امریکامیں افراط زر گذشتہ 40 سال میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا جو7.9 فیصد ہے جو ریگن دورکےبعد سب سےزیادہ ہے۔ ریگن کےدورمیں امریکاکے بے تحاشہ فوجی اخراجات اورسوویت یونین سے مہلک اسلحےکی دوڑ نے امریکن معیشت کوبری طرح متاثرکیاتھالیکن سرد جنگ کی اس دورمیں امریکایوں فاتح ہواکہ سوویت یونین کا شیرازہ ہی بکھرگیااورامریکادنیاکی واحد سپرپاوربن کرابھرا۔ ریگن کے بعد یہ دوسراموقع ہےکہ امریکی معیشت کوبدترین افراط زرکاسامناکرناپڑرہاہےلیکن اطمینان بخش بات یہ ہےکہ افراط زر کی شرح نے ڈبل ہندسے کی ریڈ لائن کراس نہیں کی جیساکہ پاکستان کا ان افیشل افراط زر عموما دس فیصد سےزائد رہتاہے۔
یہ بھی دیکھئے:
لیبرڈپارٹمنٹ نےاعتراف کیاہےکہ انرجی کی قیمتوں میں 26 فیصد اضافہ ہواہے۔ اس میں پٹرول، ڈیزل گھروں کوگرم رکھنے والاہیٹنگ سسٹم بھی شامل ہے۔ امریکامیں کم از کم آٹھ ماہ گھروں کوسینٹرل ہیٹنگ سسٹم کےزریعے گرم رکھاجاتاہےکیونکہ اس کے بغیرہڈیوں میں گُودا جمادینے والی سردی کامقابلہ ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
گیارہ مارچ: آج نامور نقاد اور افسانہ نگار ممتاز شیریں کی برسی ہے
روس یوکرین جنگ: سکے کا دوسرا رخ
امریکاوہ واحد ملک تھاجہاں ایک گیلن پٹرول ایک گیلن پانی سے سستاتھا، واضح رہےکہ امریکامیں پٹرول گیلن کےحساب سے ملتاہے لیٹر کے حساب سے نہیں ۔ اسی طرح گروسری پرائس میں 6 فیصد اور کپڑوں کی قیمت میں 7 فیصد تک اضافہ ہواہے۔
امریکامیں افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ کی پیشین گوئی اقتصادی ماہرین نے اس وقت ہی کردی تھی جب کووڈ وباپھوٹ پڑنے سے لاک ڈاؤن کردیاگیاتھا اور فی کس چارہزار ڈالر ماہانہ مالی مدد دینے کااعلان کیاگیا۔ ڈیموکریٹ کی جانب سے منظور کردہ بل پر ری پبلکن نے یہ کہہ کر تنقید کی تھی کہ معیشت کی پیداوارمیں اضافے کےبغیر ڈالر کے پھیلاؤ سے افراط زر بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں مہنگائی بھی۔
اندازہ تھاکہ امریکاجودنیاکی سب سے طاقتور اکنامی اورسب سے بڑی مارکٹ ہے ، نئے چیلنج پرقابوپالے گالیکن جو بائیڈن کےلئے مہنگائی کا امتحان سخت چیلنج بن رہاہے جس سے ٹرمپ کے واپس آنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
خوش آئیند امر یہ ہےکہ ڈالر کی طاقت قائم ہے اور کم از کم اجرت 15 ڈالر فی گھنٹہ ہونے کے باعث پھر بھی عام امریکن اچھا لائف سٹائل برقرار رکھ سکتا ہے۔