فلم کا ڈائیلاگ تھا سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑہ بنادیتا ہے۔ ویسے تو مملکت خداداد پاکستان میں بے شمار وجوہات ہیں جو ہمیں ایسی کیفیت سے دوچار نہیں بلکہ اس میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ انسان اور خاص طور پر مسلمان محض اس بات پر فخر کرتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات میں بڑا اشرف مطلب بلند رتبے پر ٹھہرایا گیا ہے لیکن انسان نے اپنی حرکات پر کبھی غور نہیں کیا کبھی چوہے تو کبھی گیدڑ جیسے افعال اپناتا ہے جب دل میں آتا ہے خود کو شیر سے مشابہت پر اتر آتا ہے۔ بھول جاتا ہے میں اشرف ہوں جانور نہیں کم ازکم انسان ہوں۔
بھوک اور پیاس سمیت کسی ضرورت کی تلاش اور حصول کی خاطر سب جائز اور غیر مروجہ طریقے تک اختیار کرلیتا ہے۔ ایک جذبہ بزدلی بہت خوب پایا گیا۔ دعوے بہادری اور دلیری کے بہت کرتا ہے مگر زندگی۔ عزت وذلت اور رزق چھن جانے کا خوف اسے کمزور اور بزدل بنادیتا ہے۔ یہ تین چیزیں اتنی عزیز اور مقدم قرار پائیں کہ حضرت انسان اکثر اپنے حق سے، سچ بولنے سے، کسی کا ساتھ دینے سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ سب بھول جاتا ہے۔ مصلحت اور مفاہمت جیسے طریقے خوب سیکھ لیتا ہے انہیں کی شاگردی میں اپنی زندگی کی راہیں استوار کرتا رہتا ہے۔ اپنے ساتھ کسی قسم کی ناانصافی۔ جبر زیادتی اور ایسے کوئی بھی سلوک وہ زیادہ محسوس ہی نہیں کرتا۔وہ ایک برداشت صبر اور شکر کی حالت اپنے اوپر طاری کرکے بلی کے سامنے کبوتر کی مانند خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
گلگت بلتستان کا ضمنی انتخاب کون جیتے گا کون ہارے گا؟
کہروڑ پکا کی نیلماں، پاکستانی معاشرت و سیاست ہوش ربا کہانی
مولانا اشرف علی تھانوی نے کانگریس کے بجائے پاکستان کا ساتھ کیوں دیا؟
بھوک لگنے پر بچے کو رونا اور شور مچانا کبھی نہیں بھولتا یہ قدرت نے اس کی فطرت میں ڈال دیا ہے۔ مگر زندگی میں آنے والے وقتوں میں وہ نہ جانے اس قدر مصلحت پسند کیوں ہوجاتا ہے حالانکہ یہ بھی اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں بولنا ہوتا ہے وہاں زبان بندی کرلیتا ہے اسے اپنی ضرورتوں اور زندگی کا بہت خیال ہوتا ہے۔ اختیار والے اور بے اختیار سب خوف میں گھرے ایک انجان سفر کے راہی بنے کسی محفوظ اور مضبوط منزل کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ خواہشوں کے بوجھ تلے دبے اس ڈر اور خوف کی شاہراہ پر چلتے چلتے محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ہم بہت کامیاب اور کامران جارہے ہیں۔ کبھی آواز بلند کرنے کی حقیقت ان تک پہنچ ہی نہیں پاتی وہ محض اونچی موسیقی اور ترانے سننے کے عادی ہوتے ہیں اپنے ساتھ کسی زیادتی پر بولنے کی عادت نہیں سیکھی وہ اسے فضول غیر ضروری اور غیر حقیقی چلن تصور کرتے ہیں جس کا صرف نقصان ہی ہوتا ہے فائدہ کچھ بھی نہیں۔ جمع تفریق کی یہ سائنس وہ بغیر پڑھے سیکھ لیتا ہے۔ اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کے ڈھیر کو ایک گٹھڑی کی صورت سر پر اٹھائے اپنی قبر کے پہلو تک پہنچ جاتا ہے۔
اس سفر کا مقصد کیا تھا کیا کچھ کرتا رہا کبھی اپنے اردگرد ہونے والی غلطیوں اور زیادتیوں پر نگاہ ڈالی۔ ان پر لب کشائی کی کسی سے ذکر کیا کسی کے ساتھ مل کر آواز اٹھائی۔ ایسی باتوں سے اپنی جان بچاتے اور کنارہ کرتے زندگی کے شب وروز گزارنے والے بظاہر بڑے مطمئن اور کامیاب سمجھے جاتے ہیں مگر وہ شاید مچھر بھی نہیں مارتے اور ان ہیجڑوں سے بھی زیادہ کم ہمت ہوتے ہیں کہ اس سب کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں۔
زندگی کسی طور اس مصلحت پسندی اور محتاط روی کا نام نہیں موت ذلت اور رزق سب اپنے وقت پر مل جاتے ہیں ہماری کسی حرکت سے یہ ملنا یا چھننا لکھا نہیں۔ ایک دوسرے کو سننا ساتھ دینا اور مل کر ظلم اور ناانصافی کے خلاف اپنے حق کیلئے آواز اٹھانا ہمارا فرض ہے۔ ہم مچھر گیدڑ چوہے یا شیر کی مثال بننے کے بجائے انسان بنیں اور وہی کچھ کریں جسے اس کے کرنے کا حکم دیا گیا یے۔