شطرنج کی بساط پر 64 خانے اور دونوں طرف 16، 16 مہرے ہوتے ہیں۔ 8 پیادے، 2 رخ، 2 گھوڑے، 2 فیل، ایک وزیر اور ایک بادشاہ، پندرہ مہروں کا کام صرف اور صرف بادشاہ کو بچانا ہوتا ہے۔ بساط پر ہر چال صرف شہ مات کیلئے چلی جاتی ہے۔ بسا اوقات ہلکی چال بھی شہ مات کو باعث بن جاتی ہے۔
اس وقت عالمی بساط پر بھی ایک بڑی بازی جاری ہے۔ روس یوکرین پیش منظر پر مگر اصل کھلاڑی پس منظر میں ہیں۔ یہ جنگ دو ملکوں کی نہیں بلکہ دو نظریات، مفادات کی جنگ ہے۔ مغرب کی نمائندگی روس اور مشرق کی چین کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس یوکرین جنگ کا اصل نشانہ چین ہے۔ چین کی تیزی سے بڑھتی معاشی ترقی اور عالمی اثرات کے باعث مغرب پیچیدہ چالوں سے چین کو شہ مات دینا چاہتا ہے۔ یوکرین میں نیٹو فوجی اڈوں کا قیام، شطرنج کی بساط پر ایسی چال ہے جس میں آپکو پتہ ہوتا ہے کہ مقابل جواب کیا دیگا۔
یہ بھی دیکھئے:
دنیا پر مغرب کی بالادستی کی عمارت سرمایہ داری نظام پر کھڑی ہے۔ اب ایک کمیونسٹ معیشت کیپٹلزم کو شکست دے رہی ہے۔ چین جس تیزی کیساتھ عالمی تجارت پر قبضہ جما رہا ہے، ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے دنیا کو جوڑ رہا ہے، امریکہ اور یورپ کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ عالمی بالادستی کا خاتمہ بہت قریب نہ سہی مگر اتنی دور بھی نہیں ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا بیانیہ مغرب طے کرتا ہے۔ سو مغربی میڈیا منہ بھر بھر کے روس کو سفاک ظالم اور یوکرین کو مظلوم مسکین بتا رہا ہے۔ ہمارا میڈیا بھی اسی ڈگر پر ہے۔ حقیقت جانے بغیر بڑے بڑے بقراط ٹاک شوز میں مغربی میڈیا سے دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں۔ عالمی امور و عسکری ماہرین، سیاسی تجزیہ کار مغربی بیانیئے میں رنگ و نور بکھیر کر جھوٹے بیانیے کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔
ذرا سکے کے دوسرے رخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ روس جیسے بڑے ملک سے جڑی چھوٹی ریاست یوکرین مشرقی یورپ کا حصہ ہے۔ اس سے پہلے یوکرین میں روس نواز حکومتیں رہی ہیں۔ ولادیمیر زیلنسکی ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں۔ پروفیشنل اداکار جو ایک ڈرامے میں انقلابی کردار کے ذریعے مقبول ہوئے اور بھاری اکثریت سے صدر بنے۔ یورپ اور امریکہ پہلے بھی روس سے جڑی ریاستوں کو سیکورٹی رسک بنانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ زیلنسکی آسان نشانہ تھے سو یوکرین کو یورپی یونین میں شمولیت، بھاری امداد کا لالچ دیکر نیٹو فوجی اڈوں کے قیام کی اجازت دینے پر قائل کر لیا۔
یہ بھی پڑھئے:
تحریک عدم اعتماد اور حامد میر بحالی ساتھ ساتھ کیوں؟
صدر رفیق تارڑ، کھرے ، کھردرے پن کی حد تک
روس انسانیت کا احترام کرے، جنگ بند کردے؟
امریکہ اور یورپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ روس کبھی یہ برداشت نہیں کریگا کہ اس کے دروازے پر نیٹو فوجی اڈے قائم کیے جائیں اور فوری رد عمل دیگا، جو یقینی طور پر جنگ کی صورت میں ہو گا۔ مغرب نے یہ قدم ایک ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت اٹھایا ہے، مغرب اس قدم کے نتائج سے بھی بخوبی واقف تھا، یہی رد عمل متوقع تھا، نقصان روس اور یوکرین کا ہونا ہے یا پھر عالمی معیشت کا، ایک سوچی سمجھے منصوبے کے تحت اب روس کو نہ صرف عالمی مجرم ٹہرایا جا رہا ہے بلکہ کڑی اقتصادی ناکہ بندی بھی ہو گی۔
