوئے ۔ کونسل کے پانچویں انتخابات 11 نومبر 1987ء کو ہوئے اور پہلی بار کامیابی ضلعے بالا سے گدائی کی طرف منتقل ہوئی اور سابق چیف جسٹس چیف کورٹ حاجی صاحب خان کامیاب ہوئے اور اس کامیابی میں وادی گریز (قمری ، منی مرگ ، کلشئی )کے نوجوان سیاسی رہنماء عبدالرحمان ثاقب اور محمد حسین شہزاد ایڈوکیٹ کا کردار انتہائی اہم رہا ۔
کونسل کے چھٹے انتخابات نومبر 1991ء کو ہوئے اور تریشنگ سے تعلق رکھنے والے شاہد علی خان صاحب دلچسپ انداز میں کامیاب ہوئے ۔آخر الذکر 5 انتخابات کونسل کی 16 نشستوں کے لئے ہوئے اور پہلی بار نشستوں کی تعداد 1994ء میں 16 سے بڑھاکر 24 کردی گئی مگر استور کی قسمت میں دو ہی نشستیں رہیں اور پہلے جماعتی اور مجموعی طور پر کونسل کے ساتویں انتخاب میں ضلعے بالا درلے سے سابق ممبر حاجی جان محمد مرحوم کے فرزند عبدالحمید خان آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے۔ کونسل کے آٹھویں انتخابات 3 نومبر 1999ء کوہوئے اور مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر ایک بار پھرگدائی سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس چیف کورٹ حاجی صاحب خان کامیاب ہوئے اور گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلا اسپیکر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
کونسل کے نویں انتخابات 12 اکتوبر 2004ء کو ہوئے اور ضلعے بالا درلے کے عبدالحمید خان آزاد حیثیت میں مسلم لیگ(ق) کے امیدوار حاجی صاحب خان کے مقابلے میں دوسری بار کامیاب ہوئے اور پھر مسلم لیگ(ق) میں شمولیت اختیار کرکے کابینہ کے رکن بنے ،جبکہ حاجی صاحب خان نے عدالت کا رخ کیا اور چیف جسٹس چیف کورٹ گلگت بلتستان ریٹائرڈ ہوئے ۔ یہ آٹھویں اور نویں انتخابات ’’ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل ‘‘ کے لیے تھے۔ دسویں انتخابات پہلی بار آرڈر 2009ء کے تحت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے لئے ہوئے اور ایک بار پھر ضلعے بالا درلے کے عبدالحمید خان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر پہلی بار اور مجموعی طور پر تیسری بار کامیاب ہوئے۔ گیارویں انتخابات 8 جون 2015ء کو ہوئے اور چھورت سے تعلق رکھنے والے رانا فرمان علی مسلم لیگ(ن)کے ٹکٹ پر کامیاب ہوکر صوبائی وزیر بنے۔بارویں انتخابات 15 نومبر 2020ء کو ہوئے اور تحریک انصاف کے خالد خورشید خان کامیاب ہوکر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان منتخب اور پھرجعلی ڈگری کیس میں 4 جولائی 2023ء کو نااہل ہوئے ، جس کے بعد یہ نشست خالی ہوئی ۔
سیاسی میراث!
ہم اگر مختصر جائزہ لیں تو 1970ء سے 1987ءتک استور حلقہ نمبر 1 کی اسمبلی یا بلدیاتی سیاست حاجی جان محمد مرحوم (عبدالحمید خان کے والد) اور جج محمد خورشید خان (خالد خورشید کے والد )کے کنٹرول میں رہی ہےاور1987ء میں سابق چیف جسٹس چیف کورٹ حاجی صاحب خان اور 2009ء میں رانا فرمان علی کی انٹری ہوئی۔ 1991ء میں ایک حادثاتی انٹری شاہد علی خان کی بھی رہی مگر وہ اپنے تسلسل برقرار نہ رکھ سکے ۔اب 9 ستمبر 2023ء کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی عملاً تینوں فریق میدان میں ہیں اور اگر نسل در نسل سیاسی میراث کی بات کی جائے تو تاحال یہ صرف حاجی جان محمد مرحوم اور جج خورشید خان (جب استور ضلع دیامر کا حصہ تھا تو جج محمد خورشید خان کے بڑے بھائی حاجی عنایت مرحوم استور کے واحد رہنماء ہیں ،جو ایک سے زائد بار ضلع دیامر ضلعی چئیرمین رہے )کے سیاسی ورثاء پر صادق آتی ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن نشین کی جائے کہ ہمارے پورے خطے یعنی بر صغیر میں سیاسی میراث کی اہمیت رہی ہے اور عوام کسی کا انتخاب خود کرتی ہے تو پھر سوال کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔
ماضی کا ذکر کیو ں ضروری ؟
ہمارا مقصد گلگت بلتستان اسمبلی کے حلقہ جی بی اے 13 استور 1 کے 9ستمبر 2023ء کے لئے میدان میں موجود اہم امیدواروں کا مختصر جائزہ پیش کرنا تھا ، مگر ں ماضی کے نمائندوں کا ذکر اس لئے ضروری ہوا کہ ایک طبقے نے ماضی کو عملاً گالی بنایا ہے اور ایسا ماحول بنایا ہے کہ ماضی کی سیاست جرم تھا اور وہ اس جرم میں بلا واسطہ یا بالواسطہ کسی طرح وہ شریک نہیں رہے ۔عوام کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ ماضی میں کون نمائندہ رہا اور حلقے میں سیاسی عمل دخل کس کس کا رہا ہے اور ماضی کو گالی دیکر حال میں متحرک ہونے والوں کو بھی علم ہو کہ وہ کس کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ماضی کی فہرست دیکھنے کے بعد یاداش تازہ اور علم میں اضافہ ہو اور یوں گالیوں یا ماضی کو کوسنے کی شدت اور بد گمانی میں کمی آئے اور یہ بھی کہ ہردور کے حساب سے سب کی کارکردگی پر بھی غور کرنا بھی آسان ہو۔
موجودہ امیدوار کیفیت !
(1)۔ رانا فرمان علی سابق صوبائی وزیر اور 2009ء میں اسمبلی کے انتخاب میں پہلی بار حصہ لیا ،مگر کامیاب نہ ہوسکے ، تیسری بار پھر مسلم لیگ (ن ) کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔ان کی خاص بات یہ رہی ہے کہ 2009ء اور 2020ء کا الیکشن ہارنے کے باوجود عوام میں رہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ 2015ء میں بڑے مارجن سے کامیاب ہوئے ، 2020ء میں اچھا مقابلہ کیا اور دوسری پوزیشن پر رہے اور اب بھی بہتر پوزیشن میں محسوس ہورہے ہیں ۔ 2020ء کی طرح 9 ستمبر 2023ء کے ضمنی انتخاب میں شفیع استاد (المعروف دادا سرکار)مشکلات پیدا کرسکتے ہیں، تاہم بظاہر ماحول رانا فرمان علی کے لئے کافی ساز گار نظر آرہا ہے ، لیکن ان کے لئے جمعیت علماء اسلام کے مولانا عنایت اللہ میر اور آزاد امیدوار عبدالقیوم مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں ۔ رانا فرمان علی سے کئی بار ملاقاتوں اور گفتگو کا موقع ملا ،جن میں کافی صاف گو ، جذباتی اور بے باک پایا اور یہ بھی کہ عوامی اجتماعی اور انفرادی ایشوز پر گہری نظر ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
مولانا اشرف علی تھانوی نے کانگریس کے بجائے پاکستان کا ساتھ کیوں دیا؟
سینیٹر عرفان صدیقی کا بل ایوان صدر میں کیسے غائب ہوا؟
شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