جنگ کی حمایت یقینا نہیں کی جا سکتی خواہ امریکہ کی ہو یا روس کی، مگر اصول ایک ہونا چاہیئے۔ جانے کیوں امریکہ افغانستان یا عراق میں جنگ کرے تو مغربی میڈیا اسے انسان دوست، عالمی امن کی ضمانت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ روس سمیت کوئی اور ملک کرے تو انسان دشمن، عالمی امن کو خراب کرنے کی سازش قرار دیا جاتا ہے۔
روس یوکرین کے حوالے سے انٹرویو دیتے ہوئے معروف دانشور جوم چومسکی کا تجزیہ قابل غور ہے، کہتے ہیں ’’امریکہ نے روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔ یوکرین نے پارلیمانی قرارداد کے ذریعے نیٹو اتحادی بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس صورتحال میں روس کا قائد کوئی بھی ہو، کبھی برداشت نہیں کر سکتا کہ یوکرین کسی بھی دشمن فوجی اتحاد (نیٹو) کا حصہ بنے۔ ایک لمحے کو سوچیں اگر میکسیکو یا کینیڈا روسی فوجی اتحاد کا حصہ بننے پر آمادہ ہوں تو امریکہ کیا کریگا؟‘‘۔ صرف نوم چومسکی کی بات نہیں، ذرا عالمی میڈیا یا گوگل چھان لیں، مغرب کے بڑے بڑے ماہرین جنگ کا ذمہ دار امریکہ کو ٹہرا رہے ہیں۔
چلیں ذرا تاریخ کا بھی جائزہ لے لیں، اس طرح کی صورتحال میں امریکہ کب کب، کیا کچھ کر چکا ہے۔ 1962 میں جب کیوبا نے رشین میزائل لانچ کیے، تو امریکہ کا رد عمل اتنا خوفناک تھا کہ دنیا دو ہفتے ایٹمی جنگ کے خدشے سے دوچار رہی۔ وجہ یہ تھی کہ کیوبا اور فلوریڈا کے بیچ صرف سمندر ہے، تاریخ میں اسے کیوبن میزائل کرائسس کے نام سے جانا جاتا ہے۔
صدر ریگن کے دور میں گرینیڈا میں کمیونزم کا خدشہ تھا لہذا امریکہ نے گرینیڈا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ گرینیڈا وسطی امریکہ کا چھوٹا سا ملک ہے۔ یوکرین سے کہیں زیادہ چھوٹا، چلی میں مارکسسٹ حکومت بنی تو سلواڈور آلندے کا تختہ الٹ کر امریکہ نے فوجی آمر جنرل پنوشے کو صدر بنوا دیا۔ آج بھی وسطی امریکہ جو سپر پاور سے جڑا خطہ ہے، کوئی حکومت امریکہ مخالف نطریات کیساتھ ممکن نہیں ہے، تو یہی فارمولا وسطی ایشیائی اور مشرقی یورپ میں بھی لاگو ہوتا ہے۔
روس سے جڑے علاقوں میں کوئی ملک مخالف یا دشمن نظریات کیساتھ نہیں چل سکتا۔ یوکرین کے علاوہ مشرقی یورپ میں پولینڈ، ہنگری، چیکوسلواکیہ، بلغاریہ، رومانیہ جیسے ممالک ہیں، سرد جنگ دور میں یہ خطہ ہمیشہ روس کے زیر اثر رہا ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو روس اپنا دفاع کر رہا ہے۔ یوکرین میں نیٹو کے فوجی اڈے بسانے کے شاطرانہ چال کا جواب طاقت کا استعمال ہی بنتا ہے۔ یہ بھی بہرحال طے ہے کہ اس جنگ میں یورپ یا امریکہ نہیں کودے گا۔ مغرب دوسری جنگ عظیم کے بعد طے کر چکا ہے کہ اس خطے میں جنگ نہیں کی جائیگی۔ یہی وجہ ہے کہ پراکسی وار کا نشانہ ایشیا ہے۔ ایران، عراق، شام، افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
مغرب دنیا میں چین کے بڑھتے اثرات سے پریشان ہے۔ اتنا پریشان کہ یورپ اور امریکی منڈیاں بھی اب چین کے قبضے میں ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ مغرب کیلئے ایک بھیانک خواب ہے۔ ابتدائی طور پر چین کا علاقائی اور بالاخر عالمی اتحاد ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ کمیونسٹ معیشت کیپٹلزم کو نگلنے پر تیار ہے۔
مغرب روس کو کو نشانہ بنا کر چین کو خطرے کا پیغام دینا چاہتا ہے۔ روس کو دنیا سے کاٹ کر چین کو خبردار کرنا چاہتا ہے۔ چین کےعلاقائی اتحاد کا خواب چکناچور کرنا چاہتا ہے۔ مغربی میڈیا اپنے مفادات پر مبنی بیانیہ دکھا رہا ہے مگر ہمارا میڈیا ایسا کیوں کر رہا ہے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ہمارا میڈیا تصویر کا حقیقی رخ کیوں پیش نہیں کر رہا جبکہ اسکے مفادات مغرب کیساتھ نہیں بلکہ خطے کیساتھ جڑے ہیں۔
نصر غزالی نے کیا خوب کہا ہے
اسی کے سارے پیادے، اسی کے شاہ و وزیر
بساط زیست پہ شہرہ اسی کی چال کا ہے