(2)۔ جج(ر) محمد خورشید خان (سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کے والد) 53 سال بعد دوسری بار قسمت آزمائی کر رہے ہیں ، پہلی بار 1970ء میں اسی حلقے سے رکن منتخب ہوئے اور پھر سرکاری ملازمت اختیار کی اور چند برس قبل بطور جج ریٹائرڈ ہوئے،تاہم حلقے کی سیاست پر انکی اچھی خاصی گرفت رہی ہے ،جج محمد خورشید خان اس حلقے کے پہلے ممبر رہے ہیں۔ ان کے بھائی حاجی عنایت مرحوم اور بھتیجے محمد صادق (چئیرمین عنایت مرحوم کے فرزند )کی سیاست میں بھی جج کا اہم کردار رہا ہے اور بعد میں اپنے بیٹے خالد خورشید خان کی 2009ء اور 2015ء میں مقابلے کی پوزیشن اور 2020ء کی جیت میں اہم کردار رہا ۔ جج (ر)محمدخورشید خان کے لئے یہ انتخاب کئی حوالوں سے چیلنج ہے۔ مثلاً بڑی محنت سے تیار کئے ہوئے سیاسی وارث خالد خورشید خان کی جعلی ڈگری کیس میں نا اہلی ، مقتدر اداروں کی ناراضگی ، بطور وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان کی حلقے پر عدم توجہی، مبینہ انتقامی کارروائیاں، خالد خورشید خان کا لب و لہجہ، انداز سیاست اور ہنگامی سیاسی سوچ، جج صاحب کے لئے شدید مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔
دیگر کئی اسباب بھی ہیں ، تاہم 2020ء کی طرح اس بار بھی مجلس وحدت مسلمین کی حمایت نہ صرف معاون ثابت ہوسکتی ہے ، بلکہ کامیابی میں اہم کردار ہوسکتاہے۔ سوشل میڈیا سے بدترین وبا کی حد تک متاثر نوجوان بھی کامیابی میں اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے بعض احباب خالد خورشید خان کو کافی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ، ہماری نظر میں موجودہ حالات میں تحریک انصاف گلگت بلتستان کے صدر خالد خورشید خان نے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے اور چارہ بھی نہیں تھا، کیونکہ تحریک انصاف جس بدترین سیاسی اور تنظیمی بحران اور خلفشار سے گرزرہی ہے ، اس میں انکے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔ ہماری جج (ر)خورشید خان سے کبھی ملاقات اور نہ کبھی رابطہ رہا ہے ، تاہم انکے سیاسی وارث خالد خورشید خان سے غائبانہ رابطہ رہا اور سیاسی معاملات میں’’بچپنہ‘‘، وقتی جلد بازی کے فیصلوں، وسیع سیاسی سوچ کا فقدان محسوس کیا اور اپنے قائد عمران خان کی طرح ساری توجہ الزام و بہتان اور وقتی نعروں اور ’’ہا ہو‘‘پر ہے اور مقامی مثبت روایتی قدروں سے ناواقف یا دانستہ روند رہے ہیں۔
(3)۔ عبدالحمید خان 42 سال سے حلقے کی سیاست کے اہم کردار ہیں ، ایک بار ان کے والد حاجی جان محمد مرحوم اور 3 بار خود کامیاب ہوئے ہیں اور ایک بار مشیر بھی رہے ۔ تیسری بار پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔عبدالحمید خان بزرگ سیاستدان اور سیاسی دائو پیچ سے خوب واقف ہیں، اثر رسوخ بھی اچھا ہے ، خاص بات یہ ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی سیاسی میدان میں کمزور نہ دکھائی دیتے ہیں اور آخری وقت تک اپنی حتمی سیاسی حکمت عملی کو مخفی رکھتے ہیں ، اس بار ڈاکٹر عباس اور وزیر عبادت علی کی حمایت معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہے ۔ عبدالحمید خان صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ چند بار ہی رہا ہے اور محسوس کیا کہ حلقے کے ایشوز اور سرگرمیوں پر گہری نظر ہے اور سیاسی تلخیوں یا نظریاتی اختلاف کے باوجود مقامی روایتی قدروں سے واقف ہیں۔
(4)۔ مولانا عنایت اللہ میر تیسری بار جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم قسمت آزمائی کر رہے ، مگر پہلے دوبار انکی شرکت جزوی تھی ، مگر ضمنی انتخاب میں کافی متحرک ہیں ۔ مولانا عنایت اللہ میر سے ہمارا 40 سالہ تعلق ہے ، ایک اچھے سنجیدہ اور صاحب علم ،بڑے قد کاٹ کے مذہبی اور سیاسی رہنماء ہیں۔کنٹرول لائن سے منسلک وادی گریز (قمری، منی مرگ، کلشئی )سے تعلق رکھتے ہیں۔ حلقے کے سیاسی معاملات میں خاندانی اور مالی عمل دخل ان جیسوں سیاسی کارکنوں کے لئے مشکلات کا سبب بنتا ہے۔ مولانا عنایت اللہ میر کی موجودگی مسلم لیگ (ن) کے رانا فرمان علی اور پیپلزپارٹی کے عبدالحمید خان کے لئے مشکلات ، جبکہ تحریک انصاف کے جج(ر)محمد خورشید خان کے لئے معاون مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔
(5)۔حاجی محمد شفیع استاد المعروف دادا سرکار آزاد امیدوار کی کامیابی تو کافی مشکل لگ رہی ، مگر 2020ء کی طرح امیدواروں کی ہار جیت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔وہ ایک بہترین معلم اور مصنف ہیں ،مگر سیاسی میدان شاید ان کے لئے عمر کے اس حصے میں آسان ثابت نہ ہو اور 2020ء کے انتخابات نے یہی ثابت کردیا ہے ۔ ہمیں 1991ء کے انتخابات میں میر ملک کے ملک بشیر کے انتخاب سے کافی حد تک مماثلت نظر آرہی ہے ، ویسے ہماری شفیع استاد سے ملاقات نہیں ہے ، مگر جس سے سنا خیر ہی سنا اور ان کی تصنیف کا مطالعہ برسوں پہلے کیا اور محبت ہوگئی ۔ہماری خواہش تھی کہ شفیع استاد تصنیف و تالیف پر توجہ دیتے تو اس قوم اور نئی نسل پر احسان ہوتا، اللہ تعالیٰ نے ان کو بہترین صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔
(6)۔ عبدالقیوم ، آزاد امیدوار ہیں تاہم ’’شونٹر اتحاد‘‘ کے نام سے انکے ساتھی سرگرم ہیں ۔ عبدالقیوم کا تعلق چھوگام سے ہے اور اس علاقے میں ماضی میں مسلم لیگ(ن)کے رانا فرما ن علی کا مضبوط ووٹ بینک رہا ہے ، امکان یہی ہے کہ آخری مرحلے تک عبدالقیوم کے میدان میں رہنے سے ن لیگ کو نقصان ہوگا۔
(7)۔ انجینئر مطیع الرحمان آزاد امیدوار ہیں ، یہ سابق چیف جج چیف کورٹ اور سابق اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی حاجی صاحب خان کے فرزند ہیں ، انکی مستقل موجودگی رانا فرمان علی ، جج خورشید خان اور عبدالحمید خان کو تینوں کا نقصان اور فائدہ برابر ہی لگ رہا، تاہم یہ اطلاعات بھی مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی حاجی صاحب خان سے ن لیگ میں گروپ سمیت شمولیت پر بات چیت کر رہی ہے اور یہ گفتگو کامیاب ہوتی ہے تو اس کا اچھا خاصا فائدہ ن لیگ کے رانا فرمان علی کو ہوگا۔
(8)۔ اویس محبوب آزاد امیدوار، تحریک انصاف کی ٹکٹ کے امیدوار تھے اور ماضی میں متحرک بھی رہے ، مگر ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار کے طور پر میدان ہیں، انکا تعلق رٹو سے ہے۔
(9)۔ محترمہ شاہیدہ ، یہ تحریک انصاف کے امیدوار جج (ر) خورشید خان کی اہلیہ اور تحریک انصاف گلگت بلتستان کے صدر سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان کی والدہ ہیں اور اپنے شوہر کی کورننگ کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔ ہماری دانست میں پہلی بار اس حلقے سے کسی خاتون نے براہ راست انتخاب میں حصہ لیا ہے اور یہ بھی اتفاق ہے کہ جعلی ڈگری کیس میں بیٹے کی نااہلی کے بعد دونوں میاں بیوی نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ۔ اگرچہ کچھ لوگ اس کو مایوب قرار دے رہے ہیں ، مگر سیاسی حالات کے حساب سے یہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔
(10)۔ دیگر 5 امیدوار حفیظ الرحمان ، عطاء اللہ ، غلام اکبر، ڈاکٹر غلام عباس اور محمد ندیم کے نام بھی امیدواروں کی فہرست میں ہیں ، ان میں سے چند متبادل امیدوار یا صرف خانہ پوری کے لئے ہیں ۔
ممکنہ نتائج !
جیت کس کے نام ہوگی ، اس کا فیصلہ تو 9 ستمبر 2023ء کو ووٹرز پرچی کے ذریعے کریں گے ، تاہم حلقے کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اطلاعات اور سرگرمیوں کو مدنظر رکھیں بالترتیب مسلم لیگ (ن) کے رانا فرمان علی ، تحریک انصاف کے جج (ر)خورشید خان اور پیپلزپارٹی کے عبدالحمید خان کے درمیان میں ہی اصل مقابلہ ہے اور حالات یہی رہے تو ووٹ کاسٹنگ 50 شرح فیصد سے زائد رہے گی اور ہار جیت میں زیادہ فرق نہیں رہے گا، تاہم پولنگ سے پہلے کو ئی تبدیلی آتی ہے تو اس کا انحصار حالات پر ہی ہوگا، مقابلہ مذکورہ تین امیدواروں کے درمیان ہی رہے گا۔
آخری دو گزارشات !
(1) یہ ایک المیہ ہے کہ انتخابات کے دوران قرآن پاک پر حلف اٹھانے یا حلف لینے ، رقم کے عوض لوگوں کے ووٹ کو خرید یا بیچنے نے اور طلاق کے پتھر پھینکنے کا سلسلہ ہمیشہ دیکھا ، ہمیشہ کوشش یہی رہی ہے کہ اس کی سخت نفی ہو۔ حلف والا معاملہ تو قہر خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ طلاق اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی اور عاقبت کی بربادی اور بعض اوقات تنازعات کا باعث بھی بن جاتا ہے ۔ ایسا کرنے والوں کی نفی کرنا ہم سب کا فرض ہے۔
(2) سیاسی ،مذہبی اور سماجی کارکنوں سے درخواست ہے کہ الیکشن کو ذاتی ، سیاسی ، مذہبی ، علاقائی ، قبائلی یا کسی اور تعصبات کی نذر نہ کریں ۔ سیاسی و مذہبی اختلافات یا اختلاف رائے اپنی جگہ مگر اس کو نزع کا باعث نہ بنائیں اور انتخابات میں حصہ لینا یا کسی کی جائز حمایت و مخالفت سب کا شرعی ، انسانی ، اخلاقی ، آئینی اور قانونی حق ہے ، اس لئے لعنت ، غداری، کفر، چور ، الزامات ، بہتان بازی اور دیگر حربوں سے گریز کرتے ہوئے دلیل ، کار کردگی اور منشور کی بنیاد پر ووٹرز کو قائل کریں ۔ بدترین اختلاف یا اختلاف رائے رکھتے ہوئے بھی عزت و احترام سے اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں ۔ سوشل میڈیا میں طوفان بدتمیزی سے گریز کریں۔ اس وقت گلگت بلتستان کے جو مقامی ، قومی اور عالمی حالات ہیں ، ان میں ہم کسی بڑے اختلاف یا تنازع کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح امیدوار صاحبان بھی اپنے آپ بالخصوص اپنی زبان کو قابو میں رکھیں ۔
تصاویر اور کچھ مواد : بشکریہ دستاویز ’’گلگت بلتستان کا مختصر سیاسی ارتقاء (1970ء-2020ء)‘‘، گلگت بلتستان اسمبلی سیکریٹریٹ جوٹیال گلگت